جمہوریت کا پرچار کرنے والے اس وقت کے سب سے بڑے ممالک ہندوستان اور امریکہ ہیں۔ اگر جمہوریت قرآن سے ثابت ہوتی ہے تو پھر آپ سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ امریکہ تو تسلیم کریں کہ یہ سب سے بڑے اسلامی ملک ہیں۔
عمل کو کیسے خالص بنائیں؟/ دین کا بنیادی مقصد کیا ہے؟/ جمہوریت اور امامت کا ٹکراؤ

یہ کارگاہ آپ طلاب کو منظم کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے انسان کی زندگی میں نظم انتہائی ضروری چیز ہے دنیا میں جتنی بھی اہم شخصیات کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں چاہے وہ مذہبی شخصیات ہوں یا غیر مذہبی، سب کے حالات زندگی پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کتنے منظم تھے۔ لہذا یہ اس طرح کی کارگاہیں اسی لیے رکھی جاتی ہیں تاکہ ان میں طلاب نظم و نسق سیکھ سکیں۔ نظم کیا چیز ہے اس کی اگر تعریف کی جائے تو دو لفظوں میں اس کی تعریف ہو سکتی ہے۔ نظم یعنی ہرچیز کو اس کی جگہ پر رکھنا اور ہر کام کو اس کے وقت پر انجام دینا۔ اگر انسان بس اس اصول کا پابند ہو جائے تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب انسان ہو گا۔
کچھ ایک سوال طلاب کی طرف سے آئیں ہیں جن کے جوابات اس سیشن میں دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو سب کے ذہن کی ترجمانی کرتے ہیں اور عمومی نوعیت کے حامل ہیں۔ پہلا سوال جو کسی بھائی نے پوچھا ہے وہ یہ ہے کہ:
سوال: کسے اپنے عمل کو سو فیصد خدا کے لیے خالص کریں اور اگر انسان اپنی نجات کے لیے خدا کی اطاعت کرے تو کیا اس کا یہ عمل خالص ہو گا؟
جواب: یہ بہت بنیادی اور اہم سوال ہے عمل کو کیسے خالص کیا جائے جیسا کہ قران کریم میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے یہی شرط رکھی ہے کہ مومن کا عمل خالص ہو گا تو قبول کیا جائے گا۔ خالص کسے کہتے ہیں جو ملاوٹ سے دور ہو۔ اگر کسی چیز میں کوئی چیز شامل ہو گئی ہو اور اس میں ملاوٹ آ گئی ہو اس ملاوٹ کو دور کرنے کا نام اخلاص ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو اصطلاحیں استعمال کیں ہیں ایک مخلِص اور دوسری مخلَص۔ شیطان نے بھی مخلَص بندوں کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا تھا کہ میں باقی سب انسانوں کو گمراہ کروں گے مگر تیرے مخلَص بندوں کو گمراہ نہیں کر سکوں گا۔ لہذا مخلَص بہت بڑا مقام ہے جہاں تک شیطان کی رسائی ممکن نہیں ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے بندوں سے جو مطالبہ کیا ہے وہ دین میں مخلِص ہونے کا ہے۔ ﴿ إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (زمر ۲) اللہ کو انسان سے دین خالص چاہیے۔ صرف نیت خالص کافی نہیں ہے۔ انسان بھی خالص چاہیے عمل بھی خالص چاہیے۔ اور یہ خلوص دین خالص کی بنیاد ہے۔ جیسا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے دین کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
