دعا کی قبولیت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان دعا کے اول و آخر میں محمد و آل محمد پر درود بھیجے۔ صلوات کے لفافے میں لپیٹ کر اگر دعا اللہ کی بارگاہ میں بھیجیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔
پسماندگان مرحوم کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ کیا زندہ مردہ کی یا مردہ زندہ کی مدد کر سکتا ہے؟

﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
بتحقیق جو لوگ ایمان لائے اور یہودی، نصرانی اور صابی ہو گئے جو بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے عمل صالح انجام دیا ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
آج کی یہ مجلس کیونکہ ایک والد کے ایصال ثواب کے لیے ہے اور ہم سب جو اس مجلس میں شریک ہوئے ہیں اپنے آباؤ و اجداد جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کی بخشش اور مغفرت کے لیے ہم اس دنیا میں بیٹھ کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی ان کو اخروی نعمتوں سے نوازے اور ان کے گناہوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
پسماندگان مرحوم کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ہر میت کے رشتہ داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس دنیا میں مرحوم کے لیے کوئی ایسا کام کریں جس سے اس کو وہاں نجات ملے، اس کی مغفرت ہو اور اللہ اس پر اپنی رحمتوں کا نزول کرے۔ یہ میت کے تمام رشتہ داروں کا مشترکہ مقصد ہے۔
قران کریم نے اس کے متعلق کیا فرمایا ہے کہ جو لوگ دنیا سے گزر گئے ہیں ان کو اللہ کیسے اجر دے گا؟ ان کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے کیا نظام بنایا ہے جو دنیا کی زندگی گزار کے اللہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں بارگاہ خداوندی میں انہیں معاف کیا جائے گا اگر گناہگار ہیں اور اور انہیں کیسے اجر سے نوازا جائے گا اگر اطاعت گزار ہیں؟ یا جو مرحوم کے پسماندگان ہیں اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
کیا زندہ مردہ کی یا مردہ زندہ کی مدد کر سکتا ہے؟
اپنے طور پر تو ہمیں علماء، ذاکرین، مفتیان کرام نے بتایا ہے کہ آپ ان کے لیے قران خوانی کریں، صدقہ خیرات کریں، ان کے لیے دعا کریں ان کا اجر ان کو پہنچتا ہے۔ لیکن یہاں پر دو موضوع ہیں کہ کیا دنیا والے مرنے والوں کی موت کے بعد کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ اور کیا مردہ لوگ دنیا میں زندہ لوگوں کی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ دوسرے سوال کے حوالے سے تو اسلامی فرقوں اور مسلکوں میں کافی اختلاف ہے لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ عام آدمی اگر نہیں بھی کر سکتا لیکن شہید تو کر سکتا ہے کیوں کہ وہ مردہ نہیں ہے وہ بنص قرآن زندہ ہے اور اللہ کے یہاں رزق پا رہا ہے، اسی طرح انبیاء اور ائمہ طاہرین علیہم السلام ہماری مدد، نصرت اور شفاعت کر سکتے ہیں، لیکن کیا ہم مرحومین کی مدد کر سکتے ہیں؟ ویسے ہماری تو یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم رسومات کے ذریعے ان کی مدد کریں۔ کیونکہ ہم رسوماتی لوگ ہیں دین سے زیادہ ہم رسومات کے پابند لوگ ہیں برصغیر میں تو رسومات دین سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر کوئی مر جاتا ہے تو ہماری ایک رسم یہ ہے کہ ہم جنازے میں آئے ہوئے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اس رسم کا دین سے کوئی تعلق نہیں یہ ہمارے علاقے کی رسم ہے۔ ہر جگہ کی اپنی اپنی رسومات ہوتی ہیں جیسے شادی بیاہ کی رسومات ہوتی ہیں ایسے ہی موت کی بھی رسمیں ہوتی ہیں۔ رسومات تہذیب اور کلچر کا حصہ ہوتی ہیں دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں رسم یہ ہے کہ اپنے کسی عزیز کی موت پر کالا لباس پہنتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں رشتہ دار کے مرنے پر سفید لباس پہنتے ہیں۔
دین سے زیادہ رسومات کی اہمیت
تو یہ رسم و رواج مختلف ہیں پوری دنیا کے تبدیل ہوتے رہتے ہیں کچھ رسم و رواج لوگ خود بناتے ہیں اور کچھ آباؤ و اجداد سے وراثت میں ملتے ہیں۔ اور آج میڈیا کا دور ہے بہت ساری رسومات ہم سوشل میڈیا سے دیکھ کر کرتے ہیں فلاں علاقے میں موت پر ایسا کیا گیا ہم بھی ویسا کرتے ہیں وہاں علاقے میں شادی پر ایسا کیا گیا ہم بھی ویسا کرتے ہیں۔ رسومات جس قسم کی بھی ہوں، ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ رسومات ہم اپنی تسلی اور تشفی کے لیے کرتے ہیں میت کے لیے نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر یہ مجلس بھی جو ہم کرتے ہیں یہ میت کے لیے نہیں ہوتی یا جنازہ میں جو لوگ شرکت کرتے ہیں وہ میت کے لیے نہیں آتے زندہ لوگوں کو تعزیت دینے کے لیے آتے ہیں۔ بہت سارے جنازوں میں سیاسی لوگ بھی شریک ہوتے ہیں وہ کیوں آتے ہیں اس لیے آتے ہیں کہ الیکشن کے وقت انہیں ووٹ دیا جائے، ان کا میت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میت بخشی جائے یا نہ بخشی جائے سیاسی لوگوں کو اس کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یا کچھ دور پار کے لوگ آتے ہیں جو صرف سماجی طور پر رکھ رکھاؤ کی وجہ سے آتے ہیں یہ سب رسومات ہیں جو ہم خود اپنے لیے کرتے ہیں میت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے کہ جب کوئی مر جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ اللہ تبارک و تعالی کا حکم یہ ہے کہ جب کوئی مومن مسلمان مر جائے تو زندہ رہنے والوں پر اس مرحوم کے کچھ حقوق اور کچھ واجبات عائد ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مرنے والے کے غسل و کفن و دفن کا فورا اہتمام کیا جائے۔ دفن کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ لیکن ہم کیا کرتے ہیں ہم میت کو رکھ کر بیٹے اور بیٹی کا انتظار کرتے ہیں بیٹا لندن سے آ رہا ہے بیٹی امریکہ سے آ رہی ہے۔ میت تین دن چار تک گھر میں رکھی ہوئی ہے۔ یہ درست نہیں ہے یہ رسم ہے ہماری یہ وہ رسم ہے جو ہم نے خود بنا لی ہے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ میت کو جتنا جلدی ممکن ہو غسل و کفن دو نماز میت پڑھو اور دفن کر دو۔ یہ واجبات ہیں۔ جو زندوں پر واجب ہیں۔ علاقے کے سارے مومنین پر واجب ہیں۔ یہ وہ واجبات ہیں جنہیں واجب کفائی کہا جاتا ہے۔ یعنی میت کا غسل و کفن و دفن تمام مسلمانوں پر واجب ہے لیکن اگر چند ایک ان واجبات کو بجا لائیں تو باقی والوں سے ساقط ہو جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب اس میں شامل ہوں لیکن اگر کسی نے بھی انجام نہیں دیا تو سب گناہگار ہیں۔
