سب سے بڑی آزمائش جو آج کی نسل کی ہوئی ہے وہ قضیہ فلسطین و المیہ غزا سے ہوئی ہے۔ اس نے انسانیت کی بیماری بتا دی ہے انسانیت اور عالمی ادارے، ترقی یافتہ ملک، مہذب ملک، ان کی تہذیبیں، یہ سب ڈھونگ نکلا۔
امام خمینی نے دین کا متروک حصہ زندہ کیا/ قضیہ فلسطین انسانیت کا میڈیکل ٹیسٹ تھا

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 17 جنوری 2025
خداوند تبارک و تعالی نے انسانی حیات کو لباس خلقت عطا کیا، اس کی ہدایت اور حفاظت کا اہتمام کیا اور جس طرح سے خلقت میں انسان کو کامل بنایا، اسی طرح اس کی ہدایت اور حفاظت کا بھی مکمل اہتمام کیا ہے اور اس ہدایت اور حفاظت کا نفاذ خود انسان کے سپرد کیا ہے۔
انسان ناشناختہ موجود
جس طرح خلقت میں کوئی زندگی کا پہلو اور شعبہ نظر انداز نہیں ہوا بلکہ تمام باریکیوں کو مد نظر رکھا گیا ہے اس حد تک کہ علوم صدیوں سے خلقت کے راز و رموز سمجھنے میں مصروف ہیں، تحقیقات کر رہے ہیں لیکن اج بھی یہ دعوی کرنے کے قابل نہیں ہیں کہ ہمیں مکمل انسانی زندگی یا انسانی خلقت کے اسرار معلوم ہو گئے ہیں بلکہ ایک معروف سائنسدان ظاہرا الیکسز کارل جن کی میڈیکل سائنس سے متعلق کتاب ہے اس کا عنوان ہے انسان ناشناختہ مخلوق۔ اس عنوان سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ابھی تک نہیں پہچانا گیا ہے اور یہ شناخت ظاہر ہے کہ اس نے انسان کی روح اور نفس کے لحاظ سے بات نہیں کی چونکہ وہ اس چیز کے قائل نہیں ہیں وہ صرف انسان کی جسمانیت کے معتقد ہیں اور انسان کی جسمانی شناخت بھی ابھی تک نامکمل ہے اور اس سائنسدان کے بقول انسان ناشناختہ مخلوق ہے چونکہ جسمانی لحاظ سے انسان اتنی پیچیدہ مخلوق ہے اس کے اندر اتنی گہرائی اور وسعت ہے کہ انسان اس کی شناخت سے قاصر ہے۔ جب انسان کا جسمانی وجود اتنا پیچیدہ ہے تو اس کا روحانی وجود کتنا پیچیدہ ہو گا؟ لہذا اللہ نے اسی ظرافت و نفاست کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انسان کی ہدایت کا نظام مرتب کیا ہے جسے دین کہا جاتا ہے۔
انسان کی طرح دین بھی ناشناختہ ہے
دین اس کے باوجود کہ صدیوں سے ہمارے پاس ہے اور صدیوں سے علماء و فقہاء اس کی شناخت میں مصروف ہیں لیکن اس کی مکمل شناخت حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ جیسے سائنسدان کائنات اور انسان کی خلقت کی شناخت میں پیہم مصروف ہیں اسی طرح فقہاء و علماء دین کی شناخت میں مصروف ہیں لیکن یہ بھی کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے دین کی مکمل شناخت حاصل کر لی ہے چونکہ دین کا بہت سارا حصہ تو علماء نے شروع سے ہی نظرانداز کر دیا البتہ یہ علماء کی اپنی صوابدید نہیں تھی بلکہ حکمرانوں نے علماء کو مجبور کیا ہے کہ وہ دین کا کچھ حصہ لے لیں اور باقی حصہ چھوڑ دیں نہ اس کے متعلق تحقیق کریں نہ مطالعہ کریں نہ تدریس کریں نہ تبلیغ کریں نہ ترویج کریں اس کے متعلق کچھ بھی نہ کریں خاموشی اختیار کریں۔ لہذا علماء نے خواستہ یا نخواستہ طور پر دین کا بہت سارا حصہ ترک کر دیا۔
امام خمینی نے دین کا متروک حصہ زندہ کیا
امام خمینی رحمت اللہ علیہ وہ منفرد و ممتاز عالم ہیں جنہوں نے دین کا متروک حصہ زندہ کیا، اس کے اوپر اجتہاد کیا اور اسے معاشرے میں پیش کیا۔ تمام اسلام بہت وسیع ہے جتنی انسانی زندگی وسیع ہے اتنا اسلام اور دین وسعت رکھتا ہے پس جس طرح انسان ناشناختہ ہے اسی طرح دین بھی ناشناختہ ہے اگر ہم دین کو 12 حصوں میں تقسیم کریں تو دین کے 12 حصوں میں سے ایک حصہ ابھی تک معلوم کیا گیا ہے۔
