جب انسان نعمت دینے والی ذات کی جھلک دیکھ لیتا ہے پھر ساری نعمتوں کی لذت ختم ہو جاتی ہے، پھر انسان کی ساری رغبت فقط ذات خدا میں پیدا ہو جاتی ہے یہ فرصتیں خدا نے ہم سب کو عطا کی ہیں تاکہ ہم دنیوی نعمتوں سے باہر نکل کر نعمتیں دینے والے کو تلاش کر سکیں اور اس کو پا سکیں۔
استقبال ماہ رمضان/ اللہ کی رحمتوں کی اقسام/لوگوں کی دو قسمیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
استقبال ماہ رمضان
ماہ مبارک رمضان چند روز بعد مومنین کے پاس آ رہا ہے اور مومنین اس شہر اللہ کے استقبال کے لیے آمادہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی رحلت سے دو سال قبل ایک معروف خطبہ ’استقبال ماہ رمضان‘ کے حوالے سے بیان فرمایا جو ’خطبہ شعبانیہ‘ کے نام سے معروف ہے یہ خطبہ ماہ مبارک میں مومنین کے لیے ایک منشور ہے۔ ماہ شعبان کے آخری جمعہ میں نبی کریم نے مومنین کو ماہ مبارک کے لیے آمادہ کرنے کی غرض سے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَيْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ. اے لوگو! اللہ کا مہینہ اپنے دامن میں رحمتیں اور برکتیں لیے ہوئے تمہاری طرف آ رہا ہے اور تم بھی اس کے لیے تیار ہو جاؤ۔
ماہ رمضان رحمتوں کے حصول کے لیے خاص فرصت
ماہ مبارک رمضان جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک سے ’شہر اللہ‘ کہا گیا ہے یا سید الشہور کہا گیا ہے یعنی تمام مہینوں کا سردار، یہ در حقیقت اللہ کی جانب سے اس بندوں کے لیے خاص فرصت اور موقع ہے تاکہ وہ اللہ کی رحمتیں اور نعمتیں حاصل کر سکیں۔
اللہ کی رحمتوں کی اقسام
اللہ تعالی کی نعمتیں اور رحمتیں دو طرح کی ہیں ایک عمومی رحمتیں ہیں جو ہر مخلوق اور ہر انسان کو عطا ہوتی ہیں ان رحمتوں اور نعمتوں کے لیے کسی خاص عنوان کی ضرورت نہیں ہوتی، اللہ کی ہر مخلوق تک یہ نعمتیں خود ہی پہنچ جاتی ہیں۔ اللہ تعالی کا نظام ایسا ہے جس طرح علمائے کرام نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ خداوند تبارک و تعالی کے دو نام رحمن و رحیم ایک ہی معنی کے ساتھ بسم اللہ میں تکرار ہوئے ہیں لہذا یہاں پر اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی رحمانیت اور رحیمیت میں فرق کیا ہے۔
رحمت رحمانی اور رحیمی میں فرق
رحمت رحمانی عام ہے اور رحمت رحیمی خاص ہے۔ رحمت رحمانی ہر مخلوق کے لیے ہے ہر شئے کو بنا کسی قید و شرط کے اس کی رحمت رحمانی شامل حال ہوتی ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ‘ میری رحمت ہر شئے پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لیکن ایک اور رحمت ہے جو خاص ہے۔ جسے رحمت رحیمی کہا جاتا ہے۔ جو اپنے مفہوم اور مصداق دونوں کے لحاظ سے رحمت عامہ سے مختلف ہے۔ اور جن افراد کو یہ رحمت عطا ہوتی ہے وہ افراد بھی مخصوص ہیں یہ رحمت رحیمی ہر انسان کو نصیب نہیں ہوتی۔ بلکہ اسی کے شامل حال ہوتی ہے جس کے اندر اس کی قابلیت پائی جاتی ہے۔ رحمت رحیمی کے لیے پہلی شرط ایمان کی ہے۔ جو انسان ایمان کے درجے پر فائز ہوگا اس کو یہ رحمت عطا ہو گی۔