میت کی تدفین میں تاخیر درست نہیں
لیکن یہ جو ہم میت کو انتظار کرواتے ہیں یہ درست نہیں ہے اگر بیٹے، بیٹی یا کسی دوسرے رشتہ دار کو مرحوم سے اتنی محبت تھی تو تب آتا جب وہ زندہ تھا جب وہ ہسپتال میں تھا جب اس کی خدمت کی ضرورت تھی اسے تب آنا چاہیے تھا۔ لیکن مرنے کے بعد صرف میت کا منہ دیکھنے کے لیے میت کو دو تین دن تک دفن نہ کرنا بالکل درست نہیں ہے۔
اگر رات کو انسان فوت ہوا ہے تو رات کو ہی دفن کر دیں دن کو فوت ہوا ہے تو دن کو ہی دفن کر دیں جتنے لوگ موجود ہیں وہ کفن دفن کے لیے کافی ہیں جو لیٹ آئے ہیں وہ بعد میں آ کے فاتحہ پڑھ لیں قبر پر حاضر ہو جائیں مغفرت کی دعا کریں پسماندگان کو تعزیت پیش کریں۔ ہم لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کر دیتے ہیں۔ وہ کام جس میں نہ اللہ کی رضا ہو اور نہ میت کے لیے کوئی فائدہ ہو ایسے کام کرنے سے مومنین کو پرہیز کرنا چاہیے۔
میت کی مغفرت اور ہماری رسومات
کفن دفن کے بعد کا مرحلہ میت کی مغفرت کا مرحلہ ہے۔ مغفرت کے لیے ہماری کیا کیا رسومات ہیں۔ اور اللہ کا حکم کیا ہے؟ اللہ نے تو میت کی مغفرت کی ذمہ داری نہ میت کے رشتہ داروں پر رکھی ہے اور نہ علاقے کے دیگر مومنین پر۔ کسی زندہ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسی مردہ کو بخشوائے۔ بلکہ ہر انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب تک وہ زندہ ہے اپنی مغفرت کا انتظام خود کرے۔ جب تک آنکھیں کھلی ہیں اپنی بخشش کا اہتمام خود کریں دنیا میں ایسی زندگی گزاریں کہ جب دنیا سے جا رہے ہوں تو آپ کو یقین ہو کہ اللہ آپ کی مغفرت کر دے گا۔ اس لیے کہ اللہ نے دین زندوں کے لیے بھیجا اور اس کے سارے احکام زندوں کے لیے ہیں اگر دین کے مطابق زندگی بسر کی ہے تو انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ اس کی بخشش یقینی ہے۔
لیکن ہم کیا کرتے ہیں اپنی پوری زندگی دین سے الگ بسر کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوسرے ہمیں بخشوا دیں گے۔ کس چیز کے ذریعے؟ مختلف رسومات کے ذریعے۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ نعوذ باللہ اللہ کے دین میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا رسول اللہ ہمیں بتانا بھول گئے یا جبرائیل لانا بھول گئے یا صحابہ نے ہم تک نہیں پہنچایا۔ اس لیے ہم اپنی رسومات کے ذریعے مرحوم کو بخشوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رسومات دین کی کمیاں نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری تسلی کے لیے ہے بعض اوقات ہوتا ہے ہم دینی واجب پر عمل کر لیتے ہیں لیکن کہتے ہیں ہمیں صحیح تسلی ہو نہیں رہی ہے ہم اپنی تسلی کے لیے یہ کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ تو رسومات وہ ہیں جو ہم اپنی تسلی کے لیے کرنا چاہتے ہیں ورنہ اگر ہم اللہ تبارک و تعالی کے دین کے مطابق زندگی گزاریں تو کوئی کمی نہیں رہے گی تاکہ ہم اپنی تسلی مزید اضافی کاموں سے کریں۔
مغفرت کے بارے میں اللہ کا حکم