حقیقی تقویٰ سے بھی انسان ناآشنا
تقوی کا بھی یہی حال ہے۔ انسان کی خلقت اور ہدایت کی وسعت کے مطابق اس کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے حفاظت کو قران نے تقویٰ کا عنوان دیا ہے۔ تقوی کا المیہ خلقت اور ہدایت سے بھی زیادہ ہے۔ انسانی زندگی کی حفاظت کی ذمہ داری خود انسان ہی کے سپرد کی گئی ہے۔ حفاظت کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے تمام انسانی زندگی کا احاطہ کیا ہے جیسے ہدایت کے لیے انسان کی زندگی کے تمام شعبوں کو مد نظر رکھا اسی طرح اس کی حفاظت کا انتظام کرنے میں بھی اس کی زندگی کے تمام شعبوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
ہدایت اور حفاظت کا منشور قرآن ہے
ہدایت اور حفاظت کے لیے اللہ نے منشور بھیجا اس کا عنوان کتاب رکھا ہے لہذا قرآن کی زبان میں کتاب منشور، آئین اور ائیڈیالوجی ہے۔ قران کی شکل میں منشور مقرر کیا ہے اور اس منشور کی حفاظت کی ذمہ داری انسان کے ذمہ رکھی ہے۔ لیکن ہماری خاصیت یہ ہے کہ قانون اور منشور کی پامالی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ چونکہ ہماری تربیت ہی قانون پسندی کے عنوان سے نہیں کی گئی بلکہ قانون شکنی کو ہمیں بچپن سے سکھایا گیا ہے۔ ہم جنگلی مزاج رکھتے ہیں جنگلی اور اہلی جانور میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ اہلی اور پالتو جانور تربیت یافتہ ہوتا ہے لیکن جنگلی جانور کے اندر تربیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی جنگل میں گرچہ کوئی قانون نہیں ہوتا لیکن اگر قانون نافذ کیا جائے تو جنگلی جانور کبھی اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ یہ جنگلی مخلوق کا مزاج ہوتا ہے ہمارا مزاج بھی جنگلی ہے کہ قانون ہوتے ہوئے اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی ہدایت کے لیے قانون مقرر کیا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری انسان کے سپرد کی ہے قانون کی حفاظت یہی تقوی ہے جسے دستوری اور آئینی تقوی کہا جاتا ہے۔
سورہ مبارکہ انعام کی آیت 155 میں اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ {155}
یہ کتاب منشور اور تمہاری پہنچ میں ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ہم نے اس کو تمہارے فہم سے بالاتر نہیں بنایا بلکہ تمہارے اختیار میں ہے تمہاری سمجھ کے مطابق ہے اور یہ مبارک بھی ہے یعنی ایسی محکم و مستحکم بنیاد ہے جو تمہاری تمام زندگی کا سہارا بن سکتا ہے تمہاری زندگی کا سارا بوجھ اٹھا سکتا ہے لہذا تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم نے اس کی اتباع کرنا ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
رحم کے درست معنیٰ کیا ہیں؟
رحم بھی اردو کے معنی میں نہیں ہے ہم رحم کے بہت ہی اخلاقی اور سطحی معنی کرتے ہیں اردو میں رحم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کو ڈانٹو اور جھڑکو نہیں، کسی کو سزا نہ دو، کسی کو تنبیہ نہ کرو یہ رحم ہے لیکن قران میں رحم یہ نہیں ہے قران میں رحم کا مطلب کچھ اور ہے جس طرح اللہ کی ذات رحیم ہے اللہ اخلاقی معنی میں رحیم نہیں ہے بلکہ فلسفی معنی میں رحیم اور رحمن ہے۔ اخلاقی معنی میں اللہ کے رحیم ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کو غصہ آتا ہے لیکن وہ درگزر کر جاتا ہے عذاب نہیں کرتا بلکہ رحم کر دیتا ہے یعنی سزا نہیں دیتا تنبیہ نہیں کرتا۔ عام طور پر رحم کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے لیکن اصل میں رحم کا مطلب کیا ہے؟
