عالمی یوم القدس جس کے اعلان کا مقصد عالمی برادری میں بیداری پیدا کرنا تھا اس کے ساتھ علماء اور سماجی رہنماؤں نے خیانت کی، انہیں جب تک اس کام کے لیے رینٹ ملتا رہا وہ کام کرتے رہے جب رینٹ ملنا بند ہو گیا وہ اپنی ذمہ داری بھی بھول گئے۔
تحریک آزادی فلسطین اور امام خمینی(رہ)؛ اقدامات اور چیلنجز

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریک آزادی فلسطین اور امام خمینی(رہ)
اقدامات اور چیلنجز
آزادی فلسطین کی راہ میں امام خمینی(رہ) کے اہم اقدامات
فلسطین کی تحریک آزادی کا آغاز اور عالمی یوم القدس کا اعلان
ماہ مبارک رمضان کا آخری جمعہ عالمی یوم القدس کے نام سے موسوم ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے آج سے 46 سال پہلے انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد عالمی سطح کے جو بنیادی اقدامات کیے ان میں سے ایک اہم اقدام، یوم قدس کے اعلان کے ذریعے قبلہ اول یعنی مسجد الاقصیٰ اور فلسطین کی آزادی کے لیے ایک منظم تحریک کا آغاز اور فلسطین کی حمایت کے لیے امت مسلمہ کو ایک پیلٹ فارم پر جمع کرنا تھا۔
اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں بہت بڑا فرق ہے آج ہم نے 2025 میں پاکستان کے شہر لاہور میں بڑے سکون کے ساتھ یوم قدس کی ریلیاں نکالیں ہیں۔ لیکن جب امام راحل نے یوم قدس منانے کا اعلان کیا تب حالات ایسے نہیں تھے۔ امام خمینی (رہ) نے تو فلسطین کی آزادی کا منشور اسی وقت پیش کر دیا تھا جب انقلاب اسلامی کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے 15 سال قبل ایران کی آزادی کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی کو بھی اپنا نصب العین قرار دیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس وقت امام کی وہ شناخت نہیں تھی جو انقلاب اسلامی کے بعد پیدا ہوئی۔ اس وقت امام خمینی ایک مجتہد اور ایک فقیہ ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس کر چکے تھے۔ برخلاف دیگر علماء کرام کے جو اگر چہ بڑی شخصیات کے مالک تھے، فقاہت اور مرجعیت کے درجے پر فائز تھے، قم اور نجف کے حوزات علمیہ کی زعامت ان کے پاس تھی، عالم تشیع کے قیادت ان کے پاس تھی لیکن فلسطین کے حوالے سے وہ مکمل سکوت اختیار کئے ہوئے تھے۔
فلسطین پر صہیونی قبضے میں عرب ممالک کا کردار
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے اندر مکمل سکوت طاری تھا نہ سیاسی طور پر فلسطین کا نام لینے والا کوئی تھا اور نہ دینی مراسمات میں کہیں فلسطین کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اگرچہ اہل سنت کے اندر کچھ تنظیمیں ایسی تھیں جو جہاد اور مبارزہ کا پرچم لے کر اٹھی تھیں جیسے اخوان المسلمین مصر میں معرض وجود میں آئی اور اس نے عالم اسلام میں بیداری کا آغاز کیا، یہ تنظیم موجود تھی لیکن اس نے بھی خود فلسطین کی آزادی کے لیے باقاعدہ طور پر کوئی اہتمام نہیں کیا او ر فلسطین کی آزادی کے لیے کوئی نہضت و تحریک شروع نہیں کی۔ فلسطینی گروہوں پر مشتمل مزاحمت و مقاومت کی تنظیمیں موجود تھیں لیکن وہ مذہبی نہیں تھیں بلکہ قومی تنظیمیں تھیں عربی اور فلسطینی تنظیمیں تھیں وہ عربیت اور فلسطینیت کی بنیاد پر بنائی گئی تنظیمیں تھیں اور کوئی مؤثر کام کسی سطح پر نہیں ہو رہا تھا ہر چند عربوں نے اسرائیل کے قیام کے بعد اس کے خلاف چھ جنگیں لڑیں اور ہر چھ میں مکمل شکست کھائی ہے فلسطین کو تو پہلے مرحلے میں ہی بغیر جنگ کے برطانیہ کو تحفہ میں دے دیا گیا تھا۔ اور برطانیہ نے یہ تحفہ صہیونی یہودیوں کو پیش کر دیا جب صہیونی فلسطین پر مسلط ہو گئے تو انہوں نے مزید سرزمینوں پہ قبضے کے لیے منصوبہ بنایا اور جو اطراف کے عرب ممالک تھے ان کی سرزمینوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ تب ان کے ہوش کھلے اور انہوں نے مل کر اسرائیل پر چڑھائی کی لیکن ایک سال جنگ لڑنے کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کے بعد بھی متعدد بار عربوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کی لیکن ہر جنگ میں انہوں نے اپنی زمینوں کا کچھ نہ کچھ حصہ اسرائیل کو دیا۔ مصر نے صحرائے سینا اسرائیل کو دے دیا، شام کے ایک وسیع علاقے پر اسرائیل قابض ہو گیا لبنان ، بیروت تک اسرائیل کے قبضے میں آ گیا۔ بعد میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ ایک صلح کے معاہدے کے تحت اپنا علاقہ اسرائیل سے واپس لیا۔ اور فلسطین کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے اسرائیل کو سرکاری طور پرتسلیم کر لیا۔ لیکن اردن کا مقبوضہ علاقہ ابھی تک اسرائیل کے پاس ہے شام کا مقبوضہ علاقہ اس کے پاس ہے لبنان کا علاقہ حزب اللہ نے مزاحمت کے ذریعے واپس لیا۔
دوسری طرف اسرائیل کی تشکیل کے فورا بعد ہی ایران اور ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا چونکہ ان دونوں ملکوں میں جو بادشاہ تھے وہ بے دین اور سیکولر مزاج کے تھے۔
انقلاب اسلامی کا وقوع اور تحریک آزادی فلسطین کا آغاز
انقلاب اسلامی کے وقوع کے وقت اسرائیل مضبوط ہو چکا تھا اور عرب شکست کھا کر پسپائی اختیار کر چکے تھے اگرچہ تحریک آزادی فلسطین نمائشی طور پر جاری تھی لیکن کوئی ایسی مزاحمت جو صہیونیوں کے لیے خطرہ بن سکے یا فلسطین کی آزادی کے لیے بنیاد بن سکے موجود نہیں تھی۔ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال کر اطراف کے ملکوں میں منتشر کر دیا گیا تھا کچھ مصر میں کیمپوں میں جا کر آباد ہو گئے اور کچھ اردن، شام اور لبنان میں کیمپوں میں پناہ گزیں تھے اور اسرائیل عرب حکمرانوں کے ذریعے ان کا انہیں کیمپوں میں قتل عام کرواتا تھا۔ ہزاروں فلسطینی شام میں مارے گئے، لبنان اور اردن کے اندر ان کی مقامی حکومتوں کی مدد سے مارے گئے۔ ان کے قتل عام میں پاکستان کے کرنل ضیاء الحق کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ایسے دور میں اسلامی انقلاب وقوع پذیر ہوا اور انقلاب کے اہداف میں فلسطین کا قضیہ ایک اہم ہدف کے طور پر نمایاں ہوا۔
آزادی فلسطین کے لیے امام کی طرف سے سپاہ قدس کی تشکیل
انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے تحریک انقلاب کی ساری توجہ ایران کے اندر مرکوز تھی لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد آزادی فلسطین اور آزادی قدس اسلامی حکومت کے اہداف میں شامل ہوا اور امام خمینی(رہ) نے ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت ایران کے اندر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اس عسکری تنظیم کا کام انقلاب کا دفاع کرنا تھا ایران کی سرزمین کا دفاع ایرانی فوج کے ذمہ تھا لیکن انقلاب اسلامی کا دفاع سپاہ پاسداران کا فریضہ تھا۔ اسی فورس کی ایک شاخ سپاہ قدس کے نام سے تشکیل دی گئی جس کی ذمہ داری قدس کی آزادی کے لیے کام کرنا تھا۔
آزادی فلسطین کی راہ میں حزب اللہ کی تشکیل
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد فلسطین کی آزادی کی راہ میں امام خمینی(رہ) کا یہ پہلا بنیادی اور زمینی اقدام تھا۔ اس کے بعد دوسرا بنیادی اقدام لبنان میں حزب اللہ کا قیام عمل تھا۔ حزب اللہ کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب لبنان پر اس کی راجدھانی بیروت تک اسرائیل قابض تھا۔
