اگر امریکہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکالنے اور فلسطین کے حامیوں کو امریکہ سے نکالنے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو اسلامی ممالک کا فرض نہیں بنتا کہ وہ امریکیوں اور امریکی حامیوں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کریں؟
غزہ جنگ بندی اور اس کے مراحل/ ٹرمپ کا فلسطینیوں کو فلسطین سے نکالنے کا نیا منصوبہ

غزہ جنگ بندی اور اس کے مراحل
اس وقت عالمی حالات میں جو سب سے اہم موضوع ہے وہ غزہ جنگ بندی اور اس کے بعد کے مراحل ہیں جن میں اسیروں کی آزادی شامل ہے۔ معاہدے کے مطابق دونوں طرف سے اسراء کو رہا کیا جا رہا ہے لیکن جو چیز توجہ طلب ہے وہ اسیروں کے استقبال کے مناظر ہیں۔ جو اسیر حماس کے پاس تھے وہ کتنے تر و تازہ نظر آ رہے ہیں اور جو اسیر اسرائیلی جیلوں میں قید تھے ان کی دردناک حالت بھی دکھائی جا رہی ہے۔ بہرحال یہ مظلوم اسیر واپس اپنے گھروں میں آ رہے ہیں لیکن گھر کہاں ہیں کھنڈرات اور ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن انہیں کھنڈرات میں وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں یہ بہت اہم بات ہے ملت فلسطین حقیقی معنی میں تاریخی ہیرو ہیں یہ ملت جن کے گھر تباہ ہو چکے ہیں، خاندان شہید ہو چکے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنی کامیابی کا احساس کر رہے ہیں۔
محمد الضیف کی شہادت کا اعلان
حماس نے حالیہ دنوں یہ اعلان کیا ہے کہ عزالدین قسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الضیف شہید ہو چکے ہیں۔ اصل میں یہ جولائی 2024 میں شہید ہوئے تھے اور اسرائیل نے ان کی شہادت کا اعلان کیا تھا لیکن حماس نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی تھی اور خاموشی اختیار کر لی تھی اب حماس نے باقاعدہ ان کی شہادت کا رسمی اعلان کیا ہے۔
محمد الضیف عظیم الشان شخصیت کے مالک
شہید محمد الضیف یحییٰ السنوار کی طرح بہت عظیم الشان بزرگوار تھے جنہوں نے حماس کے جوانوں کو تربیت کیا تھا اور 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصیٰ آپریشن میں یحییٰ سنوار کے ساتھ مل کر اس کی پلاننگ کی تھی۔ انہوں نے حماس میں رکنیت اختیار کرتے ہی عزالدین قسام بریگیڈ کی سربراہی کا عہدہ سنبھالا اور شہادت کے دم تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران اسرائیل نے 9 مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے کئے۔ میزائلوں، ہیلی کاپٹروں اور دیگر حربوں کے ذریعے ان کو مارنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ نے انہیں زندہ رکھا چونکہ ان سے طوفان الاقصیٰ آپریشن کروانا تھا اور اس فریضے کو انجام دے کر وہ دلیرانہ طریقے سے شہید ہو گئے۔
یحییٰ سنوار کی طرح محمد الضیف بھی بہت عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے، اپنی ذمہ داری اور اپنے فریضے کی وجہ سے زیادہ تر یہ نظروں سے اوجھل اور اجتماعات اور میڈیا سے دور رہتے تھے۔ اسرائیل جیسے دشمن کی چالوں سے بچنے کے لیے ان کی یہ احتیاطی تدبیر تھی اور جتنا اسرائیل کا نقصان محمد الضیف اور یحیی سنوار نے کیا ہے اتنا صہیونی تاریخ میں کسی نے نقصان نہیں کیا۔ طوفان الاقصیٰ ان کا ایک آپریش تھا جبکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ محمد الضیف نے اسرائیلی مجرمین کو سزائیں دیں اور انہیں واصل جہنم کیا۔
جیسا ان کے بارے میں نشر کیا گیا ہے کہ وہ حد درجہ دلیر اور تیزبین انسان تھے، اور تمام جنگی حربوں سے مکمل واقف تھے۔ بہرحال ان کی شہادت سے یہ راستہ نہیں رکے گا جس طریقے سے شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحییٰ سنوار اور دیگر عزیزوں کی شہادتوں سے یہ تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید قوت اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
ٹرمپ سے خیر کی توقع فضول کام
