اس تناظر میں اسرائیل کی جانب سے گریٹر اسرائیل کا تین ہزار سالہ پرانا نقشہ بھی منظر عام پر آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی سلطنت کو احیاء کرنے کے اندر یہ سارے کریکٹر شامل ہیں جن میں مرکزی کردار آل سعود اور آل نہیان کا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو اور ہماری ذمہ داری

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
10 جنوری 2025
سب سے اہم موضوع جو اس وقت توجہ طلب ہے اور جس کے بارے میں آگاہی بہت ضروری ہے وہ مشرق وسطی کی تشکیل نو ہے مشرق وسطی اس وقت خصوصا شام کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو حالات بنے ہیں ڈرامائی طور پر جو رخ مشرق وسطیٰ نے اختیار کیا ہے پہلے کے تمام محاسبات کے بالکل الٹ ہے۔
اسرائیل کو نابودی سے بچانے والے خائن مسلمان
طوفان الاقصی اپنی نوعیت میں بہت ہی منفرد اور تاریخی کارروائی تھی، مقاومت و مزاحمت کے محاذ نے اسرائیل کو اپنی تاریخ کی سنجیدہ ترین مشکلات کا شکار بنا دیا تھا۔ طوفان الاقصیٰ نامی اس آپریشن نے اسرائیل کو نابودی کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کے ثبوت اسرائیلی کابینہ، اسرائیلی فوج، اسرائیلی وزراء اور اسرائیلی عوام نے دیے ہیں۔ سب اس باور پہ پہنچ چکے تھے کہ اسرائیل کے خاتمے کا وقت آ گیا ہے اور انہوں نے لحظہ شماری شروع کر دی تھی لیکن اس دوران ناگہان صورتحال نے پلٹا کھایا اور ورق الٹ گیا اور اسرائیل ختم ہوتے ہوتے اس کو سنبھلنے کا موقع دے دیا گیا اور یہ منصوبہ اس وقت تیار کیا گیا جب لبنان پر حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر کے سید حسن نصراللہ کو شہید کر دیا گیا ان سے پہلے ان کے جرنیلوں کو اور پھر تدریجا حماس کی قیادت کو ایک ایک کر کے شہید کیا گیا بلکہ اس سے بھی قبل جب تہران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا اس نے معاملے کا رخ بدل دیا لیکن اس لیے نہیں کہ اس نقصان سے حزب اللہ یا حماس کمزور ہو گئی بلکہ ایک طرف سے اسرائیل نے تو یہ جارحیت کی لیکن دوسری طرف سے خطے کے مسلم ممالک خصوصا ترکیہ اور عرب ممالک نے اس موقع پر بہت بڑا خائنانہ کردار ادا کیا ہے اور اسرائیل کے حق میں انہوں نے مل کر ایران کا پل توڑ دیا ہے جس پل کے ذریعے ایران حزب اللہ، انصار اللہ اور حماس کی مدد فراہم کرتا تھا اور وہ پل شام تھا انہوں نے شامی حکمران کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہے شام کی حکومت کے ساتھ عرب حکمرانوں نے خصوصا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اچھے روابط قائم کئے لیکن پس پردہ انہوں نے بشار اسد کو بھی اعتماد میں لیا اور اسے ایران اور حزب اللہ سے دور کیا اور اسے ایک شیشے میں اتارا اور خصوصا جب اسماعیل ہنیہ کی شہادت ہوئی تو بشار اسد نے یہ محسوس کیا کہ وہ بھی ایسے ہی مارا جا سکتا ہے لیکن جب سید حسن نصر اللہ شہید ہوئے تو اسے اپنی موت بھی آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی۔ جیسا کہ پہلے صدام اور کرنل قزافی کے ساتھ امریکہ ایسا کر چکا تھا۔
بشار اسد نے موت کے خوف سے فرار اختیار کی
