اللہ کے قرب کا بھی یہی مطلب ہے کہ جو اللہ کے قریب آنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ الہی صفات و کمالات کو اپنے اندر پیدا کرے۔
شہر اللہ کا مطلب؟/ نزول قرآن سے مراد/ قرب الی اللہ کا مطلب کیا ہے؟/ اللہ کی جانب کیسے قدم بڑھائیں؟

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
خطبہ شعبانیہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: قد اقبل الیکم شھر اللہ، اے ایمان والو! اللہ کا مہینہ تمہاری طرف آ رہا ہے۔ تم اس کا استقبال کرو۔ اور خوش نصیب ہیں وہ مومنین جو ماہ رمضان کا استقبال کرتے اور خود کو اس مبارک مہینے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ماہ مبارک کی تیاری کے مختلف پہلو ہیں, پہلا پہلو یہ ہے کہ انسان اس کی اہمیت اور عظمت کو جانتا ہو دوسرا پہلو یہ ہے کہ ماہ رمضان سے متعلق شرعی احکام سے آگاہی رکھتا ہو۔ اس مہینے میں اللہ نے روزے فرض کیے ہیں تو روزوں کے احکام انسان کو معلوم ہونا چاہیے خاص طور پر جو بچے سن بلوغ کو پہنچتے ہیں ان کے لیے روزے کے احکام جاننا بہت ضروری ہے۔
شہر اللہ کا مطلب؟
ماہ رمضان کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ مہینہ سید الشہور ہے یعنی تمام مہینوں کا سردار ہے اور شہر اللہ ہے۔ دیکھیے ہر مہینہ، ہر دن اور ہر لمحہ اللہ کا ہے لیکن یہ مہینہ خاص طور پر اللہ سے منسوب ہے۔ جیسے پوری کائنات اللہ کی ہے زمین و آسمان اللہ کے ہیں لیکن کچھ خاص جگہوں کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے جیسے بیت اللہ (اللہ کا گھر)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ اس گھر میں مقیم ہے۔ اللہ لامکان ہے۔ اللہ کی ذات کو مکان کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ زمین اس کا مسکن ہے نہ عرش۔ پس زمین کے اس خاص ٹکڑے کی اللہ کی طرف نسبت کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ کی کچھ خصوصیات ہیں۔ اسی طرح وہ ایام جو اللہ کی طرف منسوب ہیں ان کی بھی کچھ خصوصیات ہیں۔ ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ کی خاص برکتوں اور رحمتوں کے دروازے انسان کے لیے کھل جاتے ہیں۔
نزول قرآن کا کیا مطلب ہے؟
اس مہینے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اللہ نے اس مہینے میں قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے، ماہ رمضان نہ صرف ماہ قرآن ہے بلکہ ماہ نزول قرآن بھی ہے۔ نزول قرآن کا مطلب کیا ہے جیسے بارش نازل ہوتی ہے کیا ایسے قرآن نازل ہوا ہے۔ نہیں، قرآن کسی جسمانی چیز کی طرح آسمان سے زمین پر نازل نہیں ہوا ہے۔ نزول قرآن کا مطلب قرآن کا قابل فہم ہو جانا ہے۔ چونکہ قرآن اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انسان کے فہم و عقل سے بہت بالاتر ہے اور بشر اپنے ناقص ذہن کے ساتھ حقیقت قرآن تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ کتاب مکنون ہے انسان کے ذہن کی دسترس سے بالاتر ہے۔ لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون۔ صرف پاکیزہ ذہن اور پاکیزہ فکر ہی اس کا ادراک کر سکتے ہیں۔
نزول قرآن سے مراد
