آج کے دور میں حج کا سب سے اہم فائدہ امت سازی ہے یعنی ایک امت کی تشکیل۔ اللہ کے نظام امامت کو روئے زمین پر نافذ کرنے کے لیے ایک امت کی تشکیل کا سب سے بہترین موقع حج ہے۔
حج ہدایت اور تقویٰ کے حصول کا بہترین موقع/ حج کارواش نہیں ورکشاپ ہے

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ ۶ جون 2025
خطبہ 1: حج ہدایت اور تقویٰ کے حصول کا بہترین موقع
خطبہ 2: حج کارواش نہیں ورکشاپ ہے
اللہ نے انسان کو زندگی عطا فرمائی اور زندگی کا مقصد بھی معین فرمایا، اس مقصد تک پہنچنے کے لیے راستہ مقرر کیا ہے اس راستہ کو طے کرنے کے لیے ایک منشور اور آئین بنایا جس کا عنوان دین رکھا ہے اور ایک حفاظتی تدبیر بنائی جس کا نام تقویٰ ہے۔
حج ہدایت اور تقویٰ کے حصول کا بہترین موقع
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت اور تقویٰ کے حصول کے بہت سے مواقع عطا کیے ہیں۔ ان مواقع میں سے کچھ مواقع اعمال کی صورت میں ہیں اور کچھ اوقات کی صورت میں ہیں۔ یہ مواقع معمول کی زندگی سے ہٹ کر ہیں۔ معمول کی زندگی کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جس میں انسان نے روزانہ اپنی ہدایت اور تقویٰ کے حصول کا اہتمام کرنا ہے لیکن اللہ نے کچھ مخصوص مواقع اور ادوار بھی رکھے ہیں جو معمول کی زندگی سے باہر ہیں جن میں انسان ہدایت کا مقصد آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کے لیے ایسا ہی ایک موقع حج ہے جس میں ہدایت کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا حصول بھی آسان بن جاتا ہے۔ سورہ حج کی آیت نمبر ۲۶،۲۷،۲۸ میں اللہ تعالیٰ حج کی حقیقت، تاریخ اور اس کا اعلیٰ مقصد پیش کرتا ہے۔
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿۲۶﴾
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿۲۷﴾
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ﴿۲۸﴾
اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم علیھ السّلام کے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنا دو
اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں گے
تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ۔
حج کے فقہی اور معنوی پہلو کے علاوہ قرآنی پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت
ہم سب حج سے کم و بیش واقف ہیں کچھ حج کے فقہی احکام سے اور کچھ اس کے علاوہ حج کے مقاصد اور اسرار سے بھی واقف ہیں۔ لاکھوں لوگ سالانہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مکہ مشرف ہوتے ہیں۔ حج کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام و منزلت عطا کی ہے وہ فقہی مناسک حج میں منعکس نہیں ہوتی۔ قرآنی حج مکمل طور پر فقہی حج میں متجلی نہیں ہوتا۔ فقہا فقہ کے اندر حج کا صرف ایک پہلو بیان کرتے ہیں چونکہ بقیہ پہلو فقہ کے دائرہ کار میں نہیں آتے اس لیے اس میں بیان بھی نہیں کئے جاتے۔ لیکن کچھ علما نے حج کے مقاصد اور اسرار و رموز بھی بیان کئے ہیں۔ ان میں نمایاں طور پر حضرت آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی کی شخصیت ہے جنہوں نے اسرار حج کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حج کے اسرار و رمور پر عربی فارسی میں فراوان کتابیں موجود ہیں۔ علمائے فقہ نے حج کے فقہی پہلوں بیان کیے ہیں اور علمائے معرفت نے حج کے معنوی پہلووں کو اجاگر کیا ہے لیکن جو پہلو قرآن نے بیان کیا ہے وہ نہ علمائے فقہ نے بیان کیا اور نہ علمائے معرفت نے ۔ اور وہ پہلو مکمل طور پر نظرانداز ہوا ہے اور نہ صرف حج کا بلکہ دیگر عبادات کا بھی یہ پہلو تشریح طلب ہے۔
عبادات کے دنیوی فوائد کو بیان کرنے کی ضرورت
