قرآن کا یہ اصول اگر معاشرے میں قائم ہو جائے تو باقی سارا دین قائم ہو جائے گا۔ تین چیزیں روایات میں آئی ہیں کہ اگر وہ معاشرے میں قائم ہو جائیں تو باقی سارا دین قائم ہو جائے گا۔ ان میں سے ایک ولایت ہے۔ دوسرا امربالمعروف اور نھی عن المنکر ہے اور تیسری چیز عدل ہے یہ تین ستون اگر کسی معاشرے میں قائم ہو جائیں تو باقی سارا دین قائم ہو جائے گا۔
جناب زہرا(س) کے نزدیک عدل کا فلسفہ (تیسری مجلس)
فَجَعَلَ اَللَّهُ اَلْإِيمَانَ تَطْهِيراً لَكُمْ مِنَ اَلشِّرْكِ وَ اَلصَّلاَةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ اَلْكِبْرِ وَ اَلزَّكَاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نَمَاءً فِي اَلرِّزْقِ وَ اَلصِّيَامَ تَثْبِيتاً لِلْإِخْلاَصِ وَ اَلْحَجَّ تَشْيِيداً لِلدِّينِ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلْفُرْقَةِ وَ اَلْجِهَادَ عِزّاً لِلْإِسْلاَمِ وَ اَلصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اِسْتِيجَابِ اَلْأَجْرِ وَ اَلْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَامَّةِ وَ بِرَّ اَلْوَالِدَيْنِ وِقَايَةً مِنَ اَلسُّخْطِ وَ صِلَةَ اَلْأَرْحَامِ مَنْسَأَةً فِي اَلْعُمُرِ ] مَنْمَاةً لِلْعَدل [ وَ اَلْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ وَ اَلْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِيضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِيَةَ اَلْمَكَايِيلِ وَ اَلْمَوَازِينِ تَغْيِيراً لِلْبَخْسِ وَ اَلنَّهْيَ عَنْ شُرْبِ اَلْخَمْرِ تَنْزِيهاً عَنِ اَلرِّجْسِ وَ اِجْتِنَابَ اَلْقَذْفِ حِجَاباً عَنِ اَللَّعْنَةِ وَ تَرْكَ اَلسَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ وَ حَرَّمَ اَللَّهُ اَلشِّرْكَ إِخْلاَصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ فَاِتَّقُوا اَللّٰهَ حَقَّ تُقٰاتِهِ وَ لاٰ تَمُوتُنَّ إِلاّٰ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ – وَ أَطِيعُوا اَللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهَاكُمْ عَنْهُ فَإِنَّهُ إِنَّمٰا يَخْشَى اَللّٰهَ مِنْ عِبٰادِهِ اَلْعُلَمٰاءُ.
’’ پس اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو شرف سے پاک ہونے کا وسیلہ بنایا اور خدا نے نماز فرض کی تاکہ تکبر سے بچ سکو، زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق کی زیادتی کا ذریعہ بنایا اور روزوں کو اخلاص کی مضبوطی کا ذریعہ بنایا۔
اور حج کو دین کی مضبوطی کا وسیلہ بنایا اور عدل و انصاف کو واجب کر کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑا اور ہماری اطاعت کو ملت اسلام کا نظام بنایا اور ہماری امامت کو تفرقہ سے بچنے کیلئے امان قرار دیا اور جہاد کو اسلام کی عزت بنایا اور مصیبت میں صبر کو تحصیل اجر میں مددگار بنایا اور امر بالمعروف میں عوام الناس کی مصلحت کو قرار دیا۔ والدین کےساتھ نیکی کو اس لیے واجب کیا کہ غضب خدا سے محفوظ رہا جائے اور صلہ رحم اس لیے مقرر کیا تاکہ عمر میں اضافہ ہو اور تعداد بڑھے اور قصاص اس لیے واجب کیا کہ خون ریزی رک جائے اور نذر و وفا کی راہ اس لیے نکالی کہ بندوں کی مغفرت مقصود تھی اور پیمانہ اور وزن پورا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ نقصان سے بچاؤ ممکن ہو اور شراب سے اس لیے ممانعت فرمائی کہ بندے برے اخلاق سے پاک رہیں اور زنا کا بے جا الزام لگانا اس لیے حرام کیا کہ لعنت کے سامنے ایک حجاب اور رکاوٹ پیدا ہو اور چوری کو اس لیے ممنوع قرار دیا کہ دوسروں کے مال میں بے اجازت تصرف کرنے سے لوگ باز رہیں اور خدا نے شرک کو اس لیے حرام کیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار خالص رہے۔
