یحییٰ سنوار کا ان یرغمالیوں کو مخفی اور محفوظ جگہ پر رکھنا ہے جسے آج تک اسرائیل اور امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اور اپنی ٹکنالوجی کے زور سے چپہ چپہ کو سکین کر رہے ہیں کہ کہیں انہیں یرغمالیوں کا سراغ مل سکے لیکن ایک سال سے انہیں ان کا پتہ نہیں ملا۔
یحییٰ سنوار کی شخصیت کے منفرد پہلو

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
18 اکتوبر 2024
اس ہفتے کا اہم ترین موضوع یحییٰ سنوار کی شہادت ہے جو اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کے سربراہ مقرر ہوئے تھے اور ۷ اکتوبر کے حملے کا ماسٹر مائنڈ تھے امریکیوں اور اسرائیلیوں پر ان کے نام کی دھشت اس قدر سوار تھی کہ ان کی نیندیں اڑیں ہوئی تھیں وہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے ہیں خدا ان کو غریق رحمت کرے۔
گزشتہ اس سال کی جنگ میں جہاں غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے وہاں حماس اور حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈرز کو بھی شہید کر دیا ہے، دشمن نے یحییٰ سنوار کی شہادت کو اپنے لیے بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے گرچہ انہوں نے سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر بھی خوشیاں منائیں ہیں لیکن جتنی خوشی ان کو اس شہادت پر ہوئی ہے اتنی کسی شہادت پر نہیں ہوئی۔
طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد جو کچھ گزشتہ ایک سال میں ہوا ہے دشمنوں نے کیا کیا جرائم کئے اور ان کے مقابلے میں مزاحمت نے کیا رویہ اختیار کیا اور پھر اس درمیان مسلم ممالک کا کیا کردار رہا ہے ان سب موضوعات پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔
گرچہ آج کا میڈیا جو ایک خناس میڈیا ہے اور جس نے سچ و جھوٹ کو اس قدر گڈمڈ کر دیا ہے کہ سچ و جھوٹ کی پہچان عام لوگوں کے لیے بہت مشکل ہو گئی ہے۔
یہ صہیونی اور شیطانی میڈیا فلسطین سے متعلق حقائق سامنے نہیں آنے دیتا، ایسی صورت میں مسلمانوں میں جو سنجیدہ لوگ ہیں جو میڈیا سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ میڈیا کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع ابلاغ تیار کریں جیسا کہ چین اور ایران نے کر لیا ہے۔ یہ کام مومنین اور انقلابی لوگوں کو کرنا چاہیے تاکہ ایسے مواقع پر حقائق مسخ ہو کر لوگوں تک نہ پہنچیں بلکہ اصلی حالت میں پہنچائے جا سکیں۔ اگر لوگوں تک حقائق و واقعات کا صحیح تجزیہ و تحلیل نہ پہنچ سکے تو لوگوں میں گمراہی اور مایوسی پھیل جاتی ہے۔
اسرائیل نے اس یلغار کے اندر جو کامیابیاں حاصل کی ہے وہ یہ ہیں کہ اس نے حماس اور حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت نیز بعض ایرانی کمانڈروں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ اس کی جنگ کا حصہ تھا لیکن جو اسرائیل نے شہروں پر بمباری کی، شہروں کو مٹی کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا اور بے گناہ بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا یہ اس کی جنگ کا حصہ نہیں بلکہ انہیں جنگی جرائم کیا جاتا ہے۔
اس جنگ میں دو چیزیں نظر آئی ہیں ایک جنایت اور دوسری خیانت۔ اسرائیل اور اس کے ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس جنایت کا حصہ ہیں گرچہ عالمی عدالت میں ان کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے لیکن کوئی بھی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ آج کی دنیا کے لیے یہ بہت بڑا سوال ہے کہ کچھ جرائم پیشہ ممالک مسلسل جنایات اور جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور نسل کشی کر رہے ہیں لیکن کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔
دوسری طرف خیانتکار ہیں جن میں سارے عرب ممالک شامل ہیں اور ان کا سرغنہ سعودی عرب ہے۔ یہ اس خیانت میں سوسالہ تاریخ رکتھے ہیں جس طرح ادھر جنایت اوج پر ہے اسی طرح ادھر خیانت بھی اپنے اوج پر ہے۔
قیادت کو نشانہ بنانا ان کی جنگی کامیابی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس جنگی قیادت کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ کیا حماس اور حزب اللہ کی قیادت کی شہادتوں کے بعد حماس اور حزب اللہ کی مزاحمت کم ہوئی ہے یا نہیں؟
اگر خیانتکاروں کا تعاون نہ ہوتا تو اسرائیل کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے کسی ایک مقصد میں بھی کامیاب ہوتا۔ جیسے حزب اللہ کے پیجرز پٹھے تو اس میں زیادہ کردار خیانتکاروں کا تھا۔
شہید یحییٰ سنوار کی شہادت کو بھی اگر ہم اسی تناظر میں دیکھیں تو ان کی شہادت بہت انوکھی ہے چونکہ یہ وہ شخص ہے جو حماس کا ماسٹر مائنڈ تھا اور امریکہ، اسرائیل حتی عرب ممالک مصر، سعودی عرب، عرب امارات یہ سب یحییٰ سنوار سے بہت خوفزدہ تھے چونکہ یحییٰ سنوار صرف عسکری لیڈر تھے، جنگی اور میدانی کمانڈر تھے سیاسی کمانڈ اسماعیل ہنیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جنگی نقشے بنانا، انہیں عملی جامہ پہنانا، دشمن کے جنگی نقشوں کو ناکام بنانا اور مختلف حربے اپنانا یہ سیاسی قیادت کا کام نہیں ہوتا یہ وہ شخص کر سکتا ہے جو خود میدان جنگ کا آدمی ہو۔ حماس کی جنگی اسٹریٹجی بنانے والا یحییٰ سنوار تھا۔ اس آدمی کے دل میں ذرہ برابر کسی چیز کا خوف نہیں تھا، وہ غزہ کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے وہیں پر تعلیم حاصل کی اور اسی کیمپ میں رہ کر انہوں نے مزاحمت کی راہ میں قدم رکھا اور اس قدر ذہین اور مہارت رکھنے والے آدمی تھی کہ انہوں نے اتنی تیز انٹیلیجنس کے باوجود طوفان الاقصیٰ کے نام سے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا کہ جس کی خبر کسی کو نہ لگ سکی، یہ بہت بڑا کام ہے انہوں نے اسرائیلی فوج کے حصار میں رہ کر کس طرح سے اپنے سپاہیوں کو ٹریننگ دی کہ وہ ایک کامیاب کاروائی کر سکیں جس کے سامنے موساد اور اسرائیلی فوج کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔
دوسرا کارنامہ یحییٰ سنوار کا ان یرغمالیوں کو مخفی اور محفوظ جگہ پر رکھنا ہے جسے آج تک اسرائیل اور امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اور اپنی ٹکنالوجی کے زور سے چپہ چپہ کو سکین کر رہے ہیں کہ کہیں انہیں یرغمالیوں کا سراغ مل سکے لیکن ایک سال سے انہیں ان کا پتہ نہیں ملا۔
لہذا ایسی شخصیات بار بار نہیں ملتی، یہ کہنا کہ ان شخصیات کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، غلط ہے یقینا فرق پڑتا ہے لیکن دوسرے پہلو سے اگر دیکھا جائے جیسا کہ ابھی مسلسل دیگر ممالک کے سربراہان یہ اظہار نظر کر رہے ہیں کہ حماس کا خاتمہ ہو جائے گا اور یہ جنگ بند ہو جائے گی یہ بھی غلط ہے اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ان شخصیات کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مزاحمت ابھی بھی اپنی جگہ جاری رہے گی۔
