گزشتہ سال بہت اہم سال تھا اس لیے کہ بہت سارے اہم واقعات اس سال رنما ہوئے۔ ہر سال کچھ نہ کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جو بنیادی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے اثرات صرف اسی سال میں نہیں رہتے بلکہ آنے والے سالوں اور دہائیوں تک ان واقعات کے اثرات باقی رہتے ہیں۔
2024 میں عالم اسلام کے اہم واقعات کا جائزہ

نئے سال 2025 کا آغاز ہوا اور سابقہ سال اپنے نشیب و فراز کے ساتھ گزر گیا۔ گزشتہ سال بہت اہم سال تھا اس لیے کہ بہت سارے اہم واقعات اس سال رنما ہوئے۔ ہر سال کچھ نہ کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جو بنیادی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے اثرات صرف اسی سال میں نہیں رہتے بلکہ آنے والے سالوں اور دہائیوں تک ان واقعات کے اثرات باقی رہتے ہیں۔
2024 ملت فلسطین کی مزاحمت کا سال
اگر ہم ماضی قریب کے گزشتہ چند دہائیوں کا جائزہ لیں یا پاکستان بننے کے بعد سے ان تقریبا 70 سالوں کا جائزہ لیں تو 2024 کو واقعات اور مختلف قسم کے حادثات اور فیصلہ جات کے لحاظ سے ایک نمایاں مقام حاصل ہے جن کے اثرات آنے والے دنوں میں زیادہ نمایاں اور ظاہر ہوں گے۔ اس سال 2024 کو ہم اگر نام دینا چاہیں ہر چند دنیا میں دیر اہم واقعات بھی رونما ہوئے ہیں لیکن حق یہ بنتا ہے کہ اس سال کو ملت فلسطین اور مظلومین غزہ و مجاہدین حماس کے مزاحمت و مقاومت کا سال قرار دیا جائے۔ اسی طرح مجاہدین حماس کے ساتھ ان کی حمایت میں جانیں قربان کرنے والے مجاہدین حزب اللہ اور اسی طرح مجاہدین انصار اللہ یمن کی مزاحمت و مقاومت کا سال قرار دیا جائے اور ان عظیم شہداء کے نام جو جنہوں نے اس سال جام شہادت نوش فرمایا ہے جیسے حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ رحمت اللہ علیہ، شہید اسماعیل ہنیہ سربراہ حماس اور اسی طرح شہید یحیی سنوار رحمت اللہ علیہ اور ان کے دیگر عظیم جرنیلوں اور سالاروں نے جام شہادت نوش کیا ہے 2024 میں ملت فلسطین نے تاریخ رقم کی ہے اگر چہ طوفان الاقصیٰ اکتوبر 2023 میں شروع ہوا لیکن 2023 کے اخری چند ماہ کے بعد 2024 میں مکمل طور پر ملت فلسطین نے تاریخ انسانیت میں ایک علیحدہ تاریخ رقم کی ہے انہوں نے ذلت کی زندگی سے نکلنے کے لیے قیام کیا اور اس قیام کی راہ میں عظیم قربانیاں دی ہیں اور 2024 میں انہوں نے ہر روز ظلم برداشت کیا ہے اور انہوں نے مزاحمت و مقاومت کو ترک نہیں کیا اپنی عزت کا سودا نہیں کیا اور تسلیم نہیں ہوئے ہر چند ان کے اوپر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں لیکن پھر بھی ابھی تک استقامت و مقاومت انہوں نے جاری رکھی ہوئی ہے اور یہ ملت فلسطین کا بہت ہی بے نظیر اقدام ہے جس سے دیگر اقوام کو سبق لینا چاہیے، ان کی تقلید کرنی چاہیے کہ اپنے حق، مقصد، ہدف اور اپنی بقا کے لیے، اپنی گزشتہ تاریخ اور میراث کو محفوظ رکھنے کے لیے انسان کو مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
غزہ کربلا کے بعد استقامت کا نادر نمونہ
ہمیں کربلا کے بعد یہ نادر نمونہ فلسطین میں نظر آتا ہے جیسی کربلا میں سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوۃ والسلام نے مظلوموں کو عزت کا راستہ سکھایا اور ذلت سے دوری اختیار کی وہ راستہ امام حسین علیہ السلام سے ملت فلسطین نے سیکھا ہے اور اس پر قائم ہے باقی اقوام عرب، اقوام مسلمین اور دیگر اقوام تو سر اٹھانے کے قابل نہیں ہیں واحد ملت جو سر اٹھا کے زندہ رہنے کے قابل ہے وہ فقط ملت فلسطین ہے باقی سرنگوں ہیں اور ان کا سر ذلت کے بوجھ سے جھکا رہے گا تمام باقی اقوام جو ملت فلسطین کے شانہ بشانہ رہے وہ قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ان کی حمایت کی ان کی مدد اور نصرت کی جیسے حزب اللہ کی قیادت اور مجاہدین ہیں کہ انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ان کی حمایت کی ان کی مدد اور نصرت کی اور انہیں تنہا نہیں چھوڑا گرچہ اس راہ میں بھاری نقصان بھی اٹھایا۔ حزب اللہ اور انصار اللہ جو اس مقاومت و مزاحمت کے محاذ میں سب سے زیادہ نمایاں ہوئے ہیں اور ابھی تک قائم ہیں بے خوف ہو کر فلسطینیوں کی مدد و حمایت کے لیے برسر بیکار ہے تمام شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں یہ مظلوم تنہا ڈٹے ہوئے ہیں یقینا اللہ تبارک و تعالی کے ہاں عظیم مقام و درجہ رکھتے ہیں۔ یمنی مجاہدین اور یمنی ملیشیا اور عوام سب کے سب خود مصیبت زدہ ہیں جنگ زدہ ہیں ان کے ملک کو 12 مسلمان ممالک نے مل کر تباہ کر دیا تھا اس تباہ حال ملک کے کھنڈرات کے اوپر بیٹھ کر وہ فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور عملا اس یکجہتی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں جو پاکستان اور مصر اور ترکی جیسے ممالک کے لیے بہت ہی شرمندگی کا باعث ہے جہاں مضبوط افواج ہیں جہاں جمعیت فراوان ہے جہاں وسائل کی کثرت ہے لیکن اللہ نے انہیں یہ توفیق نہیں دی کہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوں ان کے حق کے لیے آواز بلند کریں اور یہ اعزاز یمنیوں کو نصیب ہوا ہے۔
2024 میں غزہ پر ظلم کی تاریخ رقم ہوئی
اس طرح 2024 مسلسل ملت فلسطین کی استقامت و مزاحمت کا سال رہا، ان کی رشادت و بہادری کا سال رہا ہے اور اسی طرح شہداء کی عزیز قربانیوں کا سال رہا ہے۔ ظالمین کے حصے میں ننگ، عار و حقارت ہی آئی ہے 2024 اس لحاظ سے بھی منفرد سال ہے کہ پورا سال، 365 دن بغیر وقفے کے فلسطین پر ظلم جاری رہا ہے 2023 سے جو ظلم شروع ہوا تھا جنوری 2024 میں جاری رہا اور اخری دن 31 دسمبر 2024 کے اخری لمحات تک یہ ظلم جاری رہا اور ابھی 2025 کے آغاز میں بھی جاری تھا اج مقاومت فلسطین کو لگ بھگ 455 دن ہونے والے ہیں اور ایک دن کے لیے بھی ظلم میں وقفہ نہیں ہوا۔ 2024 اس لیے بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ پورا سال ظلم رہا ہے اور تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ سابقہ ماضی میں گزشتہ سالوں میں بلکہ صدیوں میں کوئی سال ایسا گزرا ہو جس میں مسلسل ظلم ہوا ہو اور ایک دن کا وقفہ بھی بیچ میں نہ ہوا ہو۔ یہ فقط 2024 کے حصے میں آیا ہے اس لحاظ سے بھی یہ سال ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس ظلم کی داستان سے جڑے ہوئے باقی حقائق بھی اسی طرح سے تاریخی شکل اختیار کر گئے ہیں جیسے تمام اقوام عالم، حکمران اور سیاست مداران کے لیے 2024 نے فقط شرمندگی، حقارت اور ذلت چھوڑی ہے۔ ان میں سے کچھ نے صہیونی قاتلین کا ساتھ دیا اور کچھ خاموش تماشائی رہے۔ کچھ لاتعلق رہے، کچھ جنایت کا حصہ رہے اور کچھ خیانت کا حصہ بنے۔
فلمی ایکٹرز اور اسٹوڈینٹس کی فلسطین کے تئیں حمایت
اسی طرح 2024 میں اگر ہم باقی افراد کا جائزہ لیں تو فلمی دنیا کے ایکٹرز، علماء پر سبقت رکھتے ہیں علماء اسلام نے خاموشی اختیار کی لیکن فلمی دنیا کے ایکٹرز چاہے امریکی فلمی دنیا کے ہوں یا بھارتی فلمی دنیا کے ان میں سے بعض نے کھل کر فلسطین کی حمایت کی اور بعض نے کنایہ و اشارہ میں۔ اس حوالے سے انہیں علماء اور اہل ایمان پر برتری حاصل رہی ہے۔ اور اسی طرح امریکہ، یورپ اور دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں میں نوجوانوں اور حق پسندوں نے فلسطین کے لیے اواز اٹھائی اور اپنے آپ کو ذلت پسندوں اور حقارت پسندوں سے علیحدہ کیا اور تاریخ میں مظلوموں کا ساتھی ہونے والوں اور ظالمین سے نفرت کرنے والوں میں اپنا نام درج کروایا ہے۔
2024 صدر رئیسی کی شہادت کا سال
2024 میں اور بھی بہت سارے تلخ واقعات گزرے ہیں جن کا تعلق طوفان الاقصیٰ سے رہا ہے۔ جیسے ایران کے سابق صدر شہید ابراہیم رئیسی رحمت اللہ علیہ کی شہادت، اور یقینا یہ مسلمہ شہادت تھی جو ایک منصوبہ اور سازش کے تحت ان پر حملہ کروایا گیا تھا ہر چند ایرانی حکومت اور ایرانی سسٹم نے اس کو حملہ قرار نہیں دیا بلکہ حادثہ قرار دیا ہے لیکن وہ ایرانی حکومت کا بیانیہ کسی نے قبول نہیں کیا چونکہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھا بلکہ مصلحتی بیانیہ تھا یعنی ان پر حملے کے واضح شواہد موجود تھے اور ہیں بلکہ ابھی خود ایرانی پارلیمنٹیرین نے جزئیات کے ساتھ اس واقعے کی تفصیلات بیان کی ہیں کہ شہید رئیسی کو کس طرح سے شہید کیا گیا کون سی ڈیوائس ہیلی کاپٹر کے اندر پھٹی اور اس میں آذربائجان اور اسرائیل دونوں کا ہاتھ تھا۔