لبنان میں اس سے پہلے’’حزب امل‘‘ نام کی ایک عسکری تنظیم موجود تھی جو آج بھی موجود ہے جس کی بنیاد امام موسی صدر نے رکھی تھی اور ’نبیہ بری‘ آج جس کے سربراہ ہیں۔ امام موسی صدر کے بعد شیخ مہدی شمس الدین اس کے قائد رہے حزب امل نہ صرف خود انقلابی تنظیم نہیں تھی بلکہ انقلاب اسلامی ایران کی بھی سخت مخالف تھی۔ وہ خود بھی انقلاب سے الگ رہی اور اس نے لبنان کے شیعوں کو بھی انقلاب سے دور رکھا اور مہدی شمس الدین جس تفکر کے حامل تھے وہ تفکر نجف میں بھی موجود تھا لبنان میں بھی تھا عراق اور ایران میں بھی تھا اور خصوصا پاکستان میں علامہ مہدی شمس الدین نے کئی دورے کر کے یہاں کے شیعوں میں بھی اس تفکر کو رائج کیا۔ اور انقلاب سے منسلک علماء کو انقلاب سے دور کیا۔ دو شخصیات نے یہ زیادہ نمایاں کردار ادا کیا یعنی پاکستان کے علماء کو جو انقلاب سے قریب ہو چکے تھےاور انقلاب سے متاثر تھے ان کو دو غیر پاکستانی شخصیتوں نے انقلاب سے دور کیا ان میں سے ایک یہی علامہ مہدی شمس الدین تھے اور دوسرے افغانستان کے شیخ آصف محسنی تھے یہ بھی ایک نمایاں علمی شخصیت تھے اور ان کا پاکستان کے علماء پہ کافی زیادہ اثر تھا اور وہ پاکستان میں کافی عرصے تک مقیم بھی رہے۔ ان دونوں شخصیتوں نے پاکستانی شیعوں کو انقلاب اسلامی سے دور کرنے میں کافی کردار ادا کیا۔
بہرحال، امام خمینی (رہ) کی بھرپور حمایت سے حزب اللہ کو تقویت ملی۔ سپاہ پاسداران کے جرنیل اور کمانڈرز نے حزب اللہ کے جوانوں کو تربیت دی، اور باقاعدہ عسکری شکل دے کر اسے ایک مضبوط تنظیم بنایا۔ حزب اللہ کے بعد لبنان کے اندر اسرائیل کو پہلی دفعہ اتنا شدید خطرہ محسوس ہوا۔
ایران کے اندر سپاہ قدس کے نام سے پائے جانے والی فورس کو شہید قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قدر مضبوط کیا کہ اس کی کامیابیاں داعش کے دور میں عراق و شام میں پوری دنیا نے دیکھیں۔
آزادی فلسطین کی راہ میں امام خمینی کا تیسرا اہم اقدام؛ عالمی یوم القدس کا اعلان
فلسطین کی آزادی کے لیے امام خمینی (رہ) نے تیسرا جو اہم اقدام کیا وہ عالمی یوم قدس کا اعلان تھا۔ ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے نام سے موسوم کرنے کا مقصد تحریک آزادی فلسطین کو عالمی رنگ دینا تھا۔ تاکہ تمام اقوام عالم یا کم از کم مسلمانان جہان اس تحریک میں شامل ہوں اور ان کے اندر فلسطین کے حوالے سے بیداری پیدا ہو، اس دن فلسطین کے نام سے دنیا بھر میں جلسے، جلوس اور کانفرنسیں منعقد کی جائیں اور لوگوں کو بیدار اور آگاہ کیا جائے۔
آزادی قدس کی راہ میں یہ بہت ہی بنیادی اور اعلیٰ بصیرت والا اقدام تھا جو امام نے انجام دیا اور اس اقدام کے اندر بہت ہی گہرائی پائی جاتی ہے۔ اس سے امام کی بصیرت اور ان کے اعلیٰ شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔
یوم القدس کے اعلان سے ایران دشمنی کی وجوہات
امام خمینی کے اس منصوبے کے مطابق اور بہت سارے مراحل طے پانا تھے لیکن یہ پہلا مرحلہ جو عوامی بیداری کا مرحلہ تھا یعنی جو لوگ مسئلہ فلسطین سے لاتعلق تھے یا جو فلسطین کو بھول چکے تھے ان کو دوبارہ اس مسئلہ کی طرف متوجہ کرنا تھا لیکن امام کا یہ اقدام اتنا اہم تھا کہ اس کی وجہ سے انقلاب کی مخالفت میں شدت آ گئی۔
۱۔ عرب حکمرانوں کو خطرہ کا احساس: عرب حکمران ابتدائے انقلاب سے ہی الرٹ ہو چکے تھے اور انہوں نےخطرے کا احساس کرنا شروع کر دیا تھا کہ کہیں اب ان کی حکومتیں بھی ختم نہ ہو جائیں۔ چونکہ عرب دنیا میں حکومتیں شہنشاہیت طرز کی ہی تھیں، ان کے پڑوس یعنی ایران میں شہنشاہیت کے خلاف انقلاب کا آنا ہر جگہ کی شہنشاہیت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا تھا۔ شہنشاہیت کو اس بات کا خطرہ محسوس ہو چکا تھا کہ اب دھیرے دھیرے ان کے ملکوں کے عوام بھی بیدار ہوں گے اور اپنے ملکوں کی شہنشاہیت کے خلاف قیام کریں گے اور ایک ایک کر کے یہ حکومت سرنگوں ہوتی جائیں گی۔
۲۔ امریکی ہیرا پھیری: دوسری چیز جو انقلاب کی مخالفت کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ امریکہ نے انقلاب کو عرب ملکوں کے لیے بڑھا چڑھا کر خطرہ بیان کیا لیکن ساتھ ساتھ امریکہ نے ان ملکوں کے قدرتی وسائل از جملہ تیل و گیس پر قبضہ کرنے کے لیے ایران کو ان کے لیے ہوّا بنا دیا اور انہیں ایران کے خطرے سے بچانے کے لیے خود کو ان کا مددگار اور مخلص ثابت کیا۔
