۔ اسرائیل نے تین ہزار سال پہلے کا ایک نقشہ بھی شائع کیا ہے، جس میں ان کے تاریخی علاقوں کی حد تک دکھایا گیا ہے، اور وہ ان زمینوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دلیری اردن، مصر اور سعودی عرب جیسی اسلامی اقوام کی موجودگی میں ظاہر ہوئی ہے ۔ انہیں یہ ہمت کیسے حاصل ہوئی؟
اسرائیل نے یہودی حاکمیت کا تین ہزار سال پرانا نقشہ شائع کیا

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 10 جنوری 2025
خطبہ 1: قرآن تعلیمات سے دور زندگی گزارنے والوں کو اللہ کا دردناک عذاب اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے
خطبہ 2: اسرائیل نے یہودی حاکمیت کا تین ہزار سال پرانا نقشہ شائع کیا
طاغوت کے زیر تسلط ماحول میں ہماری پرورش اس طرح ہو رہی ہے جو ہمارے تقویٰ کو بھی متاثر کرتی ہے چونکہ ایسے ماحول میں تقویٰ کا نظام بھی طاغوت نے ہی قائم کرنا ہوتا ہے۔ ہم سب نے طاغوت سے وابستہ ذہنیت، رویوں، رجحانات اور طرز عمل کو اختیار کر لیا ہے، اور چونکہ ہمارے معاشرے میں سب لوگ ایک جیسے ہیں لہذا ہمیں اس کے اثرات محسوس نہیں ہوتے لیکن اگر کوئی متقیٰ کردار ہمارے معاشرے میں موجود ہو تو پھر اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ نظر آئے گا۔ جیسا کہ اگر معاشرے میں امام علی (ع) جیسی ہستی موجود ہو تو پھر اپنے آپ کو پرکھنے کے لیے انسان کو ایک پیمانہ مل جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا کردار موجود نہ ہو تو پھر ہر کوئی طاغوتی نظام میں پرورش پا کر تقویٰ کے توہم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر سب یہ مان بیٹھتے ہیں کہ ہم مخلص، وفادار اور اعلیٰ کردار کے حامل ہیں چونکہ پیمانہ جو ہمارے پاس ہے وہ طاغوتی کردار کا ہے۔ تاہم، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تقویٰ کے لیے باقاعدہ ایک پیمانہ اور سانچہ فراہم کیا ہے جس میں ہمیں ڈھلنے کی کوشش کرنا ہے۔
اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی آیت نمبر 155 میں فرمایا:
وَهَٰذَا كِتَٰبٌ أَنزَلۡنَٰهُ مُبَارَكࣱ فَٱتَّبِعُوهُ وَٱتَّقُواْ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ
اور یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے مبارک نازل کی ہے۔ پس اس کی اتباع کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اتباع کسے کہتے ہیں؟
یہ کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے اور یہ مبارک ہے۔ آپ کو اس پر عمل کرنے اور تقویٰ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کتاب کے ساتھ ایک لفظ تلاوت بھی بولا جاتا ہے، جس کا مطلب بھی اصل میں پیروی کرنا ہے نہ کہ محض پڑھنا۔ لیکن یہاں پر اتباع ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلسل کتاب کے پیچھے پیچھے حرکت میں رہو۔ اتباع کسی ایسی چیز کی پیروی کرنے کی نشاندہی کرتا ہے جو حرکت میں ہے، یعنی آپ جس چیز کی پیروی کر رہے ہیں اس کا بھی حرکت میں ہونا لازمی ہے۔ ہم سادہ الفاظ میں، یوں کہیں: ’’میرے پیچھے پیچھے آؤ‘‘ اس جملے میں اتباع کی ساری حقیقت بیان ہو جاتی ہے یعنی میں بھی حرکت میں ہوں اور آگے جا رہا ہوں اور تم بھی حرکت کر کے میرے پیچھے پیچھے آو۔ لیکن اگر یہ آگے چلنے والا کہیں پر کھڑا ہو گیا تو پھر اس نے یہ جو کہا تھا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ یہ موضوع ہی منتفی ہو گا چونکہ وہ کہیں جا ہی نہیں رہا کہ ہم اس کے نقش قدم پر چل کر اس کے پیچھے چلیں۔