2024 اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا سال
اس کے علاوہ ایک تلخ ترین واقعہ 2024 میں ایران کے اندر رونما ہوا؛ شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت جو ایک بڑی تلخ حقیقت رہی ہے اس حوالے سے کہ اسرائیل نے ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران کے اندر محفوظ ترین جگہ پر آ کر شہید کیا ہے اور یہ حملہ ایرانی حفاظتی سسٹم کے اندر نفوذ پیدا کر کے، ایرانی سکیورٹی ادارے کے اندر افراد کو خرید کر کے ان کے ذریعے کروایا۔ جس کی تفصیلات اسرائیل نے بیان کر دی ہیں۔ شہید ابراہیم رئیسی کے لیے بھی ایسا ہی ہوا۔ ابراہیم و اسماعیل یہ دونوں تاریخ کے اہم کردار تھے اور آج کے زمانے کے یہ ابراہیم و اسماعیل ان دونوں کو ایک ہی دشمن نے شہید کیا۔ اس وقت ایران نے اس بات پر پردہ ڈالا چونکہ جنگی حالات تھے اور صدر مملکت کی شہادت اسکیورٹی سسٹم کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اور اس کو اگر اناؤنس کیا جاتا تو اس کے متعلق کافی اسکیورٹی رسک پیدا ہو جاتے، مزید خطرات پیدا ہو جاتے لہذا حالت جنگ میں جو ملک ہو اور ساری دنیا اس کے خلاف ہو تو اس کو ایسی ٹیکنیک اختیار کرنا پڑتی ہے۔
یہ کوئی عیب نہیں ہے کہ انہوں نے شہید ابراہیم رئیسی کی شہادت کو حملے کا نتیجہ قرار نہیں دیا بلکہ موسمی حادثے کا نتیجہ قرار دیا یہ جنگی زمانے میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں مخفی رکھنا پڑتا ہے تاکہ اس سے دشمن فائدہ نہ اٹھائے اور اپنے لوگوں کے حوصلے پسپا نہ ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ طالبان کے سربراہ ملا عمر جنہیں وہ امیر المومنین کا لقب دیتے تھے یہ بیمار ہوئے تو ان کی بیماری کو مخفی رکھا گیا پاکستان، کراچی کے ہسپتال میں بیمار پڑے رہے کسی کو خبر نہیں دی گئی۔ اور پھر جب کراچی میں ہی فوت ہوئے تو پاکستان میں بھی کسی کو پتا نہیں چلا حتیٰ کہ خود طالبان کے اندر بھی کسی کو پتا نہیں چلنے دیا۔ اور دو سال کے بعد ان کی موت کا اعلان کیا۔ یہ ایک حکمت عملی کے تحت انہوں نے ایسا کیا اور بعد میں جب حالات ان کے لیے مناسب ہوئے تو انہوں نے اعلان کر دیا۔ اسی طرح ہر ملک کرتا ہے اپنی بہت ساری چیزیں پنہان کر لیتے ہیں۔ ایران نے بھی یہ شہادت پنہان رکھی ہے اور شاید کسی مناسب وقت پر بتا دیا جائے گا یا اسرائیل خود کسی وقت پر تفصیلات جاری کر دے گا جیسے اسماعیل ہنیہ رحمت اللہ علیہ کی شہادت کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔
بن سلمان نے یمن کا بدلہ ایران سے لیا
شروع سے ہی جب سے بن سلمان نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم باقاعدہ طور پر یہ جنگ ایران کے اندر لے جائیں گے اور ایک بن سلمان کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ ایران کا مقابلہ کر سکتا وہ 12 ملکوں کے ساتھ مل کر یمن کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور یمن میں جو اس کے مقاصد تھے وہ حاصل نہ کر سکا۔ لیکن جب اس نے آرامکو جیسی آئل ریفائنری کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا اور یہ محسوس کیا کہ تیل کا سارا سسٹم نابود ہو رہا ہے تو اس نے ہتھیار ڈال دیے اور بغیر کسی معاہدے کے جنگ روک دی۔ اگر بن سلمان ایران کے اندر جنگ لا سکتا تو وہ یقینا ایسا کرتا۔ یہ بیان اس نے اپنے بھروسے پر نہیں دیا تھا بلکہ اسرائیل اور امریکہ کے بھروسے پر دیا تھا کہ ہم ایران کے اندر جنگ لے جائیں گے چونکہ اسرائیل کا یہ اتحادی تھا اور اسرائیل اور امریکہ نے یہ منصوبہ بنایا ہوا تھا کہ ہم جنگ ایران کے اندر لے جائیں گے اس لیے ایران کے اندر گزشتہ چند سالوں میں خصوصا گزشتہ چار پانچ سالوں میں بہت سارے تلخ حوادث لگاتار رونما ہوئے۔ ایرانی ایٹمی تحقیقات میں دھماکہ ہوا، ایرانی بندرگاہوں پر دھماکے ہوئے، ایرانی مال بردار اور تیل بردار جہازوں کو ڈبویا گیا ہے ایرانی سائنس دانوں کو شہید کیا گیا ہے جو ایران کے اندر تھے شام کے اندر ایرانی فورسز کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے تو یہ سب کچھ اسرائیل و امریکہ نے کیا اور انہوں نے نام لے کے کیا کہ ہم نے کیا ہے جیسا شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو بالاخر اسرائیل نے رسما قبول کر لیا کہ یہ ہماری کاروائی تھی۔ کس طرح سے کیا یہ بہت اہم موضوع یہ ہے اور وہ کیا ایرانی سسٹم کے اندر رخنا ڈال کے۔ ایرانی سیکورٹی فورسز کے اندر اپنے ایجنٹ پیدا کر کے۔ ظاہر سی بات ہے کہ شہید اسماعیل ہنیہ جس اقامت گاہ میں رہائش پذیر تھے اور پہلے بھی اس کے اندر رہائش رکھتے تھے یہ سپاہ پاسداران کا ریسٹ ہاؤس تھا اور شاید ایران میں رہبر معظم کی رہائش گاہ کے بعد سب سے زیادہ محفوظ جگہ حفاظت کے لحاظ سے وہی تھی جہاں پر ایران کے بہت ہی ہائی پروفائل مہمان باہر سے آتے تھے جن کی حفاظت لازمی تھی انہیں یہاں رکھا جاتا تھا اور وہاں پر پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا جن فورسز کی وہاں پر ڈیوٹی تھی انہی میں اسرائیل نے نفوذ کیا اور انہی کے ذریعے انہوں نے اسماعیل ہنیہ کے سرہانے تکیے میں دھماکہ خیز مواد رکھوایا اور بعد میں معلوم بھی ہو گیا ان میں سے کچھ یہ کارروائی کر کے ملک سے بھاگ گئے۔ تو یہ نقصان اس وجہ سے ہوا کہ ایرانی سسٹم کے اندر اسرائیل نے نفوذ کیا۔ کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر نفوذ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ بڑی کمزوری یہ تھی کہ جب کسی سسٹم کے اندر لالچی اور طمع رکھنے والے افراد آ جائیں وہ دشمن کے آلہ کار بن سکتے ہیں اس لیے ابراہیم رئیسی کو بھی انہی کے ذریعے شہید کیا گیا اور اسماعیل ہنیہ کو بھی انہی کے ذریعے شہید کیا گیا۔
2024 سید حسن نصر اللہ کی شہادت کا سال
اسی طرح سید حسن نصراللہ رحمۃ اللہ علیہ جو اپنی ذات میں ایک بہت باعظمت کردار ہے بلکہ مجاہدین میں تاریخی کردار ہے۔ تاریخ اسلام کے بڑے نامور مجاہدین کی سر فہرست شخصیات میں سید حسن نصر اللہ کا نام آ سکتا ہے جنہوں نے تاریخی کام انجام دیا اور تاریخ رقم کی ان کی شہادت بھی اسی طرح سے ہوئی جس طرح شہید اسماعیل ہنیہ اور ابراہیم رئیسی کی شہادت ہوئی۔ ان کی رہائش کی جگہ کو انہوں نے جاسوسوں کے ذریعے سے معلوم کر کے ان پر حملہ کیا۔ ظاہر ہے یہ حقائق ابھی مصدقہ نہیں ہیں چونکہ کسی نے ابھی تک ان کو دستاویز بنا کر نشر نہیں کیا ممکن ہے بعد میں یہ حقائق بھی روشن کر دیے جائیں کہ کس کے توسط سے ہوا اور کیسے ہوا۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تقریبا شہادت سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ان کا وہ مقام اور میٹنگ اور شرکاء کی اطلاع اسرائیل کو دی گئی جو لوگ اس بلڈنگ میں تھے ان کے ذریعے یا جنہیں پتہ تھا ان نفوذیوں کے ذریعے جو یقینا قریبی اور اپنے تھے ۔ اور اس کے نتیجے میں یہ عظیم سالار و رہبر مقاومت کی شان اور تمام عالم اسلام کی عزت و وقار بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی عزت کے سر کا تاج تھے دشمن کی جارحیت کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کر گئے۔
اسی طرح 2024 شہید حسن نصراللہ کے ساتھ محاذ مزاحمت کے اہم ترین کمانڈر جن کے دوش پر یہ سارا نظام چل رہا تھا اور جن کے شہادت سے مقاومت کو بہت بڑا دھچکا لگا وہ بھی شہید ہوئے یعنی شہید صفی الدین رحمت اللہ علیہ۔ اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا اور حزب اللہ کی اعلی کمانڈ تقریبا شہید ہو گئی جو جنگ کا نظام چلا رہے تھے۔
2024 یحییٰ سنوار کی شہادت کا سال
ایک اور بہت ہی تاریخی کردار و نمایاں شخصیت جو صہیونی درندوں کے ظلم کا نشانہ بنی وہ شہید یحیی سنوار کی شخصیت تھی وہ جو اکیلا ہی اسرائیل کے لیے ایک خوف کا نشان و علامت بنا ہوا تھا جس کے نام سے تمام صہیونی لرزتے تھے صہیونی جرنیل اور کمانڈر بھی شہید یحیی سنوار کے نام سے خوف زدہ رہتے تھے جنہوں نے طوفان الاقصی کی پلاننگ کی اور طوفان الاقصی آپریشن شروع کیا، اس کی قیادت کی اور شہید اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کی سربراہی بھی سنبھالی اور جس شان و شوکت سے شہید ہوئے وہ بہت منفرد ہے کوئی شہید اس طرح سے شہید نہیں ہوا۔ ایک مسلح تنظیم کا سربراہ کسی خفیہ خانے میں بیٹھ کر دوسروں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والا نہیں تھا بلکہ باقاعدہ حالت جنگ میں شہید ہوا۔ فرنٹ لائن کے اوپر بالکل صیہونی مورچوں کے سامنے تن تنہا و اکیلا لڑتا ہوا شہید ہوا یہ بہت باعظمت کردار ہے جس طرح باعظمت اس بزرگوار نے زندگی گزاری اس سے زیادہ عظمت کے ساتھ شہید ہوئے۔ یعنی یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے کہ اس طرح کی زندگی اور اس طرح کی شہادت۔ سعادت کے ساتھ زندگی اور عظمت کے ساتھ شہادت۔