دوسرا موضوع جو اس وقت خبروں کی سرخیاں بنا ہوا ہے وہ ٹرمپ کی نئی نویلی حکومت ہے اور ان کے اوچھے کام۔ ٹرمپ ایک اوباشانہ خیالات کے آدمی ہیں ٹرمپ نے اپنے آنے سے پہلے امریکہ کے اندر بلکہ پوری دنیا میں ایسا ماحول بنایا کہ گویا کوئی بہت بڑی شخصیت دنیا کے صفحے پر نمودار ہو رہی ہے تاکہ دنیا خود کو تیار کرے جبکہ وہ ایک بدکردار اور بدفکر انسان ہیں اور دنیا کے لیے یہ حقارت کی بات ہے کہ وہ ٹرمپ جیسے بدفطرت اور اوباش انسان کا انتظار کرے کہ وہ کسی کے لیے کچھ بہتر کریں۔ جیسے ایران کے اندر ایک حقیر طبقہ مغرب کے مقابلے میں احساس حقارت میں مبتلا ہے۔ پہلے ٹرمپ کے جیتنے کا انتظار کر رہا تھا اب ان سے رابطہ برقرار کرنے اور مذاکرات کرنے کی انتظار میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی قیادت جواد ظریف صاحب کر رہے ہیں جو اس وقت امریکہ اور ٹرمپ کے ساتھ رابطے کے لیے بے چین ہیں اور دن اور گھڑیاں گن رہے ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات ہو جائیں، پابندیاں اٹھیں اور وہ رفاح میں آ جائیں۔
پسماندہ علاقوں کی امداد بند کرنے کے پیچھے امریکی مقصد
ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے جو احکامات صادر کیے ہیں اور فلمی اسٹائل میں جو ڈائیلاگ بولے ہیں ان کے مطابق انہوں نے ایک تو پہلے دن 78 بل پاس کیے ہیں چونکہ ان کی عمر 78 سال ہے تو اپنی عمر کے برابر بل پاس کیے ہیں دوسرا کام جس سے پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جتنے ممالک کو یا پسماندہ اور غریب علاقوں کو امریکہ امداد فراہم کرتا تھا ٹرمپ نے وہ امداد بند کر دی ہے البتہ اس امداد کے پیچھے امریکہ کا ایک بہت خوفناک ارادہ پوشیدہ ہے جیسے کسی حیوان کو جھانسے میں لینے کے لیے اس کے آگے چارہ ڈالا جاتا ہے ایسے ہی غریب لوگوں کو یو ایس ایڈ کا چارہ کھلایا جاتا ہے اور انہیں اپنے جال میں پھنسا کر پھر ان کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی ان سے جاسوسی کروائی جاتی ہے کبھی ان سے خودکش حملے کروائے جاتے ہیں، کبھی ان کے ذریعے دھشتگردانہ کاروائیاں کروائی جاتی ہیں۔ یہ سب امریکی ایڈ کے مقاصد ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ ایڈ امریکہ نے فی الحال بند کر دی ہے اور ممکن ہے کچھ نئے مقاصد اور نئے شرائط کے تحت دوبارہ اس کو بحال کیا جائے۔
ٹرمپ کا سعودی عرب اور ہندوستان کے لیے حکم نامہ جاری
ٹرمپ نے ایک اہم کام یہ بھی کیا ہے کہ سعودی عرب اور ہندوستان کے سربراہوں یعنی بن سلمان اور مودی کو فون کے ذریعے یہ حکم صادر کیا ہے کہ وہ اگر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں تو امریکی مصنوعات خریدیں۔ جو چیزیں امریکہ میں بنتی ہیں وہ ہندوستان نہ بنائے اور نہ چین اور کسی دوسرے سے خریدے بلکہ براہ راست امریکہ سے خریدیں۔ چونکہ ٹرمپ امریکہ کے اقتصاد کو عظیم اقتصاد میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے ان دونوں ملکوں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ امریکہ سے جنگی اسلحہ اور ساز و سامان خریدیں۔ اگر یہ دونوں ملک امریکہ سے اسلحہ خریدیں گے تو امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں گے اور ٹرمپ ان ملکوں کا دورہ بھی کریں گے۔
واضح سی بات ہے کہ کوئی ملک اسی وقت بھاری اسلحہ خریدتا ہے جب وہ کسی جنگ میں گرفتار ہو۔ امن کے دنوں میں صرف سعودی عرب ہی اسلحہ خرید سکتا ہے چونکہ اس کے پاس تیل اور گیس کا پیسہ فراوان ہے اور وہ تفریح کے طور پر اسلحہ خرید لیتا ہے لیکن ہندوستان کو اپنی معیشت قائم رکھنے کے لیے بجٹ میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ دفاعی ساز و سامان ہندوستان صرف ضرورت کی حد تک ہی خریدتا ہے۔ چین اور پاکستان کے مقابلے میں اپنی موقعیت کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ہندوستان کو اسلحہ خریدنا پڑتا ہے لیکن زیادہ تر اسلحے کی ضرورت جنگ کے دوران پڑتی ہے۔ اب ہندوستان چین سے جنگ تو کر نہیں سکتا چونکہ چین کے مقابلے میں ہندوستان بہت کمزور ہے لیکن پاکستان سے کئی درجہ قوی ہے۔ لہذا امریکہ نے اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کچھ ایسے کشیدہ حالات پیدا کرنے ہیں اور جنگ کا ماحول بنانا ہے تاکہ ہندوستان امریکہ سے اسلحہ خریدنے پر مجبور ہو۔
ٹرمپ کا فلسطینیوں کو فلسطین سے نکالنے کا نیا منصوبہ
