سب سے اہم خواہش جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے وہ عورت کی طرف کشش ہے۔ اس فطری رجحان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ شہوہ سے مراد مضبوط خواہشات ہیں۔ عورتوں کی خواہش کو لوگوں کی زینت بنا دیا گیا ہے۔
جنسی امور میں تقویٰ (۱۸) – تمتع کا مفہوم اور قرآن میں اس کے حوالہ جات/ تاریخ شیعہ میں ابو الخطاب اور غلو کا فتنہ
یہ محدود زندگی ہمیں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو پروان چڑھانے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے تاکہ ہم کمال تک پہنچ جائیں اور قرب الہی حاصل کر سکیں۔ انسانی زندگی کے مختلف معاملات میں جنسی جہت سب سے اہم اور نمایاں ہے، لیکن انسان اس شعبے میں جاہلانہ رویہ اختیار کرتا ہے اور جو کچھ اس کے سامنے آتا ہے اسے بغیر سوچے سمجھے اپنا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو منظم کرنے کے لیے احکام اور قوانین بنائے ہیں اور یہی منظم کرنا دین کا بنیادی فلسفہ تشکیل دیتا ہے۔ اگر اس دنیا میں زندگی الٰہی اصولوں کے مطابق ترتیب نہ دی جائے تو آخرت میں جو کچھ ہوگا وہ دین سے صحیح معنوں میں فائدہ حاصل نہ کرنے کا نتیجہ ہوگا۔ جنسی معاملات کے لیے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی ایک مخصوص صورت مقرر کی ہے۔ تقویٰ کے بعد عفت اور پھر نکاح (شادی) جنسی زندگی کو منظم کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اگر حقیقی وجوہات کی بنا پر نکاح ممکن نہ ہو تو عفت کو اختیار کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے دینی نصاب سے نکاح کو ہٹا دیا ہے اور اسے مکمل طور پر ثقافت کے حوالے کر دیا ہے۔ نکاح کے باب میں، جس کا بنیادی مقصد جنسی ضروریات کو پورا کرنا ہے، وہاں تمتع کا کلیدی کردار بھی ہے۔ زندگی میں تمتع کے بغیر، ایک شخص پریشان، اور جذباتی طور پر شکست خوردہ ہو جاتا ہے. فقہ میں تمتّع کو ایک مخصوص کام تک محدود رکھا گیا ہے، جب کہ حقیقت میں تمتّع کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ لہٰذا، سب سے پہلے تمتّع کی اصطلاح کو لسانی اور اصطلاحی طور پر سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن نے اس اصطلاح کو زندگی، نکاح، طلاق اور سفر کے حوالے سے استعمال کیا ہے-
متاع کا تاریخی مفہوم اور فقہ کا غلط استعمال
عربی اصطلاح میں متاع خاص طور پر سفر کے معاملات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پہلے زمانے میں معاشی زندگی کا انحصار مویشیوں جیسے اونٹ اور بھیڑ بکریوں پر ہوتا تھا۔ سڑکیں پختہ نہیں تھیں، اور ریت کے طوفانوں اور ٹیلوں کی وجہ سے راستے بدل جاتے تھے۔ پانی کے ذرائع کم تھے، اس لیے مسافروں کو ان مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے وسیع انتظامات کرنے پڑتے تھے۔ انہیں سواری، پھر پانی اور پھر کھانے کا اہتمام اپنے ساتھ رکھنا پڑتا تھا۔ قصر نماز کے متعلق فقہی قوانین اس زمانے میں اس بنیاد پر قائم کیے گئے تھے کہ اونٹ کے سفر میں کتنا وقت لگے گا۔ تاہم، ہمارے فقہا آج راکٹوں کے زمانے میں اونٹوں کے دور کی ٹیکنالوجی اور معیارات کا استعمال کرتے ہوئے فتوے دیتے ہیں۔ بہت سے اہل علم عصر حاضر کے مطابق مسائل کا تجزیہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگ اب بھی تکنیکی ذرائع سے چاند دیکھنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں، یہ ایک الجھن ہے جسے تحقیق کے ذریعے ختم کیا جانا چاہیے۔ بنو امیہ نے اہل سنت کے چاروں فقہاء کے دور کے بعد اجتہاد کو ممنوع قرار دے دیا۔ اگرچہ شیعوں نے تحقیق جاری رکھی، لیکن بہت سے معاملات میں اب بھی نتائج اجتہاد کے بغیر حاصل کیے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے تحقیق کی اہمیت پر زور دیا تاکہ شرعی قوانین کو وقت کی ضرورت کے مطابق لاگو کیا جا سکے۔
