امام کا انتظار یعنی امامت کے غلبے کا انتظار، ظہورِ دین، غلبۂ دین، غلبہ ٔعدالت اور حاکمیت ِاسلام کا انتظار ہے۔ اس انتظار میں منتظِر اور منتظَر دو الگ الگ فریضے رکھتے ہیں۔ اس انتظار میں منتظِر ویسے نہیں بیٹھا رہتا جیسے اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں لوگ بیٹھے ہوتے ہیں
الٰہی انتظار اور آبائی انتظار

”ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ” (سورہ توبہ، آیت ٣٣)
مہدویتِ رکنِ اسلام:
مہدویت اسلام کے مسلّم عقائد اور اصولوں میں سے ہے۔ کم و بیش تمام اسلامی فرقے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفی ۖ نے اپنی زبانِ مبارک سے یہ وعدہ دیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب میرا بارہواں خلیفہ و فرزند ظہور کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیگا جیسا کہ پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے کہ
”أفضل أعمال اُمتی انتظار الفرج”
میری اُمت کے تمام اعمال میں سب سے افضل عمل میرے بارہویں خلیفہ کے ظہور کا انتظار ہے۔ اہل سنت کے بعض علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں لہٰذا آخری زمانے میں آلِ فاطمہ سے پیدا ہونگے لیکن تمام علمائے اسلام چاہے وہ اہل سنت کے کسی بھی ضمنی و ذیلی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں یا شیعوں کے، سب کا اس بات پر ایمان ہے کہ رسول خدا(ص) کے آخری خلیفۂ پیدا ہوئے ہیں اور حکمت ِالٰہی سے پردۂ غیبت میں ہیں۔ بعض اہل سنت کے بزرگ و جید علماء جن کی حیثیت تمام علماء تسلیم کرتے ہیں حتیٰ اُنکا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آپ سے ہماری ملاقات بھی ہوئی ہے۔ ملاقات کا دعویٰ کرنے کیلئے شیعہ علماء بہت کم جرأت کرتے ہیں لیکن اہل سنت کے بعض جید علماء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت مہدی(عج) سے ان کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ پس مہدویت ایک مسلم عقیدہ ہے۔
مہدویت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں:
تمام آئمہ اطہار (ع) نے ظہورِ حضرت حجت(عج)، غیبت اور زمانۂ انتظار کی طرف اپنے پیروکاروں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ سب سے پہلے قرآن مجید میں خداوند متعال نے حضرت حجت (عج) کی غیبت اور ظہور کا وعدہ دیا ہے۔ بعض علمائے کرام کے بقول قرآن مجید میں ایک سو بیس آیات ہیں جن کا موضوع مہدویت ہے، جو حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور، غیبت یا دیگر امورِ مہدویت سے متعلق ہیں اور بعض علماء نے ان آیات کو آیاتِ مہدویت کے نام سے اکٹھا بھی کیا ہے۔ انہی آیات میں سے ایک آیت یہ ہے جوتین دفعہ مختصر سے فرق کیساتھ تکرار ہوئی ہے۔
”ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ” (سورہ توبہ، آیت ٣٣)
یعنی خداوند متعال وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کا منشور دے کر بھیجا تاکہ یہ رسول اس دین کو تمام ادیان اور تمام عالمین کے اوپر غلبہ عطا کرے۔ یعنی نہ صرف یہ جا کر بشریت تک دین پہنچائے بلکہ اس دین کو تمام دیگر ادیان اور مکاتب پر غلبہ بھی عطا کرے۔ یہ بات ایک سادہ سا مسلمان بھی جانتا ہے کہ یہ وعدۂ خداوند تعالیٰ جو اِن آیاتِ کریمہ میں دیا گیا ہے یہ ابھی تک پورا نہیں ہوا یعنی دین پوری دنیا میں پھیل تو گیا ہے لیکن غالب نہیں ہوا۔
موجودہ عالمِ اسلام:
الحمد للہ دین ِمبین ِاسلام اور مسلمان پوری دنیا کے اندر موجود ہیں، اسلامی ممالک میں تو ہیں ہی لیکن غیر اسلامی ممالک میں بھی موجود ہیں۔ آج شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا خطہ یا ایسی سرزمین ہو جہاں پر اسلام نہ پہنچا ہو لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ طے ہے کہ آج اسلام و مسلمین کا غلبہ نہیں ہے بلکہ اسلام بھی مغلوب ہے اور مسلمان بھی مغلوب ہیں۔ ہم پاکستان کو ہی دیکھ لیں کہ پاکستان پاکستانیوں کا ہے لیکن یہاں بات پاکستانیوں کی نہیں چلتی۔ ابھی اسلام کو غلبہ نہیں ملا۔ آج اسلامی ممالک میں پاکستان سے بڑھ کر شیطانی طاقتوں کا غلبہ ہے۔ جیسے آج تقریباً عرب ممالک کے اندر شیطانی طاقتوں کا اثر و رسوخ اور قبضہ ہے، اُنکا تیل اور اُنکی دولت و ثروت شیطانی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔
غلبۂ اسلام، وعدۂ الٰہی:
آج اگرپوری دنیا کا سروے کریں تو کہیں پر بھی اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ نہیں ملے گا جبکہ قرآن مجید میں اللہ نے وعدہ دیا ہے کہ اے رسولۖ! ہم نے آپکو ہدایت کا منشور عطا کیا ہے تاکہ آپ جاکر اس دین کو تمام ادیان اور تمام عالمین پر غلبہ عطا کریں۔ یہ ایک طرف سے اللہ کا فرمان، رسول اللہ ۖ کی ماموریت اور اُمت کا فریضہ ہے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ صدیوں سے یہ وعدۂ خدا پورا نہیں ہوا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ وعدۂ الٰہی کب پورا ہوگا؟ تمام علماء نے بالاتفاق لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ رسول اللہ ۖ کے بارہویں جانشین کے ہاتھوں پورا ہوگا، جب وہ ظہور فرمائیں گے تو پوری دنیا کے اوپر اسلام، مسلمین، عدالت، انصاف اور الٰہی نظام کا غلبہ ہوگا۔
مطالعہ و تحقیق کی کمی:
اس وقت اکثر مومنین کسی بھی دینی موضوع کے بارے میں خود مطالعہ اور تحقیق نہیں کرتے بلکہ صرف سننے پر اکتفاء کرتے ہیں اور سنتے بھی ہیں تو سُر کو دیکھ کر سنتے ہیں کہ کس کی سُر لذت بخش ہے۔ دین سے آشنائی کیلئے خود مطالعہ کرکے تحقیق کریں تاکہ امامِ حاضر کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ ظہور کی روایات میں سے ایک روایت میں امام مہدی(عج) فرماتے ہیں کہ جب میں ظہور کروں گا اور یہ دیکھوں گا کہ جس جوان یا مومن کو دین کی سوجھ بوجھ نہیں ہے اور اپنا دین نہیں سمجھتا تو میں خود اس کو سزا دوں گا۔ مجھ سے ایسا شخص برداشت نہیں ہوگا کہ جو میرا پیروکار بھی ہو اور دین سے ناآگاہ بھی ہو۔ پس ہمیں دین سے آگاہی کیلئے اہتمام کرنا ہے۔
فضائلِ زمانۂ انتظار:
اس وقت ہم حالت ِانتظار میں ہیں۔ رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ زمانۂ غیبت میں انتظارِ امام مہدی سب سے افضل عبادت ہے۔ معصومین(ع) نے انتظار کے بہت زیادہ فضائل بیان فرمائے ہیں۔ عظمت ِمقامِ امام حسین(ع) کو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا مانتی ہے۔ آپ کے فضائل اللہ تعالیٰ، رسولِ اکرم ۖ اور تمام معصومین (ع) نے بیان فرمائے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ کا مقام بہت عالی ہے۔ یہ باعظمت امام آرزو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے کاش! میں امامِ مہدی کے سپاہیوں میں سے ایک سپاہی ہوتا۔ جس زمانے میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں یہ کوئی معمولی زمانہ نہیں ہے۔ ہمارے بچے، جوان اور بوڑھے سب اس ہدیۂ الٰہی یعنی زمانۂ انتظار کو ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے زمانے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کس مقصد کیلئے خلق کیا ہے؟ آج ہم آرزو کر رہے ہوتے ہیں کہ اے کاش! ہم رسول اللہ ۖ کے زمانے میں ہوتے تاکہ آپۖ کی زیارت کرتے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم آپۖ کے زمانے میں ہوتے تو کیا اُس لشکر میں ہوتے جو آپۖ کا دفاع کر رہا تھا؟ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اے کاش! ہم امام علی کے زمانے میں ہوتے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر امام علی کے زمانے میں ہوتے تو اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ ہم آپ کے حامیوں میں سے ہوتے؟ رسول اللہ ۖ خود فرماتے ہیں کہ سب سے افضل عبادت انتظارِ امام مہدی ہے اور آئمہ فرماتے ہیں کہ زمانۂ انتظار ہی سب سے افضل زمانہ ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت امام صادق (ع) نے اپنے عظیم المرتبت صحابی ابی بصیر کے سامنے فضائل ِزمانۂ انتظار بیان فرماتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا: اے کاش! میں بھی زمانۂ انتظار میں ہوتا اور میں خود بارہویں خلیفہ کا منتظر ہوتا۔ جب آپ نے یہ فضائل ِانتظار بیان فرمائے تو ابی بصیر حسرت سے کہتے ہیں کہ مولا! پھر ہم کیوں اس فضلیت ِانتظار سے محروم ہیں اور ہم کس طرح اس فضیلت کو درک کرسکتے ہیں؟ امام نے ابو بصیر کو ایک نسخہ بتایا کہ اگر تم یہ کام کرو تو یہ سمجھو کہ تم زمانۂ انتظار، زمانۂ ظہور، لشکرِ امام مہدی ، انصارِ امام مہدی اور امام کے سامنے درجۂ شہادت پانے والوں میں سے ہو۔ یہ نسخہ اصولِ کافی میں مرحوم شیخ کلینی نے ذکر کیا ہے۔
زمانۂ انتظار کے تقاضے:
زمانۂ انتظار کے تقاضے سب زمانوں سے زیادہ ہیں۔ یعنی رسول اللہ ۖ کے زمانے کے لوگوں کے جو فرائض اور ذمہ داریاں بنتی تھیں اُن سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں انتظار کے زمانے میں رہنے والوں کی ہیں۔ امیر المومنین اور دیگر آئمہ ہدیٰ کے زمانے میں جو لوگ زندگی بسر کر رہے تھے اُنکو دن رات شرفِ زیارت معصومین نصیب ہوتا تھا لیکن اُنکی ذمہ داریوں سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں آج اُن لوگوں کی ہیں جو اپنی آنکھوں سے چہرۂ نورانی ِامام نہیں دیکھ سکتے لیکن اُنکے زمانے کو افضل زمانہ اور اُنکے انتظار کو افضل عبادت گردانا گیا ہے۔ یقینا کوئی ایسی خصوصیت اس انتظار کے اندر موجود ہے جس سے اسے تمام عبادتوں سے افضل درجہ ملا ہے۔
انتظار کی دو قسمیں:
ایک انتظار وہ ہے جو قرآن مجید، دین، رسول اللہ ۖ اور معصومین نے بیان فرمایا اور ایک وہ انتظار وہ ہے جو ہم نے خود بنا لیا ہے۔ اسی طرح دین بھی دو طرح کے ہیں اور قرآن مجید نے بھی کہا ہے کہ دو دین ہیں، ایک وہ دین ہے جو انبیاء لے کر آئے ہیں اور ایک وہ دین ہے جو آباء و اجداد لے کر آئے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ
”تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ…” (سورہ مائدہ، آیت ١٠٤)
جب انبیاء نے اپنی قوموں کو آکر کہا کہ اے لوگو! جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اسکی طرف آجاؤ۔ قرآن مجید کے مطابق لوگ انبیاء کی اس پکار کا جواب یوں دیتے تھے کہ
”حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَنَا…” (سورہ مائدہ، آیت ١٠٤)
جو کچھ آپ لے کر آئے ہو اسکی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہمارے لئے وہی کافی ہے جو ہمارے آباء و اجداد لے کر آئے ہیں۔ تمام قوموں نے انبیاء کو یہ جواب دیا ہے۔ آباء و اجداد یعنی اُنکے پرانے بزرگ جنکی نسلوں سے وہ تعلق رکھتے تھے۔ وہ آباء چاہے اُنکے خاندانی آباء ہوں، دینی آباء ہوں، کلچرل آباء ہوں، قومی آباء ہوں یا اُنکے سیاسی آباء ہوں۔
اس وقت ہمارے سماج میں جو سیاست ہو رہی ہے، کیا یہ انبیاء کی سیاست ہے یا آباء کی؟ یقینا آباء کی سیاست ہے۔ ہمارے سیاسی آباء جس سیاست کا آغاز کر کے گئے تھے آج ہم سب اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارا موجودہ کلچر، رسم و رواج، آداب، رہن سہن اور چال چلن کیا انبیاء والے ہیں یا آباء والے؟ یقینا یہ سب آباء والے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی شعبے میں چلے جائیں جو کچھ آباء لائے ہیں وہی ہمیں مقدس لگتا ہے لیکن جو انبیاء لائے ہیں اسکی طرف ہم کوئی توجہ نہیں دیتے۔
معصومین(ع) کو درپیش مشکلات:
رسول اللہ ۖ کے بعد خداوند تعالیٰ نے١٢ معصومین (ع) پیدا کیے، اس پورے دور میں آئمہ (ع) کی موجودگی کے باوجود لوگ آئمہ(ع) کے پیچھے نہیں چلے، کیونکہ آئمہ (ع) آباء کا دین نہیں بلکہ اللہ اور انبیاء (ع) کا دین پیش کرتے تھے جبکہ اُن لوگوں کو آباء کا دین زیادہ پسند تھا۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس انبیاء (ع) کے دین کے پیچھے نہیں بلکہ اپنے آباء کے طور طریقوں پر چلتے تھے اور انھوں نے آخر تک اپنے آبائی دین کے سلسلے کو ہی جاری رکھا۔ آج تشیع کو چاہئے کہ مجالس کو آبائی طور طریقوں پر نہیں بلکہ انبیائی، الٰہی، حسینی، فاطمی اور زینبی مجالس برپا کریں۔ آبائی طریقے نہ آباء کو کہیں پہنچاتے ہیں اور نہ ہی ابناء کو کسی منزل مقصود تک لے جائیں گے۔ دمشق میں یزید نے اہل بیت (ع) کو اسیر کرکے دربار میں کھڑا کیا، نامحرموں نے مجمع لگایا، سر اقدسِ امام حسین (ع) کو اپنے دربار میں منگوایا اور گستاخی شروع کی۔ چھڑی لے کر کبھی آپ کے بالوں پر مارتا تھا، کبھی زخمی ہونٹوں پر لگاتا تھا، کبھی کٹی رگوں پر لگاتا تھا اور یہ شعر پڑھتا تھا کہ
”لیت أشیاخی ببدرٍ”
اے کاش! میرے آباء جو بدر میں علی (ع) کے ہاتھوں مارے گئے وہ آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے اُنکا انتقام لے لیا ہے اور اگر وہ زندہ ہوتے تو کہتے کہ اے یزید! تیرا ہاتھ سلامت رہے۔ یعنی اس لعین کے مطابق اس نے انبیاء (ع) کی نسل کو اسیر کرکے انبیائی سلسلہ دبا دیا اور آباء کا سلسلہ زندہ کردیا۔ دین کیساتھ یہ مشکل ہمیشہ رہی ہے کہ لوگ انبیاء و آئمہ (ع) کے پیروکار کم جبکہ اپنے آباء و اجداد کے پیروکار زیادہ ہوتے ہیں۔
ہر چیز کی دو شکلیں:
ہر چیز کی دو شکلیں بنتی ہیں، یعنی ایک آبائی شکل ہوتی ہے اور دوسری الٰہی شکل۔ مثلاً اگر ہم نماز کو ہی لے لیں تو ایک آبائی نماز ہے اور ایک الٰہی نماز۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب انبیاء (ع) لوگوں کو الٰہی دین کی طرف بلاتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہمارے لئے آبائی دین ہی کافی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ دین کے ہوتے ہوئے بھی دین سے دور رہے ہیں، دین کے نام پر دین سے دور رہے یعنی نام دین کا تھا لیکن دین نہیں تھا۔ مثلاً آج پاکستان میں کوئی بھی خود کو دین سے دور نہیں سمجھتا۔ دین کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرکے، مسجدوں کو اُڑا کر، زائرین اور عزاداروں کو قتل کرکے اور مجالس کو ویران کرکے کہتے ہیں کہ ہم سب سے بڑے دیندار ہیں۔ پس یہاں پر کوئی بھی اپنے آپ کو دین سے دور نہیں سمجھتا۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ نام تو انبیاء (ع) والا رکھا ہوا ہے اور کام آباء والا ہے۔ پس دیکھا کریں کہ یہ کونسا دین ہے، انبیا، الٰلہ اور آئمہ (ع) کا دین ہے یا آباء کا دین ہے؟ اسی طرح تہذیب اور سیاست بھی دو طرح کی ہے، ایک الٰہی اور دوسری آبائی۔ پس ہر چیز کی دو شکلیں بنتی ہیں۔
منتظرینِ انبیاء (ع):
دنیا میں ہم پہلی نسل نہیں ہیں جو کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ قرآن مجید میں خداوند تعالیٰ نے منتظر قوموں کا تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً بنی اسرائیل منتظرین میں سے تھے، خداوند تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو وعدہ دیا ہوا تھا کہ میں تمہارے درمیان نبی بھیجوں گا جو آکر تمہیں نجات دیگا۔ حضرت موسیٰ وہ نبی ہیں کہ جن کے ظہور کا وعدہ خداوند متعال نے دیا ہوا تھا اور پھر حضرت موسیٰ آگئے۔ اسی طرح حضرت ادریس اور حضرت الیاس جو بعض روایات کے مطابق ایک ہی نبی کے دو نام ہیں۔ یہ بھی پردۂ غیبت میں رہے، غیبت سے پہلے انکا نام ادریس تھا اور پھر پردۂ غیبت میں چلے گئے، اُمت منتظر رہی اور جب دوبارہ ظہور کیا تو آپ کا نام حضرت الیاس تھا۔ اسی طرح سب سے بڑا انتظار اُن انبیاء (ع) کی قوموں نے کیا جنہیں انبیاء (ع) نے آکر بشارت دی تھی کہ آخر الزمان میں ایک نبی آئیں گے جن کا اسم ِگرامی احمد ہوگا۔ یہ لوگ ظہورِ نبی آخر الزمان کے منتظر تھے کہ کب وعدۂ خدا سچ ہوتا ہے اور نبی آخر الزمان تشریف لاتے ہیں؟ رسول اللہ ۖ جب ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں پر ایک بڑی تعداد یہود کی تھی۔ یہود مدینے کے قدیمی لوگ نہیں بلکہ فلسطینی تھے، یہ فلسطین سے مدینہ اسلئے منتقل ہوئے تھے کیونکہ اُنکے علماء اور انبیاء (ع) نے یہ بتایا ہوا تھا کہ نبی ِآخر الزمان سرزمین عرب پر ظہور کریں گے اور سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی باقاعدہ یہ بشارت دی گئی تھی کہ آپۖ آئیں گے اور آکر بشریت کو ظلم و ستم سے نجات عطا کریں گے۔ لہٰذا بنی اسرائیل رسول اللہ ۖ کے ظہور کے منتظر تھے۔
منتظرینِ رسول اللّٰہ ہمارے لئے عبرت:
یہ ہمارے لئے عبرت کا واقعہ ہے کہ یہود رسول اللہ ۖ کے استقبال کیلئے مدینہ آ کر آباد ہوگئے تھے چونکہ کتابوں میں لکھا ہوا تھا کہ آپۖ اسی علاقے میں آئیں گے، جس طرح امام ِزمانہ کے ظہور کے بارے میں ہے کہ مکہ میں ظہور کریں گے۔ آخر یہی ہوا کہ آپۖ مکہ میں پیدا ہوئے لیکن مدینہ آگئے۔ جب آپۖ مدینہ تشریف لے آئے تو وہاں پر دو قسم کے لوگ تھے، یعنی بت پرست اور اہل کتاب، اہل کتاب میں بھی یہود تھے جو باقاعدہ ایک آسمانی دین کو مانتے تھے اور باقاعدہ آپۖ کے منتظر تھے لیکن جب آپۖ نے آکر اپنا پیغام پیش کیا تو اوس و خزرج جو بت پرست تھے انہوں نے تو بت پرستی چھوڑ دی اور آپۖ کے پیغام کو قبول کیا اور آپۖ پر ایمان لے آئے لیکن یہود میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا۔ آپۖ نے اُن سے پوچھا کہ تم تو میرے منتظر تھے، میرے استقبال کیلئے مدینہ آئے ہوئے تھے اور تمہارے علماء و انبیاء (ع) نے بھی میرے بارے میں لکھا ہے اور تمہاری آسمانی کتابوں میں بھی میرا ذکر موجود ہے پھر تم ایمان کیوں نہیں لاتے؟ کیا میں نبی آخر الزمان نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا کہ یقینا آپ ۖہی وہ نبی ہیں۔ چونکہ اُنکی کتابوں میں جو نشانیاں تھیں وہ ساری رسول اللہ ۖ کے اندر موجود تھیں۔ پس انھوں نے کہا کہ یقینا آپ ہی وہ نبی ہیں لیکن پھر بھی ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ قرآن مجید میں ہے کہ
”یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ…” (سورہ بقرہ، آیت ١٤٦)