لہٰذا تقوای الہی اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور جب مرو تو مسلمان ہی مرو۔اور اوامر میں خدا کی اطاعت کرو اور جن امور سے منع کیا ہے۔ ان سے باز رہو۔ بے شک خدا کے بندوں میں سے اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘
عدل دین کا ایک بنیادی اصول
دین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اہم اصل عدل ہے۔ عدل کے بارے میں جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے ارشاد فرمایا: وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ۔
اللہ نے کائنات کی بنیاد عدل پر قائم کی ہے۔ نظام شریعت و ہدایت بشری بھی عدل کے ستون پر قائم کیا ہے۔ عدل کے معانی وہی ہیں جو قرآن نے مراد لیے ہیں اگر چہ علماء کی اصطلاحات اور تشریحات نے عدل کی کافی حد تک تفسیر کی ہے لیکن قرآنی تعلیمات کے لیے ان علوم کی اصطلاحات کو بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ قرآن نے اپنے الفاظ کے معانی کو لغت سے لیا ہے علوم سے نہیں لیا۔ علوم بعد میں وجود میں آئے قرآن بہت پہلے نازل ہو چکا تھا۔ علم فقہ، علم کلام یا علم حدیث وغیرہ سب نزول قرآن کے صدیوں بعد وجود میں آئے۔ قرآن کی زبان اس دور کے عربوں کی روزہ مرہ کی زبان ہے جس میں وہ لوگ گفتگو کرتے تھے۔ اس میں کسی بھی علم کی کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے۔
عدل کو عرب اونٹ کی پشت پر سامان لادتے وقت سامان کے تعادل و توازن کو برقرار کرنے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہی معنی قرآن کریم نے عربوں کی لغت سے لے کر انسانی ہدایت کے نظام یعنی دین میں بھی رائج کر دیا۔ اور اللہ تعالی نے خود بھی دین کے تمام قوانین اور حقوق انسانی کو عدالت کے معیار پر قائم کیا اور انسانوں کو بھی حکم دیا ’’اعدلووا ھو اقرب للتقویٰ‘‘ تم بھی اپنی روز مرہ کی زندگی میں عدل سے کام لیا کرو۔ اور آخرت کی سزا و جزا بھی عدل کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی کارکردگی کے ہم وزن اس کو جزا و سزا دی جائے گی، کارکردگی مثبت ہے تو جزا دی جائے اور کارکردگی منفی ہے تو سزا دی جائے۔
اور انسان بھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسی اصول کو پیش نظر رکھے کہ جس نے جتنا سوال کیا ہے اتنا جواب دیا جائے یہی عدل ہے۔ غلطی کے مطابق سزا دی جائے۔ اچھی کارکردگی کے مطابق انعام دیا جائے۔ قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اس کو مقام و منصب دیا جائے۔ یہ ساری چیزیں کسی بنیاد پر ہونا چاہیے تاکہ جس نے جتنی محنت کی ہے اس کو اتنا اس کا نتیجہ ملے۔
اور ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے انسانوں کو صرف حکم دے دیا کہ وہ اپنے درمیان عدل کی بنیاد پر معاملات زندگی انجام دیں بلکہ اس نے انبیاء کے ذریعے انسانی معاشرے میں عدل قائم کروا کر عملی طور پر سکھایا کہ وہ معاشرہ جس میں عدل تمام امور کی بنیاد قرار پا جائے وہ ایک آئیڈیل معاشرہ ہوتا ہے۔
معاشرے کے سدھار کے لیے گھروں میں عدل کو معیار قرار دینا ضروری
اگر ایک گھر کے اندر عدل کو بنیاد بنا لیا جائے تو اس گھر میں تربیت پانے والا بچہ یا پروان چڑھنے والی شخصیت کے اندر تعادل پیدا ہو گا اور یہ تعادل گھروں سے سماج میں منتقل ہو گا اور پورا سماج اور معاشرہ تعادل اور توازن اختیار کر جائے گا۔
لیکن اگر گھر میں عدل نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو اس گھر میں تربیت پانے والے افراد غیرمتعادل ہوں گے اور ان میں سے ہر کوئی دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرے گا غیرمتعادل شخص صرف اپنے حق پر قائم نہیں رہتا بلکہ دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ درنتیجہ گھر کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اور اگر یہی حال ایک سماج میں موجود تمام گھروں کا ہو تو سماج کی کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ ہم سب کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر گھر میں بچوں کے جنم سے پہلے ماں باپ اپنے گھر کے اصولوں کو عدل کی بنیاد پر قائم کریں اور دونوں خود متعادل شخصیت کے مالک ہوں تو اس گھر میں جنم لینے والے سارے بچے متعادل ہوں گے یعنی جو جس چیز کا حقدار ہو گا وہ اتنا حاصل کرے گا اپنی استعداد و قابلیت سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرے گا اور اس سے کم بھی نہیں لے گا۔