انسانی زندگی میں آسانی اور آرام کے طور پر متاع
متاع کے معنی کی طرف لوٹتے ہیں۔ جب عرب سفر کرتے تھے تو انہیں خیموں، پانی کی کھالوں اور دیگر سامان کی ضرورت ہوتی تھی جس سے سفر آسان ہو جاتا تھا اور مشکلات کم ہوتی تھیں۔ متاع سے مراد سفر کو آسان بنانے والی چیزیں ہیں بلکہ ہر وہ چیز جو مشکل اور دباؤ کو دور کرتی ہے۔ یہ اشیاء گھر پر آسانی سے مل جاتی تھیں لیکن سفر کے دوران نہیں، اس لیے مسافروں کو پہلے سے ان کو اکٹھا کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح متاع سے مراد وہ ذرائع ہیں جو سفر کو آسان بناتے ہیں۔ مزید وسیع طور پر، متع کا مطلب ہے چیزوں سے فائدہ اٹھانا۔ آج ہمارے گھروں میں، تقریباً اسی فیصد اشیاء—بشمول کپڑے اور کچن کے سامان—غیر استعمال شدہ ہیں۔ ان غیر استعمال شدہ یا اضافی اشیاء کو "عفو” کہا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ کی راہ میں کیا دیا جائے تو جواب دیا گیا: جو اضافی ہو وہ دے دو۔ تاہم، مومن کسی بھی چیز کو قربان کرنے سے ہچکچاتے ہیں جب تک کہ سب کچھ پہلے سے منظم اور آسان نہ ہو۔ مثلاً نماز جمعہ کے حوالے سے ہم اصل مقصد کو پورا کرنے کے بجائے کمیٹیاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثالی طور پر، ہمیں نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کے نام، رابطے، پیشے، دستیاب وقت، ضروریات اور مشکلات کا اندراج کرنا چاہیے۔ ہر کوئی اپنی زندگی کا بوجھ اٹھاتا ہے، لیکن نماز جمعہ کا مقصد لوگوں کو جمع کرنا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی مشکلات کو دور کرنے میں تعاون کریں۔ اگر وہ اندرونی مسائل جیسے کہ بیماری، بے روزگاری اور شادی کی ضروریات کو حل کرنے سے شروع کرتے ہیں، تو وہ دوسروں کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نظام کسی ایک کمیونٹی کی سطح سے شروع ہو جائے تو یہ بالآخر قومی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ ضرورت مندوں کو فراہم کرنے کے لیے ایک منظم انداز میں اضافی گھریلو سامان بھی جامعہ میں لا سکتے ہیں۔
روزمرہ کی زندگی میں تمتع اور متاع کا قرآنی حکم
جس طرح مسافر کو بغیر کسی مشقت کے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے متاع کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو زندگی کا سفر مکمل کرنے کے لیے گھر میں بھی متاع کی ضرورت ہوتی ہے۔ تمتع کا مطلب ہے زندگی کو آسان بنانے کے دستیاب ذرائع سے فائدہ اٹھانا۔ سردیوں میں سردی سے بچنے کے لیے گرم لباس پہننا بھی تمتع کی ایک قسم ہے۔ قرآن نے جو پہلا متاع مقرر کیا ہے اس کا تعلق خود زندگی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ آیہ (36) میں فرماتا ہے:
فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
تب شیطان نے انہیں فریب دینے کی کوشش کی اور انہیں ان نعمتوں سے باہر نکال لیا اور ہم نے کہا کہ اب تم سب زمین پر اترجاؤ وہاں ایک دوسرے کی دشمنی ہوگی اور وہیں تمہارا مرکز ہوگا اور ایک خاص وقت تک کے لئے عیش زندگانی رہےگی۔
آدم اور حوا کو مکمل سہولیات کے ساتھ ایک جگہ پر رکھا گیا تھا اور انہیں ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا تھا۔ جب شیطان نے انہیں دھوکہ دیا تو وہ اس بابرکت ماحول سے دور ہو گئے۔ اللہ نے انہیں سختی کی جگہ یعنی زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ زمین ان کی رہائش ہوگی اور اسی میں ان کی زندگی کا ذریعہ ہوگا۔ زمین پر موجود زندگی کے اسباب کا حصول متاع الارض کہلاتا ہے۔ اگرچہ جدید انسان ضرورت سے زیادہ متاع کو اکٹھا کرتا اور فضول خرچی سے کام لیتا ہے۔ وہ تیل، گیس اور معدنیات کی غیر ضروری مقدار نکالتا ہے۔ زمین جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نسلوں کے لیے پیدا کیا ہے، ایک نسل کو دوسری نسلوں کی قیمت پر استفادہ نہیں کرنا چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا ناانصافی کی ایک شکل ہے۔