مغفرت کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے مکمل طریقہ بتا دیا ہے ایک طریقہ اسی آیت میں بیان ہوا ہے جس کی میں نے ابتدائے گفتگو تلاوت کی تھی۔ سورہ بقرہ کی آیت 62 ہے۔ اس کے اندر اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں۔ یعنی اللہ کی توحید پر ایمان لائے رسول کی نبوت پر ایمان لائے قرآن پر ایمان لائے۔ قیامت پر ایمان لائے، ان کو قرآن مومن سمجھتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ہیں جو رسول اور قرآن پر ایمان نہیں لائے بلکہ یہودی، نصرانی اور صابی ہی رہے۔ صابی کون لوگ ہیں؟ صابی وہ لوگ ہیں جو جناب یحییٰ (ع) کے پیروکار ہیں۔ جناب یحییٰ جناب زکریا (ع) کے بیٹے تھے۔ ان کے پیروکاروں کو صابی کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا کہ نہیں جناب داوود کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جن کی کتاب زبور تھی۔ لیکن بہرحال قرآن نے چار ادیان کا ذکر کیا ہے مسلمان، یہودی، عیسائی اور صابی۔ یہ اگر مریں گے تو ان کی مغفرت کیسے ہو گی؟
قرآن نے چار دینوں کا ذکر کیا لیکن دائرہ اتنا محدود نہیں ہے۔ ہر دین اور مذہب کے اندر اپنے اپنے فرقے ہیں باقی ادیان کو چھوڑیئے خود مسلمانوں کے اندر کتنے فرقے ہیں اگر ان سے پوچھیں کہ مرنے کے بعد تمہاری مغفرت کیسے ہو گی تو ہر کوئی اپنا اپنا چاٹ دکھائے گا۔ اپنا اپنا نسخہ بتائے گا۔ لیکن کیا ان بنایا ہوا نسخہ وہی نسخہ ہے جو اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے جائیں اور پرنسپل سے کہیں کہ آپ اپنی یونیورسٹی میں میرا ایڈمیشن تو لے لیں لیکن میں یونیورسٹی میں رہ کر یونیورسٹی کے قانون کے بجائے اپنے قانون پر عمل کروں گا۔ قانون میرا ہو گا یونیورسٹی آپ کی ہو گی۔ اللہ ہمیں جنت میں لے جائے لیکن جنت اللہ کی ہو گی جنت میں جانے کا قانون میرا ہو گا۔ کیا یہ ممکن ہے؟
میت کی مغفرت کے بارے میں لوگوں کا نظریہ
مغفرت اللہ نے کرنی ہے، جنت میں اللہ نے لے جانا ہے جنت کی نعمتیں اللہ نے دینی ہیں تو ضابطہ بھی اللہ کا ہو گا قانون بھی اللہ کا ہو گا جنت تک جانے کا راستہ بھی اللہ کی طرف سے بیان کردہ ہو گا۔ اپنے طریقہ کار سے اللہ کی جنت میں ایڈمیشن نہیں مل سکتی، اللہ کے قانون پر ملے گی۔
اللہ نے اپنا ایک قانون سورہ بقرہ کی اس آیت میں بیان کیا ہے اور اس غلط فہمی کو دور کیا ہے کہ جو مختلف ادیان نے جنت میں جانے اور اللہ سے بخشش کروانے کے اپنے اپنے ضابطے بنا رکھے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ خدا ہمارے بنائے ہوئے ضابطے اور قانون کی بنا پر ہمیں بخش دے گا یہودیوں کا اپنا ضابطہ ہے، عیسائیوں کا اپنا طور طریقہ ہے، صابیوں کا اپنا سلسلہ ہے، مسلمانوں کے یہاں بخشش کا دستور ہے اور پھر مسلمانوں کے اندر جتنے فرقے ہیں شیعہ، سنی اور سنیوں کے اندر کتنے فرقے ہیں ہر ایک مرنے کے بعد اللہ سے بخشش اور معافی کا اپنا دستور بیان کرتا ہے۔ شیعوں کا تو کہنا ہے کہ ہمارے پارٹی بہت مضبوط ہے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، چونکہ جنت کے سردار ہمارے ہیں، مولا علی تو قبر میں ہی ہمارے استقبال کے لیے پہنچ جائیں گے، دیوبندیوں کا کہنا ہے کہ ہماری پارٹی تو شیعوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے ہم عاشق رسول ہیں اور رسول اکرم کے عاشق کو بھلا جہنم میں ڈالا جا سکتا ہے!۔ رسول اکرم محشر میں کرسی لگا کر بیٹھے ہوں گے اور اپنی امت کی بخشش کروا دیں گے ہمیں دنیا میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہودیوں کا بھی یہی نظریہ تھا کہ جناب ابراہیم جنت اور جہنم کے درمیان کرسی لگا کر بیٹھیں ہوں گے اور تمام بنی اسرائیل کو اللہ سے بخشوا کر جنت میں بھجوا دیں گے، عیسائیوں کا بھی یہی نظریہ تھا کہ جناب عیسی نے تو ان کی بخشش کے لیے اپنی قربانی دے دی، اب ہم جو بھی گناہ کریں ہماری بخشش یقینی ہے چونکہ ہمارے گناہوں کی قربانی خود جناب عیسی دے چکے ہیں۔ شیعوں کی بھی یہی فکر ہے کہ امام حسین (ع) نے اپنی قربانی دے دی آپ صرف امام حسین (ع) پر گریہ کرو آپ کی بخشش یقینی ہے۔
مغفرت کا معیار ایمان اور عمل صالح
مغفرت کے لیے ہر کوئی اپنا فارمولا بیان کرتا ہے لیکن اللہ نے اس فکر کو باطل قرار دیا اور فرمایا کہ یہودی ہوں، عیسائی ہوں، صابی ہوں، مسلمان ہوں، شیعہ ہوں سنی ہوں جو بھی ہوں مغفرت کا صرف ایک ہی فارمولا ہے اور وہ ہے ایمان اور عمل۔ نہ حسب، نہ نسب، نہ پارٹی نہ کچھ اور، ایمان اور عمل کے سوا کوئی دوسرا معیار نہیں ہے۔ اور پھر ایمان اور عمل دونوں شرط ہیں نہ تنہا ایمان کافی ہے اور نہ تنہا عمل صالح۔ ورنہ یہودیوں کا ایمان اور عقیدہ تو یہ تھا اور ہے بھی کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں اور جنت صرف انہیں کے لیے بنی ہے۔ ان سے عمل کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں جائے گا۔ جیسے یہاں پر اگر کسی بڑے فنکشن میں اگر وزیر اعظم صاحب کا بیٹا ہے کسی وزیر اعلیٰ کا بیٹا ہے یا کسی بڑے فوجی جنرل کا بیٹا ہے تو بنا آئی کارڈ کے اسے جانے دیا جاتا ہے لیکن عام آدمی کو دسیوں ثبوت پیش کرنے کے بعد بھی انٹر نہیں ہونے دیتے۔ یہودیوں کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ان کی اللہ سے رشتہ داری ہے جنت اللہ نے ان کے لیے بنائی ہے باقی لوگ ان کے نوکر اور خدمت گزار ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ یہودیوں نے پیغمبر اسلام کو نبی قبول نہیں کیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب رسول اکرم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو یہودی پہلے سے وہاں موجود تھے۔ یہ یہودی مدینہ کے مقامی لوگ نہیں تھے بلکہ فلسطین سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہوئے تھے چونکہ ان کی کتابوں میں تھا کہ اس علاقے میں آخری نبی آئے گا۔ اور ایسا ہی ہوا جب پیغمبر اکرم وہاں تشریف لے گئے تو وہ یہودی جو پہلے سے نبی کے منتظر تھے اور فلسطین اور دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہوئے تھے انہوں نے آپ کے اندر نبوت کی ساری علامتیں دیکھ لیں لیکن صرف اس وجہ سے آپ (ص) کا کلمہ نہیں پڑھا اور مسلمان نہیں ہوئے چونکہ آپ (ص) یہودی نسل میں سے نہیں تھے جناب اسحاق(ع) کی نسل سے نہیں تھے بلکہ جناب اسماعیل کی نسل سے تھے۔ لہذا صرف یہودی نہ ہونے کی وجہ سے نہ آپ (ص) پر ایمان لائے اور نہ قرآن کو تسلیم کیا۔
الغرض، نہ یہودیوں کو اللہ سے رشتہ داری انہیں عذاب جہنم سے بچا پائے گی نہ عیسائیوں کو حضرت عیسی (ع) کی قربانی بچا پائے گی، اور نہ مسلمانوں کو رسول اکرم کی رحمت اگر ایمان اور عمل صالح نہیں ہے۔ یہ سارے خود ساختہ معیار ہیں لیکن حقیقی معیار وہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔
اللہ نے اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل کی کہ انسان چاہے کسی بھی نسل و رنگ کا ہو چاہے کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک سب کی مغفرت کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے ایمان اور عمل صالح۔ ایمان و عمل صالح کے علاوہ آپ ہزاروں رسمیں بنا لو، دسیوں پارٹیاں بنا لو، کسی سے بھی اپنا رشتہ جوڑ لو، اللہ نے نہ شجرہ نسب دیکھنا ہے، نہ بلڈ گروپ دیکھنا ہے نہ کچھ اور دیکھنا صرف دو ہی چیزیں دیکھنی ہیں ایک ایمان اور دوسری عمل صالح۔
ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں
اب کوئی اگر یہ سوال کرے کہ بہت سارے لوگ ہیں جو مسلمان نہیں ہیں لیکن انہوں نے بہت سے اچھے کام کئے ہیں رفاہ عام کے لیے، اللہ کے بندوں کے لیے انہوں نے بہت خدمات انجام دی ہیں ان کی مغفرت کیسے ہو گی؟ معیار سب کے لیے یہی ہے، کسی ہاسپیٹل بنوایا، کسی نے مسجد بنوائی، کسی سڑک بنوائی کسی نے گاڑی بنائی کسی نے یونیورسٹی بنوائی، ان سب نیک کاموں کا اجر اسے آخرت میں تبھی ملے گا جب وہ مومن ہو گا، اس لیے اس کے پاس ایک چیز تو ہے یعنی عمل صالح ہے لیکن ایمان نہیں ہے۔ آخرت میں مغفرت کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے۔ ان کے ساتھ اگر دیگر خدمات بھی ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ انسان کی مغفرت کرے گا۔
ایمان اور عمل صالح بھی صرف اپنا ہونا چاہیے ایسا نہیں ہے کہ مرنے والا ایمان اور عمل صالح کے بغیر مرا، ہم مرنے کے بعد اس کے لیے ایمان اور عمل صالح ایصال کر دیں۔ نہ کسی کا ایمان کسی دوسرے کے کام آ سکتا ہے اور نہ کسی کا عمل۔ ایمان اور عمل تقسیم یا شیئر کی جانے والی چیزیں نہیں ہیں، کسی کو ٹرانسفر کی جانے والی چیزیں نہیں ہیں، ایمان اور عمل ایصال کی جانے والی چیزیں نہیں ہیں۔ نہ میرے باپ کا ایمان مجھے کام آئے گا نہ میرا ایمان میرے باپ کے کام آ سکتا ہے۔ اسی طرح میرے باپ کا عمل بھی میرے کام نہیں آ سکتا اور میرا عمل بھی میرے باپ کے کام نہیں آ سکتا۔ ہر انسان کا اپنا ایمان اور عمل صالح اس کے کام آئے گا۔ اور اگر یہ دو چیزیں نہیں ہیں تو انسان سخت نقصان میں ہے۔ والعصر ان الانسان لفی خسر۔ زمانے کی قسم انسان سخت گھاٹے میں ہے۔ مگر وہ انسان جو ایمان اور عمل صالح رکھتا ہے۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات۔
ایمان و عمل صالح مطابق حکم خدا ہو
آخری نکتہ یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح بھی وہ ایمان اور عمل صالح جو اللہ کی بتائی ہوئی کسوٹی پر ہو نہ اپنی مرضی کا ایمان اور اپنی چاہت کا عمل۔ جن چیزوں پر ایمان لانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ان پر ایمان ہو گا تو قابل قبول ہے اور حکم خدا کے مطابق عمل ہو گا وہ عمل صالح ہے۔ اور اس عمل پر پروردگار عالم اجر دے گا، اپنی رحمت سے نوازے گا اور جنت میں مقام عنایت کرے گا۔
اس ایمان اور عمل کا ایک وقت مقرر ہے اس مقررہ وقت میں اگر ایمان لایا اور عمل کیا تو بخشش ہو گی اور وہ وقت ہے موت۔ موت سے پہلے ایمان اور عمل صالح کا ہونا ضروری ہے۔ فرعون نے جب موت کو آنکھوں سے دیکھا تو ایمان کا اقرار کیا لیکن اللہ نے اس کے ایمان کو قبول نہیں کیا۔