جب گھروں میں عدالت قائم ہو گی تو پورا معاشرہ متعادل ہو جائے گا لیکن برعکس اگر کہا جائے کہ معاشرہ غیرمتعادل ہے اور اس میں دوچار لوگ عادل پیدا ہو جائیں جیسے ہماری فقہ میں کچھ عہدوں کے لیے عدل کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ امام جماعت، امام جمعہ، گواہ اور قاضی ان چند عہدوں پر بیٹھنے والے افراد اگر عادل ہوں گے تو اس سے معاشرے کو کیا فرق پڑنے والا ہے۔ یہ چار افراد پورے سماج میں عدل قائم نہیں کر سکتے اس لیے کہ عدل کو اس سے کہیں زیادہ مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہے۔
عدل قرآنی معاشرے کی ایک صفت
قرآن اور ائمہ طاہرین (ع) کی تعلیمات کی ساری توجہ معاشرے پر تھی لیکن ہمارے علماء اور فقہا کی ساری توجہ افراد پر ہے انہوں نے دین کو انفرادی شکل دے دی ہے جبکہ دین افراد کے لئے نہیں معاشرے کے لیے آیا ہے۔ جیسے حجاب کا حکم معاشرے کے لیے ہے افراد کے لیے نہیں۔ لیکن ہم نے اسے انفرادی حکم بنا دیا جس کی وجہ سے کچھ خواتین حجاب کرتی ہیں جبکہ اکثریت بےحجاب نظر آتی ہے لیکن اگر حجاب کو معاشرے کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے تو پھر ہر خاتون کو حجاب کرنا پڑتا۔ تو اگر معاشرہ باحجاب بن جاتا تو اس میں آنے والی ہر نئی خاتون خودبخود باحجاب بن جاتی۔ اسلام کے تمام احکام اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا: مومن معاشرے کی مثال جسم کی مثال ہے۔ یعنی اگر جسم صحتمند ہے تو اس کے تمام اعضا بھی صحت مند ہیں لیکن اگر جسم بیمار ہو اور ایک عضو صحتمند ہو، اس ایک عضو سے صحت سرایت کر کے پورے جسم میں نہیں جاتی۔ لیکن پورا جسم صحتمند ہے اور صرف ایک عضو بیمار ہے تو سارا بدن مل کر اسے ٹھیک کر دیتا ہے۔ مثل المومنین کمثل الجسد کا یہی مطلب ہے۔
عدل کو بھی اللہ تعالی نے اسی وجہ سے پورے سماج کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اس کی مثال رسول خدا(ص) نے اپنے دور میں قائم کی۔ آپ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس میں تمام اصول لاگو کیے۔ عدل بھی انہیں اصولوں میں سے ایک تھا جسے اس دور کے معاشرے میں قائم کیا لہذا اس معاشرے میں جو بھی شخص اگر باہر سے بھی آتا تھا تو وہ بھی اس معاشرے کی صفات کو اپنی اندر پیدا کر لیتا تھا۔ قرآنی معاشرہ انہیں اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کروں کہ کس طرح رسول اکرم نے اپنے معاشرے میں عدل کے قیام کے لیے جدوجہد کی۔ شادی بیاہ کے مسئلے میں دین و شریعت کا حکم یہ ہے کہ لڑکا لڑکی دونوں ہم کفو ہوں۔ ہم کفو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ظاہری صفات یعنی عمر و قد و شکل و صورت کے علاوہ انسانی صفات و اقدار کے اعتبار سے میل جھول کھاتے ہوں۔ دونوں میں تعادل اور توازن پایا جاتا ہو۔ مثلا ایک اگر دیندار ہے تو دوسرا بے دین نہیں ہونا چاہیے ایک اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے تو دوسرا بالکل جاہل نہیں ہونا چاہیے۔ عمر میں بھی بہت فاصلہ نہ ہو۔ رسول اللہ کے دور میں بعض لوگوں کو ابھی اتنا شعور نہیں آیا تھا اور وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ کے مسئلے میں ان چیزوں کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے جیسا کہ آج بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔ بہت سارے لوگ جناب زہرا(س) کا رشتہ لے کر رسول خدا(ص) کے پاس آتے تھے جن میں جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی، حتیٰ کہ بعض اوقات وہ لوگ بھی بی بی(س) کا رشتہ مانگنے آ جاتے تھے جو خود رسول اللہ سے عمر میں بڑے تھے۔ اور یہ چیز آپ (ص) کو بہت ناگوار گزرتی تھی۔ اسی وجہ سے جب ایک مرتبہ ایک ایسا ہی شخص آپ(ص) کے پاس بی بی(س) کا رشتہ مانگنے آیا تو رسول اللہ نے منہ موڑ لیا اور اس کے جانے کے فورا بعد ایک شخص کو امام علی (ع) کے پاس بھیجا کہ وہ فاطمہ زہرا(س) کے ساتھ رشتہ کریں۔ چونکہ جن کمالات کی حامل بی بی(س) تھی انہیں کمالات کا مالک ان کو ہم کفو چاہیے تھا۔ عدل اسی کا نام ہے۔ لڑکے لڑکی میں انسانی کمالات و صفات کے لحاظ سے تعادل اور توازن پایا جاتا ہو۔
رسول اللہ(ص) کے بعد فاطمہ زہرا(س) کے حق میں پیمانہ عدل کا ٹوٹ جانا
جناب زہرا(س) خود عدل کے گہوارے میں پروان چڑھی تھی لہذا ان کی شادی بےعدالتی سے نہیں ہو سکتی تھی رسول اللہ نے شادی بیاہ سے لے کر حکومتی مسائل تک سب کو عدل کے کسوٹی پر قائم کیا لیکن ایک وقت وہ آیا جب رسول خدا(ص) کے بعد بی بی زہرا(س) کے حق میں اس عدل کے پیمانے کو توڑ دیا گیا جبکہ بی بی کو اس بات کی توقع نہیں تھی۔ بی بی یہ سمجھتی تھیں کہ وہ معاشرہ جسے رسول اللہ نے ان زحمات کے بعد عدل و انصاف کے کس اعلیٰ درجہ تک پہنچایا ہے وہ معاشرہ اپنے اسٹیٹس کو باقی رکھے گا اور جو جس مقام و منزلت کا حقدار ہے اسے وہ مقام ملے گا۔
ذاتی کارکردگی معیار عدل یا حسب و نسب؟
اسی طرح قرآن کریم مومن معاشرے میں ذاتی کارکردگی کو عدل کا معیار قرار دیتا ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ ذاتی کارکردگی سے ہٹ کر حسب و نسب کو معیار سمجھتا ہے۔ باپ دادا اگر صاحب منصب تھے تو بیٹے میں اگر قابلیت نہ بھی ہو تب بھی اس کو مقام و منصب دیا جاتا ہے۔ یہ خلاف عدالت ہے۔ عدالت حسب و نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی کارگردگی کی بنیاد پر کسی مقام و منزلت کا حقدار بناتی ہے۔
عدل اگر سماج میں نافذ ہو جائے تو وہ خودبخود ہر فرد کو اس کا حق دے دیتا ہے۔ چاہے وہ سماجی حق ہو یا سیاسی حق ہو، اقتصادی حق ہو یا حتیٰ اخروی حق کو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اخروی حق کو بھی ذات پات یا حسب و نسب کی بنیاد پر نہیں دے گا بلکہ ذاتی کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر دے گا۔ بنی اسرائیل کا نظریہ یہ تھا کہ اللہ قیامت میں ہماری کاکردگی کو نہیں بلکہ ہماری نسل کو دیکھ کر سزا و جزا دے گا۔ وہ ہمارا نامہ عمل نہیں دیکھے گا نامہ نسب دیکھے گا اور یہی چیز اب مسلمانوں میں بھی آ چکی ہے۔ خاص طور پر شیعوں کو یہ بتایا گیا ہے تمہارا عمل نہیں دیکھا جائے گا بلکہ تمہاری نسبت دیکھی جائے گی۔ جب شیعوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو امام علی(ع) پہلے سے قبر میں موجود ہوتے ہیں اور وہ فرشتوں سے یہ کہتے ہیں کہ اس کا حساب و کتاب کرنے کی ضرورت نہیں یہ ہمارا آدمی ہے چونکہ اس کی نسبت ہم سے ہے لہذا ہم خود اس کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ یہ نظریہ آج شیعوں میں موجود ہے اور بنی اسرائیل سے ہمارے یہاں آیا ہے۔ قرآن سے نہیں آیا ہے۔ چونکہ قرآن میں تو یہ ہے کہ ’’وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ‘‘ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۔ نہ کسی کی شفاعت قبول کی جائے گی نہ کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا۔ نسبت تو بہت دور کی بات، قرآن نے حسب و نسب کو بھی قبول نہیں کیا نبی کے بیٹے کی جب کارکردگی بری نکلی تو اللہ نے اسے بھی اہل سے باہر کر دیا ’’ اِنَّهٗ لَـيۡسَ مِنۡ اَهۡلِكَ ۚاِنَّهٗ عَمَلٌ غَيۡرُ صَالِحٍ ۖ‘‘ یہ تمہارا اہل نہیں ہے اس لیے کہ اس کا عمل اور کردار صالح نہیں ہے۔