رحمت رحمانی جو عام ہے اس کی ایک مثال رزق ہے اللہ نے اپنی مخلوق کو رزق دینے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے اور وہ ہر مخلوق کو رزق عطا کرتا ہے۔ اس میں ایمان کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔ اللہ کا منکر اور دشمن بھی اللہ کا رزق کھا رہا ہے اسی طرح روئے زمین پر پائی جانے والی تمام مادی چیزیں سورج چاند، ہوا پانی سب چیزیں اللہ کی رحمت عامہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے اللہ نے کوئی قید نہیں رکھی۔ ہر مخلوق ان سے لطف اندوز ہو سکتی ہے۔
رحمت رحیمیہ کے شرائط
لیکن اس کے مقابلے میں ایک رحمت خاصہ یا رحمت رحیمیہ ہے جس کے حصول کے لیے شرائط معین کیے ہیں۔ ان میں سے پہلی شرط ایمان کی ہے۔ انسان زیور ایمان سے آراستہ ہو گا تو اسے یہ رحمت نصیب ہو گی۔
مومنین کے لیے جس طرح قران مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے ’’لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم‘‘ اللہ کا مومنین پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ اللہ کی یہ نعمت مومنین سے مخصوص ہے۔ غیر مومن اس میں شریک نہیں ہیں۔ وہ کون سی نعمت ہے وہ خاتم الانبیاء جیسی نعمت ہے۔ یہ اللہ تعالی کا مومنین پر احسان ہے۔ اسی طرح مومنین سے مخصوص اللہ کی ایک نعمت قرآن کریم کی شکل میں ہے۔ اس نعمت سے غیر مومن فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ بلکہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایمان سے بھی آگلے درجہ تقویٰ کی شرط ہے۔ قرآن ھدی للمتقین ہے۔ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے تقویٰ کی شرط ہے اسی طرح خداوند تبارک و تعالی نے ایک اور عظیم نعمت جو مومنین سے مخصوص قرار دی ہے وہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ یہ وہ ہدایت کا وسیلہ ہیں جن سے مومنین ہی نعمت ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح محبت اہل بیت(ع) ہے جس نعمت سے دیگر تمام لوگ محروم ہیں۔
اسی طرح کی خاص نعمتیں بھی فراوان ہیں جو صرف مومنین سے مخصوص ہیں۔ انہیں مخصوص نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک رمضان ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کی برکتیں، رحمتیں اور نعمتیں مومنین سے مخصوص ہیں۔
رحمت رحیمیہ کی گہرائی اور گیرائی
اور یہ جو مخصوص نعمتیں ہیں ان کے اندر بھی بہت گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے۔ یہ نعمتیں تہ در تہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ ان تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہو جائے گا۔ نہیں جس طرح ایمان کے درجات ہیں اسی طرح ان رحمتوں اور نعمتوں کے بھی درجات ہیں۔ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے اور باطن کا بھی باطن ہے اور پھر اس باطن کا بھی باطن ہے۔ یہاں تک کہ روایات میں اس کے ستر بطون ذکر ہوئے ہیں یہ عدد کثرت کے لیے ہے ایسا نہیں ہے کہ صرف ۷۰ بطور ہیں ۷۱ نہیں ہو سکتے۔ جسے ہم اردو میں کثرت کے لیے بولتے ہیں کہ میں نے تمہیں سو بار یہ بات کہی اس مطلب یہ نہیں ہے کہ گن کر سو مرتبہ کہی بلکہ کثرت سے تکرار کی۔ عرب میں ۷۰ کا عدد کثرت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی قرآن کے بے انتہا بطون ہیں اور ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق ان تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا یعنی اگر اللہ کی ان نعمتوں میں بطون نہ ہوتے تو یہ عدل الہی کے خلاف ہوتا۔ اس لیے کہ انسانوں کی ہمت ایک جیسی نہیں ہے۔ بعض لوگ سست ہیں کم ہمت ہیں وہ جلدی خستہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ بہت بڑی ہمت والے ہوتے ہیں وہ خستہ نہیں ہوتے، پیچھے نہیں ہٹتے۔ جب تک کہ اپنے مقصد کو حاصل نہ کر لیں۔
