عزیزان من، سب سے بڑی جہنم یہ ہے کہ خدا کسی پر نگاہ نہ کرے، اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دے۔ اسے نعمتوں کے وادیوں کے حوالے کر دے، اور وہ ان وادیوں میں گم ہو جائے اور نعمت دینے والے تک نہ پہنچ سکے۔
دین خالص میں انسان کا مقصد/ خدا کا بندہ بننا سب سے بڑا کمال/ اللہ کے بندے بنو اس کی نعمتوں کے نہیں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
اللہ کے بندے بنو غلے کے بندے نہ بنو
ماہ شعبان جو رسول اللہ کا مہینہ ہے اس کے آخری ایام ہیں اور اللہ کا مہینہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہماری طرف آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تین مہینے رجب شعبان اور رمضان انسان کے لیے بہترین فرصت قرار دی ہے تاکہ انسان ان مہینوں میں اپنے اس مقصد کو پا سکے جس کے لیے اسے زیور خلقت سے آراستہ کیا۔ حقیقت میں مومنین کے لیے یہ تین ماہ بہت عظیم فرصت ہے ماہ رجب ولایت کا مہینہ تھا اور شعبان و رمضان اطاعت و بندگی کے مہینے ہیں جو بھی اللہ کی طرف جانا چاہتا ہے اس کے لیے یہ ایام بہت قیمتی ایام ہیں۔ لیکن جو لوگ اللہ کی طرف نہیں جانا چاہتے، مثلا کچھ لوگوں کو اللہ سے دلچسپی نہیں ہے صرف غلے سے دلچسپی ہے وہ اصل میں غلہ کو مانتے ہیں اللہ کو نہیں مانتے۔ یہ اللہ کے بندے نہیں ہیں عبد اللہ نہیں ہیں بلکہ عبد الغلہ ہیں۔
خدا کے یہاں غلہ کی کمی نہیں ہے جو غلہ مانگتا ہے اسے فراوان دے دیتا ہے۔ تاکہ وہ بھی کھائے اور اپنی نسلوں کو بھی کھلائے۔ لیکن اگر کوئی اللہ کی طرف جانا چاہتا ہے اگر کسی کو غلہ نہیں اللہ چاہیے ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۔ اے میرے رسول اگر کوئی آپ سے میرا پتا پوچھتا ہے اس کو میری نعمتوں سے سروکار نہیں، اس کو غلہ اور اناج سے سروکار نہیں اس کو صرف میری ضرورت ہے تو اس سے کہہ دیجیے کہ میں تمہارے پاس ہوں۔
دین خالص میں انسان کا مقصد
اسلام دین فطرت ہے قرآن دین فطرت کی طرف رہنمائی کرتا ہے دین فطرت میں انسان کا مقصد اللہ ہے، انسان کا خالق، مالک اور اس کا رب مقصد ہے۔ اور دین خالص میں انسان سالک الی اللہ ہے اس کا راستہ اس کے اللہ کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کا دین خالص نہیں ہے تو وہ اللہ کی طرف نہیں جا سکتا۔ جیسے مارکٹ میں جب کسی کمپنی کا پروڈیکٹ کافی بکنے لگتا ہے تو کچھ چالاک قسم کے لوگ اسی کے جیسا نقلی پروڈیکٹ بناتے ہیں اور انسان کو دھوکہ دیتے ہیں اور انسان اس نقلی پروڈیکٹ کو خرید لیتا ہے جبکہ اسے پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس نے نقلی مال خریدا ہے اور وہ اسی پر خوش رہتا ہے۔ جب نقلی پروڈیکٹ مارکٹ میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو کمپنی کو اشتہار دیتا پڑتا ہے کہ ہوشیار رہو کمپنی کا اصلی پروڈیکٹ یہ ہے اور وہ فلاں فلاں دکان سے ملے گا جو کمپنی کے نمائندے ہیں۔ ہر کسی کے پاس اصلی مال نہیں مل سکتا۔ اللہ کے دین کے ساتھ بھی یہی ہوا حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفیٰ تک جتنے بھی اللہ کے دین تھے لوگوں نے ان کے ڈپلیکیٹ بنا لیے لہذا حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ دیکھو اللہ کا خالص دین دو ہی جگہوں سے ملے گا قرآن اور عترت(ع) سے۔ خالص دین کے اصلی منبع یہی دو ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں سے بھی دین لیا وہ اصلی دین نہیں ہو گا اور جب دین اصلی نہیں ہو گا تو وہ تمہیں اللہ تک نہیں لے جا سکتا۔ اس لیے کہ اس میں اللہ مقصد نہیں، اللہ ذریعہ ہے نعمتوں تک پہنچنے کا اور اپنی ضرورتیں پوری کروانے کا۔ اس دین میں مقصد نعمتیں اور ضرورتیں ہیں لیکن چونکہ نعمتیں صرف اللہ کے پاس ہیں ضرورتیں صرف اللہ کے ذریعے پوری ہو سکتی ہیں لہذا انسان مجبورا اللہ کو ذریعہ قرار دیتا ہے۔ انسان اللہ کے پاس صرف ضرورتوں کے لیے جاتا ہے۔
خدا کا بندہ بننا سب سے بڑا کمال
یہ قرآن اور اہل بیت کا دین نہیں ہے اگر ضرورتیں اور نعمتیں تجھے اللہ کے بارگاہ میں جھکا دیں تو یہ سجدہ اللہ کو نہیں ہے بلکہ نعمتوں اور ضرورتوں کو ہے۔ قرآن اور عترت کا دین امام حسین (ع) نے بیان کیا: خدا اگر تو نہ ملے ساری دنیا مل جائے تو کچھ نہ ملا، اور اگر تو مل جائے اور کچھ نہ ملے تو سب مجھے مل گیا۔
انسان کو اللہ مل جائے یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے انسان اللہ کا بندہ بن جائے اس سے بڑی کوئی سعادت نہیں ہے۔ ایک صحابی رسول اللہ کی خدمت میں آیا اور آ کے پوچھا یا رسول اللہ ہم آپ کو کیسے پکاریں کہ آپ دل خوش ہو۔ اس لیے کہ کچھ صحابی آپ کے حجرے کے باہر سے آکر آواز دیتے ہیں اے محمد۔ تو اللہ یہ طریقہ کار ناپسند آیا اور آیت نازل ہوئی کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو میرے رسول کو اس طرح مت پکارا کرو بلکہ انہیں ادب کے ساتھ پکارو۔ اب ایک صحابی نے آکر پوچھا رسول اللہ ہم کس نام سے آپ کو پکاریں تو آپ نے فرمایا مجھے ’عبداللہ‘ کے نام سے پکارو مجھے اللہ کا بندہ کہو یہ فخریہ نام ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اپنی مناجات کے اندر یہی فرمایا: ’’کفی بی عزا ان اکون لک عبدا و کفی بی فخرا ان تکون لی ربا‘‘۔ خدایا! میرے لیے سب زیادہ عزت کی بات یہ ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے لیے سب زیادہ فخر کی بات یہ ہے کہ تو میرا رب ہے۔
اللہ کے بندے بنو اس کی نعمتوں کے نہیں
اللہ کا بندہ بننے کے لیے انسان کو سب سے اعلیٰ منزل تک پہنچنا پڑتا ہے۔ اللہ کا بندہ اللہ کی بندگی سے بنتا ہے، فرق ہے اللہ کے بندے اور نعمتوں کے بندے میں۔ ہم اللہ کے بندے نہیں ہیں ہم اللہ کے رزق کے بندے ہیں۔ جب تک وہ رزق دیتا ہے تو ہم اس کی بندگی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت اور حوروں کے بندے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ حوریں وغیرہ کچھ نہیں ہیں تو وہ بندگی بھی چھوڑ دیں گے۔
انسان اللہ کی عبادت کرتا ہے مگر کچھ نہ کچھ غرض ضرور ہوتی ہے صحت یابی چاہیے، قرض کی ادائیگی چاہیے، رزق میں فراوانی چاہیے، جنت چاہیے، حور چاہیے، کچھ نہ کچھ اللہ سے چاہیے تو اللہ کی بندگی ہوگی۔ یہ سب اللہ کے بندے نہیں ہیں جس کی جو ضرورت ہے وہ اسی کا بندہ ہے۔