پیچھے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس رفتار سے چل رہا ہے ہم بھی اسی رفتار سے چلیں، نہ اس سے تیز چل کر آگے بڑھیں اور نہ سستی کر کے بہت پیچھے رہ جائیں، نہ دائیں مڑیں نہ بائیں مڑیں۔ مگر یہ کہ وہ دائیں بائیں مڑے۔ لہذا آگے چلنے والا جدھر مڑے گا ہمیں مڑنا پڑے گا جہاں رکے گا ہمیں رکنا پڑے گا اس کی ہر نقل و حرکت کو ہمیں اپنانا ہے اسے اتباع کہتے ہیں۔
قرآن کے اتباع کا کیا مطلب ہے؟
اللہ کا فرمان ہے: ھذا کتاب، کیا اللہ کی مراد اس کتاب سے مطبوعہ کتاب ہے؟ نہیں بلکہ یہ ایک دستور ہے ایک آئین، منشور زندگی اور آئیڈیالوجی ہے جو انفرادی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کے لیے منشور رکھتا ہے۔ قرآن کا مقصد ہماری زندگیوں کو منظم اور نظم و ضبط کرنا ہے، اور ہمیں اس کا اتباع کرنا ہے، یعنی قرآن کی پیروی کرنا ہے۔ قرآن کا نظام متحرک ہے اور انسانوں کو اس متحرک کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرہ معاشرہ جمود کا شکار نہیں ہو گا بلکہ ہمیشہ متحرک اور حرکت میں رہے گا۔ اس نظام کی اتباع کر کے آپ تقویٰ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگلی آیت اس موضوع کی مزید وضاحت کرتی ہے:
أَن تَقُولُوٓاْ إِنَّمَآ أُنزِلَ ٱلۡكِتَٰبُ عَلَىٰ طَآئِفَتَيۡنِ مِن قَبۡلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمۡ لَغَٰفِلِينَ (156)
کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو جماعتوں پر نازل ہوئی تھی اور ہم اس کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے یہ جواز ختم کرنے کے لیے یہ کتاب نازل کی ہے کہ پہلے دو جماعتوں یعنی یہود و نصاریٰ پر جو کتابیں نازل کی ہیں ہم ان کی تعلیمات سے بے خبر تھے لہذا ہم کیسے ہدایت پا سکتے ہیں۔
أَوۡ تَقُولُواْ لَوۡ أَنَّآ أُنزِلَ عَلَيۡنَا ٱلۡكِتَٰبُ لَكُنَّآ أَهۡدَىٰ مِنۡهُمۡۚ فَقَدۡ جَآءَكُم بَيِّنَةࣱ مِّن رَّبِّكُمۡ وَهُدࣰى وَرَحۡمَةࣱۚ فَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَصَدَفَ عَنۡهَاۗ سَنَجۡزِي ٱلَّذِينَ يَصۡدِفُونَ عَنۡ ءَايَٰتِنَا سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصۡدِفُونَ(157)
یا تم یوں کہتے: اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہو جاتی تو ہم ان سے بہتر ہدایت لیتے،پس اب تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل، ہدایت اور رحمت تمہارے پاس آ گئی ہے، پس اس کے بعد اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیت کی تکذیب کرے اور ان سے منہ موڑے؟ جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑ لیتے ہیں انہیں ہم اس روگردانی پر بدترین سزا دیں گے۔
صدف کے معنیٰ
آیت میں مزید کہا گیا ہے کہ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو کتاب کو پیش کرنے کے بعد اس کا انکار کرے۔ اللہ تعالیٰ منہ موڑنے والوں کو سزا دے گا۔ اس آیت میں "صدف” کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال ہوئی ہے جو اللہ کی کتاب سے روگردانی کرتے ہیں، اور یہ لفظ ایک ہی آیت میں تین مرتبہ آیا ہے۔ ہم عام طور پر "صدف” کو اس خول کے طور پر سمجھتے ہیں جس میں سیپ رہتے ہیں، جہاں موتی بھی مل سکتے ہیں۔ تاہم، یہ "صدف” کا لغوی معنی نہیں ہے۔ یہ اتباع کی مخالفت میں استعمال ہوتا ہے، جو اس اتباع کے معنی کو مزید وسعت دیتا ہے۔ "صدف” دو چیزوں کی علامت ہے: مرکز سے الگ رہنا اور کناروں سے ملنا۔ مثال کے طور پر، سیپ کا خول کناروں سے جڑتا ہے، لیکن مرکز کھوکھلا ہے۔ جیسے دو تھالیوں کو آپس میں جوڑیں تو کناروں سے آپس میں مل جاتی ہیں لیکن بیچ میں جگہ خالی رہتی ہے اسے صدف کہتے ہیں۔ یعنی نہ بالکل الگ ہیں اور نہ بالکل جڑے ہوئے ہیں یعنی تعلق ہوتے ہوئے دوری اختیار کرنا۔