۳۔ انقلاب کی برآمد: تیسری چیز جس نے ان عرب حکمرانوں کو زیادہ حساس بنا دیا وہ امام خمینی(رہ) کا اسلامی انقلاب کو دوسرے ملکوں میں برآمدکرنے کا موقف تھا۔ امام یہ چاہتے تھے کہ اسلامی انقلاب ایران میں محدود نہ رہے بلکہ عالمی سطح پر لوگ انقلاب سے بہرہ مند ہوں۔ تمام دبے کچلے، مظلوم اور ستم دیدہ لوگ اس انقلاب کے طور طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آزادی حاصل کریں۔
امام خمینی(رہ) کے موقف کی ایران میں مخالفت
امام کے اس موقف کی مخالفت نہ صرف ملک کے باہر ہوئی بلکہ ملک کے اندر بھی موجود انقلابی لیڈر شپ نے اس نظریہ کی مخالفت کی۔ اور اس موقف کو خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ اس موقف سے اسلامی انقلاب کے دشمنوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
اگرچہ ان کا یہ تجزیہ غلط نہ تھا اور امام کے اس موقف کی وجہ سے دیگر ممالک نے صدام کو ایران پر حملے کے لیے تیار کیا اور نوبنیاد انقلاب پر صدام نے حملہ کر دیا۔ جبکہ ابھی نہ ایران میں کوئی حکومت بنی تھی اور نہ ملک کے اندر کوئی انفراسٹریکچر موجود تھا۔ چونکہ شاہی حکومت کے بعد سارا نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ ایسے موقع پر دنیا کے چالیس ممالک نے صدام کی پشت پناہی میں ایران پر حملہ کر کے انقلاب کو بالکل مٹانا چاہا لیکن اس جنگ سے نہ صرف انقلاب کمزور نہیں ہوا بلکہ مزید مضبوط ہو کر سامنے آیا۔شاید اگر یہ جنگ نہ ہوتی تو انقلاب موجودہ مشکلات کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لیے شدید بحران کا شکار ہو جاتا۔
جنگ نے ایران کو بڑا اہم موقع دے دیا کہ ایک تو ایرانی آپس میں متحد ہو جائیں اور دوسرا اپنی قیادت کو مضبوط کر لیں۔ ایرانی عوام جنگ کے میدان میں اتر آئے اور بھرپور طریقے سے انہوں نے جنگ لڑی اور تمام دنیا کا مقابلہ کیا۔
فرقہ واریت انقلاب سے دشمنی کی ایک وجہ
عرب حکمرانوں کی انقلاب سے دشمنی کی ایک وجہ فرقہ واریت بھی تھی یعنی یہ انقلاب شیعہ انقلاب ہے لہذا اس کو کسی صورت آگے بڑھنے کا موقع نہیں دینا چاہیے اس لیے بہت شدید مشکلات انقلاب کی راہ میں کھڑی کی گئیں۔ اور آغاز انقلاب میں ایران کے سامنے اتنے سنگین بحران پیدا ہو چکے تھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی اور ملک کے لیے پیدا ہوتا تو وہ اس کے خاتمہ کے لیے کافی تھا لیکن اسلامی انقلاب اپنی مبارک زندگی کے 46 سال گزار چکا ہے۔
تحریک قدس کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں
لیکن تحریک قدس کے حوالے سے جو امام راحل کا منصوبہ تھا کہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر قوموں میں بیداری پیدا کی جا سکے اس کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں پیدا ہو گئیں۔ ایک اندرونی اور دوسری بیرونی۔
۱۔اندرونی رکاوٹ؛ امام کے منصوبے کے خلاف پیدا ہونے والی سوچ تھی جو آج تک باقی ہے اور وہ یہ کہ ہمیں فلسطین کے معاملے کو دیگر عرب ممالک کی طرح صرف نعرہ بازی کی حد دیکھنا چاہیے اور اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے چونکہ اس کی وجہ سے ایران کے ساتھ دشمنیوں میں اضافہ ہو گا۔
۲۔ بیرونی رکاوٹ؛ ایران پر مسلط کی گئی جنگ تھی۔ چونکہ نو بنیاد انقلاب خود جنگ کی وجہ سے کمزور ہو رہا تھا، اندرونی مشکلات روزانہ بڑھتی جا رہی تھیں اور پھر ایران کے اندر طرح طرح کے بحران اور فتنے شروع ہو گئے تھے اور انقلاب کی اچھی خاصی توانائی ایران کے اندرونی معاملات کو سلجھانے میں لگ گئی جس کی وجہ سے یہ آزادی قدس کا موضوع تاخیر کا شکار ہوا۔ یعنی وہ توجہ جو امام(رہ) تحریک قدس کو دینا چاہتے تھے وہ نہیں دے پائے۔ حالانکہ منصوبہ بنا لیا تھا ابتدا کر دی گئی تھی اور اس کے مطابق عالمی بیداری کے لیے تیاری ہو چکی تھی، یوم القدس کا اعلان ہو چکا تھا اور اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنے کے لیے سپاہ قدس بن چکی تھی، حزب اللہ کی طرز کی تنظیمیں تشکیل پانا بھی شروع ہو چکی تھیں لیکن اس راہ میں رکاوٹیں بہت شدید تھی۔ جس کی وجہ سے یہ تحریک زیادہ آگے نہیں بڑھ پائی۔