بندوں کو دینا اللہ کی ذات کا تقاضا
لیکن اللہ کہتا ہے اے میرے حبیب ان میں کچھ ایسے ہیں جنہیں میرے علاوہ کچھ نہیں چاہیے یہ تجھ سے صرف میرا پتا پوچھتے ہیں، جیسے لوگ ڈاکٹر کا پوچھتے ہیں، کیوں پوچھتے ہیں، علاج کروانے کے لیے۔ دور دراز علاقوں سے، دوسرے شہروں سے، ڈاکٹر صاحب کے پاس آتے ہیں کیوں اپنا علاج کروانے۔ ڈاکٹر کا پتہ پوچھنے اور ڈاکٹر کے پاس جانے کی صرف ایک ہی غرض ہوتی ہے علاج۔ لیکن اگر کوئی دوسرے شہر سے اٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے علاج کروانے کی غرض سے نہیں، بلکہ خود ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی غرض سے، تو ڈاکٹر صاحب کتنا خوش ہوں گے کہ آخر کوئی تو ہے جسے میری فکر ہے۔ یہ اپنی غرض سے نہیں آیا بلکہ میرے لیے آیا ہے۔ عزیزان من، اللہ رب العزت کا کام پرورش کرنا ہے، وہ خالق ہے اس کا کام خلق کرنا ہے وہ رازق ہے اس کا کام رزق دینا ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے اس کی ذات کا تقاضا ہے کہ وہ پرورش بھی کرے، اسے رزق بھی دے۔ وہ مانگے یا نہ مانگے وہ اپنی مخلوق کو رزق کے بغیر نہیں رکھتا۔ جب تو نے اس کی ربوبیت کا اقرار کر لیا الحمد للہ رب العالمین، اس کو عالمین کا پالنے والا تسلیم کر لیا تو پھر پریشانی کس بات کی ہے، اب تیرا کام صرف شکر بجا لانا ہے اس کا کام پرورش کرنا ہے۔
اللہ نے دینے میں کوئی شرط نہیں رکھی
اس نے دینے میں کوئی شرط نہیں رکھی، اس کو مانتا ہے تب بھی رزق دیتا ہے اس کو نہیں مانتا تب بھی رزق دیتا ہے۔ لیکن اس نے لینے میں شرط رکھی ہے۔ اس کے دینے میں کوئی شرط نہیں، مومن کو بھی دیتا ہے کافر کو بھی دیتا ہے لیکن جو اس کا دیا ہوا ہے اگر اس میں سے کچھ واپس اس کا دینے کے لیے لے گئے تو وہ ہر کسی سے واپس نہیں لے گا وہاں صرف اس سے واپس لے گا جو اس کو مانتا ہے جو مومن اور متقی ہے۔ انما یتقبل اللہ من المتقین۔
لہذا اللہ سے لینے کے لیے فکرمند نہ ہوں دینے کا اس نے وعدہ کیا ہے وہ سب کو دیتا ہے۔ اللہ کو دینے کے لیے فکر مند ہوں، اللہ کو دینے کے لیے اللہ کا بندہ بننا پڑے گا اللہ کا متقی بننا پڑے گا۔ اور اللہ کا بندہ بننے کے لیے صرف اللہ کی عبادت کرنا پڑے گی۔ امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں ایک وہ شخص ہے جو اللہ کی بندگی اس کے عذاب کے خوف سے کرتا ہے یہ بزدلوں اور ڈرپوکوں کی عبادت ہے، ایک وہ ہے جو جنت کی لالچ میں اللہ کی عبادت کرتا ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے اور علی اس لیے اللہ کی عبادت کرتا ہے چونکہ اسے لائق عبادت پایا ہے۔
علی اللہ کا بندہ ہے، خوف کا بندہ نہیں، جنت اور حور کا بندہ نہیں۔ علی فرماتے ہیں کہ اگر اللہ جنت اور جہنم دونوں ختم کر دے تو بھی علی اس کی عبادت کرے گا چونکہ وہ ہے ہی لائق عبادت۔
اللہ کو لائق عبادت سمجھ کر اس کی عبادت کریں جب اللہ مل گیا تو باقی چیزیں خودبخود مل جائیں گی۔ فارسی کا معروف محاورہ ہے ’چون صد آمد نود ھم پیش ماست‘ یعنی جب سو مل گیا تو نوے بھی خودبخود مل جائے گا۔ باقی تمام ضرورتیں ہمارے جسم کی ہیں اللہ ہماری روح کی ضرورت ہے۔ ہم جسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مصروف ہیں روح کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔
خدا کا راستہ صرف ایک ہے
آج دین کے نام پر کتنی دکانیں کھلی ہوئی ہیں دین کا بازار کتنا گرم کیا ہوا ہے اس قدر فرقے اور شاخیں ہیں اس قدر گلیاں ہیں نیا آنے والا کنفوژ ہو جاتا ہے کہ کس راستے سے جائے تو خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ متضاد چیزیں دین کے نام پر مارکٹ میں بیچی جا رہی ہیں۔ جبکہ دین کے اندر متضاد چیزیں نہیں ہیں، دین کے متضاد راستے نہیں ہیں، دین کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ صراط مستقیم ہے جو خدا نے بنایا ہے وہی راستہ خدا کی طرف جاتا ہے باقی سارے راستے شیطان کی طرف جاتے ہیں۔ رسول اللہ کے معروف صحابی اور اہل سنت کی جانی پہچانی شخصیت عبد اللہ بن مسعود نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک رسول اللہ نے اپنے تمام بزرگ صحابہ جو ایک عرصہ سے پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے ان کو اکٹھا کیا سب کو اپنے اطراف میں جمع کیا اور حضور نے زمین پر ایک خط کھینچا اور فرمایا اے میرے صحابہ یہ میرا خط ہے یہ میرا راستہ ہے۔ پھر اسی کے برابر میں ایک دوسرا خط کھینچا اور فرمایا دیکھو یہ میرے خط جیسا ہے یہ بھی سیدھا خط ہے اس کا رخ بھی ادھر ہی ہے جدھر میرے خط کا رخ ہے لیکن یہ میرا خط نہیں ہے پھر اسی طرح اس کے دوسری جانب بھی ایک خط کھینچا اور فرمایا یہ بھی میرا خط نہیں ہے میرا راستہ ایک ہی ہے لیکن میرے راستے دائیں بائیں شیطان بھی ویسے ہی راستے بنائے گا لیکن فرق یہ ہو گا کہ میرا راستہ تمہیں مقصد تک پہنچائے گا شیطان کے راستے تمہیں مقصد سے دور کریں گے۔
اللہ بہترین پارٹنر ہے
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہارا بہترین پارٹنر ہوں، یعنی اگر میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر کوئی عبادت کرے میں وہ سارا عمل اس شریک کے کھاتے میں ڈال دیتا ہوں، اس عمل میں سے ذرا برابر میں قبول نہیں کرتا۔
اگر کاروبار میں آپ کا کوئی پارٹنر ہو اور وہ اپنا سارا حصہ آپ کو دے دے تو اس سے اچھا کوئی پارٹنر نہیں ہو گا، اللہ فرماتا ہے میں ایسا ہی ہوں اگر کوئی اپنے عمل میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک بنائے تو میں اپنا سارا حصہ اسی کو دے دیتا ہوں اگر 99 فیصد عمل اللہ کے لیے ہو اور ایک فیصد غیر اللہ کے لیے ہو تو اللہ اس 99 فیصد کو بھی ایک فیصد والے کے حوالے کر دیتا ہے کہ مجھے تیرا یہ عمل نہیں چاہیے۔ اللہ کو خالص سوفیصد عمل چاہیے۔ اللہ کو اعمال کی بوریاں نہیں چاہیے بے شک تھوڑا عمل بجا لاؤ لیکن خالص بجا لاؤ۔ اللہ کے لیے کسی غریب کو ایک گھونٹ پانی دینا ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ اللہ کی راہ میں ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے کیوں بہتر ہو گئی ’ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین‘ ۔ یہ ضربت اس لیے ثقلین کے عبادتوں سے بہتر ہوئی چونکہ وہ خالص اللہ کے لیے تھی۔ اس میں کوئی حصہ دار نہیں تھا۔