ایک اور قرآنی حوالہ سورہ البقرہ (241) میں آتا ہے:
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌۢ بِٱلْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى ٱلْمُتَّقِينَ
اور مطلقات کے لئے مناسب مال و متاع ضروری ہے کہ یہ صاحبانِ تقویٰ پر ایک حق ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق بھی متاع کے ساتھ ضروری ہے۔ علیحدگی کے وقت، شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو کافی ذرائع فراہم کرے تاکہ وہ بغیر کسی مشکل کے اپنی نئی زندگی بسر کر سکے۔ اگر اس کے پاس وسائل کی کمی ہے اور اس کے والدین اس کی کفالت نہیں کرسکتے ہیں تو شوہر کو اسے خالی ہاتھ طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے۔
متاع کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، موبائل فون رابطے کا ایک ضروری اور فائدہ مند ذریعہ ہے، لیکن بہت سے نوجوان اور خواتین غیر اخلاقی مقاصد کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اسے متاع الغرور کہتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
لوگوں کے لئے خواہشااُ دنیا – عورتیں ,اولاد, سونے چاندی کے ڈھیر, تندرست گھوڑے یا چوپائےً کھیتیاں سب مزیّن اور آراستہ کردی گئی ہیں کہ یہی متاع دنیا ہے اور اللہ کے پاس بہترین انجام ہے
سب سے اہم خواہش جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے وہ عورت کی طرف کشش ہے۔ اس فطری رجحان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ شہوہ سے مراد مضبوط خواہشات ہیں۔ عورتوں کی خواہش کو لوگوں کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ دوسری توجہ بچوں کی طرف ہے۔ اس کے بعد سونے اور چاندی کے انبار جمع کرنے سے انسان کو محبت ہے، جو آج کرنسی اور دولت کی علامت ہے۔ اس کے بعد گھوڑے آتے ہیں—جس کی نمائندگی اب کاریں کرتی ہیں—اس کے بعد مویشی اور کھیتی باڑی آتی ہے۔ یہ سب دنیوی زندگی کے متاع ہیں، جو دنیا میں رہنے کے لیے ضروری ہیں، حالانکہ ان سے آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ متاع کی دوسری شکلیں ہیں جو دونوں جہانوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
اللہ مزید فرماتا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تمہارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا- اس وقت جسے جہّنم سے بچا لیا گیا اور جنّت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کاسرمایہ ہے
ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور تمہیں قیامت کے دن اس کا پورا پورا اجر دیا جائے گا، جو بھی آگ سے دور ہو گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا یقیناً اس نے فتح پائی، دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔
جنت میں داخل ہونے والا شخص واقعی کامیاب ہے، لیکن دنیاوی زندگی بذات خود ایک دھوکا دینے والا متاع ہے- جیسے نشہ جو انسان کو اپنی طرف راغب کرتا ہے لیکن جب وہ ہوش میں آجاتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ وہ دھوکہ تھا۔ ان معانی کو واضح کرنے کے لیے قرآن متاع اور متعہ کی اصطلاحات کو بار بار استعمال کرتا ہے۔
ایمان، سماجی ذمہ داری، اور حدود کی خلاف ورزی