یہ لوگ رسول اللہ ۖ کو اس طرح سے جانتے تھے جس طرح سے اپنے بچوں کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی آپۖ پر ایمان نہیں لائے۔ انھوں نے دلیل یہ پیش کی کہ اے رسول ۖ آپ نبی تو ہیں اور یقینا ساری نشانیاں آپکے اندر موجود بھی ہیں لیکن آپۖ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں، ہمارے آباء میں سے نہیں ہیں فقط الٰہی سلسلے سے ہیں جبکہ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ہم آبائی سلسلے کی پیروی کریں گے اور اسکی پیروی کریں گے جو بنی اسرائیل سے ہوگا۔ جو بنی اسرائیل سے نہیں ہوگا ہم اسکی پیروی نہیں کریں گے۔ لہٰذا نبی ہونے کا یقین رکھنے کے باوجود انھوں نے نہیں مانا اور یہی حال بعد میں وصی ٔرسولۖ کیساتھ بھی ہوا۔ امیر المومنین (ع) کے بارے میں لوگوں کو یقین تھا کہ آپ امام ہیں اور یہ بھی سو فیصد یقین تھا کہ آپ منصوب ِمن اللہ امام بھی ہیں لیکن اسکے باوجود نہیں مانا۔ حتیٰ ایسے لوگوں نے نہیں مانا جنہوں نے امام کیلئے قصیدے اور شعر لکھ کر رسول اللہ ۖ سے داد لی ہوئی تھی اور یہ سب اُنکے آبائی سلسلے کی وجہ سے ہوا ہے۔ پس ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ آبائی سلسلے ہمیشہ الٰہی دین کو ماننے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
الٰہی اور آبائی انتظار میں فرق:
انتظار جو کہ رسول اللہ ۖ کے قول کے مطابق ایک افضل عمل ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی ایک آبائی انتظار ہے اور ایک الٰہی انتظار۔ آبائی انتظار یعنی جس طرح سے ہم ہر چیز کا انتظار کرتے ہیں۔ فرض کریں اگر کسی جگہ مجلس رکھی ہو اور وہاں ذاکر و خطیب دیر کرے تو وہاں پر اُسکا انتظار کرتے ہیں۔ اسی طرح مثلاً اگر بس لیٹ ہوجائے تو ہم بس سٹینڈ پر بس کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ انتظار ہم پانی، بجلی، بارش اور ہر چیز کا کرتے ہیں اور انہی میں سے ایک اپنے امام کا بھی انتظار کر رہے ہیں۔ اگر یہ وہی انتظار ہے جو اُن چیزوں کا کر رہے ہیں تو پھر اس انتظار میں اور اُس انتظار میں کیا فرق رہا؟ اگر ہم اپنے امام کا اسی طرح انتظار کرنے لگے جس طرح ہم دیگر چیزوں کا کر رہے ہیں تو یہ آبائی انتظار ہے۔ آبائی انتظار میں یہ ہے کہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہ ہو، مثلاً بجلی چلی جاتی ہے یا آٹا نہیں ملتا تو ہم کہتے ہیں کہ یہ کیسی حکومت ہے؟ کیسے لوگ ہیں اور یہ کیسا پاکستان ہے؟ اب اگلی دفعہ ہم ووٹ نہیں دیں گے اور الیکشن کا انتظار کرتے ہیں لیکن جب الیکشن آتے ہیں تو پھر اُنہی حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ انکی تقریریں، شعلہ بیانیاں اور بڑے بڑے جلسے دیکھ کر دھوکے میں آجاتے ہیں۔
پیروکارِ علی (ع) کی مشکل:
امیرالمومنین (ع) کے پیروکاروں کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ بہت جلدی دھوکے میں آجاتے ہیں۔ قرآن نیزوں پر اٹھاؤ یہ دھوکے میں آجاتے ہیں۔ اسٹیج پر آکر ذرا سی قسم کھاؤ یہ دھوکے میں آجاتے ہیں۔ حدیث پڑھو یہ دھوکے میں آجاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ دھوکے میں آنے کو شاید اپنے لئے کوئی بڑی فضیلت سمجھتے ہوں۔ امام علی(ع) فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! خدا نے جب سے مجھے شعور عطا کیا ہے، نہ میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہے اور نہ ہی میں کسی کے دھوکے میں آیا ہوں۔ لہٰذا دھوکہ کھانا کوئی فضیلت نہیں ہے۔ جیسا ہے کہ
لاَ يُلْسَعُ اَلْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ”
عاقل ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاسکتا۔ دین کو سادہ لوح مومن نہیں چاہیے، بیوقوف لوگ علی (ع) کیساتھ ہوتے ہوئے بھی خوارج بن جاتے ہیں۔ بارہ ہزار خوارج کا لشکر علی (ع) کا لشکر تھا لیکن بیوقوف لشکر تھا، جونہی قرآن نیزوں پر اٹھا، یہ بیوقوف علی (ع) کا ساتھ چھوڑ کر علی (ع) کے مقابلے میں آگئے۔ پس دین کو بیوقوف نہیں چاہئیں۔ مومن صاحب ِفراست، صاحب ِبصیرت اور ہر چیز سے آگاہ ہوتا ہے یعنی اپنا زمانہ، اپنا ملک، اپنا دین، اپنی ذمہ داریوں، اپنے فرائض اور آفتوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ اس زرعی ملک میں فصلوں کے اوپر زہر کا اسپرے کرتے ہیں تاکہ اسے آفت نہ لگ جائے لیکن اپنے دین کا خیال نہیں رکھتے کہ کہیں دین کو، اپنے بچوں یا اپنی نسل کو کوئی آفت نہ لگ جائے۔ اپنے معاشرے، اپنی گلی، اپنا گھر اور اپنے بچوں پر اسپرے کریں تاکہ اُن پر کوئی آفت نہ لگ جائے۔ آج ہم ان آفتوں کی طرف اصلاً متوجہ نہیں ہیں بلکہ اس حوالے سے بہت سادہ بنے ہوئے ہیں۔
آبائی انتظار:
آبائی انتظار افضل الاعمال میں سے نہیں بلکہ یہ انتظار سب سے بدترین انتظار ہے۔ یہ آبائی انتظار جو ہمیں سکھا دیا گیا کہ اس طرح انتظار کرو۔ ہم کہتے ہیں کہ بجلی، ٹرین، بس اور فلاں چیز آنے تک صبر کریں گے اور صبر سے ہماری مراد چپ کرکے بیٹھ جانا ہے۔ یہ الٰہی انتظار و انبیاء کا بتایا ہوا انتظار نہیں ہے، یہ افضل العبادات میں سے نہیں ہے اور یہ وہ انتظار نہیں ہے جسکی آرزو امام ِصادق (ع) کرتے تھے: اے کاش میں بھی زمانۂ انتظار میں ہوتا۔ یعنی امامِ حاضر امامِ غائب کے زمانے کی آرزو کر رہا ہے اور آج ہم کہتے ہیں کہ کاش ہم امام ِحاضر کے زمانے میں ہوتے تو بہتر تھا۔ یہ کونسا انتظار ہے کہ آئمہ و انبیاء (ع) جسکے اوپر تاکید فرما رہے ہیں جبکہ ہم اُس زمانے سے نا خوش ہیں۔ الٰہی انتظار یہ نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھے رہیں۔ خاموش بیٹھ کر انتظار کرنا یہ آبائی انتظار ہے۔
الٰہی انتظار:
امام کا انتظار یعنی امامت کے غلبے کا انتظار، ظہورِ دین، غلبۂ دین، غلبہ ٔعدالت اور حاکمیت ِاسلام کا انتظار ہے۔ اس انتظار میں منتظِر اور منتظَر دو الگ الگ فریضے رکھتے ہیں۔ اس انتظار میں منتظِر ویسے نہیں بیٹھا رہتا جیسے اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں لوگ بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ یہ آبائی انتظار ہے۔ آبائی انتظار میں ٹرین چل کر منتظِر کے پاس آتی ہے لیکن الٰہی انتظار میں اُمت چل کر اپنے رہبر و امام کے پاس جاتی ہے۔ امام اور ظہورِ امام کے بارے میں ہماری تقریریں، ترانے، باتیں، قصے اور شاعری سب آبائی انتظار کی عکاسی کرتی ہیں مثلاً ہم یہ ترانہ پڑھتے ہیں کہ” دعا کرو کہ ظہورِ امام ہوجائے، یہ روز روز کا قصہ تمام ہوجائے”۔ یہ زبان تھکے ہوئے، خستہ اور اکتائے ہوئے منتظر کی زبان ہے۔ ہم بیٹھ کر کہتے ہیں کہ بس امام آجائیں جیسے کوفیوں نے امام حسین (ع) کو خطوط لکھے کہ ہم آپ کے منتظر ہیں لہٰذا آپ جلدی آئیں۔ جب آپ کربلا پہنچے تو دیکھا کہ وہاں کوئی بھی نہیں آیا تھا کیونکہ کوفیوں نے الٰہی انتظار نہیں بلکہ آبائی انتظار کیا تھا۔ الٰہی انتظار میں اُمت کو امام کی طرف جانا ہے، اُمت کو نظام ِامامت کی طرف جانا ہے۔
غلبۂ امامت کیلئے تیاری:
انتظار سے مراد تیاری اور آمادگی ہے۔ مثلاً اگر انسان کسی جنگی کمانڈر کا انتظار کررہا ہوتا ہے تو وہ ہاکی، فٹبال یا بلا لے کر اُسکا انتظار نہیں کرتا۔ جسکا انتظار کیا جاتا ہے اُسی کے مطابق تیاری کی جاتی ہے۔ ایک مولانا کے پاس چند مومنین یہ شکایت لیکر آئے کہ بارش نہیں ہوتی لہٰذا آپ نمازِ استسقاء پڑھیں۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے کل سارے لوگ صحراء میں آجاؤ میں نماز پڑھوں گا۔ اگلے دن جب سارے لوگ پہنچے تو مولانا نے کہا کہ تمہیں تو دعا اور رحمت ِالٰہی پر یقین ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر تمہیں یقین ہوتا تو تم تیاری کرکے آتے یعنی اپنے ساتھ چھتری لیکر آتے لیکن تم لوگ بغیر تیاری کے خالی ہاتھ آئے ہو۔ اسی طرح آج ہم کہتے ہیں کہ اے امام آپ آجائیں لیکن امامت کیلئے ہماری کوئی تیاری نظر نہیں آ رہی۔
امامتِ امام مہدی(عج):
ہم نے درحقیقت امامت ِامام کو ہی نہیں سمجھا کہ آپ آ کر کیسی امامت کریں گے۔ امامت وہ نہیں ہے جو ہمارے ذہنوں میں ہے۔ جیسے معنوی اور بزرگ شخصیات ہوتی ہیں جن کے ہاتھ، قول اور زبان میں اثر ہوتا ہے کہ اُنکے قول اور ہاتھ سے ہمیں شفاء مل جاتی ہے۔ جسکے دانت میں درد ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ جب امام آئیں گے تو میں جا کر امام سے کہوں گا میرے دانت پر ہاتھ پھیر دیں تاکہ دانت کا درد ٹھیک ہوجائے۔ جسکے کندھے میں درد ہو وہ کہتا ہے جب امام آئیں گے تو میں آپ سے جا کر کہہ دوں گا کہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیں تاکہ یہ کندھا ٹھیک ہوجائے۔ مقروض یہ سوچتا ہے کہ جب امام آئیں گے تو میں جاکر اُن سے گزارش کروں گا کہ میرے قرض اتار دیں۔ امام یہ کام نہیں کریں گے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس کو مانگ رہے ہیں اور تیاری کس کی کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہماری تیاری بتاتی ہے کہ ہم کس چیز کے منتظر ہیں۔ اگر کوئی سامنے دسترخوان بچھا کر کہے کہ میں جہاد کی تیاری کر رہا ہوں تو کیا یہ سچا ہوگا؟ انسان کی تیاری بتاتی ہے کہ وہ کس کام کیلئے تیار ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو دیکھے کہ آج ہم کس کام کیلئے تیار ہیں؟ امام ایک معنوی شخصیت کو نہیں کہتے کہ جب آپ آئیں گے تو فقط آپ سے شفاء لیں گے، اپنے دردوں کا علاج کروا لیں گے اور اپنی گمشدہ چیزیں تلاش کروا لیں گے۔