جوانی کا ایمان اور عمل صالح خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے عمر جب ڈھل جائے بڑھاپا طاری ہو جائے بدن میں طاقت نہ ہو اعمال صالحہ انجام دینے کی توانائی نہ رہ گئی ہو ایسے عالم میں اگر انسان نیک اعمال بجا لانے کی کوشش بھی کرے گا تو اس سے کچھ ہو نہیں پائے گا۔ لہذا جب دنیوی زندگی کا خاتمہ ہو گیا تو ایمان کی مہلت بھی ختم ہو گئی عمل صالح کی مہلت بھی ختم ہو گئی۔ اب کوئی دوسرا آپ کے لیے اعمال صالحہ انجام دے کر دنیا سے آخرت کی طرف بھیج نہیں سکتا۔
آخرت میں ثواب بھیجنے کے دو طریقے
ہاں دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ ہے جس سے دنیا کا عمل آخرت میں آپ کے کام آ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے کوئی ایسا عمل انجام دیا جو آپ کے مرنے کے ساتھ ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ وہ عمل دنیا میں باقی رہ گیا جیسے کوئی مسجد تعمیر کروا دی، کوئی ہاوسپیٹل تعمیر کروا دیا، کوئی مدرسہ بنوا دیا، کہیں پر چشمہ کھدوا دیا، کہیں پر درخت لگوا دیا، کہیں پر راستہ بنوا دیا، اولاد صالح پیچھے چھوڑ گئے، یہ وہ کام ہیں جو موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتے اور جب تک باقی رہیں گے آپ کو ان کا اجر ملتا رہے گا۔
دوسرا طریقہ ہے دعا۔ یعنی زندہ رہ جانے والے مرحوم کی مغفرت کی دعا کریں یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جب مومن، باایمان لوگ مل کر کسی مرحوم مومن کی مغفرت کے لیے دعا کریں تو پروردگار عالم اس مرحوم کو معاف کر دیتا ہے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے امت کی بخشش کے لیے دو راستے ایک رسول خدا اور دوسرا استغفار۔ پہلا راستہ رسول اکرم کے جانے بند ہو گیا لیکن دوسرا راستہ قیامت تک سب کے لیے کھلا ہے۔ لہذا زندہ لوگوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو اور مرنے والوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو۔
دعا کی قبولیت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان دعا کے اول و آخر میں محمد و آل محمد پر درود بھیجے۔ صلوات کے لفافے میں لپیٹ کر اگر دعا اللہ کی بارگاہ میں بھیجیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ ہم اپنے مرحومین کے لیے یہ مجالس عزا اسی لیے منعقد کرتے ہیں کہ پروردگار عالم ان پاکیزہ ہستیوں کے طفیل وہ مغفرت کی دعا جو اپنے مرحومین کے لیے کرتے ہیں اسے مستجاب فرمائے۔
اور بی بی زہرا سلام اللہ تعالی علیہا فرماتی ہیں کہ جب مغفرت کی دعا کرو تو پہلے دوسروں کے لیے طلب کیا کرو بعد میں اپنے لیے کرو چونکہ اپنے لیے ہماری دعا شاید قبول ہو لیکن جو دوسروں کے لیے دعا کرتے ہیں وہ یقینا قبول ہوتی ہے۔
لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان مرنے سے پہلے اپنا نصاب مکمل کرے، ایمان اور اعمال صالحہ کا نصاب مکمل کرے، اگر باقیات الصالحات چھوڑ کر گیا ہے تو دنیا سے ان کا اجر بھی اس کو پہنچتا رہے گا اور اس کے بعد ہم دعائے مغفرت کے ذریعے اس کی مدد کر سکتے ہیں ہم محمد اور آل محمد کے صدقے میں اللہ سے دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ لیکن اگر اپنا نصاب مکمل نہیں ہے پھر کوئی دوسرا کچھ بھی اس کے لیے نہیں کر سکتا۔