ایران کے اندر امام کے موقف کی مخالفت کی وجوہات
ایران کے اندر جو اس راہ میں بڑی رکاوٹ تھیں وہ انقلابی قیادت میں شامل امام(رہ) کے نظریہ کے مخالف لوگ تھے جیسے رفسنجانی صاحب۔ یہ شروع سے ہی نہ انقلاب کی برآمد کے قائل تھے اور نہ فلسطین کے لیے محاذ آرائی کے قائل تھے بلکہ خود امام کو بھی اس کام سے روکتے تھے ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم جو انقلاب لائے ہیں یہ انقلاب صرف ایران کے لیے ہے اور انقلاب کی ساری توجہ ایران پہ ہونی چاہیے، کوئی ایسا موضوع نہ چھیڑیں جس سے باہر کی دنیا ہماری دشمن ہو جائے اور ہمارے لیے پریشانیاں کھڑی کرے۔
لیکن امام خمینی (رہ) کے نظریات ان سے بالکل مختلف تھےاور امام ان کے نظریات کو ماننے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مگر چونکہ زیادہ تر عملیاتی امور رفسنجانی صاحب کے ہاتھ میں تھے ایک تو جنگ کا زمانہ تھا اور امام خود ،جنگ کے امور کو براہ راست دیکھ رہے تھے دوسرا امام نے اپنی بیماری اور ضعیفی کی وجہ سے تمام امور دوسرے افراد کو سونپ رکھے تھے اور پھر ایک جمہوری ڈھانچہ بھی بنا ہوا تھا جسکے تحت پارلیمنٹ بھی موجود تھی اور رفسنجانی صاحب دفاعی امور کے مطلق العنان صاحب اختیار ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور اسی طرح پارلیمنٹ کے اسپیکر بھی تھے قانون سازی کا اختیار بھی انہی کے پاس تھا اور امام کے بعد وہ ملک کے صدر بھی بن گئے تھے اور باقی انتظامی امور بھی ان کے ہاتھ میں آ گئے تھے۔ ان کی سوچ چونکہ شروع سے یہ تھی کہ ہم انقلاب کو ایران کے اندر ہی رکھیں گے اور باہر کی دنیا میں انقلاب کی کوئی بات نہیں کریں گے۔ ہم باہر کی دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات، سفارتی تعلقات اور معمول کے مطابق دوستانہ تعلقات برقرار رکھیں گے اور کسی ملک کو اپنا دشمن نہیں بنائیں گے، جو دیگر ممالک کی فارن پالیسی ہے ہماری فارن پالیسی بھی ویسی ہو گی۔
امام خمینی(رہ) اور آقائے رفسنجانی کی سیاست میں بنیادی فرق
ظاہر ہے اپنی جگہ ان کی یہ سوچ کوئی بے بنیاد سوچ نہیں تھی لیکن امام اس نظریے کو قبول نہیں کرتے تھے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اصولی اور دینی سیاست کےقائل تھے امام نے تحریک کے دوران ہی یہ کہہ دیا تھا کہ میرا دین ہی میری سیاست ہے لیکن رفسنجانی صاحب کی سیاست سیاست تھی اور دین دین تھا۔ وہ دیندار بھی تھے اور سیاست دان بھی تھے لیکن ان کی سیاست وہ نہیں تھی جو امام خمینی کی سیاست تھی ان کی سیاست وہ سیاست تھی جو دنیا کے سیاستدانوں کی سیاست ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ سیاست، سیاسی مطالعہ سے حاصل کی تھی۔ خود بھی بہت زیرک انسان تھے اور ایران کے سابقہ سیاستدانوں کے اوپر ان کی کافی تحقیق تھی اور بعض سیاستدانوں سے بہت متاثر بھی تھے جیسے امیر کبیر کو رفسنجانی صاحب ایک آئیڈیل سیاستدان سمجھتے تھےجبکہ امام خمینی کے آئیڈیل سیاستدان سید حسن مدرس تھے۔
امیرکبیر کا آقائے رفسنجانی کی شخصیت پر تاثر؛ امیر کبیر ایک شاہی حکومت میں وزیراعظم کے طور پر رہ چکے تھے اور بہت ہی باتدبیر شخصیت کے مالک تھے ایران میں آج بھی کچھ بنیادی ڈھانچے ایسے ہیں خصوصا دو تین محکموں میں جو امیر کبیر کے تاسیس کردہ ہیں۔ جیسے کچھ ٹیکنیکل کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جو ابھی تک موجود ہیں اور زراعت کے میدان میں آبیاری کے لیے جو انہوں نے سسٹم قائم کیا وہ بہت ہی زبردست سسٹم تھا اسی طرح انہوں نے صنعتی نظام بنانے کے لیے بھی کافی کوششیں کیں۔ لہذا رفسنجانی صاحب ان سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے امیرکبیر پر ایک کتاب بھی لکھی اور یہ خود بھی انقلاب کے امیرکبیر بننا چاہتے تھے۔