عربی میں، حادثے کو "تصادف” کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کاریں وقفے کے ساتھ چل رہی تھیں لیکن آخر کار کسی مقام پر آپس میں ٹکرا گئیں یا آپس میں جڑ گئیں۔ جب دو ایسے لوگ جو ملنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اچانک ایک اجتماع میں آپس میں ملیں تو اسے "مصادفہ” کہتے ہیں۔ یعنی یہ دو افراد ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے کسی جگہ پر آپس میں مل گئے یہ مصادفہ ہے۔ یہ ملاقات ان کے درمیان فاصلے کو کم نہیں کرتی، کیونکہ وہ صرف سلام کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ "صدف” کے معنی کو واضح کرتا ہے۔
آیت میں صدف سے مراد
یہاں پر صدف قرآن کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے لیکن رشتہ ایسا ہے کہ ہماری زندگی کے صرف کنارے قرآن کے کناروں سے ملتے ہیں، جب کہ قرآن کے بنیادی مضامین اور تعلیمات سے ہم دور رہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم قرآن کو صرف چھوتے ہیں یا اس کی تلاوت کر تے ہیں، اور اس کے سطحی پہلوؤں سے مشغول رہتے ہیں۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کی تعلیمات کا انکار کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں۔ وہ قرآن کے حوالے سے توصیف میں مشغول ہیں – وہ صرف کناروں سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ اس کی جوہر کا انکار کرتے ہیں۔ جب ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ ایک خول سے مشابہ نظر آتی ہیں جن کے اندر قرآن سے رشتہ کہیں گوشہ و کنار میں پایا جاتا ہے ۔ جب انسان کی زندگی میں انحراف ہوتا ہے تو کنارے قرآن کو چھو سکتے ہیں، لیکن اس کی پوری زندگی قرآن سے دور رہتی ہے، اور وہ بدلنے کو تیار نہیں ہوتا۔
قرآن امام ہے
قرآن ہمارا امام ہے، اور ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے جہاں تک یہ رہنمائی کرتا ہے، جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے تاکید کی ہے۔ عربی اصطلاح میں، امام اس لیول میٹر کو بھی کہا جاتا ہے، جو معمار اس بات کا تعین کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ آیا دیوار سیدھی ہے یا ٹیڑھی۔ امام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک معیار کے طور پر کام کرتا ہے کہ انسانی زندگی سیدھی ہو۔ امت کی ساخت کو برقرار رکھنے کے لیے امام ایک رول ماڈل اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
امت میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ
آج امت میں اتحاد کیوں نہیں؟ کیا خود شیعہ ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں؟ کیا وہ ایک دوسرے کی مساجد میں جاتے ہیں؟ ہر گروہ نے اپنا اپنا نظام قائم کر رکھا ہے۔ ان کے کنارے مل سکتے ہیں، لیکن باقی ڈھانچہ سیدھ میں نہیں آتا ہے۔ یہ اختلاف ٹیڑھے ہونے اور امامت کے نظام کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔ امام کے بغیر امت کیسے سیدھی رہ سکتی ہے؟ امام محض شہر کے انتظامی امور کا انتظام کرنے والا میئر نہیں ہوتا۔ بلکہ امام وہ ہے جو امت کی ترقی کرے۔ فرقے تب پیدا ہوتے ہیں جب کجی لوگوں اور گروہوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ہمیں قرآن کی "تصدیف” میں مشغول نہیں ہونا چاہئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی قرآن کو سطحی طور پر چھو رہی ہے، لیکن قرآن کی تعلیمات سے دور رہتی ہے ۔