عبادت کا مقصد صرف روحانی پہلو یا اخروی فائدہ نہیں، بلکہ یہ عبادت دنیا کے لیے بھی نفع بخش ہے اور انسان کو اسی دنیا میں عبادت کا مقصد حاصل کرنا ہے۔ عبادت کا یہ پہلو بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور قرآن نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ عبادت کا مقصد اور خاص طور پر حج کا مقصد دنیوی مقصد بھی ہے۔ حج دیگر عبادات کے مقابلے میں ایک منفرد عبادت ہے۔ مومنوں کے لیے عبادت کا مقصد زیادہ تر روحانی مقصد ہوتا ہے جس کے تحت لوگ زیادہ تر اطاعت کی خاطر عبادت کرتے ہیں۔ یہ صحیح نظریہ ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہمیں مقصد معلوم ہے یا نہیں ہمیں واجبات کو ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اللہ نے ان عبادات کے پیچھے مقاصد بھی رکھے ہیں۔ یہ مقاصد اللہ کے لیے نہیں ہیں کیونکہ اللہ کے پاس تو سب کچھ ہے۔ عبادت کا مقصد انسان کی بھلائی ہے کیونکہ انسان نیازمند، محتاج اور بہت سی چیزوں سے محروم ہے۔
عبادت کا عمومی مقصد صرف ان کا روحانی اور معنوی پہلو سمجھا جاتا ہے اور اس کے تمام فوائد آخرت میں حاصل ہونے کی امید رکھی جاتی ہے۔ قرآن اس کے برعکس کہتا ہے قرآن کے مطابق عبادت کا پہلا فائدہ اور مقصد دنیاوی زندگی میں ہے۔ عبادتوں کے ذریعے دنیوی زندگی کو منظم کرنا ہے۔ معنوی اور اخروی فوائد میں تو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے لیکن عبادتیں اخروی مقصد میں منحصر نہیں ہیں۔ ان کا ایک بڑا مقصد اسی موجودہ زندگی میں ہے جو صرف عبادتوں سے ہی حاصل کرنا ہے۔ اس پہلو کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ عبادتوں خاص طور پر حج کے دنیاوی فوائد بھی ہیں۔
حج کے مقاصد
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کہ اے ابراہیم لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو حضرت ابراہیم معمار کعبہ ہیں کعبہ کی تعمیر کے بعد اللہ کا حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم نے دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی تو ہے نہیں کس کو حج کے لیے پکاروں؟ کعبہ کے اردگرد بلکہ دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اعلان کرو اور لوگ پیدل اور کمزور اور لاغر سواریوں سے دور دراز کے علاقوں سے تمہاری طرف چل کر آئیں گے۔ یہ لوگ یہاں آ کر کیا کریں گے؟ پہلا مقصد ِليَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وہ آئیں اور اپنی آنکھوں سے اپنے فوائد کا مشاہدہ کریں، دوسرا مقصد َويَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ۔ معین دنوں یعنی پانچ دنوں میں اللہ کے نام کو یاد کریں۔ تیسرا فائدہ اللہ کے نام سے یہاں جانور ذبح کریں جو خود بھی کھائیں اور غریبوں کو بھی کھلائیں۔ پھر بیت عتیق کا طواف کریں۔
حج میں دنیوی منفعت کا مشاہدہ کریں نہ اخروی
یہ جو پہلا مقصد بیان کیا ليَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ کہ اپنی منفعت دیکھیں اس سے مراد کوئی اخروی منفعت نہیں ہے یہ دنیوی منفعت ہے کیونکہ لفظ "منفعت” کا مطلب ہے کسی چیز کے مقابلے میں زیادہ فائدہ حاصل کرنا۔ یعنی اصل سرمایہ آپ نے لگایا وہ اس کا واپس ہونا منفعت نہیں کہلاتا بلکہ اس سے زیادہ جو فائدہ آپ کو حاصل ہو گا وہ منفعت ہے۔ عبادتوں کے اندر اس پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے بلکہ یہ تاثر دیا گیا ہے کہ عبادتوں میں دنیوی منفعت تلاش نہ کریں بلکہ عبادتوں کا مقصد صرف اخروی فائدہ اور ثواب ہے۔ دنیا میں ان سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ حالانکہ قرآن یہ چیز بیان نہیں کرتا۔ یہ لفظ "منفعت” قرآن مجید میں متعدد مواقع پر استعمال ہوا ہے وہ بھی بہت خوبصورت انداز میں استعمال ہوا ہے۔ ایک موقع پر اللہ تعالیٰ مشرکوں اور لوگوں کو گمراہ کرنے والوں سے کہتا ہے کہ تم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ایسا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک دلیل جو قرآن باطل راستوں کے لیے پیش کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ان راستوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے دنیاوی فائدے آخرت کے لیے قربان کرنے کو نہیں کہا ہے، بلکہ پہلے عبادت سے مادی فائدے حاصل کرنے کو کہا ہے، پھر روحانی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ اگر دنیا میں ہمیں نماز سے کوئی فائدہ نہیں ملتا تو یقین رکھو کہ آخرت میں بھی کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ وہ دعا جو ہم روزانہ نماز کے بعد پڑھتے ہیں اس میں ہم اس دعا، عبادت اور علم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ علما کے ذہن اکثر معنویت سے متاثر ہیں حالانکہ خود ان کی زندگی میں معنویت کا فقدان ہے کیونکہ وہ اس دنیا میں مادیت کے حصول کے پیچھے ہیں۔ وہ روحانی اور معنوی لیکچر دیتے ہیں لیکن آخر میں مادی فیس کی توقع رکھتے ہیں۔ سامعین ثواب سے مطمئن ہیں لیکن علما صرف ثواب حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ انہیں فیس بھی چاہیے ہے۔ اس دعا میں اہل علم بھی علم کے فوائد کو معنوی سمت لے جاتے ہیں جبکہ لفظ "منفعت” صرف وہاں پر معنوی فائدے کے معنیٰ میں ہے جہاں اس معنیٰ کے قرائن موجود ہوں۔ ورنہ اس لفظ کے اصلی معنی دنیوی فائدے کے ہیں۔ نماز کا سب سے اعلیٰ مقصد دنیا کے لیے ہے۔ قرآن ہمیں نماز سے مدد لینے کا حکم دیتا ہے۔ یعنی نماز سے مدد حاصل کر کے اپنی دنیوی مشکلات آسان کریں۔
حج میں کن لوگوں کو منافع ہوتا ہے؟
علما تمام عبادتوں کا مقصد صرف معنوی فائدہ قرار دیتے ہیں جس کا ادراک عام انسان نہیں کر سکتا۔ اور لوگ صرف علماء اور روایات پر بھروسہ کرتے ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ اس میں معنوی فائدہ ہے تو ہوگا۔ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ وہی ہے جس کو تم مشاہدہ کر سکو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خود حج کے فوائد کا مشاہدہ کریں نہ کہ حضرت ابراہیم (ع) یا علماء ان کو آخروی فوائد سے آگاہ کریں۔ حج کا فائدہ ہر حاجی دیکھ سکتا ہے اور اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ آج کے دور کا جو حج ہے یہ پرمنفعت حج ہے اس کے بہت فوائد ہیں لیکن مسلمانوں اور حاجیوں کے لیے نہیں۔ مختلف قسم کی مصنوعات پیش کرنے کے لیے مختلف مقامات پر مختلف نمائشیں ہوتی ہیں۔ ان بازاروں میں سب سے زیادہ فائدہ مند بازار حج ہے جہاں عالمی مصنوعات حج کے لیے آتی ہیں اور لوگ خریدتے ہیں۔ لیکن فائدہ چین، ٹرانسپورٹ کمپنیوں، ایئر لائنز وغیرہ کے لیے ہے۔ مقصد یہ تھا کہ حجاج کرام فوائد کا مشاہدہ کریں، لیکن اس کے بجائے وہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ دوسرے لوگ بلکہ غیر مسلم لوگ اس سے فائدہ حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ ابراہیمی حج نہیں ہے۔
منفعت سے مراد دنیوی منفعت یا اخروی؟
آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہہ رہی ہے کہ وہ دور دراز علاقوں سے لوگوں کو بلائیں اور یہ لوگ حج کے فائدے کو دیکھیں نہ کہ چین، ہوٹلوں کے مالک اور کھانے پینے کی کمپنیاں حج کے فائدے کا مشاہدہ کریں یا دنیا جہان کے سرمایہ دار اپنے فوائد آ کر مکہ میں دیکھیں۔ یہ حج کا ایک بڑا مقصد ہے۔ معنوی فوائد مسلم ہیں ان میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے لیکن معنوی فوائد سے پہلے حج میں عازمین حج کے لیے دنیاوی فائدے کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔ حج کا یہی پہلو اس کی عظمت کے لیے کافی ہے۔ جو معنوی فوائد ہیں وہ اضافی ہیں جو اللہ کی طرف سے آخرت میں ملیں گے۔ حج کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے اس کے دنیوی اور اخروی دونوں فوائد کا جاننا حاجی کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ جب امام سجاد (ع) نے اپنے ساتھی سے حج سے متعلق بعض چیزوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے نفی میں جواب دیا تو امام (ع) نے کہا کہ تم نے حج نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ میں اب کیا کروں اس کا کوئی کفارہ دوں؟ امام (ع) نے ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ پہاڑ سونے میں تبدیل ہو جائے تو اسے اللہ کی راہ میں دے دو تب بھی حج کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ حج کا مقصد اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ کرنے سے پورا نہیں ہو گا حج کا مقصد خود حج سے ہی حاصل ہو گا۔ حج کا پہلا مقصد اللہ نے دنیوی نفع رکھا ہے لہذا اس کو مسلمانوں کے لیے بیان کرنا ضروری ہے۔ امام صادق (ع) سے اسی آیت کے متعلق پوچھا گیا کہ یہاں پر منافع سے مراد دنیوی منافع ہیں یا اخروی؟ تو امام نے جواب میں فرمایا کہ اس سے مراد دونوں ہیں، حج کے دنیوی فوائد بھی ہیں اور اخروی بھی ہیں۔ اخروی فوائد کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا لیکن دنیوی فوائد دیکھے جا سکتے ہیں اس لئے کہ قرآن نے انہیں ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کو کہا ہے۔
حج میں کیا منفعت ہے؟
قرآن نے واضح طور پر مشاہدہ کرنے کو کہا ہے لیکن ہم نے مشاہدہ چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے جرم سمجھ لیا ہے۔ ہم لکیر کے فقیر ہیں اندھی تقلید کرتے ہیں جو بڑوں نے ہمیں بتا دیا اس سے ذرہ برابر ادھر ادھر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ آنکھیں بند کر کے آپ مشاہدہ نہیں کر سکتے، اس لیے پہلے اپنی آنکھیں کھولیں، اور کم از کم بزرگوں کی کھینچی ہوئی لکیر سے دائیں بائیں دیکھیں۔ اگر اس کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ کی طرف سے ہمیں مشاہدہ کرنے کو کیوں کہا جاتا؟ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ جیسے کہ محکمہ موسمیات کہتا ہے کہ آج موسم خوشگوار رہے گا لیکن آپ خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ شدید گرمی ہے۔ آپ یہاں کس پر بھروسہ کریں گے؟ یہ آپ کا مشاہدہ ہے محکمہ موسمیات نہیں۔ حج کے لیے ہماری پوری توجہ بزرگوں کی بتائی گئی رسومات پر ہوتی ہے نہ کہ ان باتوں پر جو اللہ نے ہمیں بتائی ہیں۔ جدہ سے مکہ جا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے پہلا مقام بطور میقات مقرر ہوا ہے جو جوفہ ہے۔ مدینے سے مکہ جا رہے ہیں تو مسجد شجرہ میقات ہے۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے کہا ہے کہ ائیرپورٹ سے احرام باندھو۔ ہمیں اپنے فوائد کو دیکھنے کے لیے حج کے ان تمام مقامات کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ قرآن ہم سے آنکھیں کھولنے کا کہہ رہا ہے، لیکن ہم اپنے کارواں کے قائد یا کسی بزرگ کی پیروی کر رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ لیکن اللہ نے بشریت کی منفعت دکھانے کے لیے حج پر بلایا ہے۔ حج میں منفعت فراوان ہے۔ حج میں مالی، سماجی، سیاسی، دینی اور علمی ہر طرح کی منفعت موجود ہے۔
حج ایک امت کی تشکیل کا بہترین موقع
آج کے دور میں حج کا سب سے اہم فائدہ امت سازی ہے یعنی ایک امت کی تشکیل۔ اللہ کے نظام امامت کو روئے زمین پر نافذ کرنے کے لیے ایک امت کی تشکیل کا سب سے بہترین موقع حج ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے اجنبی لوگ اس موقع پر اس طرح سے جڑیں کہ ایک امت کا حصہ بن جائیں۔ یہ پہلی منفعت ہے جو حج میں مشاہدہ کرنی ہے۔