قیام عدل سے پورا دین قائم ہونے کا امکان
قرآن کا یہ اصول اگر معاشرے میں قائم ہو جائے تو باقی سارا دین قائم ہو جائے گا۔ تین چیزیں روایات میں آئی ہیں کہ اگر وہ معاشرے میں قائم ہو جائیں تو باقی سارا دین قائم ہو جائے گا۔ ان میں سے ایک ولایت ہے۔ دوسرا امربالمعروف اور نھی عن المنکر ہے اور تیسری چیز عدل ہے یہ تین ستون اگر کسی معاشرے میں قائم ہو جائیں تو باقی سارا دین قائم ہو جائے گا۔ چونکہ یہ خیمہ دین کے مرکزی ستون ہیں۔ اور یہ معاشرے کے اندر قائم ہونا چاہیے۔ چند افراد کے عادل بننے سے معاشرہ عادل نہیں بنتا اور نہ اس میں دین قائم ہو سکتا ہے ہاں معاشرے کے عادل ہونے کی صورت میں افراد عادل بن جاتے ہیں۔ وہ کوئی نہایت ہی فاسق شخص ہو گا جو عادل معاشرے میں بھی مجرم ہو۔
لفظ تنسیک کی تشریح
لہذا معاشرے میں عدل کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بی بی دو عالم(س) نے فرمایا کہ جَعَلَ اَللَّهُ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ: اللہ نے دلوں میں نظم و نسق پیدا کرنے کے لیے عدل قرار دیا ہے۔ یہ ترجمہ خطبے کے ایک نسخے کے مطابق ہے لیکن دوسرے نسخے میں ’’تنسیکا‘‘ استعمال ہوا ہے تنسیک کا لفظ قرآن میں بھی آیا ہے جیسے "ان صلاتی و نسکی”۔ نسک کا مترجمین نے عبادات ترجمہ کیا ہے جبکہ یہ اس کے لغوی معنی نہیں ہیں نسک کے لغوی معنی دھونا اور صاف کرنا کے ہیں جیسے میلے کپڑے کو دھونے کے بعد جب اجلا کر دیا جائے اور اسے اصلی رنگت میں واپس لایا جائے تو اس کو نَسَکَ کہتے ہیں۔ اسی طرح کھیتی باڑی کی زمین جس میں نمکیات آ گئی ہوں اور وہ کھیتی کے قابل نہ رہے کسان کسی حیلے اور حربے کے ذریعے کوشش کرتا ہے کہ اس زمین کو ان نمکیات سے پاک کرے اس عمل کو بھی عرب نسک کہتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کی آلودگی اور گندگی کو ختم کر کے اسے قابل استعمال بنانا۔ گندے پانی کو تصفیہ کر کے اسے پینے کے قابل بنانا نسک ہے۔
حج کے اعمال کو مناسک کہا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو گناہوں میں آلودہ ہو چکے ہیں مکہ میں انہیں حج کے مختلف اعمال کے ذریعے پاک کیا جاتا ہے ان کی آلودگیوں کو دور کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے روایت میں ہے کہ حج کے بعد انسان ایسے ہو جاتا ہے جیسے ماں کے شکم سے دوبارہ متولد ہوا ہے۔
لہذا اگر کپڑے آلودہ ہو گئے ہیں تو انہیں تنسیک کے ذریعے کارآمد بنایا جا سکتا ہے، زمین کھیتی کے قابل نہیں رہی تو اسے تنسیک کے ذریعے کھیتی کے قابل بنایا جا سکتا ہے، پانی آلودہ ہو گیا ہے تو تنسیک کے ذریعے پینے کے لائق بنایا جا سکتا ہے اسی طرح جب انسان گناہوں کی وجہ سے ناکارا ہو جاتے ہیں تو انہیں مناسک حج کے ذریعے تنسیک کر کے کارآمد بنایا جاتا ہے۔
عدل دلوں کی تطہیر کا ذریعہ
بی بی(س) فرماتی ہیں کہ دلوں کی تنسیک کے لیے اللہ نے عدل قرار دیا ہے۔ یعنی دلوں کی تطہیر کے لیے عدل رکھا گیا ہے۔ دل کس چیز سے گندہ ہوتا ہے کہ اس کی تطہیر اور تنسیک کی جانی چاہیے؟ جتنی بھی اخلاقی بیماریاں اور آلودگیاں ہیں ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ نفرت دل میں پیدا ہوتی ہے، کینہ دل میں ہوتا ہے، غیبت، تہمت، بغض بلکہ ہر برائی کا تعلق دل سے ہے۔ دل جب آلودہ ہو جاتا ہے تو اسے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاک کرنے کا ذریعہ کیا ہے وہ جناب زہرا(س) نے فرمایا کہ دلوں کی تطہیر اور تنسیک کا ذریعہ عدل ہے۔ عدل اگر دل میں آگیا تو یہ بیماریاں ایک ایک کر کے ختم ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ یہ سب چیزیں کچرا ہیں اور اگر کسی دل میں یہ سب چیزیں آ جائیں تو وہ کچرے کی ٹوکری بن جاتا ہے۔ کچرے کی ٹوکری میں ہر قسم کا کچرہ ڈالا جاتا ہے۔ اگر کسی انسان کا دل کچرے کی ٹوکری بن گیا تو وہ انسان اس دل کے ساتھ جنت میں کیسے جا سکتا ہے اس لیے کہ جنت پاکیزہ جگہ ہے کچرے کی بدبودار ٹوکری کی جگہ نہیں ہے۔ ایسی ٹوکریوں کے لیے اللہ نے جہنم پیدا کیا ہے جہاں اس طرح کی چیزوں کو جلا کر پاک کیا جائے گا۔