اگرچہ لوگ ایماندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اُن کا طرزِ عمل—خاص طور پر طلاق میں — دوسری صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ جب وہ الگ ہو جاتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے کے لیے معاملات کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ اگر طلاق جائز وجوہات کی بنا پر ہونی ہو تو اسے آسانی کے ساتھ کی جانا چاہیے نہ کہ دشمنی کے ساتھ یا اس میں ملوث خاندانوں کو تکلیف پہنچا کر۔ ایمان حیاتیاتی اعتبار سے وراثت میں نہیں ملا۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے سے وہ مومن نہیں بنتا اگر وہ فساد اور دھوکہ دہی میں ملوث ہو۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود کو مان کر ایمان حاصل کرنا چاہیے۔ مومنوں کو حقوق اور حدود کے پابند رہنا چاہئے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ کسی بھی حالت میں ان کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اگر کسی دوسرے شخص کا حق ہے تو اسے ضرور دیا جائے خواہ ایسا کرنے سے ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ خاص طور پر طلاق کے معاملات میں، ہم اکثر حقوق اور حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جس سے چھوٹی موٹی پریشانی خاندانوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ مومنوں میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی رشتہ صحیح معنوں میں جاری نہیں رہ سکتا تو پھر ایک دوسرے کی زندگی کو ناقابل برداشت نہیں بنانا چاہیے۔ بلکہ علیحدگی عورت کے حقوق کی ادائیگی کے دوران ہونی چاہیے تاکہ اسے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
نماز جمعہ کا مقصد اور امامت کا راستہ
آج اہل ایمان حقوق و حدود کی پامالی کو گویا ان کا بنیادی حق سمجھتے ہیں اور یہ رویہ ایک وسیع مزاج بن چکا ہے۔ جمعہ کی نماز مومنوں کی رہنمائی اور ان کے ذاتی اور اجتماعی مسائل کو حل کرنے میں مدد کے لیے قائم کی گئی تھی۔ تاہم یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب مومنین دلچسپی لیں اور اخلاص کے ساتھ شرکت کریں۔ دین کو روزمرہ کی زندگی کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ ورنہ آخرت میں بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ جو لوگ معاشرتی معاملات میں دینی اصولوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اور عدل و تعاون کو برقرار رکھتے ہیں وہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ امامت کا مقام عطا کرتا ہے۔
دوسرا خطبہ
تقویٰ کی تلقین اور امیر المومنین (ع) کا مثالی کردار
تقویٰ انسانی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حفاظتی انتظام ہے اور اس انتظام کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسان کی ظاہری و باطنی، دنیاوی اور آخرت کی زندگی کو محفوظ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات اور سیرت کو تقویٰ کا ذریعہ بنایا ہے اور تقویٰ کا سب سے نمایاں ذریعہ اور نمونہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی ہے۔ ان کی حکمت، حکومت، امامت بلکہ ان کی ساری زندگی مجسم تقویٰ ہے۔ اگر ہم امیر المومنین (ع) کی زندگی کے ہر لمحے کا جائزہ لیں تو ہمیں قرآن کا تقویٰ علی (ع) کی زندگی میں مجسم شکل میں نظر آتا ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: "هَلَكَ فِیَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَمُبْغِضٌ قَالٍ” (حکمۃ 117، نہج البلاغہ)۔ میرے بارے میں، دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے: ایک وہ عاشق جو غلو کی حد پار کر چکا ہو اور دوسرے وہ دشمن جو دشمنی میں حد سے گزر گیا ہو۔