لہذا نزول قرآن سے مراد کیا ہے؟ نزول قرآن سے مراد یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن کو انسانی فہم و ادراک کے قریب لایا گیا انسان کے فہم تک اس کے مرتبہ کو نیچے لایا گیا تاکہ انسان آسانی سے اسے سمجھ سکے۔ اسے آسان عربی اور اس وقت کے مخاطبین کی زبان میں اتارا گیا۔ وہ زبان جو اس وقت کے انسان کی مادری زبان تھی تا کہ وہ آسانی سے اسے سمجھ سکیں۔ یعنی قرآنی حقائق الہی ہیں لیکن زبان تمہاری ہے۔ عربی مبین جس میں تم روزانہ گفتگو کرتے ہو وہی قرآن کی زبان ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو قرآن کی زبان آنا چاہیے۔ جب تک تم قرآن کی زبان نہیں سیکھو گے قرآن تم سے بات نہیں کرے گا۔ قرآن کے پیغام کو سمجھ نہیں سکو گے۔ قرآن صرف ثواب کمانے کی کتاب نہیں ہے کہ ہم اسے صرف اس غرض سے تلاوت کریں کہ اس کی تلاوت میں ثواب ہے، یا اپنے مردوں کے لیے ختم قرآن کریں کہ ان کو اس کا ثواب پہنچتا رہے۔ یا قرآن استخارے کی کتاب نہیں ہے کہ ہم اس سے استخارے کر کے اپنے دنیوی امور چلاتے رہیں۔ قرآن صرف مقدس کتاب نہیں ہے کہ ہم اسے گھر میں برکت کے لیے رکھ دیں۔ قرآن اللہ کی گفتگو ہے اس کے بندے کے ساتھ جو آسان عربی زبان میں ہے، جو انسانوں کی زبان میں ہے اسے الفاظ ہمارے ہیں اس کے محاورے ہمارے ہیں لیکن کلام اللہ کا ہے معانی اور مفہوم اللہ کا ہے قرآن کی حقیقت الہی ہے۔ لہذا قرآن کی حقیقت اس مہینے میں مومنین کے دلوں پر نازل ہوتی ہے۔ نزول قرآن کا یہ مطلب ہے کہ حقیقت قرآنی ہر سال ان دلوں پر نازل ہوتی ہے جو دل اس حقیقت کا ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہذا ماہ رمضان فہم و ادراک قرآن کا مہینہ ہے دلوں کو نزول قرآن کے لیے تیار کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان ربیع القلوب ہے۔ مومنین کے دلوں کی بہار ہے۔
رمضان قرب الہی کا مہینہ
پروردگار عالم سورہ بقرہ کی آیت 186 میں ارشاد میں فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو کہہ دیجیے میں قریب ہوں۔ یہ مہینہ ماہ سلوک الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے مہینے میں اگر بندہ اللہ کا ایڈرس پوچھے، اللہ کی تلاش میں نکلے تو اسے یہ بتایا جائے کہ میں اس کے پاس ہوں۔
خدا کی محوریت کو ختم کرنے کی کوشش
البتہ آج ایک عجیب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسے ایسے مذہب آ گئے ہیں جس میں اللہ شامل نہیں ہے۔ بلکہ خود مسلمانوں میں بھی ایسا ہو گیا ہے لوگ باقی ہر چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں لیکن خدا کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا۔ گویا دین میں اللہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایسا دین جس میں اللہ کی کوئی ضرورت نہ ہو، جس میں اللہ کی بات نہ کی جائے، وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر دین نہیں ہو سکتا۔ دین کے معنی کے اندر اللہ محور اور مرکز ہے۔ اللہ کی ذات، اللہ کی صفات، اللہ کے افعال، اللہ کی آیات، اللہ کے فرامین انہیں سب چیزوں کا نام دین ہے۔ لیکن اگر یہ چیزیں ہوں مگر ان میں اللہ نہ ہو تو وہ دین نہیں رہ جاتا۔
آج دین کے نام پر انسان نے خود ساختہ خیالات اکٹھا کر لیے ہیں اور اپنے مفروضے بنا لیے ہیں جن میں باقی سب کچھ نظر آئے گا لیکن خدا ان میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔ جبکہ دین کا محور و مرکز خدا ہے اور انسان دین کا مخاطب ہے۔
خدا کے بجائے انسان کو محوریت دینے کی کوشش
آج دنیا میں جتنے بھی ازم ہیں سب میں خدا کے بجائے انسان کو محوریت حاصل ہے۔ انسان کی ضروریات اور اسکے حقوق کی ہی بات ہوتی ہے، اللہ نے انسان کے کیا فرائض رکھے ہیں ان کی بات نہیں ہوتی، صرف انسانی حقوق اور انسانی ضروریات کی بحث ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان آج بجائے خدا پرست بننے کے انسان پرست ہو گیا ہے۔