لہذا کچرے کی ٹوکری جیسے دل کو اگر ہم خود اس دنیا میں پاک کئے بغیر یہاں سے چلے گئے تو پھر ہمارا انجام بہت برا ہو گا لہذا ہمیں یہیں پر اسے تنسیک کرنا ہو گا۔ عدل انسان کے دل کو پاکیزہ کر کے اسے متعادل و متوازن بنا دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس دل میں اچھی صفات جو اس دل کے خشبودار ہونے کا سبب بنتی ہیں وہ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
عدل دلوں کی تسکین کا ذریعہ
اس خطبہ فدکیہ کا ایک تیسرا نسخہ ہے جس میں تسکینا آیا ہے۔
تسکین کا مطلب سکون پہنچانا ہے۔ یعنی عدل دلوں کو سکون پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ آج پوری دنیا میں سب سے بڑی مشکل اضطراب اور ڈپریشن ہے۔ ہر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن اور اضطراب کی بہت ساری وجوہات ہیں ان میں سے ایک آج کا سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن ہے۔ جو صبح سے شام تک انسان کو صرف ڈپریشن دیتا ہے۔ سوشل میڈیا آپ کھولیں سب سے پہلے بری خبریں آئیں گی کہ فلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے فلاں جگہ یہ حادثہ ہو گیا اور ٹی وی ہے جو صبح سے شام تک ایک خبر کو بار بار تکرار کر کے انسان کو اضطراب میں مبتلا کرتا ہے۔ ایسے میں صرف عدل ہے جو انسان کو اس طرح کے اضطرابات سے نکال کر دلوں کو سکون پہنچاتا ہے۔
قلب سے کیا مراد ہے؟
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا(س) کی نگاہ میں دل سے کیا مراد ہے جسے عدل سے سکون پہنچتا ہے یا دوسرے نسخوں کے مطابق عدل دلوں کے نظم و نسق یا تطہیر کا باعث بنتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو بےشمار قوتیں رکھی ہیں ان میں سے ایک اہم قوت جو انسان کو دیگر حیوانات سے ممتاز بناتی ہے وہ قوت ادراک یا قوت فہم ہے یعنی سوچنے سمجھنے کی طاقت۔ جس کے ذریعے انسان ہر حقیقت تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ قابلیت دو طرح کی ہے ایک قابلیت وہ ہے جس سے انسان آس پاس کے حقائق کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ جیسے گھر میں اپنے اطراف و جوانب تمام چیزوں کو دیکھتا ہے گھر گندا ہے تو اسے سمجھ میں آتا ہے کہ آج گھر گندا ہے، بازار میں جاتا ہے دکانوں میں رکھی چیزوں کو دیکھتا ہے، راستوں کو دیکھتا ہے کہ فلاں راستہ فلاں طرف جاتا ہے۔ اطراف کے لوگوں کو دیکھتا ہے اور گفتگو کرتا ہے۔ اس میں سب لوگ مرد و زن برابر ہیں۔
دوسری قابلیت وہ ہے جس سے انسان نہ صرف دیکھتا اور سمجھتا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتا ہے مثلا گھر کو اگر گندا دیکھتا ہے تو اسے صاف کرتا ہے دوکان میں رکھی ہوئی چیزوں میں سے اپنی ضرورت کے مطابق چیز لیتا ہے، یہ الگ فہم ہے یعنی ایک قابلیت کے ذریعے انسان صرف چیزوں کو سمجھتا ہے اسے عقل علمی کہتے ہیں اور دوسری قابلیت جس کے ذریعے انسان ان کے بارے میں رائے قائم کرتا اور اپنے فیصلے سناتا ہے اسے عقل عملی کہتے ہیں۔ یعنی اس کے ذریعے انسان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں جگہ جانا ہے یا نہیں جانا، خریدنا ہے یا نہیں خریدنا، کھانا ہے یا نہیں کھانا۔ مثلا یہ معلوم ہے کہ فلاں جگہ مجلس ہے اب مجلس میں مجھے جانا ہے یا نہیں جانا یہ فیصلہ کرنا دوسرا فہم ہے۔ جسے عقل عملی کہتے ہیں۔
قرآن میں قلب سے مراد