ہمیں اپنے اخلاقیات کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ ہم قرآن کی تعلیمات سے کس قدر ہم آہنگ ہیں۔ ہماری زندگیوں میں قرآنی اخلاقیات کا کتنا حصہ ہے؟ جب میاں بیوی کے درمیان، سماجی معاملات میں، یا دیگر افراد کے ساتھ تعلقات میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں، تو ہم ان مسائل کو کس طرح سنبھالتے ہیں، کیا تعلیمات قرآن کے مطابق اپنے فیصلے کرتے ہیں یا مخالف، اس کا اندازہ ہم خود کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے خود کو قرآن کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا تو اللہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ قرآن کا انکار کرنے والوں اور "تصدیف” پر عمل کرنے والوں کو سخت سزا دے گا۔ یہ لوگ قرآن کو محض کناروں سے چھوتے ہیں، جبکہ ان کی زندگی کا بنیادی حصہ قرآن سے دور رہتا ہے۔
طاغوتی حکومت اور قرآن سے دوری
طاغوت کے معاشرے میں سکون اور اطمینان سے رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس میں ایک خاموشی شامل ہے جو نسلوں پر محیط ہے۔ طاغوت کی حکومت کو قبول کرنا قرآن سے علیحدگی کا باعث بنتا ہے۔ ہم نے رضامندی ظاہر کی ہے اور یہاں تک کہ قرآن سے اس علیحدگی پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اکثریت اپنی زندگی سے مطمئن نظر آتی ہے۔ ان کے گھروں میں کھانا ہے تو وہ خود کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ جن کے پاس خوراک کی کمی ہے انہیں سزا کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہم نے خود کو قرآن سے اس لیے دور کر لیا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود ہے، تو ہم اللہ سے کچھ کیوں مانگیں؟ یہ ذہنیت ہمارے اندر طاغوت نے پیدا کی ہے۔ اللہ ہمیں آئینی تقویٰ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
خطبہ 2
تقویٰ کے بغیر انسانی اقدار کا خاتمہ
تخلیق کے بعد انسان کو بقا اور رزق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کی طرف سے فراہم کردہ رزق کے ساتھ ساتھ ہدایت کا ایک نظام بھی قائم کیا گیا ہے، جسے مذہب کہا جاتا ہے، جو انسان کو تخلیق کے مقصد کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت کے بغیر زندگی کے اثاثے ضائع ہو جاتے ہیں اور یہ ہدایت تقویٰ سے محفوظ رہتی ہے۔ تقویٰ کے بغیر، انسان کی تمام صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں، اور وہ حقیقی معنوں میں انسان نہیں رہتا۔ اگر چیزیں محفوظ نہ رہیں تو وہ یا تو ضائع ہو جاتی ہیں یا زنگ لگ جاتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جامعہ کی صورت میں ہمیں ایک اہم موقع عطا کیا ہے پھر بھی ہم اس کی حفاظت میں ناکام رہتے ہیں۔ حال ہی میں، ہم نے ایک مدرسے کے طالب علم کو سی سی ٹی وی کیمرہ توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کیمرے میں قید کیا۔ اللہ نے یہ موقع دیا ہے اور اب اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ تحفظ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم سب سے پہلے اپنی انسانیت کو محفوظ رکھیں۔ بزرگوں نے ہمیشہ نوجوان نسل کو صحیح معنوں میں انسان بننے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم انسانیت کے لیے مناسب طریقے سے کام کر رہے ہیں؟ اگر دینیات کا طالب علم اپنی حیثیت کو سمجھ لے تو وہ صحیح معنوں میں طالب علم بن سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی انسانیت کو پہچاننا چاہیے تاکہ اسے محفوظ رکھا جا سکے۔
اسرائیل کا تین ہزار سالہ پرانا نقشہ شائع
آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرنے کے باوجود ہماری نسل میں انسانیت کا فقدان ہے۔ ہر فرقہ اور نسل انسانیت کا احساس کھو چکی ہے، جس کا ثبوت غزہ کی صورتحال سے ہے۔ امام علی علیہ السلام نے ایک بار فرمایا کہ لوگ انسانوں سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن ان کے اندر حقیقی مردانگی کا فقدان ہے۔ علماء، سیاستدان اور حکمران اپنی انسانیت کھو چکے ہیں۔ اسرائیل نے تین ہزار سال پہلے کا ایک نقشہ بھی شائع کیا ہے، جس میں ان کے تاریخی علاقوں کی حد تک دکھایا گیا ہے، اور وہ ان زمینوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دلیری اردن، مصر اور سعودی عرب جیسی اسلامی اقوام کی موجودگی میں ظاہر ہوئی ہے ۔ انہیں یہ ہمت کیسے حاصل ہوئی؟ دریں اثنا، پینتیس مسلم ممالک بن سلمان کے ماتحت ہیں۔ اسرائیل اس وقت تک اپنے عزائم اور دعوے پورے کرے گا جب تک ایسے حکمران مسلمانوں میں برسراقتدار رہیں گے۔ اردن بغیر جنگ کے چابی حوالے کرے گا۔ انہوں نے تکفیری عناصر کے ذریعے شام میں مزاحمت کی سرزمین کو تباہ کر دیا ہے۔
لبنان کا نیا صدر اور اسرائیلی عزائم کی تکمیل
حال ہی میں، ایک نیا صدر، عون جوزف، جو ایک عیسائی ہے، ان کی پالیسیوں کے مطابق تمام گروپوں کے ووٹوں کے ساتھ مقرر کیا گیا ہے۔ وہ پہلے ایک آرمی جنرل، حزب اللہ مخالف اور امریکہ، فرانس اور اسرائیل کا حامی تھا۔ اس کا بنیادی مقصد حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ہے، ایک ایسا مقصد جس کی بہت سے لوگ گزشتہ چالیس سالوں سے خواہش کر رہے تھے، لیکن ایران نے مسلسل اس کی مخالفت کی ہے۔ شام نے پہلے لبنان کا دفاع کیا تھا لیکن رفیق حریری کی موت کے بعد اس نے اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔ یہ اسرائیل کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
اس نئے صدر کو پہلے مرحلے میں حزب اللہ اور شیعہ نمائندوں سے ووٹ نہیں ملے تھے۔ دوسرے دور میں، امریکی اور فرانسیسی نمائندوں نے صدر کے طور پر ان کی تقرری کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ حماس کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت حال ہے، جیسا کہ اس کا محاصرہ ہو چکا ہے، اور حزب اللہ کو اب ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ چالیس سالوں میں پہلی بار بیروت کے ہوائی اڈے پر ایرانی سفارت کاروں کی تلاشی لی گئی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ لبنان میں ایران کا کوئی اثر و رسوخ نہیں رہا ہے۔ یہ تبدیلی شام میں جو کچھ ہوا اس کی آئینہ دار ہے۔
عراقی صدر کا دورہ ایران
خطے میں تیسری تبدیلی عراق سے متعلق ہے۔ عراقی صدر سوڈانی نے حال ہی میں ایک روزہ ایران کا دورہ کیا۔ اس طرح کے مختصر دوروں میں عام طور پر معاہدے شامل نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد اکثر انتباہات یا لالچ دینا ہوتا ہے۔ انہوں نے وزارت کے دیگر حکام کی موجودگی کے بغیر سپریم لیڈر اور ایرانی صدر سے ملاقات کی۔ انہوں نے جو پیغام پہنچایا اسے کسی میڈیا نے کور نہیں کیا، لیکن وہ بلاشبہ امریکہ اور بن سلمان کے نمائندے کے طور پر آئے، یا تو وارننگ دینے یا دلکش فوائد پیش کرنے کے لیے۔ رونما ہونے والی تبدیلیاں اس پیغام کی نوعیت کو ظاہر کرے گی جو انہوں نے دیا تھا۔ عراقی صدر کو سپریم لیڈر نے حشد الشعبی کو ختم نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ایران میں موجودہ صدر پزشکیان مزاحمت کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ رفسنجانی کے ماڈل کی بنیاد پر پابندیاں اٹھانے اور اندرونی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