کامیابی اور ناکامی کو جنگ کے مقاصد پیش نظر رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ کربلا کی جنگ کے پیچھے یزید کے مقصد کو بھی مدنظر رکھیں اور امام حسین (ع) کے مقصد کو بھی مدنظر رکھیں پھر جائزہ لیں کہ کون جیتا اور کون ہارا؟
اسرائیل اپنے مقاصد میں مکمل ناکام/ اسرائیل کی شکست پر صہیونی وزراء کا اعتراف

اس ہفتے کا جو اہم موضوع ہے وہ گزشتہ بدھ کے روز قطر میں حماس کے نمائندوں اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدہ کا طے پانا ہے اور ابھی مکمل صلح کا معاہدہ ہونا باقی ہے لیکن وقتی طور پر صرف جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے جو اتوار سے عملی جامہ پہنے گا۔ قطر مصر اور امریکہ کی ثالثی میں حماس اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان مذاکرات منعقد ہوئے اور دونوں فریقوں کی شرائط جنگ بندی کو مد نظر رکھا گیا اور پھر جنگ بندی پر دونوں کا اتفاق ہو گیا ہے جس میں پہلے مرحلے میں اتوار کے دن سے یہ جنگ بندی شروع ہوگی اور اتوار کے دن سے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے 33 یرغمالی یا اسیر آزاد ہوں گے اور اس کے بدلے میں ایک ہزار 80 فلسطین جو اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں انہیں آزاد کیا جائے گا اور اسی طرح پھر اس کے دو تین مراحل ہیں جن کی تفصیل میڈیا میں آ چکی ہے۔
اسرائیل اپنے مقاصد میں مکمل ناکام
تین مرحلوں میں یہ معاہدہ جس پر دھیرے دھیرے عمل درآمد ہوگا مجموعی طور پر اگر ہم دیکھیں تو اس مرحلے میں اس معاہدے میں اسرائیل اپنے مقاصد میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے، محاذ مقاومت کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے لیکن ناکام نہیں ہوئے، نہ حزب اللہ، نہ حماس، نہ فلسطین، نہ غزہ، کسی کو شکست نہیں ہوئی، ذلت ان کے نصیب نہیں ہوئی، عزت نصیب ہوئی ہے ہر چند شہادت، مصیبت، بھوک، افلاس، دکھ درد یہ ساری چیزیں ان کے حصے میں آئی ہیں لیکن ذلت ناکامی ان کے حصے میں نہیں آئی، ذلت ناکامی اس متجاوز صہیونی درندوں کے نصیب ہوئی ہے جنہوں نے اتنی درندگی اور بربریت سے کام لیا ہے۔
نقصان اور ناکامی دو الگ موضوع
یہاں پر دو الگ الگ موضوع ہیں ایک نقصان اور دوسرا کامیابی اور ناکامی، ان دو موضوع کو ہمیشہ علیحدہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات سوشل میڈیا کے اوپر ایسے سپیکرز جذبات میں آ کر ان معاملات کو علیحدہ علیحدہ کیے بغیر گفتگو کرتے ہیں جو عوام کی گمراہی کا سبب بنتی ہے۔ ہم اگر صدر اسلام میں دیکھیں تو دونوں صورتیں موجود ہیں مثلا جنگ احد میں مسلمانوں کا نقصان بھی ہوا اور ناکامی بھی ہوئی۔ لیکن کچھ جنگیں ایسی ہیں جن میں شکست نہیں ہوئی لیکن نقصان ہوا۔ جیسے جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی ہوئی شکست نہیں ہوئی لیکن نقصان ہوا، جنگ خندق میں مسلمان کامیاب ہوئے لیکن نقصان ہوا۔ اسی طرح دیگر معرکے اور جنگیں ہیں جہاں گر چے کامیابی اور فتح حاصل ہوتی رہی لیکن نقصان بھی ہوتا رہا۔ سب سے بڑھ کر معرکہ کربلا ہے۔ معرکہ کربلا میں سوفیصد اہل بیت(ع) کا نقصان ہوا لیکن کیا امام حسین کی شکست بھی ہوئی؟ نہیں شکست ان کی ہوئی جنہوں نے نقصان کیا۔ جان کا چلے جانا مال کا چلے جانا نقصان ہے شکست نہیں ہے۔