جہاں تک کسی چیز کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا فہم ہے اس فہم کو قرآن نے عقل کہا ہے۔ اور علمائے فلاسفہ نے اس عقل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے عقل علمی اور عقل عملی۔ عقل علمی چیزوں کو دیکھتی ہے اور عقل عملی ان کے بارے میں قضاوت کرتی ہے۔ قرآن کریم نے اس مرکز کو جہاں پر چیزوں کے بارے میں فیصلے کیے جاتے ہیں اور جو احساسات و جذبات کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے اسے قلب کہا ہے۔
لہذا قلب سے مراد انسان کے اندر فہم کی وہ قابلیت ہے جس کے اندر احساسات و جذبات کے ساتھ فیصلے ہوتے ہیں۔ جو نفرت و محبت کا مرکز ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ ذہن و دل کو دو الگ الگ چیزیں سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ دونوں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے گھر میں ایک برتن ہے جس کو آپ مختلف چیزوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے انسان کے اندر فہم و ادراک کی ایک ہی دستگاہ رکھی ہے جس سے ہم فہم و ادراک کے کئے کام لیتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک کام احساسات و جذبات اور محبت و نفرت کا کام ہے۔ یا کسی چیز کے بارے میں فیصلہ و قضاوت کرنے کا کام ہے۔ جب ذہن یا عقل یہ کام کر رہے توتے ہیں تو اس وقت اس کو قلب کہتے ہیں۔ لیکن اگر اس سے صرف سمجھنے کا کام لیں فیصلے کرنے یا کسی چیز کے بارے میں حکم لگانے کا کام نہ لیں تو اس کو ذہن یا عقل کہتے ہیں۔ یہ جو سینے میں دل ہے جس کا کام خون پہنچانا ہوتا ہے یہ فہم و ادراک کی قوت نہیں رکھتا۔ یہ صرف اور صرف خون پمپ کرنے کا کام کرتا ہے۔ جگر کا کام خون بنانا ہوتا ہے اور دل کا کام پورے جسم میں خون پہنچانا ہوتا ہے۔ اس میں احساسات و جذبات یا نفرت و محبت کچھ نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ ذہن و دماغ و عقل میں ہے۔ اور اصل جو چیز ادراک کرتی ہے وہ روح ہے ذہن روح کے لیے فہم و ادراک کا آلہ کار ہے۔
دل کو قلب کیوں کہتے ہیں؟
دل کو قلب کیوں کہا گیا؟ بعض لغت دانوں نے لکھا ہے کہ قلب تقلب سے ہے یعنی الٹنا پلٹنا، اور دل چونکہ خون پمپ کرنے کے لیے مسلسل کھلتا بند ہوتا رہتا ہے اس وجہ سے اس کو قلب کہتے ہیں۔ یہ تو اس حد تک ٹھیک ہے۔ لیکن قرآن نے قلب کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کو بھی فہم و ادراک کا ذریعہ قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی مراد یہ سینے میں دھڑکنے والا دل نہیں ہے۔ چونکہ یہ کچھ بھی سوچتا سمجھتا نہیں ہے۔ قرآن میں قلب اسی عقل یا روح کے اندر پائی جانی والی قوت ادراک کو کہا گیا ہے۔
لیکن کیوں اس کو قلب کہا اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں عربوں کی لغت کی چھان بین کرنا ہو گی چونکہ یہ لفظ عربی لفظ ہے اور عربوں نے اس کو سب سے پہلے کہاں استعمال کیا وہ دیکھنا ضروری ہے۔
عربوں نے کجھور کے درخت سے یہ لفظ نکالا ہے۔ عربوں کے یہاں دو چار چیزیں تھیں جن سے ساری لغت انہوں نے بنا لی، کجھور، اونٹ، گھوڑا اور تلوار۔ ان چند چیزوں سے عربی لغت بنی ہے اور یہ بہت بڑی مہارت کی بات ہے۔
کجھور کے درخت کا تنا جو کافی لمبا ہوتا ہے جہاں سے اس پر شاخیں نکلنا شروع ہوتی ہیں اس سے دو تین فٹ نیچے درخت کے اندر ایک سفید رنگ کا ایک مادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ درخت پھولتا پھلتا بھی ہے اور یہ درخت زندہ بھی رہتا ہے اس کو عرب قلب کہتے ہیں۔ کجھور کے درخت کی انسان سے بہت ساری شباہتیں پائی جاتی ہیں۔ باقی سب درخت جڑوں کے کاٹنے کی وجہ سے خشک ہو جاتے ہیں لیکن کجھور کے درخت کا سر کاٹنے سے وہ خشک ہوتا ہے جڑوں کے کاٹنے سے خشک نہیں ہوتا۔
کجھور کے درخت کے اندر سب سے قیمتی چیز یہی ہوتی ہے باقی سارا تنا صرف ایک ڈھانچہ اور لاش کے مانند ہوتا ہے۔ اور یہ مادہ عربوں کی مرغوب غذا بھی ہے اور جب انہیں یہ کھانا ہوتا ہے تو اس کے لیے انہیں پورا درخت کاٹنا پڑتا ہے۔ اس کو قلب نخلہ کہتے ہیں۔ یہ بہت حساس، ظریف اور نازک چیز ہوتی ہے۔ اور کجھور کی جتنی خصوصیات ہیں وہ ساری اس حصے میں ہوتی ہیں۔ اور یہ پورے درخت کی مدیریت کر رہا ہوتا ہے اور چونکہ کجھور کا سب سے خالص حصہ یہی ہوتا ہے اس وجہ سے عربوں نے دیگر چیزوں کے خالص حصے کو بھی قلب کہنا شروع کر دیا۔