مقصدِ غیبتِ امام مہدی:
امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنائے ہوئے امام ہیں، آپ آئیں گے تو وہ کام نہیں کریں گے جن کے بارے میں آج ہم سوچ رہے ہیں بلکہ آپ وہ کام جو انبیاء (ع) اور دیگر آئمہ (ع) کے زمانے میں تکمیل نہیں ہوسکا اُسکی آکر تکمیل کریں گے۔ وہ کام جو انبیاء (ع) اور آئمہ (ع) کی زندگیوں میں تکمیل نہیں ہوسکا، وہ یہ ہے کہ پوری دنیا پر دین ِالٰہی نافذ نہیں ہو سکا اور دین کو تمام ادیان پر غلبہ نہیں مل سکا۔ بقیة اللہ کو خداوند عالم نے اسلئے بچا کر رکھا ہوا ہے کہ میں اسکو اُس وقت ظاہر کروں گا جب اسکے انصار اور پیروکار اتنی تیاری کر لیں گے کہ پوری دنیا کے اوپر امامت کے نظام کو غلبہ دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ کیا ہم نے آج اس طرح کی تیاری کی ہوئی ہے؟ کیا ہم غلبۂ دین کیلئے پوری طرح تیار ہیں؟ جبکہ آج ہم سوائے اس مقصد کے باقی تمام کاموں کیلئے تیار ہیں۔ یعنی ہم اپنی خواہشات کی تکمیل، اپنے دردوں کے علاج اور اپنی مشکلات کے حل کیلئے ہی تیار ہیں۔ اگر ہمارے روزمرہ کے معمولات اور طور طریقوں کو دیکھا جائے تو تیاری صاف نظر آرہی ہے۔ جو لوگ تیار اور آمادہ ہوتے ہیں وہ منتظِر ہیں اور وہ الٰہی انتظار کر رہے ہیں۔ پس اگر امام کو بلا رہے ہیں تو الٰہی انتظار کریں ورنہ آبائی انتظار سے کبھی الٰہی پیشوا نہیں آتا۔
مفہومِ امامت سے نا آشنائی:
آج ہم امامت کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ ہمیں امامت و ولایت کا معنی ہی معلوم نہیں ہے۔ ہم سامری کے بچھڑے کیلئے تو تیار ہیں لیکن الٰہی نظام کیلئے ہماری کوئی تیاری نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ سامری حضرت موسیٰ کی قوم میں سے ایک بڑا دانا، فاضل، انجینئر اور عالم تھا۔ اسکے پاس دین اور دنیا دونوں کی ڈگریاں تھیں۔ جب خداوند عالم نے حضرت موسیٰ کو تیس دنوں کیلئے پردۂ غیبت میں بلایا تو آپ نے جنابِ ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خود پردۂ غیبت میں چلے گئے۔ جب یہ تیس دن پورے ہوئے تو خداوند تعالیٰ نے آپ کو مزید دس دن وہاں پر روکا۔ بعض نے ان زائد دنوں کے بار ے میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کام پورا نہیں ہوا تھا لہٰذا آپ کو دس دن اور روکا گیا اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ کا کام پورا نہیں ہوا تھا لہٰذا آپ کو مزید دس دنوں کیلئے روکا گیا۔ درحقیقت یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ دراصل سامری کا کام پورا نہیں ہوا تھا۔ سامری نے یہ کام کیا کہ جونہی آپ نکلے، اس نے عورتوں سے کہا کہ موسیٰ جس خدا کو ڈھونڈنے گئے ہوئے ہیں اسکا موسیٰ کو نہیں بلکہ مجھے پتہ ہے اور اس کیلئے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ مجھے کچھ قیمتی دھاتیں چاہئیں۔ عورتوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو بہت ہے۔ جتنا بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس سونا چاندی تھا وہ سارا اٹھا کر کے لے آئیں اور سامری کو دے دیا۔ سامری نے وہ سونا چاندی لیا اور پگھلا کر اُسکا بچھڑا یعنی بچھڑے کی شکل کا مجسمہ بنایا اور یہ مجسمہ اتنی مہارت سے بنایا کہ وہ گائے والی آواز بھی نکالتا تھا۔ سامری جب اسکو بنا چکا تو پھر عورتوں سے کہا کہ یہ دیکھو یہ خدا ہے، اس سے جو حاجت مانگو تمہیں جواب دیگا جبکہ تم موسیٰ کے خدا کو بلاتی رہتی ہو اور وہ جواب بھی نہیں دیتا اور یہ وہ خدا ہے کہ جب تم اُدھر سے بولو گی تو یہ اِدھر سے جواب دیگا اور واقعاً ایسا ہی ہوتا تھا۔ عورتوں نے مردوں کو بھی کہا کہ یہی خدا ہے۔ آج بھی بہت ساری عورتوں نے مردوں کو بدبخت کیا ہوا ہے، اپنے مردوں کو لیکر جادوگروں اور جعلی پیروں کے پاس جاتی ہیں۔ بہرکیف جب اس نے بچھڑا بنایا تو حضرت ہارون نے روکا کہ خبردار دین ِخدا کی پیروی کرو اور اس بچھڑے کی پیروی نہ کرو کیونکہ یہ صرف تمہیں گمراہ کرنے کیلئے ہے۔ قرآن میں یہ قصہ ہمیں یہ بتانے کیلئے لکھا گیا ہے کہ اے لوگو! ایک تو حجت ِخدا کا حکم ِخدا سے پردۂ غیبت میں جانا معمول کی بات ہے لہٰذا یہ پہلی دفعہ کوئی امام پردۂ غیبت میں نہیں گیا بلکہ پہلے حضرت موسیٰ بھی مختصر زمانے کیلئے پردۂ غیبت میں گئے ہیں۔ دوم یہ بتانے کیلئے بیان ہوا ہے کہ حجت ِخدا جب بھی پردۂ غیبت میں جائے تو اپنے پیچھے اُمت کیلئے انتظام کرکے جاتا ہے، اسکو اپنے حال پر چھوڑ کر نہیں جاتا۔ پس حضرت موسیٰ نے ہارون کو اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ جیسے حدیث منزلت میں ہے کہ