اہل بیت (ع) نے اس کی مزید وضاحت کی ہے، اور چونکہ یہ ایک خطرہ ہے، اور آج کے دور میں شیعوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اس لیے اس موضوع کی وضاحت کی ضرورت ہے۔
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے بحار الانوار کی جلد پچیس میں امامت سے متعلق ابواب میں دسویں باب کا عنوان "نفی الغلو” (غلو کی نفی) مقرر کیا ہے جس میں پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام سے متعلق غلو کی نفی کی گئی ہے۔ اس باب میں چند روایات ہیں جو ہم پہلے پڑھ چکے ہیں اور میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ان روایات میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی زبانوں پر ایک خاص شخص کا نام بار بار آتا ہے۔ امام باقر (ع)، امام جعفر الصادق (ع)، امام موسیٰ کاظم (ع)، امام الرضا (ع)، حتیٰ کہ امام الجواد (ع)، ان چار یا پانچ عظیم شخصیات نے ایک خاص غالی فرد پر مسلسل اور متواتر لعنت کی ہے۔
غلو کا ظہور اور ابتدائی غلو
غلو خود امام علی علیہ السلام کے دور میں شروع ہوا اور امام باقر علیہ السلام کے زمانے سے نمایاں ہوا۔ اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں کافی حد تک پھیل گیا۔ پانچ ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں سات مشہور غالی معرض وجود میں آئے جن میں مغیرہ بن سعید، بنان بن سمعان، محمد بن مقسمی (یا مسقلان) اور اسدی جو ابو الخطاب کے نام سے مشہور ہے، اور چند دیگر افراد شامل ہیں۔ ان میں یہ ابو الخطاب سب سے زیادہ فساد اور فتنہ پیدا کرنے والا غالی تھا۔ یہ امام باقر علیہ السلام اور پھر امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھا۔ امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں اس کو کوفہ میں عباسی گورنر نے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کر دیا تھا۔ اس شخص نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو بہت تکلیف پہنچائی اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے غلو کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اور جدوجہد کی۔
اہل بیت(ع) اور شیعوں کے خلاف بنی عباس کی چالیں
بنو عباس کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا قدم انہوں نے اہل بیت اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے خلاف اٹھایا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ انہوں نے اہل بیت کے نام پر یہ حکومت حاصل کی ہے۔ اگر کل یہی ائمہ یا ان کے پیروکار کھڑے ہو گئے تو بنو عباس کے لیے مسئلہ بن سکتے ہے اس لیے انہوں نے انتہائی سختی اختیار کی اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنے سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے ایک کام یہ کیا کہ اہل بیت کے اندر یعنی بنو ہاشم کے اندر تفرقہ ڈال دیا۔ بنو عباس کے ساتھ شامل ہونے والوں کو تحفظ، انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، جب کہ بنو ہاشم میں سے جو لوگ بنو عباس میں شامل نہیں ہوئے انہیں نہایت مثالی سزائوں اور طرح طرح کی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسرا قدم انہوں نے ائمہ (ع) کے پیروکاروں اور شاگردوں کے خلاف اٹھایا، وہ یہ تھا کہ انہوں نے شیعوں کے اندر منظم فرقہ سازی کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں کہیں بھی کچھ نمایاں شیعہ ہوتے وہ ان میں سے ہر ایک کو الگ فرقہ بنا دیتے تھے۔ مثال کے طور پر یمن میں دو یا تین ممتاز شیعہ شخصیات تھیں، جن میں سے ہر ایک نے الگ فرقہ تشکیل دیا۔ کوفہ میں ہر معروف شخص نے اپنا الگ فرقہ بنا لیا۔ بصرہ میں جہاں بھی شیعہ تھے، بنو عباس نے ان کی طاقت کو توڑنے کے لیے ان میں فرقہ سازی کو فروغ دیا۔
ایک ہتھیار کے طور پر غلو کا فروغ