دین کی پہلی قسم اسلام ناب ہے۔ یا علامہ اقبال نے اسے مشرب ناب کا نام دیا۔ آج دنیا میں جس طرح دنیوی کوئی چیز خالص نہیں بچی ہے اسی طرح دین بھی خالص نہیں بچا ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ آ چکی ہے۔ جسمانی غذا سے لے کر روحانی اور فکری غذا تک سب چیزوں میں ملاوٹ آ چکی ہے۔ لہذا امام خمینی نے دین کو تین قسموں میں تقسیم کیا پہلی قسم ہے اسلام ناب، جسے علامہ اقبال نے مشرب نام سے تعبیر کیا اور قرآن نے دین خالص کا نام دیا۔ یہ تینوں تعبیریں ایک ہی حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں۔
دوسری قسم ہے دین تحجر۔ یعنی دین کی سطحی تفہیم، تنگ نظری اور جمود والی سوچ۔ اگر میں اس کی مثال دوں تو یوں کہوں گا کہ بازار سے جو ڈبوں میں بند دودھ ملتا ہے اس میں ملاوٹ تو نہیں ہوتی لیکن اس سے دودھ کی کریم نکال لی جاتی ہے۔ یا اور بہت ساری چیزیں ہیں جن سے غذائیت والی چیز نکال کر انہیں مارکٹ میں بیچا جاتا ہے۔ امام فرماتے ہیں کہ دین سے اس کی روح نکال لی جائے تو جو دین پیچھے بچتا ہے وہ دین تحجر ہے۔ یا علامہ اقبال کے بقول خانقاہی دین۔ جس میں صرف عبادتیں اور رسمیں ہیں۔ ایک اور مثال دوں، جن لوگوں کے گھروں میں دودھ دینے والے جانور ہیں وہ جانتے ہیں کہ دودھ سے دہی بنایا جاتا ہے اور دہی سے لسی بنائی جاتی ہے۔ لیکن لسی بناتے وقت اس سے مکھن نکال لیا جاتا ہے۔ اب جو پیچھے بچ گیا ہے وہ صرف سفید پانی ہے جسے چھاچھ بھی کہتے ہیں۔ اس میں غذائیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی غذائیت وہی مکھن تھا جو نکال لیا گیا۔ چونکہ اس کا رنگ سفید ہے لہذا لوگ اسے یہ سمجھ کر پیتے ہیں کہ اس میں دودھ والی غذائیت موجود ہے۔
دین بھی ایسے ہی ہے اس سے اگر عقل و فکر کی غذائیت نکال لی جائے تو پیچھے دین بچتا ہے وہ صرف خانقاہی دین ہوتا ہے۔ وہ لسی کی طرح ہے لسی کو پینے سے انسان کو صرف نیند ہی آتی ہے۔ اس خانقاہی دین کو اپنانے سے بھی انسان صرف غفلت کا شکار ہوتا ہے یہ دین انسان کو سلا دیتا ہے ساری قوم سو جاتی ہے علماء قائدین سب دین کی چھاچھ پی کر سو جاتے ہیں چونکہ دین کی غذائیت اس سے نکلی ہوئی تھی دین کی غذائیت کیا ہے دین غذائیت اس کی عقلانیت ہے، اس کا نظام ہے نظام حکومت، نظام معیشت، نظام تعلیم، نظام اقتصاد، نظام سیاست، نظام سماجیت، یہ سارا نظام اور سسٹم دین کی روح اور غذائیت تھی جو علماء نے محنت کر کے دین سے نکال دی پیچھے کیا رہ گیا ہے صرف عبادتیں اور رسمیں۔ لوگ عبادتیں کر رہے ہیں اور رسمیں نبھا رہے ہیں جو بے خاصیت ہیں۔ اصل دین یہی نظام تھا لیکن مسلمانوں نے حکومت بنی امیہ کو دے دی، بنی عباس کو دے دی، طاغوتوں کے حوالے کر دی اور خود مسجدیں پکڑ کر بیٹھ گئے۔ آج بھی یہی ہے دین کا تعلق صرف مسجدوں تک ہے مسجد سے باہر دین نظر نہیں آئے گا۔ یہ وہی دین ہے جسے امام خمینی نے دین تحجر کا نام دیا۔
تحجر حجر سے ہے اور حجر پتھر کو کہتے ہیں یعنی جس طریقے سے پتھر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتی، پتھر میں کوئی حرکت نہیں ہوتی، یہ دین بھی پتھر کی طرح منجمد ہو چکا ہے اور قوم کو بھی منجمد کر دیتا ہے ان کی حرکت ختم کر دیتا ہے۔ جو چیز حرکت پیدا کرتی ہے وہ دین کا سسٹم اور نظام ہے۔ جب اسے نکال دیا گیا تو پھر یہ دین منجمد اور بے حرکت ہو گیا۔