لیکن پہلے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یقینا اس حوالے سے فرق پڑتا ہے چونکہ جو ان کے ساتھی ہوتے ہیں ان کی اپنے کمانڈروں اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ دلی وابستگی ہوتی ہے وہ عام فوج کے کمانڈروں کی طرح نہیں ہوتے جہاں صرف پیشہ ورانہ کمانڈ ہوتی ہے مزاحمتی گروہوں میں سپاہیوں کی اپنے کمانڈروں کے ساتھ بہت وابستگی ہوتی ہے جنہوں نے انہیں تیار کیا ہوتا ہے وہ ان کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
ان پہلووں کو اگر ہم میدان کربلا میں دیکھیں کہ جہاں پر امام حسین خود قیادت فرما رہے تھے لیکن اپنے عزیزوں کے جانے سے کتنا متاثر ہوئے تھے حضرت عباس کی شہادت نے کس قدر ان پر اثر ڈالا کہ آپ نے فرمایا کہ میری کمر ٹوٹ گئی ہے۔ کسی نظام کے جو بنیادی ستون ہیں ان کے جانے سے یقینا اس نظام کے ماننے والوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر ہم لوگوں پر جو ان سے لاتعلق ہیں، اتنا اثر ہو سکتا ہے تو جو افراد ان کے دست پروردہ ہوتے ہیں ان پر بھی یقینا دکھ اور افسوس طاری ہوتا ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہوتے اور خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہوتے۔
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے جانے سے یا حماس کے سربراہان اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے جانے سے ان تنظیموں کے حوصلے پست ہو جائیں گے تو یہ غلط سوچ ہے شہادتوں کا اثر ضرور پڑتا ہے جب امام معصوم پر اثر پڑ سکتا ہے جب رسول خدا پر جناب حمزہ کی شہادت کا اثر پڑ سکتا ہے جب امیر المومنین پر جناب مالک اشتر کی شہادت کا اثر پڑ سکتا ہے تو یقینا ان شخصیات کی شہادتوں سے ان تنظیموں کے افراد اور ان سے متعلق لوگوں پر بھی گہرا اثر پڑا ہو گا اور ان پر گراں بھی ضرور گزرا ہو گا لیکن اہم یہ ہے کہ نہ وہ مایوس ہوتے ہیں اور نہ ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔
چونکہ ان لوگوں نے جب کسی منصوبہ کی پلاننگ کرنا ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ یہ خود محفوظ بنکروں میں بیٹھ کر اسٹریٹجی بناتے ہیں اور فوج کو میدان جنگ میں بھیج دیتے ہیں یہ دنیا کی افواج کا دستور ہوتا ہے لیکن اسلامی اور قرآنی جہاد میں کمانڈر محفوظ بنکروں میں نہیں بیٹھتے بلکہ خود میدان جنگ میں حاضر ہوتے ہیں۔
آپ دیکھیں امام حسین سے عقیدت رکھنے والے تو بہت ہیں لیکن امام حسین کے مشن اور مقصد کو اپناننے والے بہت کم ہیں امام حسین کا مشن یہ تھا کہ آپ نے یزیدیت کے خلاف قیام کیا ظلم کے خلاف قیام کیا لیکن اس مشن کو اپنانے والے دنیا میں بہت کم ہیں، لیکن دوسری وجوہات کی بنا پر امام حسین سے عقیدت اور محبت رکھنے والے بہت ہیں جو صرف روتے اور رلاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ وہ یزید کے خلاف قیام کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہیں بلکہ خود یزید کے ساتھ بیٹھنے والے لوگوں میں سے ہیں۔
وہ لوگ جو یزید وقت کے خلاف قیام کرنے والے ہیں وہ بہت کم ہیں امام خمینی نے قیام کیا اور قلیل تعداد نے ان کا ساتھ دیا اور ان کے بعد یہ مزاحمتی گروہ وہ ہیں جو اس راستے پر گامزن ہیں۔ لہذا امام حسین کی اسٹریٹجی میں یہ نہیں ہے کہ امام حسین کسی محفوظ جگہ پر بیٹھ جائیں اور لشکر کو میدان میں بھیج دیں۔ یہ امام حسین کو گوارا نہیں ہے۔ امام حسین کے راستے کے علاوہ ہر جگہ آپ کو یہ نظر آئے گا کہ قائد کو ہر صورت میں تحفظ دیا جاتا ہے اور باقی والوں کو خطرے کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ امام حسین کا یہ کردار تھا کہ دوسرے واپس چلے جائیں اور اپنی جانیں بچا لیں اور امام حسین تنہا میدان جنگ میں چلے جائیں، ان مزاحمتی گروہوں میں بھی یہی ہے کہ کمانڈر خود بھی میدان میں ہوتا ہے اور فرنٹ لائن پر لڑتا ہے اور انہیں اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ اگر کمانڈر مر جائے تو مزاحمت ختم ہو جائے گی، مشن ختم ہو جائے گا جس طرح امام حسین کے شہید ہونے سے حسینیت ختم نہیں ہوتی مزاحمت اور مقاومت جاری رہتی ہے اسی طرح ان کے مشن پر چلنے والوں کی تحریکیں بھی شہادتوں سے ختم نہیں ہوتیں۔ گرچہ شہادتوں سے دکھ بہت ہوتا ہے لیکن یہ دکھ راستے اور مشن پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
غیر تربیت یافتہ لوگوں میں احساسات و جذبات ارادوں پر اثرانداز ہو جاتے ہیں جبکہ حسینی مکتب کے تربیت یافتہ افراد میں ارادے احساسات و جذبات کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔
انقلاب اسلامی میں ایسے واقعات ہم نے بار بار دیکھے ہیں کہ امام راحل رضوان اللہ علیہ نے انقلابی ملت تربیت کرتے ہوئے یہ بتایا کہ آپ کو بڑی بڑی ضربتیں لگیں گی شہید بہشتی ۷۲ افراد کے ساتھ ایک دن میں شہید ہو گئے احساسات و جذبات سخت مجروح ہوئے لیکن ارادے کمزور نہیں ہوئے ملک کے صدر کو بمب کے ذریعہ شہید کر دیا گیا، احساسات پر ضرب لگی لیکن ارادے مغلوب نہیں ہوئے اور ایک دن امام خمینی خود دنیا سے چلے گئے شدید حزن طاری ہوا لیکن ارادے مضبوط رہے، آپ حماس میں دیکھیں شہید احمد یاسین جیسی شخصیت، جب شہید ہوئے صدمہ شدید ہوا لیکن ارادے پست نہیں ہوئے اور ایک نہیں لگ بھگ بیس اعلیٰ قیادت کے افراد شہید ہوئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ دکھ نہیں ہوا دکھ بہت ہوتا ہے لیکن ارادے کمزور نہیں ہوتے۔ جو شخص ایک کمانڈر کی حیثیت سے فرنٹ لائن پر آ کر لڑتا ہے کیا اسے پتہ نہیں ہے کہ وہ شہید ہو جائے گا وہ اپنے پیچھے انتظام کر کے گولیوں کے آگے سینہ سپر بنتا ہے۔ اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ جب اپنی کسی نشانی کو اٹھاتا ہے تو اس سے بہتر نشانی عطا کرتا ہے۔
ان نشانیوں میں سے ایک مزاحمت و مقاومت کے قائدین ہیں جس طرح سے پہلے والی نشانیوں کو جب اٹھایا گیا تو ان سے بہتر نشانیاں لائی گئیں۔ ہمیں امید ہے کہ جو قوم اتنی بڑی قربانی دے سکتی ہے وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتی۔
ہماری سوسائٹی اور ہمارے کلچر میں موت و حیات میں سے بہرصورت حیات کو ترجیح دی جاتی ہے اور حیات کے تحفظ کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے لیکن فلسطین میں ایسا نہیں ہے فلسطین میں یہ طے شدہ بات ہے کہ انہیں مرنا ہے لیکن ترجیح اس بات کو دی جاتی ہے کہ کسی طرح مرنا ہے عزت کے ساتھ مرنا ہے یا ذلت کے ساتھ، غلامی میں مرنا ہے یا آزادی میں، یہ بات سب فلسطینیوں اور حزب اللہ والوں کی ہے لیکن سب لبنانیوں کی نہیں ہے، لبنان کے عوام میں موت و حیات میں حیات کو ترجیح حاصل ہے لیکن فلسطین میں موت کو ترجیح حاصل ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ دو راستے رکھے گئے ہیں یا غزہ سے نکل کر باہر کیمپوں میں جائیں وہاں انہیں بمب مار کر مارا جائے یا اپنے گھروں میں رہیں اور وہیں انہیں مار دیا جائے انہوں نے عزت کی موت کو ترجیح دی اپنے گھروں میں رہیں گے وہیں انہیں مار دیا جائے جبکہ غزہ میں اس وقت مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی کرنسی کے مطابق 50 ہزار روپے میں ایک کلو ٹماٹر ہیں اور دیگر خورد و خوراک کی چیزوں کا بھی یہی عالم ہے۔ لیکن انہوں نے عزت کی موت کو ترجیح دی اور اپنے گھروں کو نہیں چھوڑا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ زندگی اور موت کے درمیان نہیں دوڑ رہے بلکہ انہوں نے یہ دیکھنا ہے کہ انہیں کس طرح سے مرنا ہے۔