ہم اپنے اسلامی سماج میں بھی جائزہ کر لیں اگر کوئی دین کو مانتا بھی ہے تو صرف اس لیے کہ دین سے اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ دین سے اس کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اگر اللہ کا تذکرہ بھی ہوتا ہے تو صرف اس لیے کہ اللہ کے ذریعے اس کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ حاجتیں چاہے دنیوی ہوں یا اخروی ہوں، انسان جب بھی خدا کے سامنے بیٹھتا ہے تو خدا کو اپنی حاجتوں کی ایک لیسٹ پیش کرتا ہے مجھے دنیا میں یہ یہ چاہیے، مال چاہیے، گاڑی چاہیے، گھر چاہیے، اولاد چاہیے، صحت چاہیے، تندرستی چاہیے وغیرہ وغیرہ اور آخرت میں جنت چاہیے، حور چاہیے، باغات چاہیے، دودھ کی نہریں چاہیے۔ یعنی انسان کا دین میں آنے کا مقصد بھی اپنی حاجتیں پوری کروانا ہے۔ اپنی ضرورتوں کے تحت وہ دین اور خدا کو مان رہا ہے اگر اس کی ضرورتیں ختم ہو جائیں گی تو وہ دین و خدا سب کو چھوڑ دے گا۔ چونکہ اس کا دین خدا محور دین نہیں، بلکہ انسان محور دین ہے۔ اس میں خدا پرستی نہیں بلکہ انسان پرستی پائی جاتی ہے۔
انسان شناسی کی شدید ضرورت
یہ معرفت کی کمی کا نتیجہ ہے انسان نے نہ خود کو پہنچانا نہ دین کو پہچانا اور نہ خدا کو پہنچانا ہے۔ انسان شناسی اور معرفت نفس جب تک نہ ہو انسان ایسے ہی راستہ بھٹکتا رہے گا کبھی منزل تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اسی لیے معرفت نفس کو معرفت خدا پر مقدم رکھا گیا ہے تاکہ انسان پہلے خود کو پہچانے اور پھر اپنے مقصد کو پہچانے۔ ” مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ "۔ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ یعنی انسان کی اپنی معرفت اس کے مقصد کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کو مقصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور وہ مقصد کیا ہے؟ مقصد اس کا رب ہے۔ يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ۔ قرآن فرما رہا ہے کہ اے انسان تو مسافر الی اللہ ہے۔ تیرا مقصد تیرا رب ہے۔ پھر دوسری جگہ ارشاد ہے: يَـٰٓأَيُّهَا ٱلۡإِنسَٰنُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ ٱلۡكَرِيمِ۔ اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے رب کی جانب سے موڑ دیا ہے تیرا رخ تو تیرے پروردگار کی طرف تھا تو تو رب کریم کا مسافر تھا کس نے تجھے راستے سے بھٹکا دیا کس چیز نے تجھے دھوکہ دیا اور تو اپنے کریم پروردگار سے پھر گیا۔ تجھے سے مقصد دور کرنے والی کیا چیز تھی؟ جواب میں انسان کہے گا ضرورتوں نے مجھے مقصد سے دور کر دیا، حاجتوں نے مجھے رب کریم کے راستے سے ہٹا دیا، میری خواہشات نے مجھے اللہ سے دور کر دیا۔ یہ ہماری خواہشات رکاوٹ بنی ہیں کہ ہم راستے سے بھٹک جائیں ورنہ ہماری فطرت تو ہمیں اللہ کی جانب لے کر جا رہی تھی۔
قرب الی اللہ کا مطلب کیا ہے؟
لہذا یہ ماہ رمضان اپنی خواہشات کو ختم کر کے اللہ کی جانب تیزی سے بڑھنے کا مہینہ ہے۔ اللہ کی جانب جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کہیں پر بیٹھا ہوا ہے اور ہم کسی تیز رفتار گاڑی یا ہوائی جہاز سے اس تک پہنچ جائیں، اللہ سے قرب کا مطلب یہ ہے کہ الہی کمالات اپنے اندر پیدا کر لیں۔ الہی صفات ہمارے وجود میں آ جائیں۔ لیکن ایسا کب ہوتا ہے؟ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسان قرآن کے بتائے ہوئے تعلیمات کے مطابق ہدایت کا راستہ انتخاب کرے تو الہی کمالات و صفات خود بخود انسان کے اندر پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور دھیرے دھیرے انسان کے اندر اتنے کمالات اکٹھا ہو جاتے ہیں کہ وہ حد اعلیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی کو قرب الہی کہا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال پیش کروں۔ اگر ایک بہت بڑا دانشور اور سائنسدان ہو اور ایک شاگرد اس کے پاس علم حاصل کرنے آئے۔ ابھی اس نے کچھ سیکھا نہیں بلکہ ابھی پڑھنا شروع کیا ہے لیکن جسمانی اعتبار سے وہ اس کے پاس بیٹھا ہے استاد اور شاگرد دونوں ایک ساتھ ایک جگہ پر آمنے سامنے بیٹھے ہیں لیکن اگر اس دانشور سے پوچھے کہ یہ شاگرد آپ سے کتنا قریب ہے وہ کہے گا بالکل قریب نہیں۔ کیوں؟ چونکہ ابھی اس نے اس قرب کا سفر شروع نہیں کیا جبکہ وہ اس کے پاس بیٹھا ہے۔ لیکن جوں جوں وہ استاد اس کو تعلیم دے گا اور یہ شاگرد پوری محنت اور زحمت سے تعلیم حاصل کرتا رہے گا ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ شاگرد بھی دانشور اور سائنسداں بن جائے گا اب اگر استاد سے سوال کیا جائے کہ سب سے زیادہ تمہارے قریب کون ہے؟ تو وہ اس شاگرد کا نام لے گا حالانکہ گھر میں اس کی زوجہ اس کے سب سے قریب ہے، اس کی اولاد اس سے زیادہ قریب ہے اس کے بہن بھائی اس کے قریب ہیں لیکن وہ ان کا نام نہیں لے گا وہ اپنے شاگرد کا نام لے گا کہ وہ میرے سب سے زیادہ قریب ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ جو علمی مقامات اس استاد کے پاس تھے وہ اب اس شاگرد میں بھی آ چکے ہیں لہذا استاد کے بعد اب یہی شاگرد اس کا جانشین اور خلیفہ سمجھا جائے گا۔
اللہ کے قرب کا بھی یہی مطلب ہے کہ جو اللہ کے قریب آنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ الہی صفات و کمالات کو اپنے اندر پیدا کرے۔
کیا خدا غائب ہے؟
خدا فرماتا ہے کہ اے رسول اگر یہ میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ میں کہاں ہو تو کہ دیجیے” انی قریب” میں بہت قریب ہوں مجھے ڈھونڈنے کے لیے جنگلوں، پہاڑوں اور صحراؤں میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میں کہیں گم نہیں ہوا ہوں کہ تم مجھے تلاش کرو گے۔ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھونڈا اس کو جاتا ہے جو کہیں گم جائے جو کہیں غائب ہو جائے۔ "الہی متی غبت حتی تحتاج الی دلیل یدل علیک؟ ومتی بعدت حتی تکون الاثار ھی التی توصل الیک؟” خدایا تو کب غائب ہوا ہے کہ تجھے کسی دلیل کی ضرورت ہو کہ وہ تیرے وجود پردلالت کرے؟ تو کب دور ہوا ہے کہ کائنات میں تیرے آثار ہمیں تیری طرف راہنمائی کریں؟ تو غائب ہی کب ہوا کہ میں تجھے تلاش کروں تو تو ہرچیز سے زیادہ روشن اور نورانی ہے تو ہر چیز سے زیادہ میرے قریب ہے۔
ہم غائب ہیں خدا غائب نہیں ہے۔ چھوٹا بچہ جب ماں کے ساتھ بازار میں جاتا ہے تو ماں کی انگلی پکڑ کر چلتا ہے لیکن ماں کی انگلی چھوٹ جاتی ہے اور بچہ رونے لگتا ہے چیخنے لگتا ہے لوگ آ کر پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ بچہ کہتا ہے ماں گم ہو گئی۔ اصل میں ماں گم نہیں ہوئی بچہ گم ہوا ہے لیکن بچہ کہتا ہے ماں گم ہو گئی۔
اسی طرح انسان سوچتا ہے خدا غائب ہے لیکن اسے پتا نہیں کہ خدا غائب ہونے والی چیز نہیں ہے بلکہ خود انسان غائب ہے۔ لہذا امام حسین (ع) نے فرمایا کہ خدایا تو غائب ہی کب ہوا کہ میں تجھے تلاش کروں۔ غائب تو ہم ہوتے ہیں۔
ماہ رمضان قرب الی اللہ کے لیے تیز رفتار سواری