ونسٹن چرچل کا آقائے رفسنجانی کی شخصیت پر تاثر؛ اس کے علاوہ جس سیاسی شخصیت سے رفسنجانی صاحب متاثر تھے وہ برطانوی معروف شخصیت ونسٹن چرچل تھے جو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں برطانیہ کی قیادت کر رہے تھے اور انہیں بڑا زیرک سیاستدان سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی وہ سیاست کے نصاب میں شامل ہے چرچل کی سیاست کے نتیجے میں برطانیہ جو یورپی ممالک میں سب سے چھوٹے ملکوں میں شامل ہے تمام یورپی ممالک پر اس کا گہرا دبدبہ اور اثر و رسوخ پایا جاتا ہے۔
لہذا رفسنجانی صاحب بھی ان سے کافی زیادہ متاثر تھے اور اس کے علاوہ بھی ان کا سیاسی میدان میں وسیع مطالعہ تھا تمام انقلابی علماء میں سب سے زیادہ سیاست میں منجھی ہوئی شخصیت رفسنجانی صاحب کی شخصیت تھی۔ لیکن امام سے ان کی زیادہ تر آراء نہیں ملتی تھیں۔ امام نے آغاز تحریک میں کہہ دیا تھا کہ میرا دین ہی میری سیاست ہے امام نے دو جگہ سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی کہ سیاست امیر کبیر یا چرچل سے سیکھی ہو اور دین قرآن سے سیکھا ہوا۔ امام نے سیاست بھی قرآن سے سیکھی دین بھی قرآن سے سیکھا اور قرآن میں جو دین ہے وہی سیاست بھی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو دینی اصول پیش کئے ہیں وہی سیاست بھی ہے لہذا جس طرح دینی اصولوں میں سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اسی طرح دینی سیاست میں بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
امام خمینی (رہ) کی سیاست امام علی(ع) کے سیاسی اصولوں پر قائم
اسی وجہ سے امیر المومنین علی علیہ السلام کے اندر بھی سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور کسی اصول پر کسی جگہ بھی امیر المومنین نے سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ تین دفعہ آپ نے اقتدار ٹھکرا دیا لیکن اپنے اصولوں کا سمجھوتہ نہیں کیا۔ دو دفعہ اقتدار حاصل کرنے سے پہلے اور ایک دفعہ حاصل کرنے کے بعد ۔ پھر امیر المومنین(ع) نے اس طریقے سے اصولی سیاست کی کہ سارے دشمن بن گئےجبکہ آپ سے پہلے تین خلفاء حکومتیں کر چکے تھے اور کوئی ان کا دشمن نہیں بنا۔ اس کی وجہ کیا تھیں؟ وجہ یہی تھی کہ پچھلے خلفاء کمپرومائز اور سمجھوتا کر لیا کرتے تھے لیکن امیرالمومنین کے پاس سمجھوتہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اگر امیر المومنین (ع) معاویہ کے ساتھ سمجھوتا کر لیتے، اصحاب جمل کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے، خوارج کے ساتھ کمپرومائز کر لیتے تو جنگیں نہ ہوتیں، آپ شہید نہ ہوتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امیر المومنین کی جان تو بچ جاتی مگر دینی اصول شہید ہو جاتے، دینی اقدار قربان ہو جاتے۔ لیکن امام نے دینی اصولوں کا قربان ہونا گوارا نہیں کیا گرچہ خود کو اور اپنے اقتدار کو قربان کر دیا۔
امام خمینی کے اصول سیاست بھی امام علی علیہ السلام کی طرح تھے کہ اگر یہ اصول وہ سیاست میں نہیں رکھتے تو پھر طاغوتی سیاست اور دینی سیاست میں کیا فرق رہ جاتا۔اگر آپ اصولوں کو ہٹا کر مفادات کو بنیاد قرار دیں؛ یعنی قومی مفادات، ملکی مفادات،یا حزبی مفادات کو بنیاد قرار دے کر سیاست کریں تو یہ دینی سیاست نہیں طاغوتی سیاست ہو گی ۔ طاغوتی سیاست میں اقتدار کی خاطر ہر چیز کے ساتھ کمپرومائز ہو سکتا ہے لیکن دینی سیاست میں دینی اصولوں کو نظر انداز کر کے کسی چیز کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