لیکن سب سے خطرناک قدم جو بنو عباس نے اہل بیت اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے خلاف اٹھایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے غلو کی منظم تحریک شروع کی۔ کچھ لوگوں میں یہ رجحان پہلے سے موجود تھا، لیکن وہ کھلے عام غلو کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غلو شرک اور کفر ہے، اور یہ کہ نہ شیعہ اسے برداشت کرتے ہیں، نہ ائمہ (ع) اور نہ سنی، کوئی مسلمان اسے برداشت نہیں کرتا۔ تاہم، غالیوں کو بنو عباس کی طرف سے سرکاری حمایت حاصل تھی۔ جس نے بھی غلو کی طرف رجحان ظاہر کیا اسے اہمیت، وسائل اور پشت پناہی دی گئی۔ مثال کے طور پر، ابوالخطاب – جو ابتدا میں امام باقر (ع) کا شاگرد تھا، پھر امام صادق (ع) کا شاگرد ہوا، امام کے معتبر اور قابل اعتماد شاگردوں میں سے تھا۔ اس نے اپنی زندگی ائمہ (ع) کے ساتھ گزاری تھی۔ امام باقر علیہ السلام کے بزرگ شاگرد ہونے کے ناطے اس نے پھر امام صادق علیہ السلام کا ساتھ دیا اور امام کا معتمد بن گیا۔
یہ ایک تجربہ ہے جو آپ میں سے بھی کچھ لوگوں کو ہوا ہو گا: ایک شخص قریب آتا ہے، آپ کا اعتماد حاصل کرتا ہے، اور پھر، اس اعتماد کو حاصل کرنے کے بعد، آپ کی جڑیں کاٹ دیتا ہے یا آپ کے اعتماد کا غلط استعمال کرتا ہے۔ محمد بن مقسیمی (یا مسقلان)، یہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے سب سے پہلے امام صادق علیہ السلام کا مکمل اعتماد حاصل کیا۔ امام نے اس پر بھروسہ کیا اور اسے کئی ذمہ داریاں بھی سونپی: بعض جگہوں پر اسے اپنا نمائندہ مقرر کیا، بعض ٹیموں کا سربراہ بنایا اور بعض گروہوں سے کہا کہ اس کی طرف رجوع کریں اور اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ اس طرح اس نے ایک مقام اور پہچان حاصل کی۔ جب اس نے اپنا مقام پوری طرح قائم کر لیا تو پھر اس نے اپنا الگ نظام شروع کر دیا۔
ائمہ (ع) کے شاگردوں میں سے، بعض کے پاس یہ تنظیمی اور ساختاری صلاحیت تھی کہ وہ ایک وسیع تر گروپ تشکیل دے سکتے تھے، اپنی اپنی لابیاں بنا سکتے تھے۔ ان میں قائدانہ صلاحیتیں اور ہمتیں تھیں، اس لیے وہ خود لیڈر بن جاتے۔ مثال کے طور پر، طلباء یہ کر سکتے ہیں: ایک تیز اور فعال طالب علم اپنے ہم جماعتوں یا اپنے علاقے کے لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ایک لابی، یا گروپ بناتا ہے۔ یہ گروہ پھر اپنے مفادات کی پیروی کرتا ہے یا دوسروں کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ اساتذہ بھی عملے کے اندر اپنی لابی بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک عام سی بات ہے اور آپ میں سے بہت سے لوگوں کو ایسے لوگوں کی طرف سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا جو آپ کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد آپ کے اپنے دائرے میں ایک گروپ بنا کر بظاہر آپ کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور پھر اندر سے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس شخص میں ایسی صلاحیتیں تھیں۔ ایک بار جب اس نے امام کا اعتماد حاصل کر لیا اور لوگوں نے امام کو اس کا احترام کرتے ہوئے اور اسے ایک عہدہ دیتے ہوئے دیکھا تو اس نے کوفہ اور دوسرے علاقوں کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی لابی بنانا شروع کر دی۔ جب اس نے ایک ٹھوس گروہ تشکیل دیا تو اس نے آہستہ آہستہ اس گروہ کے اندر یہ دعویٰ کیا کہ امام صادق علیہ السلام سے اس کا تعلق محض ایک عام طالب علم جیسا نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا تعلق مختلف قسم کا ہے۔ جب کہ دوسروں نے امام کی زبان سے وہ باتیں سنیں جو وہ کھل کر بولتے تھے، اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے امام سے مخفیانہ طریقے سے کس فیض کیا ہے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کا امام کے ساتھ غائبانہ روحانی تعلق ہے کہ کوفہ میں رہتے ہوئے وہ مدینہ میں امام سے استفادہ کر سکتا ہے، کہ امام مدینہ سے کوفہ اس کے پاس آتے ہیں یا وہ خود مدینہ میں روحانی طور پر جاتا ہے۔ اس نے اس طرح کے نام نہاد معجزات اور روحانی دعوے پیش کرنا شروع کر دیے۔ جب اس کے گروہ کے لوگوں نے امام کے اس بزرگ، اور قابل اعتماد طالب علم کو امام کے احترام میں دیکھا تو وہ اور زیادہ متاثر ہوئے۔ آہستہ آہستہ، جیسے جیسے اس نے اس نظام کو وسعت دی اور ایک مضبوط دھڑا بنایا، اس کے بعد وہ قدم بہ قدم آگے بڑھتا گیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے لیے الوہیت کا دعویٰ کرنے لگا۔ اس کا مفصل قصہ روایتوں اور تاریخ میں درج ہے۔ میں صرف اس حد تک پیش کر رہا ہوں کہ بحارالانوار کی روایات میں جتنا اس کا ذکر ہے۔
آخر میں اس نے یہ دعویٰ کرنے کی انتہا کر دی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام محض ایک امام ہی نہیں تھے، حتیٰ کہ نبی بھی نہیں تھے، بلکہ معاذ اللہ، خود اللہ تعالیٰ نے جس میں ظہور کیا تھا۔ اس نے کہا کہ امام اب مخلوق نہیں رہے بلکہ اللہ ہیں اور وہ خود نبی ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) جنہیں وہ خدا (نعوذ باللہ) کہتا تھا، نے اسے اپنا نبی مقرر کیا تھا اور اس کے ذریعے اپنی تعلیمات کو پھیلا رہے تھے اور اس کے پاس وحی آتی ہے، وہ جہاں کہیں بھی رہے، وحی کے ذریعے رابطے میں رہتا ہے۔ لوگ اور بھی متاثر ہوئے۔
اس نے مزید دعویٰ کیا کہ امام صادق علیہ السلام نے اسے خصوصی تعلیمات دی ہیں جو عام لوگوں کو نہیں دی گئیں۔ وہ تعلیمات کیا تھیں؟ اس نے امام صادق علیہ السلام سے ایک جملہ لیا اور لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ یہ خاص قول امام نے صرف اس کے لیے فرمایا ہے: "اِذَا عَرَفْتَهُ فَقُلْ مَا شِئْتَ” – "جب تم معرفت کو حاصل کر لو، تو اس کے بعد جو چاہو کہو، ہمارے بارے میں جو چاہو کہو۔
امام نے یہ جملہ بے شک کہا تھا، لیکن یہ آدھا جملہ تھا، اور دوسرے تناظر میں تھا۔ بعد میں، ایک اور موقع پر، امام نے پورا جملہ بیان کیا، لیکن اس نے صرف یہ آدھا لوگوں تک پہنچایا اور پھر کہا: میں براہ راست اپنے رب یعنی نعوذ باللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے مقرر کیا گیا ہوں۔ اس نے کہا: وہ شریعت جو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آئی تھی اب منسوخ ہو گئی ہے۔ اب جس شریعت کا اعلان ابو الخطاب کرے گا، وہ نافذ ہو گی۔ اس نے اعلان کیا کہ بہت سے فرائض اب واجب نہیں رہے، جو پہلے واجب تھے۔ اس نے نماز کے طریقے اور اوقات بدل دیے، روزے کے احکام بدل دیے، حج کے احکام بدل دیے، پھر اس نے اپنے گروہ کے ساتھ حج کے موقع پر امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام پر تلبیہ کہی، جس طرح آپ حج میں اللہ کے لیے لبیک کہتے ہو، اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام پر لبیک کہا۔
جب ابو الخطاب کے اس اقدام کی خبر امام جعفر صادق علیہ السلام تک پہنچی تو امام نے پہلے تحقیق کروائی کہ وہ واقعی ایسا کر رہا ہے۔ جب اس کی تصدیق ہو گئی تو امام نے اس کے بارے میں وہ باتیں کہیں جو ہم نے پچھلی روایات میں بیان کیں۔ آئیے مختصراً انہیں یاددہانی کرتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو ابوالخطاب اور اس کے ساتھیوں پر۔ اس نے غلو کا اظہار کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حد تک فرمایا کہ اگر میں اس غالی، مشرک، اور فاسق پر لعنت نہ بھیجوں تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر عذاب نازل کرے۔ اگر میں اس کا انکار نہ کروں اور خاموش رہوں تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھے عذاب دے گا۔ پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جس طرح لوگوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے بارے میں باتیں پھیلائی تھیں، اگر عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کی باتوں پر خاموش رہتے تو ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر ان کی خاموشی کی وجہ سے عذاب نازل کر دیتا۔ اس لیے میں نے اس کی باتوں سے انکار کو ضروری سمجھا۔
جب لوگوں نے پوچھا کہ امام نے ابوالخطاب کے خلاف اتنی سختی کیوں اختیار کی ہے تو امام (ع) نے یہ استدلال فرمایا: مجھ پر واجب ہے، مجھ پر واجب ہے، امام اور رہبر کی حیثیت سے، اس فتنے کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا۔ وہ چند احادیث بہت اہم ہیں۔ میں اگلے خطبہ میں انہیں ابوالخطاب کے حوالے سے اس تناظر میں پوری طرح پیش کروں گا کہ ابوالخطاب تاریخ میں غلو کا سرغنہ ہے جس نے غلو کو اس کی انتہا تک پہنچا دیا۔ اس سے پہلے غلو کرنے والوں نے ایک حد تک ایسا کیا تھا لیکن وہ بہت آگے نکل گیا اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی سلسلہ جاری رکھا کیونکہ اس کے نظریات اور اس کا گروہ امام جواد علیہ السلام کے دور تک موجود رہا اور ہر امام اس پر لعنت بھیجنا اور شیعوں کو ان کے عقائد سے ڈرانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ بعض اوقات شیعہ حیران ہوتے تھے: یہ شخص ائمہ معصومین علیہم السلام کے فضائل بیان کر رہا ہے، لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کی یہ تشریح کرنے کی کوشش کی کہ جب ائمہ معصومین علیہم السلام اس پر لعنت کرتے ہیں تو ان کا مطلب حقیقت میں کوئی اور ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر اس پر لعنت بھیجتے ہیں لیکن باطنی طور پر اس کے مخالفین مراد ہوتے ہیں۔
یہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے کہ امام ہادی علیہ السلام نے خاص طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو مقرر کیا تھا کیونکہ بنو عباس ان سے فائدہ اٹھا کر شیعہ صفوں کو توڑنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ بنو عباس نے ان غالیوں کی حمایت کی۔ وہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں ایسے خیالات پھیلاتے تھے کہ لوگ اور بھی زیادہ شیعیت سے دور ہو جاتے تھے۔ اس طرح کے بیانات سے بنو عباس خوش ہوئے اور خوب فائدہ اٹھایا۔
ان میں سے یہ سب سے زیادہ کارآمد حربہ شیعوں کے اندر نظریاتی کمزوری پیدا کرنا، ان کی نظریاتی سمت کو ہٹانا، اور انحراف پیدا کرنا تھا۔ یہ انحراف شیعہ کو حق سے بہت دور لے جاتا ہے۔ پس یہ ائمہ (ع) کے زمانے میں ایک بڑا فتنہ تھا اور اب بھی جاری ہے۔ بہت سے عظیم علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے اس فتنے کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ شیخ مفید، شیخ طوسی اور شیخ صدوق جیسے علماء نے خاص طور پر ان غلاۃ کے خلاف جدوجہد کی اور شیعیت کی حفاظت کی۔ اگر شیعیت غالیوں کے شر سے بچ جائے تو بنو امیہ اور بنو عباس اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اگر شیعوں کو غلاۃ سے محفوظ رکھا جائے جو اندر کی دیمک کی طرح ہیں تو باہر والے انہیں کوئی شدید نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ ائمہ ھدایت (ع) کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے شیعوں کو غلو سے بچایا جو اندرونی کیڑوں کی طرح تھے اور اس کی وجہ سے بیرونی دشمن شیعیت کو حقیقی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