لوگوں کی دو قسمیں
مثال کے طور کسی انسان کو اگر کوئی چیز ہم سے چاہیے ہوتی ہے اور وہ چیز گھر پر رکھی ہو تو وہ ہمارے گھر پہنچنے تک بیس بار فون کرے گا اور جب تک کہ اسے مل نہ جائے وہ جان نہیں چھوڑے گا لیکن ایک انسان ہے جو کبھی ایک بار پوچھے گا اس کے بعد وہ خود ہی بھول جائے گا۔ پھر جب کبھی اس سے ملاقات ہو گی تو اس کو بھی یاد آئے گا۔
یا ایک انسان کو کبھی کھانے کی پسندیدہ چیز اگر اپنے شہر سے نہ ملے تو وہ دسیوں کلو میٹر کا سفر طے کر کے دوسرے شہر میں خریدنے چلا جاتا ہے نہ گرمی دیکھتا ہے نہ سردی دیکھتا ہے۔ بہر قیمت اپنی پسندیدہ چیز لے کر آتا ہے لیکن دوسرا شخص ہے جس کی پسند کی چیز اس کے مکان کے بغل کی دکان میں موجود ہوتی ہے لیکن سستی اور کاہلی کی وجہ سے بغل کی دکان پر بھی نہیں جاتا۔
اہل جد اور اہل ہزل میں فرق
لہذا لوگ دو طرح کے ہیں بعض اہل جد ہیں اور بعض اہل ہزل ہیں۔ جد و جہد کرنے والے اور حوصلہ و ہمت رکھنے والے لوگوں کے سامنے فاصلے اور دوریاں کچھ نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے سارے فاصلے طے کر لیتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص نعمتوں کو تہ در تہ رکھا ہے۔ تاکہ جو کم ہمت لوگ ہیں وہ اوپر کی نعمتیں حاصل کر لیں لیکن جو ہمت و حوصلہ والے ہیں وہ نیچے تہ میں رکھی ہوئی نعمتوں تک بھی رسائی حاصل کر لیں۔
کم ہمت اور بلند ہمت افراد کو پرکھنے کا معیار
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کہاں سے معلوم ہو کہ اہل جد کون ہے اور اہل ہزل کون ہے؟ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مختلف مقامات پر جہاں کسی امتحان کا ذکر کیا کسی سختی کا ذکر کیا یا جہاد کا تذکرہ کیا وہاں یہ فرمایا کہ ہم نے یہ کام اس لیے کیا تاکہ دیکھیں تم میں کون بلند ہمت والے ہیں کون کم ہمت والے۔ کون اہل عزم ہیں اور کون اہل عزم نہیں ہیں۔ ہم بعض انبیاء کے بارے میں تذکرہ سنتے ہیں کہ وہ اہل عزم تھے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ہے جب انہیں وقتی طور پر کسی رہایشگاہ میں رکھا گیا تھا اور شیطان نے وہاں مداخلت کی۔ قرآن نے بیان کیا کہ آدم اس وقت اپنا عزم کھو چکے تھے۔ یعنی شیطان انسان کے عزم پر حملہ کرتا ہے اور اسے عزم کو توڑ دیتا ہے۔ شیطان پہلے انسان کا یقین توڑتا ہے، پھر اس کا پختہ ارادہ توڑتا ہے، اور پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ قران مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ہم بہت سارے امتحان اس لیے لیتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ کون اہل عزم ہیں وہ کون اہل عزم نہیں ہیں۔
نعمتوں کو تہ در تہ رکھنے کا فلسفہ