امیرالمومنین(ع) نے اپنے سیاسی مشاور ابن عباس(رض) سے اپنی اس پھٹی ہوئی جوتی جسے وہ خود سی رہے تھے کی قیمت پوچھی تو ابن عباس شرما گئے کہ وہ کیسے مولا کی جوتی کی قیمت بتائیں خلیفہ وقت امیر المومنین کی جوتی ہے توہین ہو جائے گی۔ لہذا انہوں نے پہلو تہی کی اور خاموش ہو گئے۔ امیر المومنین نے اصرار کیا کہ بتاؤ کسی غرض سے یہ سوال پوچھ رہا ہوں کہ اس جوتے کی کیا قیمت ہے ابن عباس نے کہا کوئی قیمت نہیں ہے اسے پھینک دیں اسے کوئی اٹھائے گا بھی نہیں۔ چونکہ ایک تو یہ کھجور کے پتوں کا بنا ہوا ہے جسے کوئی نہیں پہنتا۔ لوگ چمڑے کا جوتا پہنتے ہیں اور دوسرا یہ اتنا پھٹا ہوا ہے اور پھٹے ہوئے جوتے کو اتنے پیوند لگے ہوئے ہیں اور پیوند بھی کسی موچی نے نہیں لگائے خود لگائے ہیں لہذا اب اس جوتے کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے۔ اسے پھینک دیں۔ تو امیر المومنین نے تصدیق کروائی کہ اس کی کوئی قیمت نہیں اس کے بعد امیر المومنین نے فرمایا کہ اگر میں اس اقتدار کے ذریعے عدل قائم نہ کرسکوں تو یہ اقتدار میرے نزدیک اس پھٹے ہوئے جوتے سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔
امام خمینی(رہ) کی سیاست میں سمجھوتہ ناممکن
امام راحل کی سیاست بھی یہی تھی جس میں کوئی سمجھوتہ نہیں تھا۔ جیسے امام خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتوی دینا چاہا تو ایران کے تینوں حکومتی ڈھانچوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے سربراہان نے مل کر امام خمینی کو روکنے کی کوشش کی کہ آپ یہ فتوی نشر نہ کریں اس فتوے سے ہمیں بہت نقصان ہوگا سلمان رشدی ایرانی باشندہ نہیں ہے برطانیہ کا باشندہ ہے اور ایک ملک کا سربراہ دوسرے کسی ملک کے باشندے کے قتل کا فتوی دے تو یہ سفارت کاری کی دنیا میں قابل ہضم نہیں ہے۔ تو امام نے کہا کہ اس سے کیا نقصان ہوگا؟ انہوں نے نقصانات بتائے اور امام پوچھتے گئےکہ اور کیا نقصان ہو گا ؟ تو آخر کار انہوں نے بتایا کہ شاید ہمیں ایران ہی سے ہاتھ دھونے پڑیں۔ ایران ہی ختم ہو جائے۔ حکومت نہیں، انقلاب نہیں، ایران ہی ختم ہو جائے۔ تو اس وقت امام نے کہا کہ اگر میں یہ فتوی واپس لوں تو ایران بچ جائے گا؟ تو انہوں نے کہااس صورت میں ایران کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا تو امام نےان الفاظ میں اپنی سیاست کا اعلان کیا :’’بنا نیست کہ ایران بماند بناست کہ اسلام بماند‘‘۔ یہ حاکم اسلامی ہے کہ جو بات مسلم ہے وہ ایران بچانا نہیں ہے اسلام بچانا ہے اسلام ایران پہ قربان نہیں کرنا ایران کو اسلام پہ قربان کرنا ہے۔ لہذا امام نے ان کی بات نہیں مانی اور وہ فتوی دیا اور نشر کیا اور اس کا وہی ری ایکشن ہوا جو سیاستدان بتا رہے تھے یورپ نے شدید ردعمل ظاہر کیا اپنے سفیر واپس بلا لیے سفارت خانے بند کر دیے، تجارتی معاہدے ختم کر دیے اور یہ سب کچھ ہوا اور دوسری طرف جنگ بھی جاری تھی جنگ کے زمانے میں یہ سب کچھ ہو ا۔ امام نے یہ خطرہ بھی مول لیا لیکن سمجھوتہ نہیں کیا۔
اور بار بار ایسا ہوا بہت سارے اندرونی اور بیرونی مسائل سامنے آئے جہاں امام نے دو ٹوک قدم اٹھایا چونکہ اندرونی طور پر سیاستدان اس بات کے قائل تھے کہ وہ صرف فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگائیں لیکن عملا کوئی کام نہ کریں لیکن امام صرف نعرہ بازی کے نہیں بلکہ عملی اقدام کے قائل تھے اور اس کے لیے ہر طرح کی قیمت چکانے کو بھی تیار تھے۔
آزادی قدس کی راہ میں امام کے تین بنیادی اقدامات کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری
عملی اقدامات کے طور پر تین اقدام تو امام نے خود اٹھائے؛ ایک عوامی بیداری کے لیے عالمی یوم القدس کا اعلان، دوسرا سپاہ قدس کی تشکیل، اور تیسرا حزب اللہ کی تشکیل۔ اب اس سلسلہ کو آگے بڑھنا تھا، عالمی یوم القدس کے ذریعے پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین کے تئیں بیداری پیدا کرنا تھیں، سپاہ قدس کے ذریعے مسلحانہ جدوجہد ہونا تھیں اور حزب اللہ کے طرز کی مختلف تنظیمیں اسرائیل کے اردگرد تشکیل پانا تھیں لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ایران کی اندرونی مشکلات تھیں پھر امام کی رحلت واقع ہو گئی لیکن اس کے باوجود رہبر معظم نے جنہوں نےامام کی جانشینی کا واقعا حق ادا کیا ، ویسے ہی سیاست اور پالیسی اپنائی جو امام کی سیاست اور پالیسی تھی۔