بہرحال یہ 2024 کا سال ان شہداء کا سال ہے حماسے کا سال ہے مزاحمت و مقاومت کا سال ہے اور عظمت مجاہدین و عظمت شہداء کا سال ہے ان شہداء کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے شہداء کی یاد زندہ رہے یہ شہداء موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے ماڈل بننا چاہیے یہ ایک ایک شخصیت شہید نصر اللہ، شہید اسماعیل ہنیہ یا شہید یحیی سنوار اور دیگر شہید رہنما و کمانڈر ہر ایک درحقیقت ایک قالب بنے گا اور اس قالب کے اندر بہت سارے جوان ڈھلیں گے اور راہ مزاحمت و مقاومت کو انشاءاللہ جاری رکھیں گے۔
2024 بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کا سال
2024 کے اختتام میں جو سب سے انوکھا واقعہ پیش آیا اور ساری دنیا کو اس نے حیران کر دیا وہ شام میں بشار اسد حکومت کا خاتمہ تھا جو ڈرامائی انداز میں ہوا اس کی پہلے تفصیل بیان کر چکا ہوں کہ شام میں حافظ اسد کی حکومت کیسے قائم ہوئی اور پھر اس نے کس طرح کی حکومت کی اور کیا بڑا اہم کارنامہ انجام دیا تمام عرب سربراہوں میں اگر کسی عرب حکمران نے اپنی حکمرانی کی لاج رکھی ہے تو وہ یہی حافظ اسد تھے کہ جنہوں نے صدام جیسے ڈکٹیٹر کے مقابلے میں بھی انقلاب اسلامی ایران کا ساتھ دیا، مزاحمت کا ساتھ دیا اور بھرپور مدد کی اور اسرائیل کے سامنے وہ واحد عرب ملک جو تسلیم نہیں ہوا وہ شام تھا ہمیشہ اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹا رہا اور یہودیوں اور صیہودیوں کے خلاف مزاحمت اختیار کی اور مزاحمین کی پناہ گاہ بنا رہا، مزاحمت کرنے والوں یعنی حماس، جہاد اسلامی اورفلسطین کے دیگر مزاحمتی گروہ، اور اسی طرح حزب اللہ لبنان ان سب کے لیے بشار اسد نے اہم کردار ادا کیا۔
حافظ اسد یا بشار اسد کوئی شیعہ لوگ نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق کسی دین و مذہب سے ہی نہیں تھا یہ کمیونیسٹ فکر کے لوگ تھے لہذا اگر کوئی ان کو شیعہ ہونے کا لقب دے کر مذہبی فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ یہ بالکل شیعہ نہیں تھے گرچہ علوی خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ یہ شیعوں کے اتحادی تھے یعنی انقلاب اسلامی، حزب اللہ اور فلسطین کے اتحادی تھے۔ اسی وجہ سے ان کو دیگر عرب حکمرانوں نے بھی نشانہ بنایا اور ان کے خلاف تکفیریوں کا محاذ کھڑا کیا۔ اور اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔
بشار اسد کے فرار کا ڈرامائی منصوبہ
گرچہ اب دیگر عرب حکمرانوں کے ساتھ ان کی چپکلش ختم ہو چکی تھی اور باہمی روابط میں کافی بہتری آچکی تھی، سعودی عرب کانفرنس میں بشار اسد کو بلایا گیا تھا باقی ممالک وہاں پر تھے، شام میں ان کے سفارت خانے قائم ہو گئے اور ان کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول بن چکا تھا لیکن اس کے بعد ناگہانی طور پر بشار اسد نے اقتدار سے دستبرداری اختیار کر کے افرار اختیار کیا اور اس درمیان ترکی نے بھی ڈرامائی کردار ادا کیا البتہ یہ سب کی ملی بھگت سے ہوا۔ یہ اکیلے اردوگان کی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس میں صہیونی شامل تھے اس میں امریکہ شامل تھا اس میں تمام عرب شامل تھے اور اس میں خود بشارت بھی شامل تھا روس بھی اس منصوبہ اس کا حصہ تھا چونکہ روس کو بشارت کو ہٹانے کے بدلے میں یوکرین میں فائدہ ملنے والا ہے اور اسی طرح بشار اسد جو اس کشمکش کے اندر ایک طرح سے ذہنی طور پر تھک چکا تھا چونکہ وہ مذہبی انسان تو نہیں تھا کہ اس کے اندر جذبہ ایمانی ہوتا۔ جیسے رہبر معظم یا شہید سلیمانی یا سید حسن نصراللہ یا حماس کے لیڈر جذبہ رکھتے ہیں یہ تو ایک غیر مذہبی شخص تھا جو مقاومت و مزاحمت کی راہ میں بغیر ایمان کی قوت کے اتنا سفر بھی اس نے جو کیا یہ بہت بڑی بات ہے لیکن اس کو سہارے مضبوط حاصل تھے ملک کے اندر بھی اس کی پذیرائی تھی اور ابھی بھی اگر وہ نہ بھاگتا اور مزاحمت کرتا تو شام کے عوام اکثریت اس کے ساتھ تھے۔ لیکن اس کی فوج میں بھی یہ سازش شروع ہو گئی اس کی فوج نے بھی ہتھیار ڈال دیے اس کی کابینہ نے بھی ہتھیار ڈال دیے اس کے ساتھیوں نے یعنی طے کیا جیسا کہ صدر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ چار مہینے پہلے سے ہی یہ کہانی بن چکی تھی اور چار مہینے پہلے انہوں نے ایران کو باخبر کر دیا تھا کہ وہ اپنے اثاثے محفوظ کر لیں اور ایران نے اسی وقت سے اپنے اثاثے محفوظ کرنا شروع کر دیے ۔ لہذا ایک مٹھی بھر گروہ 300 جنگجو پر مشتمل جو ترکی سے ایک جٹھا بن کر موٹر سائیکلوں کے ذریعے شام میں داخل ہوا اور اس نے ملک پہ قبضہ کر لیا یہ ایک تمسخر اور مذاق ہے۔ یہ تاثر بھی دینا کہ جولانی نامی ایک شخص کی قیادت میں یہ کام ہوا ہے اور چند گھنٹوں میں اس نے پورے شام پر قبضہ کر لیا یہ بہت بڑا جھوٹ ہے یہ عوام فریبی ہے اور وہ بے وقوف لوگ ہی اس کہانی کو مان سکتے ہیں۔ یہ سارے ممالک کی ایک ملی بھگت تھی انہوں نے جو جو طے کیا ویسے ہی ہوا اور اس سازش میں جو جو شامل تھا اس نے فائدہ اٹھایا ہے بشار اسد نے اپنے تحفظات بتائے تھے اور محفوظ رہنے کا وعدہ لیا تھا اور اسے محفوظ رکھا گیا اور اسرائیل کا بھی منصوبہ طے تھا کہ بشار اسد کے جانے کے بعد پورے شام کو اسرائیل نے تباہ کر دینا ہے۔ شام کی بندرگاہوں، اسٹیشنز، ہتھیاروں کے کارخانوں، اسلحے کے ڈپوں اور تمام اہم انفراسٹرکچرز کو نابود کر دینا ہے جو اس نے کر دیا۔
اسرائیل کے سرحدی علاقے پر اسرائیل قابض ہونا چاہتا ہے، کچھ علاقہ تکفیرستان بنا کر تکفیریوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جیسے آج ہی فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ شام پہنچ گئے ہیں یعنی انہی 300 نفری گروہ کو ملنے کے لیے بڑے بڑے ملکوں کے وزائے خارجہ شام جا رہے ہیں ظاہر ہے یہ اندر باہر جتنی بھی عناصر تھے سب نے مل کر یہ کارنامہ کیا ہے لیکن یہ فلسطین کے ساتھ ظلم کیا ہے شام میں جو کچھ ہوا جو بھی اس کے اندر ملوث ہیں سب نے فلسطین کے ساتھ خیانت کی ہے۔ بس 2024 کا اگر سب سے بڑا ڈرامائی حادثہ یا واقعہ اگر ہم دیکھیں تو وہ شام کی حکومت کا خاتمہ ہے۔
2024 میں ایران اسرائیل کی براہ راست جنگ
اسی طرح مشرق وسطی میں 2024 میں جو ایک اہم موڑ آیا ہے وہ اسرائیل اور ایران کی بلاواسطہ جنگ ہے اسرائیل نے اس سے پہلے کبھی ایران کے ساتھ ڈائریکٹ جنگ نہیں تھی ایران بھی خود اسرائیل پر حملے نہیں کرتا تھا اسرائیل بھی براہ راست ایران پر حملے نہیں کرتا تھا اسرائیل شام میں ایرانی فورسز پر حملے کرتا تھا اور ایران حزب اللہ کے ذریعے اس کا جواب دیتا تھا لیکن 2024 میں یہ جنگ آمنے سامنے آ گئی اور یہ جنگ بہت آگے بڑھتی لیکن کچھ واقعات نے گویا وقفہ ایجاد کر دیا ہے کچھ واقعات ایران کے اندر رونما ہوئے ہیں شام میں اور باقی مشرق وسطی میں جو سناریو ایران نے بنایا ہوا تھا اس سے اسرائیل کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور اسرائیل بہت ہی کمزور ترین پوزیشن پہ پہنچ چکا تھا اسرائیل خاتمے کے قریب تھا، طوفان الاقصی اور اس کے بعد جو مقاومت و مزاحمت نے اسرائیل کا حشر کیا کہ نیتن یاہو کے گھر پر ڈرون حملہ ہوا اسرائیل کے تمام شہروں پر حملے ہوئے، یمن، حزب اللہ اور ایران کے میزائل گرے ان کے ہوائی اڈے پر گرے ان کے بہت ماڈرن طیارے تباہ ہوئے اور انہوں نے اپنا اسلحہ قبرس میں منتقل کر دیا کچھ باقی عرب ملکوں کے اندر منتقل کر دیا اپنی تاسیسات دبئی میں منتقل کر دیں۔ اسرائیلی عوام اور اہم شخصیات ریاست چھوڑ کر فرار ہو رہے تھے۔ یہاں تک اسرائیل نابودی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا لیکن شام کی خیانت نے یا شام کے ساتھ ہوئی خیانت نے اسرائیل کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع دے دیا اور اس سے مزاحمت و مقاومت کو دھچکا لگ گیا۔
2024 میں عراق کی خیانت