لہذا اللہ تعالی نے اپنی نعمتیں تہ در تہ بنائی ہیں تاکہ جو اہل عزم ہیں اور جو سست اور کم ہمت ہیں وہ برابر نہ رہیں اس لیے کہ اگر اللہ اپنی ساری نعمتوں کو ایک تہ میں رکھ دیتا تو دونوں طرح کے مومنین یکساں طور پر اس کی نعمتیں وصول کر لیتے اور یہ عدل الہی کے خلاف ہوتا۔ لیکن اللہ نے اپنے نظام حکمت کے تحت نعمتوں کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ ایک تہ اوپر رکھی ہے جہاں سست بھی پہنچ جاتے ہیں اور اہل عزم بھی پہنچ جاتے ہیں اور اس کے نیچے ایک اور طے رکھی ہے جہاں تک فقط اہل عزم پہنچتے ہیں اہل ارادہ پہنچتے ہیں صاحبان صبر و استقامت ان تک پہنچتے ہیں اور دوسرے لوگ ہرگز ان نعمتوں تک نہیں پہنچتے۔
کون لوگ عبادتوں کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ کی تمام خصوصی نعمتیں چاہے وہ قرآن ہو، تعلیمات اہل بیت(ع) ہوں یا ماہ مبارک اور عبادتیں ہوں۔ یہ سب ایک تہ میں نہیں ہیں۔ لہذا یہ انسان کی ہمت اور اس کے حوصلے پر منحصر ہے۔ ماہ مبارک رمضان میں عبادتوں کا ایک دسترخوان عمومی ہے جو سب مومنین کے لیے بچھایا جاتا ہے اور جو سب کی دسترس میں ہوتا ہے لیکن ان عبادتوں کی تہ میں پہنچنے کے لیے انسان کو ہمت، حوصلے اور پختہ ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جو بلند ہمت والے ہیں صرف وہی ان عبادتوں کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ تمام عبادتیں ایسے ہیں ہیں نماز کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ اور باطن کا پھر باطن ہے۔ لیکن ہم تو نماز کی ظاہری شکل سے ہی غائب رہتے ہیں چہ جائیکہ اس کے باطن تک پہنچ سکیں، اور ظاہری نماز میں شامل ہوتے بھی ہیں تو صرف ہمارا بدن حاضر ہوتا ہے ہمارا دل ہمارا دماغ کہیں اور لگا ہوتا ہے۔ ہم بظاہر تو مصلائے نماز پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن باطنی طور پر یا اپنی دکان پر ہوتے ہیں یا آفس میں ہوتے ہیں۔ اللہ کے حضور میں کھڑے ہیں لیکن غائب ہیں۔ ہم تو نماز کی پہلی تہ تک بھی نہیں پہنچ سکتے لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو بظاہر دکان پر بھی ہوں لیکن ہوتے بارگاہ خدا میں ہیں۔ وہ بظاہر گھر میں ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں خدا کی بارگاہ میں ہوتے ہیں۔ وہ بظاہر اپنے دنیاوی معاملات میں مصروف ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں بارگاہ الہی میں ہوتے ہیں ان کو دائم الصلاۃ کہا جاتا ہے۔
دائم الصلاۃ کون ہوتے ہیں؟
ایک معروف ایرانی شاعر ہیں بابا طاہر جو اپنی محلی زبان میں بہت ہی خوبصورت اور شیرین شعر کہتے تھے ان کا ایک معروف اور خوبصورت شعر ہے کہ:
خوشا آنانکه الله یارشان بی
بحمد و قل هو الله کارشان بی
خوشا آنانکه دایم در نمازند
بهشت جاودان بازارشان بی
یعنی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کا اللہ ہمراہ اور ساتھی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا ورد الحمد و قل ھو اللہ ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دائما نماز میں ہیں ہمیشہ نماز کی حالت میں ہیں۔ انسان یہ سوچتا ہے کہ یہ جو دائم الصلاۃ لوگ ہیں یہ تو ہمیشہ مسجد میں مصلائے نماز پر رہتے ہیں کوئی کاروبار نہیں کرتے، کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ محنت مزدوری نہیں کرتے۔ نہیں عزیزان، انہیں دائم الصلاۃ نہیں کہا جاتا۔ دائم الصلاۃ وہ ہیں جو زندگی کے تمام کام انجام دیتے ہیں لیکن ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں ہوتے ہیں۔ وہ کاروبار کے وقت بھی اللہ کی بارگاہ میں ہوتے ہیں وہ تجارت کے وقت بھی اللہ کی بارگاہ میں ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عبادت کی نچلی تہ تک پہونچے ہوئے ہیں۔ یہ عبادت کی حقیقت تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ بلند ہمت لوگ ہیں۔
