ٹرمپ کے برسراقتدار آنے پر امریکہ نے جو دنیا کو تاثر دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک میڈمین کی حکومت کا آغاز ہو گیا ہے لہذا سب سے بچ کر رہو اور جو یہ کہتا ہے اسے تسلیم کرتے جاؤ ورنہ یہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
ٹرمپ ایک اوباش اور پست انسان/ ٹرمپ کا عالمی حکمران بننے کا خواب

اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں ٹرمپ پر جمی ہوئی ہیں اور ٹرمپ نے بھی دوبارہ برسر اقتدار آتے ہی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کوئی معمولی اوباش آدمی نہیں ہے بلکہ بہت بڑا اوباش اور پست انسان ہے جس کے اندر انسانی خصلتیں کم نظر آتی ہیں اور غیر انسانی صفات زیادہ۔
پہلی بار جب اس نے امریکی اقتدار کی رسی اپنے ہاتھ میں لی تھی تو تقریبا 37 عورتوں نے عدالت سے رجوع کر کے اس کے خلاف جنسی تجاوز کا کیس درج کروایا تھا۔ امریکہ ویسے بھی فحاشی کا اڈہ ہے اور عورتوں کے ساتھ جنسی تجاوز اس ملک میں عام بات ہے بلکہ وہاں کی تہذیب اور کلچر کا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود اگر 37 عورتیں ٹرمپ کے خلاف جنسی تجاوز کا کیس درج کرواتی ہیں تو اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ انسان کس قدر گھٹیا اور پست انسان ہے۔
ٹرمپ امریکہ کی میڈمین پالیسی کا حصہ
اپنے پچھلے دور حکومت میں اس نے پوری دنیا کو بحرانوں کا شکار بنایا تھا اسی وجہ سے یہ الیکشن ہار بھی گیا تھا لیکن اب کی بار اس کو مختلف سرمایہ داروں نے مل کر کامیاب بنایا ہے۔ اور یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ امریکہ کی کسی پالیسی کے تحت حکومت میں آیا ہے۔ امریکہ کے اندر ہنری کیسنجر کی پالیسی معروف ہے جو ویتنام جنگ کے دوران امریکہ نے اپنائی تھی اور خود کو ویتنام کے بحران سے اس پالیسی کے ذریعے نکالا تھا۔ اِس وقت بھی ٹرمپ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
اصل میں امریکہ نے اپنے لیے کچھ ایسے ظاہری اصول بنائے ہوئے ہیں جن کی پالن کرنا اس کی مجبوری ہے۔ مثال کے طور پر جمہوریت، حقوق بشر، عورتوں کی حمایت، بچوں کی حمایت وغیر وغیرہ بڑے خوبصورت شعار امریکی نظام کی بنیاد کا حصہ ہیں جس کے اندر ظلم و جبر نہیں، ہر انسان کے لیے آزادی ہے، لیکن ویتنام کی جنگ میں جب امریکہ نے اپنا اصلی خونخوار درندہ بھیڑیے والا چہرہ دکھایا اور عام شہریوں کا قتل عام کرنا شروع کیا تو تب وہ اپنے بیان کردہ شعار کی وجہ سے دنیا میں ذلیل و رسوا ہوا۔ اب ایسے میں دنیا کے سامنے اپنے اصلی چہرے کو چھپانے کے لیے امریکی پالیسی میکروں نے امریکی حکام کو میڈمین کی پالیسی بنا کر دی، اب انہوں نے ہنری کسینجر کو ایک پاگل صدر کے طور پر پیش کیا تاکہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ویتنام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ نہیں بلکہ امریکہ کا ایک پاگل صدر کر رہا ہے۔ امریکہ اپنے اصولوں کا پابند ہے لیکن امریکہ کا پاگل صدر ان اصولوں کا پابند نہیں ہے۔ بہرحال اس طریقے سے امریکہ ویتنام کے بحران سے باہر نکلا۔
پاگل آدمی جو کہے چپ چاپ مان لو
اس کے بعد صدر بش نے یہی کردار ادا کیا ایک پاگل آدمی بن کر افغانستان اور عراق کو خاک سے ملا دیا۔ بعینہ یہی صورتحال آج ٹرمپ کی ہے، ٹرمپ حقیقت میں کوئی پاگل آدمی نہیں ہے ٹرمپ بہت بڑا سرمایہ دار آدمی ہے اور ایک پاگل انسان اتنی دولت و ثروت حاصل نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی امریکی کسی پاگل انسان کو ووٹ دے کر ملک کا اقتدار اسے سونپیں گے۔ یہ سب سے زیادہ ہوشیار، چالاک اور اوباش انسان ہے جو پاگل پن کا روپ اختیار کر کے فلمی دنیا کی طرح دوسروں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے اور سب یہ سوچ کر کے کہ یہ تو پاگل ہے کچھ بھی کر دے گا اس کے سامنے تسلیم ہوتے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اس کے پاگل پن کو دور کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلامی انقلاب ہے امام خامنہ ای ہیں، محاذ مقاومت ہے یا پھر چین ہے۔ باقی سب کے سامنے یہ پاگل پن والا کردار پیش کرتا ہے لیکن چین کے سامنے بالکل سنجیدہ ہو کر بات کرتا ہے۔