یحییٰ سنوار کی شہادت کی جو کلیپ صہیونی میڈیا نے نشر کی آپ اندازہ لگائیں کہ کس طرح سے میدان جنگ میں جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کے لیے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ کسی محفوظ بنکر میں انڈر گراونڈ چھپے ہوں گے یا یہ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے یرغمالیوں کو اپنی ڈھال بنایا ہوا ہے۔ لیکن یہ سب الزامات ان کی شہادت سے دور ہو گئے ’عاش سعیدا و مات سعیدا‘۔ جس طرح انہوں نے ایک خوبصورت زندگی گزاری اسی طرح انہوں نے ایک خوبصورت شہادت بھی پائی۔
دوسری طرف حزب اللہ نے گزشتہ ہفتے میں جو اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا اور خصوصا جو حیفا میں ایک کامیاب کاروائی کر کے کئی صہیونی فوجیوں کو واصل جہنم کیا اس سے حزب اللہ کی طاقت اور توانائی کا اندازہ ہوتا ہے کہ حزب اللہ اتنے سارے اعلیٰ کمانڈروں کے جانے کے بعد بھی کسی قدر مضبوط ہے۔
گرچہ سید حسن نصراللہ کی شہادت سے پہلے بھی حزب اللہ کے اسرائیل پر حملے جاری تھے لیکن اتنے ٹھوس اور مضبوط حملے جو آج ہو رہے ہیں ایسے نہیں ہوئے اس سے یقینا ساری دنیا کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ حزب اللہ کسی فرد پر منحصر نہیں ہے وہ اسرائیلی فوج جو بڑے جوش و خروش سے آئی تھی کہ وہ چند دنوں میں لبنان کے اندر گھس کر حزب اللہ کو تھس نھس کر دے گی اور بیروت پر قبضہ کر لے گی لیکن انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ لبنان کے اندر گھسنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ وہ ابھی باڈر پر اپنی سرزمین پر ہیں اور وہیں سے روزانہ لاشیں اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
حزب اللہ کی وہ اسٹریٹجی نہیں ہے جو اسرائیل کی ہے اسرائیل کی اسٹریٹجی شہروں کی بمباری اور قیادت کے قتل کے ذریعے اپنی کامیابی کا اعلان کر کے جنگ کو ختم کرنا ہے لیکن حزب اللہ اور حماس جنگ کو لمبے عرصے تک جاری رکھ کر دشمن کو تھکا دینا چاہتے ہیں اور اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے اسرائیل کے یرغمالی آزاد نہیں ہوئے مزید کتنا عرصہ لگے گا اس کا بھی کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔
یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے جو گزارش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف امریکہ اور اسرائیل حزب اللہ اور حماس کے بڑے دشمن ہیں وہ ان کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ ان سے زیادہ بڑے دشمن عرب ممالک ہیں جو حزب اللہ اور حماس کو ایک لمحے کے لیے برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ جو عرب ملکوں کی خاموشی ہے جنہوں نے آج تک کسی ایک مرحلے پر حزب اللہ اور حماس کا ساتھ نہیں دیا بلکہ الٹا ان کی نابودی کے لیے سرمایہ لگایا ہے اور لگا رہے ہیں انہیں پتہ ہے کہ اگر اس معرکے میں حزب اللہ اور حماس کو کامیابی ملتی ہے تو اس کے بعد ان کی کھوکھلی حکومتوں کا بھی صفایا ہے۔ نہ کہ حزب اللہ اور حماس ان پر حملہ کریں گے بلکہ خود ان کے عوام ان کا خاتمہ کر دیں گے۔