عورت کی بچہ دانی کو رحم کہا جاتا ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کا رحم اس بچہ پر مہربانی کرتا ہے؟ نہیں بلکہ اس بچہ کی تمام بنیادی ضرورتوں کو جو تخلیق انسانی ضرورت ہے اسے بچے کے لیے فراہم کرتا ہے۔
انسان کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی رحم ہے
یعنی وہ چیز جو اس کی بقا، اس کی نشوونما اور اس کی رشد کے لیے بنیادی ضرورت ہے اس بنیادی ضرورت کو دے دینا رحم ہے۔ جس کسی بھی مخلوق کی بنیادی ضرورت اس کے پاس نہیں ہے مثلا ایک قوم کی بنیادی ضرورتیں اس کے پاس نہیں ہیں اس کی بنیادی ضرورتوں کو فراہم کر دینا رحم کہلاتا ہے اور یہ بنیادی ضرورتیں جن کے بغیر وہ باقی نہ رہے یا جن کی بغیر وہ پرورش نہ پا سکے، ترقی نہ کر سکے یہ بنیادی ضرورتیں ہیں ان کو دینا رحم ہے۔
لیکن یہ بنیادی ضرورتیں کیسے ملیں گی؟ تقوی کے ذریعے۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے اللہ کا قائم کردہ حفاظتی نظام اپناؤ تاکہ تم پر رحم ہو یعنی تمہاری ساری بنیادی ضروریات فراہم ہوں۔ یہاں یہ مطلب نہیں کہ وہ آخرت میں تمہیں جہنم کے عذاب سے بچائے گا بلکہ اسی دنیا میں تمہاری بنیادی ضرورتیں پوری کرے گا۔
اتباع متحرک چیز کا ہوتا ہے
اس کے بعد حکم یہ ہے کہ اس کتاب کی اتباع کرو اتباع کا معنی عرض کیا ہے اتباع کسی متحرک شے کی پیروی اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے کو کہتے ہیں رکی ہوئی چیز کے پیچھے چلنا یا کھڑے ہونا اتباع نہیں ہے مثلا دیوار کھڑی ہوئی ہے دیوار کے پیچھے آپ بھی کھڑے ہو جائیں تو آپ دیوار کی اتباع نہیں کر رہے دیوار کے پیچھے چھپ گئے ہیں ایک عالم دین ہے ایک مجتہد، یا ایک بزرگ معنوی شخصیت ہے جو خود متوقف ہے نہ اس کا اپنا کوئی مقصد ہے نہ دوسروں کے لیے اس کے پاس کوئی مقصد ہے صرف مقدس، روحانی اور معنوی شخصیت ہے اس کے پیچھے جا کے لوگ کھڑے ہو گئے ہیں وہ کہاں جائیں گے!۔
لیکن ان کے پیچھے لاکھوں لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اس کو اتباع نہیں کہتے۔ یہ اتباع نہیں ہے۔
ہمیں قرآن کی اتباع کا حکم ہے یعنی قرآن متحرک ہے قرآن رہنما ہے قرآن کہیں جا رہا ہے اور اپنے پیروکاروں کو وہاں پہنچا رہا ہے لہذا ہمیں اس کی اتباع کرنی ہے۔
صدفہ کرنے والوں پر دردناک عذاب
اتباع کے مقابلے میں اگلی آیت میں صدفہ آیا ہے۔ آیت 155 میں قرآن کی اتباع کا حکم ہے اور آیت نمبر 157 میں اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:
أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَىٰ مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۗ سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ {157}