حج اقتصادی معاملوں اور حفاظتی معاہدوں کا موقع
دوسری منفعت یہ ہے کہ یہ لوگ جو دور دراز علاقوں سے حج کے لیے آئیں گے جیسا کہ امام صادق (ع) سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے یہ مشقت والا حج کیوں واجب کیا کہ اتنے دور دور علاقوں سے لوگ زحمتیں اٹھا کر حج کے لیے مکہ جائیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر لوگ ساری زندگی اپنے گھروں میں رہیں اور اپنے گھروں اور اپنے شہروں سے باہر نہ نکلیں تو یہ ہلاک ہو جائیں گے یہ بھوک کی وجہ سے یا دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے مر جائیں گے۔ اگر یہ اپنے شہروں سے نکل کر دوسروں شہروں کے لوگوں کے ساتھ لین دین کریں گے اور ان کے ساتھ اقتصادی معاملات یا حفاظتی معاہدے کریں گے جس کی وجہ سے یہ خود کو بھی محفوظ رکھ سکیں گے اور اپنی اقتصادی ضروریات بھی پورا کر سکیں گے۔
کیا آج ایسا ہو رہا ہے؟
لیکن کیا آج ایسا ہو رہا ہے؟ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان حج پہ گئے ہوئے ہیں لیکن غزہ اور یمن میں لوگ تنہا مر رہے ہیں۔ یہ حج میں اپنے منافع نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ حج میں اگر کوئی اپنے منافع دیکھ رہا ہے تو وہ یا آل سعود ہیں یا صہیونی اور یہودی ہیں یا امریکہ، چین اور جرمنی جیسے ممالک ہیں۔ یا ان کے منافع پورے ہوں گے یا پھر مومنین اور غزہ کے لوگوں کے منافع پورے ہوں گے۔ ہم صرف آخرت میں حج کے منافع کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یاد رکھو جس طرح دنیا میں ہم حج کے منافع سے محروم ہیں آخرت میں بھی اسی طرح محروم ہوں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے حج تو کیا لیکن فلسطین اور غزہ کو نظرانداز کیا، مظلوم مسلمانوں اور منفعت مسلمین کو نظرانداز کیا، اللہ کے دین کو نظرانداز کیا۔ آخرت میں اللہ حج کرنے کے باوجود ہمیں نظرانداز کرے گا۔ یہ حج ہمارے کسی کام نہیں آئے گا۔
یہ عظیم عبادت اللہ نے بہت عظیم مقصد کے لیے مقرر کی ہے صرف ثواب کی خاطر نہیں ہے۔ ثواب کے لیے اتنے جتن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ثواب تو چڑیا کو ایک قطرہ پانی دینے سے بھی مل جاتا ہے۔ اتنی گرمی میں وہاں جا کر صرف ثواب کے لیے زحمتیں اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہاں کسی مقصد کے لیے بلایا گیا ہے اور سب سے پہلا مقصد منفعت مسلمین ہے۔
خطبہ 2
یوم عرفہ توبہ و استغفار کا دن
اہل ایمان کے لیے تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بڑا موقع اور ذریعہ حج ہے اور حج میں بہت خوبصورت ترکیب رکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب استطاعت کو زندگی میں ایک بار اپنے گھر کی زیارت کرنے کا حکم دیا ہے اور جس لمحے انسان نے یہ استطاعت حاصل کر لی فوری طور پر بلا تاخیر حج بجا لانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے بہت سے مناسک مقرر کیے ہیں اور انہیں مناسک میں سے ایک وقوف عرفہ ہے۔ عرفہ 9 ذی الحجہ کو بھی کہا جاتا ہے اور مکہ کے مضافات میں ایک صحرا ہے اسے بھی عرفہ کہا جاتا ہے۔ حج کا آغاز اسی دن یعنی ۹ ذی الحجہ کو مقام عرفات سے شروع ہوتا ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام عرفہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عمر بھر گناہوں میں پڑا رہے اور اسے توبہ کرنے کی توفیق نہ ہوئی ہو اگر روز عرفہ وہ توبہ کر کے اللہ کی بارگاہ میں آ جائے تو اللہ توبہ قبول کر لیتا ہے اور اسے معاف کر دیتا ہے۔