کامیابی اور ناکامی کو جنگ کے مقاصد پیش نظر رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ کربلا کی جنگ کے پیچھے یزید کے مقصد کو بھی مدنظر رکھیں اور امام حسین (ع) کے مقصد کو بھی مدنظر رکھیں پھر جائزہ لیں کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ یزید کا مقصد امام حسین (ع) کو مارنا نہیں تھا بلکہ امام حسین (ع) سے بیعت لینا تھا امام حسین (ع) کو اپنے سامنے جھکانا تھا، امام حسین (ع) کو اپنے باطل نظام کا حصہ بنانا تھا، لیکن وہ اس مقصد میں سوفیصد ناکام رہا لہذا شکست یزید کی ہوئی۔
غزہ جنگ میں اسرائیل کی مکمل شکست اور مزاحمت کی کامیابی
آج غزہ کے معرکہ کو بھی آپ اسی نظر سے دیکھیں کہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیل نے جب غزہ پر چڑھائی شروع کی تو اس جنگ کا مقصد کیا بتایا تھا؟ نیتن یاہو نے کھل کر اس جنگ کے مقاصد بیان کیے تھے کہ وہ حماس کا خاتمہ کر دیں گے جہاد اسلامی کا خاتمہ کر دیں گے اور یرغمالیوں کو جلد از جلد بزور طاقت آزاد کروائیں گے فلسطینیوں کو غزا سے نکال باہر کریں گے، اور فلسطین نام کو ہی دھرتی سے مٹا دیں گے اتنے سارے مقاصد نیتن یاہو نے بیان کیے تھے لیکن ایک بھی اس کا مقصد پورا نہیں ہوا حتیٰ کہ اپنا ایک بھی یرغمالی آزاد نہیں کروا سکے پورا شہر برباد کر دیا لیکن سوراغ نہیں لگا سکے کہ یرغمالیوں کو کہاں پر چھپا رکھا ہے۔ یہ اسرائیل کی بہت بڑی شکست ہے فلسطینیوں کو غزہ نکال باہر کرنے کا اعلان کیا تھا آج سب فلسطینی واپس غزہ جا رہے ہیں۔ یہ قوم نہ ختم ہونے والی قوم ہے اس قوم نے مرنا سیکھ لیا ہے اور جو عزت سے مر سکے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ اسرائیل ختم ہو جائے گا لیکن فلسطین ختم نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ غزہ پہ دوبارہ حماس کا کنٹرول نہیں ہونے دیں گے لیکن معاہدے کے اندر حماس نے ان سے لکھوایا ہے کہ اسرائیل مکمل غزہ سے انخلاء کرے گا، اپنی سرحدوں کے پیچھے چلا جائے گا۔ یہ معاہدے کے اندر طے پا گیا ہے۔
نقصان فراوان ہوا ہے نقصان کا احاطہ شاید ہی کوئی کر سکے کہ کتنا مالی اور جانی نقصان ہوا ہے اور یہ درندہ یہی کر سکتا تھا مگر اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے شہید ہو جانے یا سید حسن نصر اللہ اور صفی الدین کے شہید ہو جانے سے نہ حماس ختم ہو گی نہ حزب اللہ ختم ہو سکتی ہے۔ اب آنے والے دن یہ بتائیں گے کہ وہ دوبارہ کتنی طاقت کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔
شہادتوں سے زیادہ خیانت نے پہنچایا مزاحمت کو نقصان
مزاحمت کو سب سے بڑا نقصان جو ہوا ہے وہ شہادتوں سے نہیں ہوا بلکہ خیانت سے ہوا ہے۔ شہادتوں سے وہ ایک بھی مقصد پورا نہ سکے لیکن ترکی، سعودی عرب اور قطر کی خیانت سے اسرائیل اور امریکہ نے ایک بڑا مقصد حاصل کیا ہے وہ ان مزاحمتی گروہوں کی سپلائی لائن بند کر دی۔ اس سے یقینا مزاحمت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
اسرائیل کی شکست پر صہیونی وزراء کا اعتراف