لہذا بشار اسد بہت گھبرا چکا تھا کہ اگر اسماعیل ہنیہ کو تہران کی محفوظ ترین جگہ پر مارا جا سکتا ہے اور سید حسن نصر اللہ زمین کے نیچے بم مار کر شہید کیا جا سکتا ہے تو اسے یقین ہو گیا کہ امریکہ اور اسرائیل جب چاہیں اسے ختم کر سکتے ہیں اس لیے اسے موت سے ڈر لگا اور اس نے زندہ رہنے کو ترجیح دی لیکن بشار اسد کے ساتھیوں ایران اور روس کو اعتماد میں لینا ضروری تھا روس نے تو آمادگی ظاہر کر دی کہ ٹھیک ہے بشار اسد جب خود موت سے کانپ رہا ہے تو اقتدار سے دور ہو جائے لیکن بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کے بدلے میں یوکرین میں روس کو یورپ اور امریکہ چھوٹ دیں۔ وہاں روس کو جو چاہیے وہ اس نے معاہدہ کر لیا اور جنگ بندی کا ماحول بن رہا ہے شاید ٹرمپ کے آتے ہی یوکرین میں جنگ بندی ہو جائے۔
شام مزاحمت کی رگ حیات تھا
ایران کے نزدیک شام حیاتی حیثیت رکھتا تھا بلکہ شام مزاحمت کی رگ حیات تھا چونکہ اگر شام نہ ہوتا تو لبنان تک رسائی کی کوئی صورت نہ بنتی، حزب اللہ تنہا ہو جاتی اور فلسطین کی مدد ختم ہو جاتی اور شام کے ذریعے ایران جو اہم کردار ادا کر رہا تھا وہ ختم ہو جا رہا تھا لیکن بشار اسد نے ایران کو نہ صرف اعتماد میں نہیں لیا بلکہ منصوبہ تیار کرنے کے بعد ایران کو آگاہ کیا کہ وہ اتنے ٹائم کے اندر شام سے اپنے اثاثے نکال لے۔ صدر پیوٹن کی بقول، چار ہزار ایرانی شام میں تھے جو انہوں نے محفوظ جگہ پر منتقل کر لیے۔
اس طرح انہوں نے بشار اسد کو باقاعدہ ایک منصوبہ کے تحت اقتدار سے دور کر کے شام کو داعشیوں کے ہاتھ میں دیا اور ایران کے لیے میدان تنگ کر دیا اور حزب اللہ اور ایران کا رابطہ ختم کر دیا۔ آپس میں صرف اب ہوائی راستہ ہے جو بیروت ہوائی اڈے کے حادثے نے بتا دیا کہ وہ بھی بند ہو چکا ہے۔ انہوں نے ایرانی جہاز کی تلاشی لے کر حتیٰ ایرانی سفارتکاروں کی ایٹیچیوں کی تلاشی لے کر یہ پیغام دے دیا کہ اب وہ ہوائی اڈے کا استعمال نہیں کر سکتے۔
لبنان کے نئے صدر کا انتخاب اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا سناریو
اس کے بعد جو گزشتہ روز لبنان میں اس سے بھی زیادہ اہمیت والا کام انجام پایا ہے کہ لبنانی فوج کے سربراہ عون جوزف کو صدر مملکت کے طور پر انتخاب کیا گیا۔ لبنانی فوج شروع سے چاہتی تھی کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے اور حزب اللہ کے بجائے ساری طاقت فوج کے پاس ہو لیکن فوج اتنی مضبوط نہیں تھی اس لیے حزب اللہ نے لبنان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے دوش پر لے رکھی تھی۔ حزب اللہ چونکہ عسکری اور سیاسی ہر اعتبار سے طاقتور تھی اس وجہ سے لبنانی فوج کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور وہ حاشیہ پر نظر آتی تھی۔ اور عون جوزف چونکہ عیسائی بھی ہیں اور فوجی سربراہ بھی ہیں لہذا ان کی یہ اندرونی خواہش تھی کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے۔ دوسری طرف سے ابھی امریکہ نے لبنان کے اندر اس شخص کی تائید کی ہے یعنی یہ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور فرانس کا متفقہ نمائندہ ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کا لبنان میں عمل دخل اور مفاد ہے لبنان میں موجود تمام گروہ انہیں ملکوں کے تابع ہیں صرف شیعوں کے علاوہ جن کی اکثریت ایران کے زیر اثر ہیں۔ لہذا موجودہ صورتحال کے لیے اس شخص کو تیار کیا گیا تاکہ وہ اس موقع پر اپنی درینہ خواہش کو بھی پورا کر سکیں اور حزب اللہ کو غیر مسلح کر سکیں۔ چونکہ حزب اللہ کی مرکزی قیادت اور ریڑھ کی ہڈی سید حسن نصر اللہ شہید ہو چکے ہیں اور دیگر اعلیٰ جرنیم بھی شہید ہو چکے ہیں لہذا اب نعیم قاسم صاحب گرچہ قدیمی رہنما ہیں اور حزب اللہ کے بانیوں میں سے ہیں لیکن یہ اداراتی اور دفتری امور کے ماہر ہیں عسکری امور کے ماہر نہیں ہیں گرچہ اپنے تشکیلاتی امور میں بہت نمایاں شخصیت رکھتے ہیں لیکن ایسے وقت میں انہیں حزب اللہ کی کمانڈ ملی ہے جب حزب اللہ کو اتنا شدید دچھکا لگ چکا اور دوسری طرف سے سب سے بڑا دھچکا شام کا تھا کہ شام کی وجہ سے سپلائی لائن کٹ چکی ہے۔ کوئی کتنی ہی مضبوط طاقت کیوں نہ ہو جب اس کی سپلائی لائن کٹ جاتی ہے تو شدید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے لہذا اب دشمنوں نے حزب اللہ کے ارد گرد دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا اور ایسے شخص کو صدارت کے لیے سامنے لایا گیا جس کے بارے میں حزب اللہ کو پتہ تھا کہ یہ تو وہ شخص ہے جو حزب اللہ کو غیر مسلح کرے گا لہذا حزب اللہ نے مخالفت کی لیکن پھر دو گھنٹے کے مذاکرات کے بعد دوسرے راؤنڈ میں حزب اللہ کے نمائندوں نے ووٹ نے بھی اس کی تائید کی اور یہ متفقہ طور پر ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔
ظاہر ہے تین ملک فرانس، سعودی عرب اور امریکہ جو لبنان میں عمل دخل رکھتے ہیں وہ اب عون جوزف کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو عملہ جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے اور ایران کا اثر و رسوخ ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
عراق میں حشد الشعبی کو ختم کرنے کی کوششیں تیز
تیسری طرف سے عراق میں شام کے خاتمے کے بعد حشد الشعبی کو بھی غیر مسلح کرنے اور اسے ختم کرنے کی کوششیں تیز ہوتی نظر آ رہی ہیں چونکہ عراق داعش کے حملے کے بعد عراقی فوج داعش کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی تو شہید قاسم سلیمانی نے ایرانی بسیج کے طرز پر حشد الشعبی رضاکار فورس تیار کی جس نے عراق کو داعش سے بچایا تھا۔ ابھی اس فورس کو غیر مسلح کرنے کے لیے عراق میں شدت کے ساتھ عمل جاری ہے حکومت، مذہبی قیادت، اور سیاسی جماعتیں سب اس بات پر مصر ہیں کہ حشد الشعبی کو غیر مسلح کیا جائے۔ اور یہ سناریو بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
اور پانچویں جانب سے ایران ہے ایران کے پاس جو ہتھیار تھا وہ یہی مزاحمتی گروہ تھے یعنی حزب اللہ، حشد الشعبی اور انصار اللہ ۔ دشمنوں نے مسلم خائنین کے ساتھ مل کے ان گروہوں کا ناطقہ اور راستہ بند کر دیا ہے ان گروہوں کی سپلائی لائن بند کر کے انہیں محاصرہ میں لے لیا ہے۔
ایران کی موجودہ حکومت بھی مشرق وسطیٰ کے جدید سناریو کا حصہ
اور پھر ایران کے اندر بھی ایک گروہ مشرق وسطیٰ کے جدید سناریو کا حصہ ہے ایران کے اندر شہید رئیسی کے بعد جو حکومت منتخب ہوئی اس حکومت میں جواد ظریف صاحب جو صدر روحانی کے دور میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور جنہوں نے پہلے بھی امریکی اور ایرانی مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اوباما کے دور میں انہوں نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کروایا تھا جو ٹرمپ نے آ کر ختم کر دیا۔ موجودہ حکومت میں ان کو ایک کلیدی پوسٹ دی گئی ہے اور انہیں صدر کا اسٹریٹیجک مشاور بنایا گیا ہے۔ اور انہوں نے یہ عندیہ دینا شروع کیا ہے کہ ایران کے مسائل بھی عنقریب حل ہو جائیں گے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات پھر سے شروع ہوں گے۔