علی(ع) کی ایک ضربت ثقلین کی عبادتوں سے افضل کیسے؟
واقعہ آپ نے سنا ہوا ہے جنگ خندق میں مولائے کائنات نے جب عمرو بن عبدود کو پچھاڑا اور اس کے سینے پر سوار ہوئے تو اس نے امیر المومنین کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ پر تھوک دیا۔ آپ سینے سے اتر آئے اور ٹہلنے لگے جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو واپس آئے۔ عمروبن عبدود نے یہ گستاخی کیوں کی، اس لیے کہ وہ ایک شجاع اور بہادر انسان تھا اسے علی کے زنوں کے نیچے رہنے میں ذلت محسوس ہو رہی تھی لہذا اس نے یہ گستاخی کی کہ علی کو غصہ آئے اور وہ جلدی اس کا کام تمام کریں اور اسے ذلت سے نجات دیں۔ ذلت وہ چیز ہے جسے عمرو بن عبدود بھی قبول نہیں کرتا۔ لیکن آج مسلمان ذلت کو اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔ اگر علی کے نقش قدم پر نہیں چلتے تو کم سے کم عمرو بن عبدود کے نقش قدم پر چلو۔
بہرحال اس نے امیر المومنین سے پوچھا کہ آپ نے مجھے چھوڑ کیوں دیا جب آپ کو غصہ آیا تو آپ نے فورا میرا سر قلم کرنا تھا مجھے زخمی حالت میں چھوڑ کیوں دیا۔ مولا نے فرمایا: میں کوئی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے نہیں آیا تھا۔ میں اپنے آپ کو شجاع اور بہادر ثابت کرنے نہیں آیا تھا، میں حکم خدا جاری کرنے آیا تھا، تو دشمن خدا ہے اور مجھے حکم ہے کہ دشمن خدا کو قتل کروں۔ تو نے توہین کی مجھے غصہ آیا اگر میں غصہ کی حالت میں تجھے قتل کرتا تو اللہ کے فرمان میں علی کا غصہ بھی شامل ہو جاتا۔
یہی وجہ تھی کہ یہ ضربت ثقلین کی عبادتوں سے افضل قرار پائی چونکہ صرف اور صرف اللہ کے لیے تھی۔ جو کام صرف اللہ کے لیے انجام پائے وہ بہت قیمتی ہوتا ہے لہذا اپنے کاموں میں اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ بناؤ۔
انسان کس کا محتاج ہے؟
اپنا مقصد اللہ کو سمجھو اور اسی کی جانب قدم بڑھاؤ، انتم الفقراء الی اللہ۔ تم اللہ کے فقیر ہو۔ فقیر ہم سب ہیں لیکن کچھ مال کے فقیر ہیں کچھ اولاد کے فقیر ہیں، کچھ شہرت کے فقیر ہیں، کچھ جنت اور حوروں کے فقیر ہیں، شیخ سعدی نے بڑا خوبصورت شعر بیان کیا کہ اگر درویش کو سات دن بھوکا رکھا جائے اور سات دن کے بعد اسے آدھی روٹی دی جائے تو وہ آدھی روٹی بھی اکیلا نہیں کھائے گا بلکہ ادھر ادھر دیکھے گا کہ میری طرح کوئی اور بھوکا تو نہیں۔ لیکن بادشاہ کو اگر سات اقلیم دے دئیے جائیں تو آٹھویں کی تلاش کرے گا۔ ہیں تو دونوں فقیر اور ضرورتمند، درویش بھی ضرورتمند ہے بادشاہ بھی ضرورتمند ہے۔ لیکن درویش کو پتا ہے کہ اس کی ضروت کیا ہے لیکن بادشاہ کو پتا نہیں کہ وہ کس کا ضرورتمند ہے۔
ایک مثال سے مزید واضح کروں، جیسے شدید گرمی کے موسم میں ایک بچہ ہے اسے جب پیاس لگتی ہے تو وہ فریج سے برف کے ٹکڑے نکال کر منہ میں رکھتا ہے تھوڑی دیر میں برف پگل کر معدے میں چلی جاتی ہے اس بچے کا گلا خشک ہو جاتا ہے پھر وہ یہی کام کرتا ہے۔ لیکن اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ دوسرا بچہ ہے جب اس کو پیاس لگتی ہے تو وہ معمولی پانی کا گلاس پیتا ہے اور اس کی پیاس بجھ جاتی ہے اب اسے آپ شربت بھی دو گے وہ نہیں پیے گا کہے گا ابھی پانی پیا ہے پیاس نہیں ہے۔ جو بچہ برف کی ٹکڑوں سے پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا تھا اسے اگر پوری دنیا کی برف لا کر دے دی جائے اس کا پیٹ پانی سے بھر جائے گا مگر اس کی پیاس نہیں بجھے گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اسے پیاس پانی کی تھی لیکن وہ پانی کے بجائے برف سے پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہی مثال ہے انسان کی۔ انسان ضرورتمند ہے لیکن اسے پتا نہیں کہ وہ کس کا ضرورتمند ہے۔ کبھی غلے کے پیچھے جاتا ہے ضرورت پوری نہیں ہوتی، کبھی مال کے پیچھے جاتا ہے ضرورت پوری نہیں ہوتی، سات براعظم بھی اسے مل جائیں اس کی ضرورت پوری نہیں ہو گی، کیوں اس لیے کہ وہ محتاج اللہ ہے تلاش کچھ اور کر رہا ہے اسے ضرورت اللہ کی ہے تلاش اللہ کی نعمتوں کی کر رہا ہے۔ اللہ کی نعمتیں اللہ کا متبادل نہیں ہیں، اللہ کی جنت اللہ کا متبادل نہیں ہے۔ جب تک اسے اللہ نہ ملے اسے سکون نہیں مل سکتا۔ جو انسان اللہ کی تلاش میں ہو اسے نہ جنت کی نعمتیں مرغوب کر سکتی ہیں اور نہ جہنم کا عذاب اسے خدا سے دور کر سکتا ہے۔ مولائے کائنات دعائے کمیل میں کیا فرماتے ہیں: خدایا میں جہنم کا عذاب تو برداشت کر سکتا ہوں مگر تیرا فراق برداشت نہیں کر سکتا۔
اللہ کی ناراضگی سب سے بڑا جہنم
جیسے ماں اگر بچے سے روٹھ جائے تو اس کے لیے سب سے بری سزا ہوتی ہے بچے کو ڈانٹ جھپٹ دیا جائے اس کی پٹائی کر دی جائے اس کو زیادہ برا نہیں لگے گا وہ سب برداشت کر لے گا لیکن اگر اس کی ماں اس سے بات نہ کرے یہ بچے کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتا۔ جہنم وہ نہیں ہے جس میں انسان کو جلایا جائے گا، امیر المومنین فرماتے ہیں کہ وہ جہنم تو قابل برداشت ہے لیکن خدا کی ناراضگی قابل برداشت نہیں۔
عزیزان من، سب سے بڑی جہنم یہ ہے کہ خدا کسی پر نگاہ نہ کرے، اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دے۔ اسے نعمتوں کے وادیوں کے حوالے کر دے، اور وہ ان وادیوں میں گم ہو جائے اور نعمت دینے والے تک نہ پہنچ سکے۔
ماہ مبارک کے لیے دلوں کو آمادہ کریں
ماہ شعبان کے آخری ایام ہیں اور رمضان کے استقبال کا عشرہ ہے اپنے آپ کو اللہ کی مہمانی کے لیے تیار کرو۔ اپنے دلوں کو اللہ کے لیے خالی کرو۔ اپنا وقت رسومات میں ضائع نہ کرو۔ آنے والا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے، دعا اور نیایش کا مہینہ ہے، بندگی اور عبادت کا مہینہ ہے، توبہ اور استغفار کا مہینہ ہے۔ اللہ کو پا لینے کا مہینہ ہے۔ اللہ نے اس مہینے میں شیطان کو زنجیروں میں بند کر دیا ہے اب جو اللہ کی طرف جانا چاہتا ہے وہ آسانی سے ایک مہینے میں جا سکتا ہے بلکہ ایک رات میں ہزار مہینوں کا سفر طے کر سکتا ہے۔ اپنے اندر اس تک پہنچنے کی خواہش تو پیدا کرو اس نے اس مہینے میں ساری رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے اور اپنے راستے کو صاف و شفاف کر دیا ہے تاکہ اس سے ملاقات کرنے والے آسانی سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہو سکیں۔