ابھی اکثر سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل فاتح ہے اسرائیل نے گویا مقاصد حاصل کر لیے ہیں لیکن اسرائیل کے اندر اس کی کابینہ میں وزیروں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ تاریخ کا ذلت آمیز معاہدہ ہے جو اسرائیل نے کیا ہے اور حتیٰ کچھ وزرا نے اپنے استعفیٰ بھی پیش کر دیا ہے اور وہ نیتن یاہو کی حکومت کو گرانے کی کوشش بھی کریں گے۔ یہ صیہونیوں کا اپنا اپنا تجزیہ ہے لیکن مسلمان ممالک میں موجود صہیونی مسلمان اسرائیل کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ خود نیتن یاہو کی حکومت کے وزراء اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کی شکست ہے اور اسرائیل کبھی بھی اس شکست کی تلافی نہیں کر سکے گا، اسرائیل کوئی جنگی مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ برعکس نیتن یاہو کو سزائے موت بھی عالمی عدالت سے ہو جانی ہے کیونکہ عالمی عدالت نے اس کی گرفتاری کے ورنٹ جاری کر دیے ہیں اور نازیوں کی طرح جنگی جرائم کے نتیجے میں اسے بھی سزائے موت ہو گی۔ اور یہ بھی پہلی دفعہ اسرائیل کا کوئی سربراہ عالمی عدالت میں مجرم ٹھہرایا گیا ہے اس سے پہلے نہیں ہوا تھا کہ کسی اسرائیلی سربراہ کو مجرم ٹھرایا ہو۔
ایران کو گھیرنے کا خدشہ
اس معاہدے کے بعد اب جو صورتحال بنے گی وہ زیادہ پیچیدہ صورتحال ہے اس میں ایک طرف سے ایران کے لیے شدید مشکلات ہیں جیسا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اور دیگر لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ یکسو ہو کر ایران کے مقابلے میں آئیں گے ایران کی حکومت بہت ساری خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کا شکار ہیں روزانہ کی بنیاد پر پیغام دے رہے ہیں کہ وہ امریکہ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یورپ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ انہیں کوئی جواب نہیں دے رہے۔ اور یہ انقلابی حکومت کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے بے تاب ہو اور بھیک مانگے اس لیے کہ مذاکرات اس وقت کامیاب ہوتے ہیں جب ایران مضبوط پوزیشن میں ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں مذاکرات کا مطلب سوائے ذلت کے کچھ نہیں ہے۔
ٹرمپ کے ساتھ ایران کے مذاکرات بڑی غلطی
بہرحال رہبر معظم موجود ہیں اور وہ ان لوگوں کے ہاتھوں انقلاب کو اور ایران کو ذلیل ہونے نہیں دیں گے لیکن حکومت کے جو رجحانات ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں اس حوالے سے کہ ہم فلسطین سے یا لبنان سے دوری اختیار کر کے اور امریکہ اور ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں۔ ٹرمپ ایک وحشی اور جنگلی انسان ہے مذاکرات والا بندہ نہیں ہے۔ اوباما اتنا مذہب انسان تھا اس کے ساتھ ہوئے مذاکرات ٹرمپ نے آ کر کالعدم قرار دے دیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات تو موجودہ حکومت کی سب سے بڑی حماقت اور غلطی ہو گی۔
اس لیے کہ ٹرمپ ان پر دباؤ ڈالے گا، پہلے ان کا ایٹمی پلانٹ بند کروائے گا، پھر ان کا میزائیلی نظام بند کروائے گا اس کے بعد ڈرون کی پروڈیکشن بند کروائے گا اور آخر میں مزید پابندیاں عائد کرے گا۔ امریکی شیاطین یہی کہہ رہے ہیں کہ اب ایران کا علاج کریں گے یا ایران کی طرف اپنا رخ موڑیں گے جو مقاصد وہ جنگ کے ذریعے غزہ و لبنان سے حاصل نہ کر سکے اب وہ ایران سے مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ حماس اور حزب اللہ نے موت قبول کر لی مگر ذلت قبول نہیں کی، جیسا امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ موت قبول کر لوں گا لیکن ذلت قبول نہیں کروں گا۔ انسان جب عزت اور ذلت کے دوراہے پر آ جائے تو انسان کو امام حسین کا راستہ ہی اپنانا چاہیے یعنی موت کو قبول کر لے لیکن ذلت کو قبول نہ کرے۔