اسی اعتبار سے انسان کے اندر بھی جو خالص حصہ ہے اسے قلب کہا گیا۔ انسان کا سارا جسم ایک ڈھانچہ ہے اور اس کی اصل روح ہے اور یہ ساری انسانی قابلیتیں اس کی روح کے اندر موجود ہیں۔ اور روح کا بھی اہم ترین اور خالص ترین حصہ، قوت فہم و ادراک ہے جسے قرآن نے قلب کہا ہے۔ قرآن میں قلب سے مراد جسم کا وہ لوتھڑا نہیں ہے جو خون پمپ کرتا ہے۔ لہذا قلب ہی مرکز علم و معرفت ہے اور اسی پر وحی بھی نازل ہوتی ہے۔ جو کہا جاتا ہے قلب رسول اللہ پر وحی نازل ہوئی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے سینے میں موجود گوشت کے اس لوتھڑے پر وحی نازل ہوئی جو بدن میں خون پہنچانے کا کام کرتا ہے یا ان کے سر اور ذہن پر وحی نازل ہوئی۔ اسی طرح انسان جو علم حاصل کرتا ہے یہ بھی انسان کے سر و کھوپڑی میں ذخیرہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے قلب میں ذخیرہ ہوتا ہے۔ سر میں موجود دماغ قلب میں علوم کے داخل ہونے کا وسیلہ ہے۔ چونکہ قلب انسان کے لیے اساسی و بنیادی چیز ہے اور تمام فیصلے، ارادے اور سوچ و افکار سب قلب کے اندر تشکیل پاتے ہیں اس لیے انسانی حیات میں بنیادی حیثیت قلب کو حاصل ہے جیسے کجھور میں بنیادی حیثیت اس کے تنے میں موجود اس سفید مادے کو حاصل ہے جسے قلب نخلہ کہا جاتا ہے۔
انسان کے بدن کی تمام حرکات و سکنات قلب کے ماتحت ہیں قلب کے حکم کے بغیر آنکھ کی پلک جھپک نہیں سکتی، اسی طرح دین، انسانیت، ہدایت اور گمراہی کا تعلق قلب سے ہے۔ قلب ہر چیز کا مرکز اور بنیاد ہے۔
قلب کو متوازن اور متعادل بنانے کی وجہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قلب کے توازن اور تعادل کا بھی اہتمام کیا ہے۔ چونکہ انسانی وجود میں سب سے زیادہ پرمشقت اور سنگین کام قلب کا ہے لہذا اس کے تعادل و توازن میں بہت جلد خلل واقع ہونے کا خدشہ ہے اس وجہ سے عدل اس میں تعادل و توازن برقرار کرنے کا ذریعہ ہے۔ عدل قلوب کو منظم و مرتب اور یکجہتی اور تسکین دیتا ہے۔
معاشرہ انسانوں سے تشکیل پایا ہے اور معاشرے کا ہر فرد الگ الگ سمت کیوں اختیار کیے ہوئے ہے چونکہ دلوں میں یکجہتی اور ہمسوئی نہیں ہے۔ اس لیے عدل باعث بنتا ہے دلوں میں یکجہتی اور ہمسوئی پیدا ہو۔
مولا امیر المومنین (ع) نے کوفہ میں اپنے لشکر والوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "ایھا الناس مجتمع ابدانھم و مختلف قلوبھم”۔ اے وہ لوگو جن کے بدن تو اکٹھا ہیں لیکن دل متفرق ہیں۔ دل متحد نہیں ہیں۔ نماز میں بھی بدن سب کے ایک صف میں ہوتے ہیں، سب قبلہ رخ کھڑے ہوتے ہیں لیکن دل سب کے ایک ساتھ منظم ہو کر قبلہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اگر بدن اکھٹے ہو جائیں اور دل متفرق رہیں تو امام علی (ع) کے لشکر میں ہونے کے باوجود بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
برعکس اگر جسمانی طور پر متحد اور منظم نہ بھی ہوں لیکن قلبی طور پر متحد اور منظم ہوں تو یہ توانا لشکر ہے اور ایک امت ہے۔ مقصود ایک امت بنانا ہے۔ اس انسانی ریوڑ کو ہمسو کر کے ایک لڑی میں پرونا یہ امت سازی کا کام ہے۔ اس کے لیے نظم و نسق قلبی چاہیے۔ جس کی اکسیر عدل ہے۔ اگر عدل نہیں ہو گا تو ہر قلب اپنی سمت جا رہا ہو گا لیکن اگر عدل آ گیا تو سارے قلوب ایک لڑی میں پروئے جا سکیں گے۔ یعنی انسانی معاشرے کے اندر ہر انسان کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اس کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور اسے اس کی شان کے مطابق مقام پر رکھا جائے یہ چیز دلوں کو متحد و منظم کر دیتی ہے۔