جنت کو پا لینا کمال ہے یا اللہ کو؟
دنیوی نعمتوں سے اخروی نعمتوں کی طرف منتقل ہو جانا کوئی بڑا کمال نہیں ہے۔ کمال یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں بھی اللہ کا ساتھ ہو آخرت میں بھی اللہ کا ساتھ ہو۔ سید الشہداء (ع) فرماتے ہیں کہ اے پروردگار جسے تو مل گیا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا۔ جو اللہ کو پا لے وہ بلند ہمت انسان ہے۔
جب انسان نعمت دینے والی ذات کی جھلک دیکھ لیتا ہے پھر ساری نعمتوں کی لذت ختم ہو جاتی ہے، پھر انسان کی ساری رغبت فقط ذات خدا میں پیدا ہو جاتی ہے یہ فرصتیں خدا نے ہم سب کو عطا کی ہیں تاکہ ہم دنیوی نعمتوں سے باہر نکل کر نعمتیں دینے والے کو تلاش کر سکیں اور اس کو پا سکیں۔
ماہ رمضان نعمتوں کے تہ تک پہنچنے کا بہترین موقع
عرض کیا رحمانی نعمتیں خدا نے کھلے عام عطا کی ہیں لیکن رحیمی نعمتوں کے حصول کے لیے اس نے شرائط معین کر دیئے ہیں۔ اور ان کو تہ اندر تہ رکھا ہے۔ اور پھر انسان کو ان تک رسائی کے لیے فرصتیں فراہم کی ہیں ان فرصتوں میں سے ایک فرصت ماہ مبارک رمضان ہے۔ جو بہت عظیم فرصت ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی عظیم فرصت موجود نہیں ہے۔ لہذا رسول اللہ نے لوگوں کو بیدار کیا کہ جاگو بیدار وہ جاؤ۔ اللہ کا مہینہ تمہاری طرف آ رہا ہے تم اس کا والہانہ استقبال کرو۔ عزیزان من! ہم نے رمضان کا کون سا چہرہ دیکھا ہے ہمیں رمضان میں صرف فاقہ نظر آتا ہے اور ہم رمضان سے اتنے ڈرے اور سہمے ہوتے ہیں کہ رمضان آ گیا ہے کیا کریں، گرمی ہے، بجلی نہیں ہے، اتنے ڈر گئے ہیں ہم اس سے۔ رمضان ڈراؤنا مہینہ نہیں ہے۔ اللہ کا مہینہ ہے جو اپنے دامن میں برکتیں اور رحمتیں لے کر آیا ہے۔ لہذا اس کا والہانہ استقبال کرو۔ استقبال یعنی جس نے ہماری طرف رخ کیا ہے اس کی طرف آگے بڑھنے اور اسے اپنی آغوش میں لینے کو استقبال کہتے ہیں اور یہ اللہ کا قانون ہے کہ اللہ کی نعمتیں، رحمتیں اور برکتیں اس مہینے میں ہماری طرف رخ کرتی ہیں لیکن اگر ہم ان کا استقبال نہیں کریں گے تو وہ اپنا رخ موڑ لیں گی۔
ماہ مبارک کا استقبال کیسے کریں؟
حضرت امام سید ساجدین علیہ الصلوۃ والسلام ماہ مبارک رمضان کا استقبال اس طرح سے کرتے تھے روایت میں ہے کہ جس طرح دلہن کے لیے گھر سجایا جاتا ہے اس طرح سے امام علیہ السلام ماہ مبارک کی آمد کے لیے اہتمام کرتے تھے۔ ماہ رمضان کی ایک تیاری ہم کرتے ہیں یعنی سحر و افطار میں طرح طرح کے کھانے بنانے کی تیاریاں کرتے ہیں خوب یہ روزہ کی تیاری ہے رمضان کی تیاری نہیں۔ رمضان کے اداب میں سے صرف ایک روزہ ہے کل رمضان روزہ نہیں ہے ہم رسوماتی لوگ ہیں ہم دین سے زیادہ رسومات کے پابند ہیں۔ دین چھوڑ سکتے ہیں لیکن رسومات نہیں۔ ماہ مبارک پورا رسومات میں گزر جاتا ہے خاص طرح کی افطاری ہو، فلاں فلاں چیز افطار میں نہ ہو تو روزہ نہیں ہو گا۔ یہ رسومات میں سے ہے یہ روزے میں سے نہیں ہے اس کا کوئی تعلق نہ روزے سے ہے نہ رمضان سے۔ اور خواتین بیچاری پورا مہینہ سحری اور افطاری بناتے بناتے گزار دیتی ہیں۔ اور خرچہ بھی تین گنا زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ ایک ٹائم کا کھانا کم ہوا ہے خرچہ کم ہونا چاہیے۔ خرچے بڑھ جاتے ہیں صرف رسومات کی وجہ سے۔ سحری کی رسومات الگ ہیں افطار کی رسومات الگ ہیں عید کی رسومات الگ ہیں۔ ہم اہل رسومات ہیں اور ان رسومات کے بہت سختی سے پابند ہیں۔ رمضان سارا رسومات میں گزر جاتا ہے اور جو فیض ہمیں اس مہینے سے حاصل کرنا چاہیے وہ حاصل نہیں کر پاتے۔
ماہ رمضان میں قرآن کہاں اترتا ہے؟
اصل چیز جس کے لیے ہمیں کہا گیا کہ آپ تیاری کریں اس کی تیاری نہیں ہوتی۔ اللہ کا مہینہ آ رہا ہے اور اللہ کا مہینہ صرف روزے نہیں ہیں۔ اگر کوئی روزہ نہیں بھی رکھ سکتا تو بھی ماہ مبارک رمضان کی برکتوں کو تو درک کرے۔ رمضان کا روزہ سرّ رمضان نہیں ہے صرف روزہ حقیقت رمضان نہیں ہے روزہ کے علاوہ بھی اس مہینے کی اپنی ایک فضیلت اور عظمت ہے جس کی بنا پر اس کی ایک رات کو ہزار ماہ سے افضل قرار دیا گیا ہے لہذا اس مہینے سلوک الی اللہ اور اللہ کی طرف ہجرت کا سفر انجام پانا چاہیے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اترنا ہے یعنی یہ قرآن ایک دفعہ لوح محفوظ سے قلب رسول اللہ (ص) پر اترا ہے اور ایک مرتبہ اسے ان اوراق اور کاغذوں کے صفحوں سے نکل کر دل مومن پر اترنا ہے۔ یہ ماہ نزول قرآن ہے لوح محفوظ سے نازل ہو کر قلب پیغمبر پر تو اترا ہے لیکن ابھی یہ قران ہمارے اور آپ کے دلوں پر نہیں اترا ہے۔ ماہ رمضان ربیع القلوب، دلوں کی بہار ہے اس مہینے میں دلوں کو امادہ کریں۔ رمضان کی تیاری بازاروں میں خریداری سے نہیں ہوتی، دلوں کو تیار کرنے سے ہوتی ہے۔ کلام خدا کے اترنے کے لیے ہمارے دل آمادہ ہونا چاہیے۔
شبہائے قدر کی تیاری کیسے کرنا چاہیے؟
یہاں پر ایک نکتے کی طرف اشارہ کروں۔ ماہ مبارک میں تین شبہائے قدر 19، 21 اور 23 رکھی گئی ہیں۔ اور ان تین شبہائے قدر کی تیاری کے لیے تین مہینے ہمیں دیے گئے ہیں۔ یعنی ماہ رجب میں تیاری کریں شب انیس کے لیے، ماہ شعبان میں تیاری کریں شب اکیس کے لیے اور ماہ رمضان میں تیاری کریں شب تئیس کے لیے۔
شبہائے قدر کی فضیلتوں کو درک کرنے کے لیے تین مہینے پریکٹس اور تیاری کرنا پڑے گی۔ اور یاد رکھین لیلۃ القدر پچھلا حساب صاف کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ لیلۃ القدر مقدرات کی رات ہے آنے والی زندگی کی تقدیر کی رات ہے نہ پچھلا حساب کتاب صاف کرنے کی رات۔ لہذا مکمل تیاری کر کے اس ماہ میں قدم رکھیں۔ دل کو تیار کریں، اپنے ذہن اور نفس کو تیار کریں اپنی نیت اور ارادے کو تیار کریں۔ یہ نیتوں اور اردوں کا سفر ہے۔
گھروں کی چھتوں پر جھنڈے لگانے یا چراغاں کرنے سے ماہ مبارک کی تیاری نہیں ہوتی، نعتیں پڑھنے اور محفلیں سجانے سے ماہ مبارک کی تیاری نہیں ہوتی۔ ماہ مبارک متاع دل ہے بس دل کو تیار کرو۔ دلوں کو تیار کر کے ماہ رمضان کا والہانہ استقبال کرو۔ تاکہ جو برکتیں اور رحمتیں یہ ایام لے کر آئیں گے وہ آپ کو دے کر جائیں اور واپس نہ لے جائیں۔