اور دین کی تیسری قسم دین التقاطی ہے یعنی ملاوٹ والا دین، جس میں خرافات اور رسومات بھر دئے گیے ہوں، علاقائی رسم و رواج کو بھی دین کا حصہ بنا دیا گیا ہو، جس نے جو سوچا وہ دین کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ہندوستانی تہذیب، مغربی تہذیب، مشرقی تہذیب جو چیز اچھی لگی وہ دین کا حصہ بنا دی۔
آج دنیا میں یہی دو دین رائج ہیں کہیں پر دینی تحجر ہے اور کہیں پر التقاطی دین ہے۔ اور ان دو قسموں کا تعلق شیعہ یا سنی سے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے درمیان یہی دو دین رائج ہیں۔
لیکن امام فرماتے ہیں کہ اصل دین یہ نہیں ہے اصل دین وہی دین خالص یا اسلام ناب ہے۔ جو اللہ نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ (ص) پر اتارا اور نبی کریم نے بنا کچھ نکالے اور بنا کچھ اضافہ کئے اسے اہل بیت(ع) کے حوالے کیا۔ لہذا اہل بیت(ع) کا دین، دین خالص تھا اسلام ناب تھا یہ وہی دین تھا جو بغیر اضافہ اور کمی کے ان تک پہنچا تھا لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں نے اہل بیت (س) سے دین خالص نہیں لیا بلکہ غیروں سے انہیں کہیں پر دین تحجر ملا اور کہیں پر دین التقاتی ملا۔
یہ تھا دین خالص، لیکن بھائی نے جو سوال کیا وہ عمل خالص کے بارے میں ہے کہ عمل کو خالص کسے کیا جائے۔ عمل ارکان سے تشکیل پاتا ہے عمل کے تمام ارکان کے اندر بھی اگر خلوص ہو گا تو وہ عمل خالص کہلائے گا بعض کا کہنا ہے کہ نیت کا خالص ہونا کافی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ نیت خلوص کے لیے پہلی شرط ہے۔ لیکن اس کے بعد عمل کے تمام ارکان بھی خالص ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ کسی فقیر کو دودھ پلانا چاہتے ہیں، آپ کی نیت تو خالص ہے کہ آپ بغیر کسی ریاکاری کے فقیر کے دودھ کا گلاس پلانا چاہتے ہیں لیکن آپ دودھ کے گلاس میں پانی بھی ملا دیتے ہیں کام اللہ کے لیے ہے لیکن اللہ آپ کے اس کام سے راضی ہو جائے گا۔ نیت تو ٹھیک ہے لیکن جو عمل کیا ہے وہ عمل خراب ہے۔ عمل خالص نہیں ہے۔ عمل خالص اس وقت ہو گا جب نیت کے علاوہ خود عمل کا ڈھانچہ بھی خالص ہو، عمل کی ترکیب بھی خالص ہو، تب یہ عمل خالص ہو گا۔
سوال کا اگلا حصہ یہ تھا کہ انسان اپنی نجات کے لیے خدا کی اطاعت کرے تو کیا اس کا عمل خالص ہو گا؟ ہاں ایسا ہی ہے خلوص کے ساتھ اللہ کی اطاعت ہی انسان کی نجات کا سبب ہے۔ اللہ کی اطاعت میں انسان کی اپنی خواہشات شامل نہیں ہونا چاہیے، اطاعت میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں ہونا چاہیے، اس اطاعت کا نتیجہ عمل خالص ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں حوریں مل سکتیں ہیں!۔۔ اکثر مسلمان حوروں کے لیے ہی تو عمل کرتے ہیں۔ ایک انسان بڑا متقی و پرہیزگار ہے بڑے خلوص کے ساتھ مسجد میں گڑگڑا کر نماز پڑھتا ہے کس لیے؟ حوروں کے لیے۔ اگر آپ میں سے ایک لڑکا اونچے اونچے رونا شروع کر دے، کوئی پوچھے بھائی کیوں رو رہے ہو، کہے مجھے لڑکی چاہیے، آپ اس کو کیا کہیں گے؟ یہ بہت متقی اور مخلص نوجوان ہے؟۔ اگر کوئی ایسا کام کرے تو وہ آپ کی نظروں میں کیسا انسان ہو گا بہت عظیم یا بہت گھٹیا؟ انسان ساری زندگی مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھے، روئے گڑگڑائے، سجدے کرے، عبادتیں کرے صرف اس لیے کہ مرنے کے بعد اسے لڑکیاں مل جائیں جو دنیا کی لڑکیوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں۔ حور یعنی وہ لڑکی جو بہت زیادہ خوبصورت ہو۔ ایسے انسان کو آپ مخلص انسان کہو گے؟ ایسے انسان کو آپ متقی انسان کہو گے؟ آپ نے پوری زندگی یہی پڑھا نا کہ دین پر عمل کرو جس کے نتیجے میں مرنے کے بعد جنت ملے گی اور جنت میں حوریں ملیں گی۔
عمل انسان کی شخصیت کو بناتا ہے اور خالص عمل سے آپ کی خالص شخصیت بنتی ہے۔ مذہب اہل بیت(ع) میں حور سے مراد خوبصورت لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ انسان کے عمل کی خوبصورت شکل ہے انسان کا عمل مرنے کے بعد مجسم ہو کر خوبصورت شکل میں اس کے پاس آئے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب کوئی مخلص مومن قبر میں جائے گا تو قبر میں بہت ہی خوبصورت حسینہ اس کے پاس آئے گی اور یہ انسان اس کی خوبصورتی اور حسن کو دیکھ کر تعجب کرے گا اور وہ اس انسان سے پوچھے گی کہ تو مجھے جانتا ہے وہ کہے گا کہ میں نے تو تجھے نہیں جانتا ہوں، میں نے تو تجھے کبھی نہیں دیکھا تھا، کہے گی کہ غور کرو شائد پہچان لو کہے گا کہ نہیں، میں نے تو تجھے کبھی نہیں دیکھا، وہ کہے گی میں تو تیری وہی نماز ہوں جو تو نے بڑے خلوص کے ساتھ پڑھی تھی، میں تیرا ہی عمل ہوں کوئی اجنبی نہیں ہوں۔ لہذا نماز کے بدلے میں حور نہیں ملے گی بلکہ خود نماز حور کی شکل میں مجسم ہو جائے گی، اور خوبصورت بن کر انسان کے سامنے پیش ہو گی۔ اسی طریقے سے دیگر اعمال مجسم ہوں گے اور ہر کوئی اپنا تعارف کروائے گا کہ میں مثلا روزہ ہوں، میں تمہارا حج ہوں وغیرہ وغیرہ۔
اور یہ تجسم اعمال سب کے ہوں گے عورتوں مردوں کے، لہذا عورتیں پریشان نہ ہوں کہ مردوں کو حوریں ملیں گی تو ہمیں کیا ملے گا۔ سب کو یہی حوریں ملیں گی سب کے نیک اعمال حوروں کی شکل میں مجسم ہوں گے۔ لہذا جنت میں شہوت رانی کا کوئی امکان نہیں ہے، شہوت کا تعلق اسی دنیوی زندگی سے ہے اور اسی مادی جسم سے ہے یہ مادی جسم اسی دنیا میں رہ جائے گا اور آخرت کی دنیا میں ان چیزوں کا کوئی تصور نہیں ہو گا جن چیزوں کا تعلق اس مادی بدن سے ہے۔
سوال؛ یہ موضوعات کہ انسان شناسی، امت سازی اور امامت وغیرہ ان کا آخری مرحلہ یا آخری ہدف کیا ہے کہ دنیا میں امام کی حکومت یا نظام امامت قائم ہونے کے بعد کیا ہو گا؟
جواب؛ یہ تین موضوعات یا دین سے متعلق سارے موضوعات چاہے وہ عبادتیں ہوں، عقائد ہوں یا معاملات ہوں، جو کچھ میں اللہ تعالیٰ نے دین کے عنوان سے مقرر کیا ہے ان سب کا آخری ہدف یہ ہے کہ انسان کو مقام انسانیت تک پہنچایا جائے۔