ٹرمپ کے برسراقتدار آنے پر امریکہ نے جو دنیا کو تاثر دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک میڈمین کی حکومت کا آغاز ہو گیا ہے لہذا سب سے بچ کر رہو اور جو یہ کہتا ہے اسے تسلیم کرتے جاؤ ورنہ یہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کا عالمی حکمران بننے کا خواب
دوسرا تاثر جو خود ٹرمپ نے دیا ہے بلکہ اپنے الیکشن کے دوران اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد اور اب حلف برداری کے بعد جو وہ مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ صرف امریکہ کا صدر نہیں ہے بلکہ وہ پوری دنیا کا حکمران ہے۔ اور وہ پوری دنیا کا حکمران بن کر آ رہا ہے۔ جیسا کہ اس سے وہائٹ ہاوس میں قدم رکھتے ہی یہ اعلان کیا کہ پاناما خلیج اس کے بعد امریکی خلیج ہے۔ کینیڈا کو کئی بار کہہ چکا ہے کہ کینیڈا امریکی ریاست میں تبدیل ہو جائے۔ کینیڈا چونکہ اس وقت اقتصادی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہو رہا ہے لہذا ٹرمپ نے اسے بھی وارننگ دے دی ہے کہ وہ امریکہ میں شامل ہو جائے۔ اس کے بعد اس نے کئی عالمی معاہدوں سے نکلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پچھلی بار بھی اس نے وہائٹ ہاوس میں آتے ہی کئی معاہدوں کو پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا تھا اور اس بار میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او سے نکلنے کے ساتھ ساتھ کئی اور عالمی معاہدوں کو یکطرفہ طور پر کالعدم قرار دے دیا ہے۔
ٹرمپ کی کئی ملکوں کو دھمکیاں
اس کے علاوہ اس نے آتے ہی کئی ملکوں کو بھی دھمکیاں دیں میکسیکو کو دھمکی دی کہ وہ اپنی سرحدیں بند کرے، بن سلمان کو باقاعدہ طور پر دھمکی دی کہ اگر سعودی عرب چاہتا ہے کہ امریکہ اس کے دفاع کی ذمہ داری اپنے دوش پر رکھے تو اسے 600 ارب ڈالر امریکہ کو دینا ہوں گے۔ پھر وہ سعودی عرب کا دورہ کرے گا بظاہر بن سلمان نے فون کر کے اطمینان دے دیا ہے کہ وہ ٹنشن نہ لے 600 ارب ڈالر امریکہ کو مل جائیں گے۔ اسی طرح دیگر عرب ملکوں کو بھی دھمکیاں دی ہیں کہ وہ امریکہ کو چندہ دیں۔ افغانستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ امریکہ کا اسلحہ جو افغانستان میں رہ گیا تھا امریکی فوج ملک چھوڑ کر بھاگی تھی اسے واپس کرے۔
ایرانی حکومت کی ٹرمپ سے مذاکرات کی خواہش
اسی صورتحال میں ایرانی صدر اور ان کے مشیر جواد ظریف صاحب ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کے لیے بڑے بےتاب ہیں اور روزانہ میسیج پہنچا رہے کہ ہم گفتگو کے لیے تیار ہیں لیکن ٹرمپ ابھی تک ان کو خاطر میں نہیں لایا اور نہ ان کے کسی پیغام کا جواب دیا ہے۔ گرچہ ایران کے اندر انقلابی طبقہ ایرانی صدر کے اس رویہ کو کافی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کا احترام ملحوظ نہیں رکھا۔
پہلے دن 78 بلوں پر سائن کے ذریعے دنیا پر دباؤ
بہرحال ٹرمپ نے اپنی عمر کے برابر یعنی 78 سال اس کی عمر ہے اور اس نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلے دن 78 بل سائن کئے ہیں جن میں امریکی شہریت کا قانون بھی شامل ہے کہ آج کے بعد امریکہ میں پیدا ہونے والے غیر ملکی کے بچے کو امریکی شہریت نہیں دی جائے گی۔ غیر امریکی کمپنیوں پر بھاری ٹیکس لگانے کے بل پر سائن کیا۔ بہر اس نے اپنے کاموں سے بھی اور اپنی گفتگو سے بھی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ صرف امریکہ کا حکمران نہیں بلکہ پوری دنیا کا حکمران بن کر آ رہا ہے۔ لیکن یہ اس کی سوچ اور طرز فکر ہے اللہ کی تدبیر کیا ہے وہ جب آئے گی تو ممکن ہے یہ اپنا دور حکومت بھی مکمل نہ پائے ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ ان ظالمین کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دے۔