2024 کے اہم واقعات میں ایک بڑا اہم کردار عراق نے بھی ادا کیا ہے عراق جو پہلے شہید سلیمانی کے زمانے میں مزاحمت و مقاومت کا مرکز بن چکا تھا۔ صدام کے بعد عراق آزاد نہیں ہوا بلکہ مکمل طور پر امریکہ کی گود میں چلا گیا ایران نے امریکہ کی گود سے باہر نکالنے کی کوشش کی جیسے جب داعش نے عراق پر حملہ کیا تو ایران نے ہی نجات دی دراصل شہید سلیمانی کی تدبیر تھی اور انہوں نے حشد الشعبی کے نام سے عوامی فوج بنائی اور اس کے ذریعے عراق کو نجات دی اسی وقت ہم نے بھی اپنی تجزیاتی گفتگو میں عرض کیا تھا کہ عراق کی سیاسی قیادت اور مذہبی قیادت کو عراق میں ایران پسند نہیں ہے یہ اس وقت کہا گیا تھا باقاعدہ شہید سلیمانی کے عراق میں جانے پر عراقی مذہبی قیادت نے پابندی لگوائی تھی کہ یہ شخص عراق میں نہ آئے اور عراق کے شیعہ رہنماؤں کی طرف سے یہ باتیں سامنے آئی تھیں کہ ولایت فقیہ اور ایرانی نظام کے تحت جانے کے بجائے امریکہ آ جائے وہ بہتر ہے حتیٰ داعش آ جائے وہ بہتر ہے لیکن اس کے باوجود ایران نے حشد الشعبی وجود میں لا کر مقدس مقامات کو بچایا اور داعش کو عراق سے نکالا لیکن ایران کے لیے عراق کبھی بھی بھروسہ مند نہیں تھا لہذا شہید سلیمانی کی عراق میں شہادت بھی ایک بہت معنی خیز ہے یعنی اس شہادت کے اندر باقاعدہ عراقی نظام بھی شامل تھا اسی وجہ سے انہوں نے باقاعدہ بعد میں ایران کی طرف سے اس کا رد عمل دکھانے میں بھی رکاوٹیں پیدا کی۔
عراقی شیعہ قیادت کے پینترے
عراقی گروہ حشد الشعبی کو بھی مسلسل ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں عراقی مذہبی قیادت میں مقتدیٰ صدر نمایاں حیثیت کے حامل ہیں جو ہر آئے دین پہلو بدلتے رہتے ہیں کبھی فورس بناتے ہیں پھر اس کو منحل کر دیتے ہیں ایک دن امریکہ کے خلاف ہوتے ہیں ایک دن امریکہ کے ساتھ ہو جاتے ہیں ایک دن اسرائیل کو دھمکی دیتے ہیں ایک دن ایران کو دھمکی دیتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں کسی کو کچھ پتا نہیں جبکہ ان کا سیاست کے اندر کافی اثر و رسوخ ہے اور ان کا گروپ بھی کافی مضبوط گروپ ہے۔
یہ کبھی مراجع تقلید کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں عراق سے نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ عراق میں اس وقت صف اول کی تین اہم شخصیات یعنی آیت اللہ العظمیٰ سیستانی، آیت اللہ العظمیٰ فیاض اور آیت اللہ العظمیٰ بشیر نجفی، تینوں غیر عراقی ہیں۔ لہذا مقتدیٰ صدر کبھی عربی قومیت کے نعرے لگاتے ہوئے ان مراجع کے خلاف بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہر حال عراق میں ان کا بہت ہی دلچسپ کردار ہے اور اس ملک میں ایران کے لیے بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
باقی سیاسی قیادت سب امریکہ نواز ہے اور وہ حشد الشعبی کو کالعدم تنظیم قرار دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ابھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو عراق کی سرزمین استعمال کی لیکن جب ایران نے جوابی کاروائی کا اعلان کیا تو عراق نے اپنی سرزمین کے استعمال سے منع کر دیا۔ ابھی عراقی وزیراعظم ایران کے دورے پر آ رہے ہیں اور اس سے پہلے یہ جولانی سے مل کر آئے ہیں شام گئے شام کے نئے داعشی حکومت یا داعشی گروہ سے ملاقات کی اور اس کے بعد اس کا پیغام لے کر ایران جا رہے ہیں۔
2024 میں امریکی الیکشن اور میڈمین کا انتخاب
2024 انتخابات کا بھی سال رہا ہے دنیا میں بہت سارے ممالک کے اندر 2024 میں انتخابات ہوئے امریکہ کے انتخابات ہوئے ہیں جس میں ٹرمپ جیسا اوباش دوبارہ اقتدار میں آیا ہے پہلے جب اقتدار میں آیا تھا تو اس نے پوری دنیا سمیت امریکہ کو بھی آشفتہ کیا تھا اور امریکہ کے اندر اور باہر ایک پاگل کے طور پر پہچانا گیا اور اب دوبارہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اس کو اقتدار دیا ہے اور اس نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اپنے عزائم ظاہر کیے ہیں یہ امریکہ کا ایک خاص طریقہ کار ہے کہ وہ کبھی کبھی کسی ایک کو میڈمین کے طور پر لاتے ہیں۔ میڈمین ہنری کسنجر کا نظریہ تھا جو اس نے صدر ٹرومین کے لیے بنایا تھا جب ویتنام میں امریکہ پھنس گیا تھا اور برے طریقے سے پٹ رہا تھا تو اس دلدل سے نکلنے کے لیے اس نے میڈمین کے طور پر ٹرومین کو پیش کیا۔ چونکہ امریکہ جنٹلمین کے طور پر اپنا تعارف کرواتا ہے کہ وہ بہت ہی معزز ملک ہے اور سدھرا ہوا ملک ہے اور حقوق انسانی کا خاص خیال رکھنے والا ملک ہے اس طرح کا منافقانہ چہرہ امریکہ نے بنایا ہوا تھا لیکن ویتنام جنگ میں جب اس کے چہرے سے یہ نقاب اتر رہا تھا اور یہاں اس کو اپنی ساکھ بچانا مشکل پڑ گیا تھا وہ یہاں پر ایک امریکی ڈپلومیٹ کسنجر نے یہ تھیوری پیش کی کہ میڈمین تھیوری سے استفادہ کیا جائے میڈمین یعنی پاگل حکمران۔ یعنی یہ کہا جائے کہ امریکی صدر پاگل ہو گیا ہے اب یہ کسی کی نہیں سنتا کسی کی نہیں مانتا یہ جو ذہن میں آتا ہے کرتا ہے تاکہ لوگ ڈر جائیں اور امریکہ کے ساتھ کسی طرح سمجھوتہ کرنے کو تیار ہو جائیں۔ جیسے پاگلوں کے ساتھ ہر آدمی کمپرومائز کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تو پاگل ہے یہ تو مانتا نہیں ہے یہ تو سمجھتا نہیں ہے۔ یہ تھیوری امریکہ کے اندر باقاعدہ سرکاری حیثیت اختیار کر گئی اور ایک پالیسی بن گئی کہ جب بھی امریکہ شدید مشکلات میں ڈوب جاتا ہے اس سے نکلنے کے لیے میڈمین تھیوری سے استفادہ کرتا ہے یعنی پاگل حکمران لے کر آؤ وہ پاگل ہوتے نہیں ہیں پاگل ہونے کی اداکاری کرتے ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ پاگل ہے نہیں ہے یہ کاروباری آدمی ہے پاگل آدمی اتنا کامیاب کاروبار نہیں کر سکتا پھر یہ سیاست میں آیا لیکن جیسے پہلے بش کے بعد اوباما آیا اور اوباما ایک مہذب صدر کے طور پر لایا گیا اس سے پہلے جارج بوش تھا جسے میڈمین کے طور پہ لایا گیا جس نے افغانستان کو تباہ کیا پھر عراق کو تباہ کیا۔ سب کی تباہی مچا دی پھر اس کے بعد بائیڈن صاحب آئے انہیں ایک سلجھے ہوئے آدمی کے طور پر لایا گیا اور پھر اس کے بعد میڈمین دوبارہ آ گیا۔ تاکہ پاگل بن کر دنیا کو ڈرائے اور پاگل سے سارے ڈرتے ہیں لہذا اس کے ساتھ سمجھوتے کی طرف آ جاتے ہیں۔
2024 میں ایرانی الیکشن اور معتدل انسان کا انتخابات
2024 میں اسی طرح ایران میں بھی انتخابات ہوئے۔ اور ان انتخابات میں ایرانیوں کے بقول ایک معتدل سوچ رکھنے والے شخص مسعود پزشکیان کو صدر کے طور پر لایا گیا ہے۔ چونکہ ان کے مقابلے میں ایک انقلابی شخص جلیلی صاحب تھے، جنہیں باقاعدہ انقلابی دھڑوں نے مل کے ہرایا، قالیباف صاحب، لاریجانی صاحب اور ان کے دیگر ساتھیوں نے مل کر جلیلی صاحب کو ہرایا اور ان کے مقابلے میں ایک لبرل سوچ رکھنے والے کو صدر کے طور پر کامیاب کروایا۔
اس کی کئی وجوہات تھیں چونکہ ایران کے اندرونی معاملات کافی الجھ گئے تھے اور بیرونی دباؤ بھی بہت زیادہ تھا پابندیوں کی شدت تھی۔ لہذا ایک حکمت عملی کے تحت ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک شخص کو بطور صدر انتخاب کیا کہ جو اندرونی معاملات کو کنٹرول کرے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں یعنی لوگوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ لوگ جو چاہتے تھے جس طرح کی آزادی مثلا پردہ کی آزادی وہ ان کو دھیرے دھیرے مل رہی ہے۔
اسی طرح انہوں نے باقی معاملات کو بھی سلجھانے کی کوشش کی اور ایران کے اندر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ شام کے اندر جو کچھ ہوا ہے اس میں پزشکیان صاحب بھی شامل ہیں چونکہ انہوں نے رہبر معظم کی پالیسی کے برخلاف مزاحمت کا ساتھ دینا چھوڑ دیا اور حمایت چھوڑ دی یہ ایران کے اندر رائے پائی جاتی ہے وہ خود تو کہتے ہیں کہ میں مقاومت کا حامی ہوں اور سرکاری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ رائے غلط ہے لیکن وہاں کے انقلابی لوگ جو مزاحمت و مقاومت کا حصہ تھے ان کی یہ رائے ہے کہ چونکہ یہ بھی اب ایران کو مشرق وسطہ کے معاملات سے باہر نکالنا چاہتے ہیں تاکہ ایران کے اندرونی معاملات کو ٹھیک کر سکیں جیسا امریکہ پہلے کہتا تھا یا جیسا باقی ممالک ان کو کہتے تھے کہ آپ کو کیا پڑی ہے کہ آپ مشرق وسطی میں فلسطین اور اسرائیل کے خلاف بولتے ہیں باقی لوگوں کی طرح آپ بھی اپنا ملک سنبھالیں جس طرح بن سلمان اپنا ملک سنبھال رہا ہے السیسی اپنا ملک سنبھال رہا ہے سارے اپنا ملک سنبھال رہے ہیں لیکن آپ فلسطین سنبھالنے میں لگے ہیں یا فلسطین آزاد کرانے میں لگے ہوئے ہیں اپ بھی یہ کام چھوڑیں۔ یہ اس طرح کی سوچ ایران کے اندر موجود ہے اس طرح کی اختلافی رائے وہاں پائی جاتی ہے ۔