اس موضوع کو میں مزید واضح کروں، یہ ایک قرآنی ضابطہ بھی ہے اور عقلی ضابطہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان بنا کر پیدا نہیں کیا بلکہ انسان کی شکل میں انسانیت کا بیج پیدا کیا ہے جب یہ انسانی شکل کی موجود ماں کے پیٹ سے اس دنیا میں قدم رکھتی ہے تو یہ انسان نہیں ہوتی اس میں انسان بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اللہ نے خلقت میں صرف انسانیت کا بیج پیدا کیا ہے اور اس کے بعد مقام انسانیت تک پہنچنے کا عمل خود انسان پر چھوڑ دیا ہے۔ اسی لیے علماء نے دو مرحلے بیان کیے ہیں ایک ہے خَلق اور دوسرا ہے خُلق۔ اللہ نے خَلق کر کے یہ انسانی ڈھانچہ بنایا ہے اب اس کو خُلق کے ذریعے خود انسان بننا ہے۔ لہذا اللہ نے انبیاء اور مرسلین کا سلسلہ قائم کیا تاکہ وہ انسان کو اس مقام تک پہنچنے میں اس کی مدد کر سکیں۔
لہذا دین، آسمانی کتابیں اور انبیاء اور پھر دین کے تمام امور سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ انسان کو انسان کامل کی منزل تک طرف ہدایت کریں، جیسے کہا جاتا ہے کہ انسان خلیفۃ اللہ ہے تو یہ مقام خلافت اس وقت انسان کو ملے گی جب وہ انسان کامل بنے گا۔ ورنہ روی زمین پر انسانی شکل میں پائی جانے والی مخلوقات انسان نہیں ہیں اور نہ ہی خلیفۃ اللہ ہیں بلکہ یہ سب انسانیت کا بیج ہیں ان میں انسان کتنے ہیں جو مقام انسانیت تک پہنچے ہیں بہت ہی کم۔ مولانا رومی کا وہ شعر ہے جو علامہ اقبال نے بھی ان کی مثنوی سے نقل کیا ہے:
دی شیخ با چراغ همی گشت گِرد شهر
کز دیو و دَد ملولم و انسانم آرزوست
گفتند یافت مینشود جستهایم ما
گفت «آن که یافت مینشود، آنم آرزوست»
کہ اے شیخ دن کی روشنی میں یہ چراغ لے کر شہر کے گلی کوچوں میں کیا تلاش کر رہے ہو، کہا کہ شہر کے کیڑے مکوڑوں سے تھک گیا ہوں، انسان ڈھونڈ رہا ہوں۔
کہا کہ انسان تو ہم نے بھی بہت تلاش کیا ہے ہمیں بھی کہیں نہیں ملا ہے۔ کہا کہ وہی جو نہیں ملا ہے اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔
لہذا دنیا میں پائے جانے والے لوگ سب انسانی شکل کے کیڑے مکوڑے ہیں اور انسانیت کی حد تک نہیں پہنچے ہیں۔ اس لیے دین کا بنیادی مقصد انسان کی منزل تک پہنچانا ہے۔
سوال؛ تفرقہ بندی اور گروہ بندی کیوں شروع ہوئی اور کب شروع ہوئی؟
جتنی انسان کی تاریخ پرانی ہے اتنی ہی تفرقہ بندی بھی پرانی ہے۔ قرآن نے انسانوں کی پہلی نسل کا جھگڑا بیان کیا اور دو سگے بھائیوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوئے جھگڑے میں ہابیل کے قتل کی داستان بیان کی۔ بلکہ حضرت آدم بھی ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ یہ زمین پر فتنہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ اللہ نے ابھی پیدا نہیں کیا بلکہ اس کی خلقت کی خبر دی تو فرشتوں نے اس کے مستقبل کی خبر دے دی تھی۔
یہ فرشتوں کو کیسے خبر ہوئی کہ انسان زمین پر خون خرابا کرے گا، جب اللہ نے ان کو خبر دی کہ وہ زمینی عناصر سے انسان پیدا کرنے والا ہے تو ان کو زمین کے اجزاء کی خاصیت کا علم تھا جیسے آج سائنس کے اسٹوڈنٹس کو معلوم ہے کہ کون سے اجزا کی ترکیب سے کیا بنتا ہے۔ کیمیائی ترکیبوں کے بارے میں سائنس کے طالبعلم سب جانتے ہیں دو طرح کی گیسوں کو اگر ملایا جائے تو ان سے تیسری کیا چیز بنے گی اور اس کا کیا اثر ہو گا۔ اس سے بربادی ہو گی یا آبادی ہو گی۔ ایسے ہی فرشتوں کو بھی زمینی عناصر کا پتا تھا لہذا جب اللہ نے عناصر کی ترکیب بتائی تو انہیں سمجھ میں آ گیا ہے کہ ان عناصر سے بننے والی موجود نے زمین پر کیا کرنا ہے۔