ٹرمپ نے ایک اور اعلان کیا ہے کہ فلسطین اور غزہ کے عوام کو اردن اور مصر میں منتقل کیا جائے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ مصر اور اردن میں ہم کالونیاں بنائیں گے اور غزہ کے بے گھر عوام کو وہاں منتقل کر دیا جائے۔ اگرچہ مصر اور اردن نے اس کی مخالفت کی ہے لیکن صہیونیوں کی چالیں ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے فلسطینیوں کو فلسطین چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ پہلے ان پر بم برسا کر ان کا قتل عام کیا گیا پھر ان کے مکانوں کو خاک میں ملا کر فلسطین چھوڑنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا لیکن جب ان پر وہ حربے کام نہ آئے تو اب ہمدردی کے کارڈ کے ذریعے انہیں فلسطین سے نکالنے کی کوششش کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ نے یہ انتہائی منحوس تجویز پیش کی ہے اور ممکن ہے عرب ممالک اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں اس لیے کہ اسرائیل کی یہ درینہ آرزو تھی کہ فلسطینی اردن اور مصر میں جا کر آباد ہو جائیں اور یہ سرزمین ساری یہودیوں کو دے دی جائے۔
غزہ جنگ بندی پر ٹرمپ غیر مطمئن
غزہ کی جنگ بندی کے حوالے سے بھی ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اس جنگ بندی سے مطمئن نہیں ہیں چونکہ جنگ دوبارہ بھی شروع ہو سکتی ہے اور یہ اسرائیل پر موقوف ہے کہ وہ اپنے یرغمالی آزاد کروانے کے بعد کیا فیصلہ لیتا ہے۔ لہذا اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ اسرائیل اپنے سارے یرغمالی آزاد کروا کر دوبارہ بمباری شروع کر دے۔ اس لیے کہ اب اسرائیل کے مقابلے میں مزاحمت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے، عرب ممالک تو پہلے کی طرح اسرائیل کا ساتھ ہی دیں گے، ایران حزب اللہ کے ذریعے مزاحمت کرتا تھا وہ بھی اب شام کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ لہذا اب دوبارہ اگر اسرائیل جنگ شروع کرتا ہے تو پہلے سے زیادہ قتل عام کر سکتا ہے۔
ایران کا شام کی نئی حکومت سے تعلقات بحال کرنے کا اعلان
ہاں اس درمیان ایران نے شام کی نئی حکومت کے حوالے سے یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ اس ملک کی تازہ عوامی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ سرکاری تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کا یہ بیان اس تناظر میں ہے کہ وہ اس حکومت کے ساتھ تعلقات کے ذریعے حزب اللہ کو امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں، تو پھر بہت اچھا بیان اور بہترین پالیسی ہے۔ لیکن اگر اس کے علاوہ کوئی مقصد ہے تو پھر یہ بیان بالکل نامناسب تھا۔
فلسطینی حامیوں کو امریکہ سے نکالنے کا اعلان
اسی طرح ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی بمباری، ظلم و ستم اور بربریت کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں جن اسٹوڈینٹس نے احتجاج کیا ان کی نشاندہی کر کے انہیں گرفتار کیا جائے گا اور جو غیر ملکی ہیں انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔
ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ امریکہ میں موجود فلسطین حامیوں کو ملک سے نکالا جائے گا۔ اور یقینی طور پر امریکی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔ اب یہاں اصولی طور پر جو جواب بنتا ہے وہ یہ کہ جس طرح سے ٹرمپ نے فلسطین کے حامیوں کو یہ دھمکی دی ہے کہ ان کو امریکہ سے نکال دیں گے، جواب میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ تمام امریکیوں کو اپنے اپنے ملک سے نکال باہر کریں اگر امریکہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکالنے اور فلسطین کے حامیوں کو امریکہ سے نکالنے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو اسلامی ممالک کا فرض نہیں بنتا کہ وہ امریکیوں اور امریکی حامیوں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کریں؟ اگر حکومتیں یہ کام نہیں کر سکتیں چونکہ وہ امریکہ کی غلام ہیں تو کم سے کم عوام کو یہ کام کرنا چاہیے۔ وہ اپنے ملکوں میں موجود امریکیوں اور امریکی کمپنیوں کے خلاف اپنی عدالتوں میں مقدمے دائر کرنا چاہیے جس کے یقینی طور پر سیاسی نتائج سامنے آئیں گے۔