”یاعلی انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ”
”اے علی ! میری اور آپ کی نسبت وہی ہے جو ہارون اور موسیٰ کی ہے” یعنی رسول اللہ ۖ یہ فرما رہے ہیں کہ میں بھی جب جاؤنگا تو اُمت تیرے حوالے کرکے جاؤنگا۔ تجھے وارث، جانشین اور وصی بناکر جاؤنگا۔ تیسرا نکتہ یہ بتانے کیلئے ہے کہ اگر ایک نبی تیس دن کیلئے یا چالیس دن کیلئے اُمت سے غائب ہوجائے تو اُمت کو گمراہ کرنیوالے سامری پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ امام جو بارہ سو سال سے پردۂ غیبت میں ہے کیا اسکی اُمت میں سامری پیدا نہیں ہوئے ہونگے؟ جبکہ سامری اُمتوں کو بیوقوفوں اور سادہ لوحوں کی مدد سے اغواء اور گمراہ کردیتے ہیں۔
زمانۂ غیبت میں منتظرین کا فریضہ:
آج پورا جہانِ اسلام سامریوں کے ہاتھ میں ہے۔ زمانۂ انتظار میں منتظِرین کا فریضہ یہ نہیں ہے کہ بجلی آنے کا انتظار کرتے رہیں، یہ آبائی انتظار ہے جس میں منتظِر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہتا ہے اور منتظَر کو آنا پڑتا ہے۔ الٰہی انتظار میں منتظَر ایک جگہ قائم ہے اور منتظِر کو اسکی طرف جانا پڑتا ہے۔ ہم نے یہ تیاری کرنی ہے کہ خود بھی اور اپنی قوم کو بھی اور آج کے مسلمانوں کو بھی سامریوں سے نجات دینی ہے، ہم نے ان بچھڑوں سے نجات دینی ہے جوکہ ہر جگہ پر دیکھیں تو بچھڑا باندھا ہوا ہے، ہر جگہ پر اِن بچھڑوں کی پرستش ہو رہی ہے۔ یعنی اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مقابلے میں بشر کا بنایا ہوا نظام برپا کیا جا رہا ہے جوکہ اس زمانے کے سامری کا بچھڑا ہے۔ آج مسلمان الٰہی نظام کے تحت زندگی بسر کررہا ہے یا بشر کے بنائے ہوئے نظام کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے؟ ہم جس نظام میں زندگی بسر کررہے ہیں اور پوری دنیا جن نظاموں میں زندگی بسر کررہی ہے یہ سب سامری کے بچھڑے ہیں۔ انہی بچھڑوں کیساتھ سامریوں کے پیچھے چل کر جشن ِظہورِ وارثِ موسیٰ منایا جاتا ہے۔ یہ منتظِر کو نہیں جچتا۔ منتظِر تب یہ جشن منائیں جب ہارون کا پیروکار ہو اور پھر موسیٰ کی ولادت کا جشن منا رہا ہو۔
عصرِ حاضر کے ہارون:
آج کے زمانے کا ہارون کون ہے؟ آج جب ایک امام غیر معینہ مدت کیلئے حکم ِخدا سے پردۂ غیبت میں گئے ہیں تو کیا اُمت کو سامریوں کے حوالے کر کے گئے ہیں یا کوئی ہارون مقرر کر کے گئے ہیں؟ ضرور مقرر کر کے گئے ہیں۔ آپ جب غیبت ِصغریٰ میں گئے تو چار فقہاء مقرر کئے کہ یہ چار میرے ہارون ہیں لہٰذا انکی ہر بات مان لی جائے اور جب غیبت ِکبریٰ کا آغاز ہوا تو اس وقت فقہاء کی طرف رجوع کرنے کو کہا اور فرمایا کہ میرے بعد تمہارے ولی یہ فقہاء ہونگے۔ پس آج کا ہارون ولی ٔفقیہ ِزمان ہیں۔ ولی ٔفقیہ کی پیروی کرکے پھر جشن ِظہورِ امام منایا جائے۔ جس نظامِ سیاست، کلچر، معاشرت، نظام معیشت اور نظامِ تعلیم کے تحت ہم زندگی بسر کر رہے ہیں یہ سارے سامری ہیں۔ اپنے بچوں کو سامری کے حوالے کرتے ہیں تاکہ سامری انھیں تعلیم دیں اور یہ سامری یعنی یہ نظامِ تعلیم مومنین کے بچوں کو گوسالہ پرست بنا رہا ہے۔ لہٰذا آج پاکستانی قوم میں بچے پڑھتے ہی سیدھا گوسالے کے پاس چلے جاتے ہیں، اُسکے قدم پاکستان میں رکتے ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ سامری مومنین کے بچوں کو ایسی ہی تعلیم دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ تجھے موسیٰ کے خدا سے کیا ملے گا؟ میں تمہیں ٹیکنالوجی کا بچھڑا دیتا ہوں۔ اُس سامری کے پاس بھی ٹیکنالوجی اور آئیڈیالوجی دونوں تھے۔ آج بھی وہی تکرار ہورہا ہے آج امت ِ رسول اللہ ۖ سامریوں کے ہاتھ میں ہے۔
عصرِ حاضر کے فرعون:
عصرِ حاضر میں امت ِرسول اللہ ۖ کا نظام، ملک، قوم اور ہر چیز سامریوں کے ہاتھ میں ہے۔ خداوند عالم وہ دن لائیگا کہ جس دن پوری اُمت ِمسلمہ اور بالخصوص مسلمینِ پاکستان سب تیار ہوجائیں گے اور منتظِرِ امام بنیں گے چونکہ سب کا امام مہدی (ع) کے اوپر عقیدہ ہے۔ آج مسلمانوں پر ہزاروں فرعون مسلط ہیں۔ امریکہ، یورپ، نیٹو اور بہت سارے فرعون ہم پر مسلط ہیں۔ ان فرعونوں سے ہمیں وہی حجت ِخدا ہی نجات دلا سکتا ہے لیکن حجت ِخدا اُس وقت ہمیں نجات دلائیں گے جب ہم سامری کی بجائے ہارون کیساتھ کھڑے ہونگے۔ جس دن ہم سامریوں کو چھوڑ کرمنتظرِ موسیٰ زمان ہونگے اس وقت خداوند تعالیٰ اپنی حجت کو دوبارہ ہمارے اندر بھیجے گا۔ خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمین کو انتظارِ امام کیلئے بیداری و شعور عطا فرمائے۔