سب سے بڑا ظالم وہ انسان ہے جو اس کتاب کی آیات کو جھٹلاتا ہے تکذیب کرتا ہے اور قرآن سے صدف کرتا ہے ہم اسے بہت برا عذاب دیں گے۔ پہلے عرض کیا کہ صدف اردو میں وہ سی پی جس کے اندر سمندری کیڑا ہوتا ہے جس میں موتی بنتا ہے اس کو صدف کہتے ہیں صدف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی دو چیزیں جو کسی کنارے سے ملی ہوئی ہوں اور باقی حصوں سے علیحدہ ہوں اصل مرکز سے دور ہوں، مصادف یعنی ٹکراؤ، مصادفت ایک اجتماعی اور سماجی رویہ ہے جو ایک مومن اور مسلمان قرآن کے ساتھ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ایسا جرم ہے جس کی سخت سزا کا قرآن نے اعلان کیا ہے دین سے تعلق کتنا رکھا ہوا ہے اور کتنی دوری اختیار کی ہوئی ہے اس کا ہم خود جائزہ لے سکتے ہیں۔
نہ ہم بالکل دین کو جھٹلاتے ہیں اور نہ ہی ہم مکمل طور پر دین پر عمل کرتے ہیں۔ اسی کو صدفہ کہتے ہیں۔ یعنی دین سے ہم نے کشارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے صرف کوئی ایک کنارہ ہمارا دین سے ملتا ہے۔ یہ رویہ مومنانہ نہیں ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کا نتیجہ دردناک عذاب ہے۔
نظام امامت کا قیام کنارہ کش پیروکاروں سے ممکن نہیں
اس لیے اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا کہ کتاب کی اتباع کرو کنارہ کشی اختیار نہ کرو۔ نظام امامت صدیوں سے معطل ہے اگر اتباع کرنے والے ملتے تو نظام امامت نافذ ہوتا۔ نافذ کیوں نہیں ہوا ہے کیونکہ کنارہ کش لوگ ملے ہیں جنہوں نے امامت کا نام لیا ہے ذکر کیا ہے لیکن اس کا اتباع نہیں کیا۔ کنارہ کش لوگوں سے کوئی نظام قائم نہیں ہو سکتا جیسے ابھی لوگوں نے غزہ سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ لبنان سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے۔ لہذا ان کا حشر کیا ہوا ہے۔ دین کا بھی یہی انجام ہوا ہے، قرآن کا بھی یہی انجام ہوا ہے۔ دین کی حفاظت کنارہ کشی میں نہیں ہوتی گھر بیٹھ کے آپ دین کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ جب تک آپ اس دینی میدان کے اندر اس کی گہرائی میں نہیں اتریں گے آپ دین کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ تقوی اختیار نہیں کر سکتے۔ دین کے اتباع میں ہی نجات ہے اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو لباس تقوی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم سب کو فہم دین اور فہم کتاب عطا فرمائے۔
خطبہ دوم
انسانیت کا تحفظ صرف تقویٰ سے ممکن
انسان کی انسانیت اور اسکی انسانی زندگی کے تقاضے تقوی سے محفوظ ہیں اگر انسان تقوی ترک کر دے تو پہلی چیز جو انسان سے دور ہو جاتی ہے وہ انسانیت ہے انسانیت کی حفاظت انسان نے خود کرنی ہے۔
آج ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جس میں انسان نے مختلف پہلوؤں سے ترقی کی ہے لیکن تقوی کے اعتبار سے دیکھیں تو سب سے زیادہ زوال کا شکار آج کی نسل ہوئی ہے۔ جب کسی انسان کا میڈیکل ٹسٹ ہوتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ جو بظاہر صحیح اور تندرست لگ رہا تھا وہ دھوکہ تھا وہ تندرست نہیں ہے بلکہ اس کے اندر فلان فلاں بیماری پل رہی تھی۔ یہی ہشاش بشاش چمکتا ہوا چہرہ اندر سے بیماری کی وجہ سے کھوکھلا ہو چکا ہے انسانیت کی حالت بھی یہی ہے، مسلمانوں اور مسلمان فرقوں کی اندرونی حالت بھی یہی ہے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ بیماری نے ان کو ختم کر دیا ہے۔ یہ صحت مند نہیں ہیں جیسے لگ رہے ہیں ویسے صحت مند نہیں ہیں۔
قضیہ فلسطین انسانیت کا میڈیکل ٹیسٹ تھا