لہذا تفرقہ بازی کا رجحان انسان کی خلقت میں موجود ہے۔ اور روز اول سے چلا آ رہا ہے۔ اس فرقہ بندی کے رجحان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے انسان کو ہدایت کی ضرورت ہے اگر یہ فتنہ فساد کا رجحان انسان کے اندر نہ ہوتا تو انسان بھی فرشتوں کی طرح معصوم ہوتا اور اسے ہدایت کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن چونکہ یہ رجحان اس کی ذات میں پایا جاتا ہے اس کو ہدایت کی ضرورت ہے اور اللہ نے اس کی ہدایت کے لیے سارا اہتمام کیا ہے۔
سوال؛ کیا ممکن ہے شیعہ سنی علماء مل کر اختلافات کو دلائل کی بنیاد پر ختم کر سکیں اور شیعہ و سنی تفرقے کے بجائے ایک امت بن جائے اور مل کر نظام امامت نافذ کریں؟
جواب؛ آج ہم امکان کی بات کرتے ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے لیکن تاریخ میں ایسا ہو چکا ہے۔ رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد جو نظام تھا اس میں سب ایک امت تھے جبکہ وہ نظام شیعہ مکتب کے مطابق نہیں تھا سنی نظریہ کے مطابق تھا لیکن کوئی اختلاف اور تفرقہ بازی نہیں تھی۔ کسی نہ خلیفہ اول کو ہٹانے کے لیے کوئی اقدام کیا نہ خلیفہ دوم و سوم کو بلکہ خلیفہ سوم کو بچانے کے لیے امیر المومنین نے بہت کوشش کی۔ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو محافظ بنا کر ان کے مکان کے باہر کھڑا کیا۔ ان کے مشاور بن کر انہیں سمجھاتے رہے کہ آپ کی حکومتیں پالیسیاں درست نہیں ہیں۔ آپ نے جو سیاسی پودے لگائے ہیں وہ درست نہیں ہیں آپ کے مشاورین ٹھیک نہیں ہیں، بنو امیہ کو آپ نے جو کچھ دیا ہے ٹھیک نہیں ہے آپ کی حکومت خراب ہو جائے گی۔ ورنہ امیر المومنین نے نہ خلیفہ اول کی حکومت گرانے کی کوشش کی نہ خلیفہ دوم کی نہ خلیفہ سوم کی، وہ بچانے کی کوشش کرتے رہے اور ان کے ساتھ تعاون کیا تو یہ پھر جب امیر المومنین کی حکومت بنی تو ظاہر ہے کہ امیر المومنین کو لوگوں نے امام اول تو نہیں مانا، خلیفہ چہارم مانا۔ خلیفہ چہارم تو تشیع نہیں ہے تشیع تو امام اول ہے کہ علی امام اول ہیں خلیفہ چہارم کا مطلب یعنی سنی نظریہ۔ لیکن جب امیر المومنین کی بنی حکومت تو بھی بنو امیہ نے خرابی پیدا کی۔ امیر المومنین کے خلاف سنی نہیں اٹھ کے کھڑے ہوئے، معاویہ نے بغاوت کی اور اس نے قتل خلیفہ سوم کا بہانہ بنا کے شورش کی اور بغاوت کی اور پھر اس کے بعد مسائل شروع ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ بنو امیہ اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں لیکن حقیقتا بنو امیہ خود ایک سیاسی جماعت تھی وہ نہ شیعہ تھے نہ سنی۔
لہذا یہ کام ممکن ہے جس طرح سے خلفائے راشدین چار خلیفہ تھے تین سنی اور ایک شیعہ۔ اسی طرح آج بھی ہو سکتا ہے شیعہ اور سنی مل کر حکومت قائم کر سکتے ہیں۔
سوال؛ کیا رہبر معظم پاراچنار کے مسائل سے واقف ہیں؟ اور اگر واقف ہیں تو پاراچنار کے لیے انہوں نے کیا کیا ہے؟
پاراچنار کے لوگ پٹرول پمپ کی طرح ہیں انہیں ذرہ سے چنگاری کی ضرورت ہے۔ لڑائی کے لیے انہیں بہانہ چاہیے۔