لہذا ایران کے اندر بھی اس تفکر اور نظریہ کے لوگ موجود ہیں جو مشرق وسطی کی تشکیل نو کے سناریو میں شامل نظر آتے ہیں۔
لبنان میں نیا صدر انتخاب ہونا بشار اسد کا چلے جانا اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا اور حشد الشعبی کو ختم کرنا یہ سب اسی سناریو کا حصہ ہیں اور ظاہر ہے کہ پیچھے یمن تنہا رہ جائے گا اور یمن پر کنٹرول کرنا ان کے لیے آسان ہو جائے گا چونکہ یمن کے لیے بھی سپلائی لائن ایران کے پاس موجود نہیں ہے۔
گریٹر اسرائیل کی تشکیل میں آل سعود کا مرکزی کردار
اس تناظر میں اسرائیل کی جانب سے گریٹر اسرائیل کا تین ہزار سالہ پرانا نقشہ بھی منظر عام پر آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی سلطنت کو احیاء کرنے کے اندر یہ سارے کریکٹر شامل ہیں۔ جن میں مرکزی کردار آل سعود اور آل نہیان کا ہے انہوں نے مزاحمت اور مقاومت کے ختم کرنے کا ٹاسک اسرائیل کو دیا ہے اور اسرائیل کی محوریت میں نقشہ بنا رہے ہیں۔
شیطانی چالوں کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری
لیکن یہ شیاطین کا مکر ہے کہ ہم مزاحمت کے بغیر مشرق وسطی کی تعمیر نو یا تشکیل نوع کریں گے لیکن جیسے رہبر معظم نے فرمایا ہے کہ مزاحمت ختم نہیں ہوئی یہ شام کا جو واقعہ ہوا ہے یا لبنان کے واقعات ہوئے ہیں ان سب سے مقاومت و مزاحمت ختم نہیں ہوئی بلکہ اب نئے سناریو میں نئے مشرق وسطی کی صورتحال میں مزاحمت نے اس شیطانی نقشے کو ناکام کرنا ہے لیکن اب نئی اسٹریٹجی اور نئی ٹیکنیک کے ساتھ اور نئی حکمت عملی کے ساتھ یہ کام کرنا ہو گا۔ پہلی جو حکمت عملی تھی وہ تقریبا ابھی ختم ہو چکی ہے یعنی اس کو لاگو نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں ابھی نئے طریقے سے اپنی اسٹریٹجی کو ری ڈیزائن کرنا ہوگا اور ایسے میں جب یہ خطرناک شیطانی نقشہ سامنے آیا اور علاقے میں یہ سیاسی تحولات ایجاد کیے جا رہے ہیں ایسے میں تمام امت مسلمہ کو چاہیے خصوصا جو بیدار لوگ ہیں متدین ہیں اور با تقوی لوگ ہیں انہیں پہلے سے زیادہ فلسطین اور غزہ اور مزاحمت و مقاومت کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ انہیں یہ اندازہ ہو کہ اگر شیطانوں نے ہمارے لیے یہ نقشہ بنایا ہے تو اللہ نے ہمارے ناصرین بھی پوری دنیا میں بنائے ہیں اور وہ ان اس حمایت اور اس نصرت کے ذریعے مقاومت و مزاحمت کو جاری رکھ سکتے ہیں چونکہ اسی میں بقا ہے اگر یہ شیطانی نقشہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا جس کی تلافی ناممکن ہے اس کی تلافی پھر اسی صورت میں ہوگی جب امام عصر کا ظہور ہوگا تو پھر یہ شیطانی نقشہ ختم ہوگا اور وہ ظہور کب ہوگا اس کا کسی کو علم نہیں ہے ممکن ہے ہزاروں سال بعد ہو اور ہزاروں سال مشرق وسطیٰ اور مسلمانوں کو بدبختی کے ساتھ زندگی گزارنے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام دنیا کے بیدار اور اگاہ انسان آگے بڑھیں اور مزاحمتی گروہوں کی نصرت کریں اور انہیں صہیونی نقشوں کو نقش پر آب کرنے میں کامیاب بنائیں۔