ہمیں اہلبیت (ع) سے وابستگی کا شرف حاصل ہے اور انہوں نے جو رہنمائی ہمیں دی ہے وہ کہیں اور سے میسر نہیں ہو سکتی۔ حج کے مناسک میدان عرفات سے شروع ہوتے ہیں اور یوم عرفہ زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک حاجیوں کو میدان عرفات میں رہنا ہوتا ہے۔ جو لوگ وہاں حاضر ہوئے ہیں انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس مقام پر اس مبارک دن توبہ و استغفار کریں۔ لیکن ہم جیسے جو وہاں موجود نہیں ہیں اللہ نے ہمیں اس فیض و برکت سے محروم نہیں رکھا۔ اور جو وہاں پر موجود ہیں انہیں بھی خود یہ مقصد حاصل کرنا ہو گا۔
حج کارواش نہیں ورکشاپ ہے
میں نے ایک بار مکہ میں اپنے لیکچرز میں ذکر کیا تھا کہ جب لوگ مکہ آتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آٹومیٹک کار واش پر آئے ہیں، جس سے وہ دھل جائیں گے۔ یہ ایک ورکشاپ ہے نہ کہ کار واش۔ ورکشاپ میں ہر کام خود کرنا پڑتا ہے وہاں کوئی ایسے فرشتے مقرر نہیں ہوئے ہیں جو حاجیوں کو کارواش کی طرح آٹومیٹک سسٹم میں دھل کر پاک و پاکیزہ کر دیں گے اور انہیں کوئی زحمت نہیں کرنا پڑے گی۔ اس ورکشاپ کے انسٹرکٹر ابراہیم خلیل اللہ ہیں جنہیں انسان سازی کا معمار بنایا گیا ہے۔ انہیں ایک مقصد کے لیے شخصیت سازی کا ہنر دیا گیا ہے۔ اس ابراہیمی ورکشاپ میں حضرت ابراہیم نے جو کچھ کیا وہ سب حج ہے۔ تین افراد پر مشتمل اس خاندان کے کاموں کو حج کہا گیا جسے ہم ہر سال دہراتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا گھر بنایا پھر اللہ نے عرفہ جانے کو کہا اور آدھا دن گزارنے کے بعد جبرائیل علیہ السلام آئے اور ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا "ھل عرفت ما شھدت؟” کہ جو تم نے دیکھا ہے اس کی معرفت ہو گئی ہے؟ ابراہیم (ع) نے جواب دیا: "عرفتُ” سب پہچان گیا ہوں اور پھر جبرائیل نے کہا کہ عرفہ میں کام پورا ہو گیا اب اگلی وادی میں چلو۔ پھر ابراہیم علیہ السلام ایک ایک مرحلہ آگے بڑھتے گئے اور جو کچھ بھی کیا وہ حج بنا۔ اب حج کے دوران جو خوش نصیب کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا گیا اور معرفت کے ساتھ حرم تک پہنچ گیا۔ اس نے سارے درجات حاصل کر لئے۔ لیکن جو وہاں نہیں جا سکے وہ بھی محروم نہیں۔
اہل بیت(ع) کے طریقے پر حج میں معرفت کے درجات
اگر آپ معرفت کے انہیں درجات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی موقع میسر ہے کہ آدھا دن دوپہر سے غروب آفتاب تک اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر گزاریں۔ یہ طریقہ اہل بیت(ع) نے ہمیں بتایا ہے۔ جس خوبصورتی کے ساتھ اہل بیت(ع) نے حج کیا ہے وہ لوگوں کو بتایا نہیں گیا ہے۔ اور خاص طور پر امام حسین (ع) نے ایک سے زیادہ حج کیے تھے اور وہ دعا جو امام حسین (ع) نے حج کے دن دعائے عرفہ کے طور پر پڑھی تھی وہ بہت اعلیٰ دعا ہے۔ اور اگر ہو سکے تو عربی میں ترجمہ کے ساتھ پڑھنا چاہیے اگر نہیں تو کم از کم ترجمہ ہی پڑھ لیں تاکہ سمجھ سکیں۔ اہلبیت (ع) کی عملی تعلیمات اور خزانے ہیں جن کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے۔ میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں نہ کہ تعصب سے کہ اگر تمام صحابہ کرام، تابعین کے پیروکاراور فقہاء و علما کی کتابوں میں دعائے عرفہ کے برابر کا صرف ایک جملہ تلاش کیا جائے تو نہیں تلاش کر سکتے۔ بہت بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اہل بیت(ع) کی تعلیمات سے دور ہیں یا انہیں دور رکھا گیا ہے۔ یہ ایک اہم دن ہے اور ایسا نہیں ہے کہ عرفہ آئے اور ہم خود ہی پاک ہو جائیں۔ بلکہ ہمیں اس محدود وقت سے فائدہ اٹھانا ہو گا اور اس ورکشاپ میں خود اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنا ہو گا۔