دکان کا مسئلہ ہو، مکان کا مسئلہ ہو، زمین کا مسئلہ ہو، شیعہ سنی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ رہبر معظم ایسے لوگوں کو کیا کر سکتے ہیں نصیحت ہی تو کر سکتے ہیں اور انہوں نے دسیوں بار نصیحت کی بھی ہے۔ فتویٰ بھی دیا ہے کہ شیعہ سنی اختلاف حرام ہے۔ مزید ان سے ہدایات لینی ہیں تو مومنین یا علماء کا ایک وفد باقاعدہ ان کے پاس جائے اور ان سے بات چیت کرے کہ ہم ایسے ماحول میں رہے ہیں ہمارا کیا فریضہ بنتا ہے۔
سوال؛ مغربی دنیا نے اپنے جھوٹے نظام یعنی جمہوریت کی اس طریقے سے تبلیغ کی کہ ساری دنیا اس کو ماننے لگی تو کیا ہمیں ایسا طریقہ نہیں اپنانا چاہیے کہ ہم حقیقی نظام کی تبلیغ و ترویج کر سکیں؟
جواب؛ جی بالکل ایسا ہے کہ دنیا نے جمہوریت کو علامہ اقبال کے بقول نیلم پری بنا پر پیش کیا یہاں تک کہ ہمارے علماء بھی اس نیلم پری کے عاشق ہو گئے۔ انہوں نے جمہوریت کو دلہن بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا حالانکہ وہ دلہن تھی نہیں، اس کو سجایا، خوبصورت بنایا اور پھر پیش کیا لہذا دنیا اس کی عاشق ہو گئی عوام تو عوام ہمارے علماء بھی اس کے عاشق اور دیوانے ہو گئے ہیں۔ لیکن علامہ اقبال نے اس نیلم پری کو میک اپ سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا لہذا انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت دیو استبداد ہے محو رقص۔ یعنی جمہوریت کے نقاب کے پیچھے ایک خوفناک آمریت کا دیو پوشیدہ ہے۔ تعجب اس بات پر پے کہ ہمارے علما جمہوریت کو قرآن سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں امرهم شوري بينهم۔
جمہوریت کا پرچار کرنے والے اس وقت کے سب سے بڑے ممالک ہندوستان اور امریکہ ہیں۔ اگر جمہوریت قرآن سے ثابت ہوتی ہے تو پھر آپ سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ امریکہ تو تسلیم کریں کہ یہ سب سے بڑے اسلامی ملک ہیں۔
جمہوریت کے مبلغین نے جمہوریت کو اتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ہمارے علماء بھی اسے قرآن میں تلاش کرنے لگے۔ لیکن نظام امامت کے مبلغین نے امامت کو منبروں سے اتنا فروخت کیا امامت کے نام پر اتنی تجارت کی کہ لوگوں کو نظام امامت تو سمجھ میں نہیں آیا مگر تجار کی تجارت خوب چل گئی۔ جمہوریت کے مبلغین نے جمہوریت کو بیچا نہیں، جمہوریت کی ترویج کی، کتابیں لکھیں، تحقیقات کیں میڈیا پر خوبصورت انداز سے بیان کیا تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب کے اندر جمہوریت کو پیش کیا لیکن کیا نظام امامت کو اس طرح سے پیش کیا گیا، تعلیمی اداروں کو تو چھوڑیں دینی اداروں کے اندر نظام امامت کے عنوان سے کوئی چپٹر نہیں پڑھایا جاتا۔ دینی نصاب میں نظام امامت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر کیسے دنیا اسے قبول کرے گی، جب ہمیں خود سمجھ میں نہیں آیا ہے جب ہم خود کنفیوز ہیں تو دنیا والوں کے کیسے نظام امامت سمجھا سکتے ہیں۔
سوال؛ اگر ہم کسی کو ووٹ دے رہے ہیں ہمیں ان کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ بعد میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ مل جائیں ممکن ہے وہ یزید وقت کی حمایت کرتی ہو تو کیا اس کا گناہ ووٹ دینے والے کی گردن پر ہو گا؟