اپنے آپ کو غیب سے باہر نکالیں اور اللہ کی طرف رخ کریں اللہ تمہارے قریب ہے۔ ماہ رمضان، غیبت کے تمام پردے درکنار کر کے اللہ کی طرف رخ کرنے کا مہینہ ہے۔ اللہ سے ملاقات کرنے کا مہینہ ہے یہ سفر دیگر مہینوں میں طولانی ہے لیکن ماہ مبارک میں بہت مختصر ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر کوئی پاکستان سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ جائے تو اس کو مہینوں لگ جائیں گے لیکن یہ سفر اگر انسان ہوائی جہاز سے کرے تو دو تین گھنٹے میں مکہ پہنچ جائے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہوائی جہاز کی سواری بہت تیزرفتار ہے۔ جس کے ذریعے انسان مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے۔ ماہ رمضان اور خاص طور پر شب قدر وہ تیز رفتار سواریاں ہیں جو مہینوں اور دنوں کا سفر لمحوں میں پورا کرتی ہیں۔
امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آهٍ من قِلّة الزاد وبُعد السفر ‘‘۔ ہائے افسوس، توشہ سفر بہت کم ہے اور سفر بہت طولانی ہے۔ مقصد بہت دور ہے لیکن میرے پاس مقصد تک پہنچنے کے لیے عمر کم ہے۔ خاک سے لے کر خدا تک میں نے سفر کرنا ہے وقت کم ہے سفر طولانی ہے لیکن ماہ رمضان اور شب ہائے قدر وہ گھڑیاں ہیں جن میں ہزاروں مہینوں کا سفر ایک رات میں طے ہو سکتا ہے۔
ماہ مبارک اللہ سے اللہ کا سودا کرنے کا مہینہ
لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو تاجر ہیں وہ اللہ کی طرف نہیں جانا چاہتے وہ اللہ کے ساتھ اللہ کا سودا نہیں کرتے بلکہ اللہ کے ساتھ حور و جنت کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تاجر صفت لوگ ہیں۔ کچھ اللہ کے عذاب سے ڈر کر اللہ کا رخ کرتے اور اس کے بارگاہ میں معافی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔ ماہ رمضان ان سب کا مہینہ ہے، اس مہینے میں حور و جنت بھی مل سکتی ہے، گناہوں کی معافی تلافی بھی ہو سکتی ہے اور اگر کوئی امیر المومنین (ع) کی طرح صرف اور صرف اللہ کی طرف رخ کرے اور اللہ سے صرف اللہ کا سودا کرے تو یہ مہینہ اور شب قدر اس کے لیے بھی بہترین موقع ہے۔ اور اسی سودے کے لیے اللہ فرماتا ہے کہ اگر کوئی تجھ سے میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دو میں تو اس کے قریب ہوں وہ اپنا رخ تو میری طرف موڑے، وہ اپنا قدم تو میری طرف اٹھائے۔ شب قدر میں ایک قدم جو اللہ کی طرف اٹھایا جائے وہ دیگر ہزار مہینوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی تمہیں اللہ کے قریب کرے گا۔
اللہ کی جانب کیسے قدم بڑھائیں؟
اللہ کی جانب اپنے قدم کیسے بڑھائیں گے اپنی بری عادتوں کو چھوڑ کر، بلکہ ماہ رمضان میں روزے کے لیے بہت ساری اچھی عادتوں اور حلال کھانے پینے کی چیزوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب یہ مستحکم ارادہ کر لیا کہ قرب الی اللہ کی خاطر نہیں کھاوں گا تو یہ اللہ کی جانب ایک قدم اٹھ گیا۔ جب یہ ارادہ کر لیا کہ نامحرم کو نہیں دیکھوں گا تو یہ دوسرا قدم، جب یہ ارادہ کر لیا کہ جھوٹ و فراڈ نہیں کہوں گا تو یہ قرب الی اللہ کے سفر میں تیسرا قدم۔ اپنے اندر سے بری عادتوں کو چھوڑتے جاو اللہ کے قریب ہوتے جاو۔ ماہ رمضان سالکین کا مہینہ ہے سالکین کی بہار ہے۔ سید ابن طاووس فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان بندگی کے سال کا اختتام بھی ہے اور آغاز بھی ہے۔ میں گزشتہ رمضان سے اس رمضان تک کا اپنا محاسبہ کروں ایک سال میں کتنا سفر طے کیا اور کہاں سے کہاں تک پہنچا۔ پھر اللہ سے عہد کریں کہ اس مہینے کو فضول کاموں میں نہیں گزاروں گا بلکہ اس فرصت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی جانب اپنا سفر مکمل کرنے اور اپنے مقصد سے قریب ہونے کی کوشش کروں گا۔