سب سے بڑی آزمائش جو آج کی نسل کی ہوئی ہے وہ قضیہ فلسطین و المیہ غزا سے ہوئی ہے۔ اس نے انسانیت کی بیماری بتا دی ہے انسانیت اور عالمی ادارے، ترقی یافتہ ملک، مہذب ملک، ان کی تہذیبیں، یہ سب ڈھونگ نکلا۔ کوئی اس کے اندر حقیقت نہیں تھی چونکہ ان کے سامنے بے دردی کے ساتھ بچے بھی مارے گئے عورتیں بھی ماری گئیں، نسل کشی کی گئی اور سب نے مل کر کی اور سب دیکھتے رہے۔ مسلمان بھی دیکھتے رہے، غیر مسلم بھی دیکھتے رہے۔ اقوام متحدہ بھی دیکھتا رہا باقی ادارے بھی دیکھتے رہے۔ عربوں کی حالت سب سے بدتر اور شرمناک تھی۔ سب سے برا کردار ان کا تھا اور بعض نے صرف سکوت و خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ خیانت کا جز بھی بنے رہے جیسے ترکیہ ہے جیسے مصر اور عرب امارات ہیں سعودیہ تو باقاعدہ بعض ظلم و جنات کا حصہ بنا رہا اس نے باقاعدہ ظلم میں بھی حصہ ڈالا ہے خیانت میں بھی برابر کا شریک رہا ہے۔
ظالموں سے نفرت مومن کی نشانی
تعجب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ان خیانت کاروں اور جنایتکاروں کی نفرت تک پیدا نہیں ہوئی۔ کیا کسی کے دل میں امریکہ اور برطانیہ کی نفرت ہے کیا کسی کے دل میں سعودی عرب اور عرب امارات یا ترکی سے نفرت پیدا ہوئی ہے؟
مومن کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں ظالم کی محبت نہیں ہوتی۔ فلسطین میں اتنے ظلم و ستم کے بعد اب بہرحال جنگ بندی کا معاہدہ ہونا تھا۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر قطر اور امریکہ کی وساطت سے جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے اتوار سے باقاعدہ عملی ہو جائے گا لیکن ابھی تک اسرائیل بھرپور حملے کر رہا ہے۔ کل جنگ بندی کے معاہدے کے بعد 71 شہید ہو گئے ہیں۔ یہ قتل عام رک جائے گا لیکن جو اصل موضوع ہے وہ نہیں رکے گا اور وہ ہے مزاحمت۔ اسرائیل کی نابودی کا عمل مسلمانوں اور مجاہدین کے ذریعے جاری رہے گا۔ اسرائیل کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی، اور مزاحمتی سرگرمیوں کی ضرورت اس سے زیادہ نازک کبھی نہیں رہی۔ جنگ بندی کے بعد فلسطین کے لیے ہماری حمایت ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ، یہ تیز ہونا چاہئے.
مزاحمت کی مدد ہمارا فریضہ
ماضی میں، حزب اللہ ایک مضبوط طاقت تھی، لیکن اس کی طاقت میں کمی آئی ہے، خاص طور پر شامی حکومت کے خاتمے کے بعد، جو مجاہدین کے لیے ایک اہم پل کے طور پر کام کرتی تھی۔
اب، ہم خود کو ایک چوراہے پر پاتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے پہلے کہا تھا کہ ہمیں دوسروں سے مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی میدان میں ہیں۔ تاہم، صورتحال بدل گئی ہے، اور اب مزاحمتی تحریکوں کے لیے عالمی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے شہداء کی قربانیاں جنگ کو ختم کرنے اور الاقصیٰ اور فلسطین کی آزادی کو یقینی بنانے کے حتمی مقصد کی طرف لے جائیں۔ یہ کشمکش جاری رہے گی اور ہمیں اس میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
اب تک، ہم نے صرف آواز اٹھائی ہے لیکن فعال طور پر کام نہیں کیا۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں، اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اس جذبے سے تحریکیں شروع کریں کہ مجاہدین غزہ اور فلسطین کی آزادی کے لیے اقدام کر سکیں۔ یہ ہمارے لیے ایک گہرا امتحان ہے، اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں کامیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