جواب؛ اس سوال میں کئی پہلو ہیں، ووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنا حق کسی دوسرے کو دے دیا، ووٹ آپ کا حق تھا اور آپ نے وہ حق کسی دوسرے کے سپرد کر دیا۔ ووٹ یعنی آپ اپنا نمائندہ بنا رہے ہیں آپ اپنا وکیل بنا رہے ہیں۔ ووٹ کے ذریعے آپ اپنا حاکم بنا رہے ہیں۔ حاکم نے یہ حاکمیت کہاں سے لی، آپ سے، جمہور سے، لوگوں سے، لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کیا حاکمیت تھی کہ انہوں نے دے دی۔ آپ اسی چیز کو دے سکتے ہیں جو آپ کی ہو۔ گاڑی اگر آپ کی نہیں ہے تو کیسے دوسرے کے نام کر سکتے ہیں، زمین آپ کی نہیں ہے تو کیسے دوسرے کو دے سکتے ہیں۔ لیکن جب آپ ووٹ دینے جاتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس حاکمیت کا حق ہے جو آپ اپنے ووٹ کے ذریعے کسی دوسرے کو دے رہے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ حق کس نے دیا؟ جیسے آپ زمین کے کاغذوں سے پہلے یہ ثابت کرتے ہو کہ یہ زمین میری ہے اس کے بعد اسے دوسرے کو دیتے ہیں ایسے ہی پہلے آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ حاکمیت کا حق آپ کا ہے۔ جمہوریت میں اس نکتہ کو مفروغ عنہ لیا جاتا ہے۔ اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حاکمیت کا حق اللہ نے جمہور کو دیا ہے تو پھر شیعت کی بنیاد تو ختم ہو جاتی ہے۔ پھر سنی مذہب ثابت ہو جاتا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ اول کو عوام نے ووٹوں سے انتخاب کیا تھا۔ اگر عوام حکومت بنانے کا اختیار رکھتی ہے تو پھر امام کا کیا کام ہے۔
لیکن اسلام میں تو یہ حق اللہ نے جمہور کو نہیں دیا بلکہ یہی کہا ہے کہ میں امام بنانے والا ہوں۔ امام بنانا میرا کام ہے، خلیفہ بنانا میرا کام ہے۔ اس نکتے پر غور کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت کو قبول کرنے والے امامت کو قبول نہیں کر سکتے۔ اور امامت کے نظریہ کو ماننے والے جمہوریت کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔
اگر میں کسی حاکم کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے جاتا ہوں تو سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال ہو گا کہ حاکم کو انتخاب کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔ اس کے بعد اگلی بات ہو گی کہ جس کو حاکم بنا رہے ہیں کیا اس کے اندر حاکمیت کے شرائط پائے جاتے ہیں یا نہیں؟
اگر یہ حق عوام کا ہے تو پھر اللہ نے کیوں امام بنایا؟، غدیر میں کیوں رسول سے اعلان کروایا؟ لہذا جمہوریت کا پرچار کرنے والے شیعہ علماء ہوش کے ناخن لیں شیعہ مذہب کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے کہ لوگ اس کو ہلکے میں لیتے ہیں۔ حاکم یا اللہ بنائے گا یا عوام بنائے گی۔ اسلام میں تو اللہ نے خود تمہارا حاکم مقرر کیا ہے اب تم اللہ کے مقابلے میں آ کر اپنا حاکم خود مقرر کر رہے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اللہ کا بنایا ہوا حاکم قبول نہیں ہے تو پھر کس لیے علی مولا کے نعرے بلند کرتے ہو۔