امام خمینی(رہ) کے سیاسی اصول اور رہبر معظم کی پاسداری
رفسنجانی صاحب امام خمینی کے مقابلے میں اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے تھے وہ امام کے سامنے اپنے نظریات کا اظہار تو کر سکتے تھےمگر امام پر دباؤ نہیں ڈال سکتے تھے۔ لیکن رہبر معظم سے یہ اپنے آپ کو زیادہ مضبوط، طاقتور اور بڑا سمجھتے تھے چونکہ عمر کے لحاظ سے تو بڑے تھے ہی لیکن سیاست، بصیرت اور تجربے میں بھی وہ رہبر معظم سے اپنے آپ کو زیادہ برتر سمجھتے تھے لہذا جب رہبر معظم کا دور آیا تو انہوں نے اپنی سیاست کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ رہبر نے مزاحمت کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ رہبر معظم کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ بالکل دو متوازی خط سامنے آگئے۔ رہبر معظم امام کے اصولوں کی پاسداری کر رہے تھے رفسنجانی صاحب اپنی سیاسی بصیرت اور آگاہی کو بنیاد قرار دے کر اپنے نظریات کو قبولوانا چاہتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ ہم انقلاب کو محدود کر دیں۔ فلسطین کا موضوع بھی ٹھنڈا کر دیں آزادی فلسطین کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھائیں لیکن رہبر نے ان کی پالیسیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور امام کے زمانے میں جو تین بنیادی کام شروع ہوئے تھے ان کو مزید تقویت دی۔ حزب اللہ کو ایک فیصلہ کن طاقت میں تبدیل کر دیا فلسطین کے موضوع کو سرفہرست رکھا اور باقاعدہ طور پر سفارتکاری کے ذریعے فلسطینی گروہوں کو اپنی طرف جذب کیا حماس اور جہاد اسلامی جیسے گروہوں کو مزید مضبوط کیا۔ سپاہ قدس کو اتنا مضبوط کیا کہ 90 ملکوں کی تائید شدہ داعش کو شہید سلیمانی کی سربراہی میں سپاہ قدس نے خاک چٹا دی اور اسی طرح مزاحمت کو اس درجہ مضبوط بنایا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے صہیونی ریاست کو نابودی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ لیکن اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی خیانت اور دیگر ممالک کی جنایت نے اسرائیل کا دم نکلتے نکلتےاسے بچا لیا۔
عالمی یوم القدس کے تئیں علماء کی خیانت
عالمی یوم القدس جس کے اعلان کا مقصد عالمی برادری میں بیداری پیدا کرنا تھا اس کے ساتھ علماء اور سماجی رہنماؤں نے بھی خیانت کی، انہیں جب تک اس کام کے لیے رینٹ ملتا رہا وہ کام کرتے رہے جب رینٹ ملنا بند ہو گیا وہ اپنی ذمہ داری بھی بھول گئے۔ ہمارے علماء اکثر کام مزدوری لے کر کرتے ہیں، جس دن مزدوری نہیں ملے گی کام نہیں کریں گے۔ نماز مزدوری لے کر پڑھاتے ہیں، مجلس مزدوری لے کر پڑھتے ہیں، دیگر دینی فرائض مزدوری لے کر کرتے ہیں۔ جب دین کا سارا نظام رینٹل ہو جائے تو حقیقی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے دینی فرائض رینٹل نہیں ہوتے، دین میں تو جہاد بھی تنخواہ لے کے کرنا جائز نہیں۔ یوم القدس کے موقع پر عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنا علماء کی ذمہ داری اور فریضہ ہے مزدوری والا کام نہیں۔ لیکن علماء نے اسے رینٹل سمجھا اور جب رینٹ اور مزدوری ملنا بند ہو گیا تو یہ کام بھی رک گیا۔ جس کی وجہ سے وہ مقصد پورا نہیں ہوا۔
مذہبی تعصب اور یوم القدس
دوسرا اہم سبب جس کی وجہ سے یوم القدس اپنی افادیت کھو چکا وہ تعصب تھا۔ یوم القدس چونکہ ایک شیعہ رہبر کا اعلان کردہ موضوع ہے شیعوں سے نفرت کرنے والے مسلمانوں نے شیعوں کی ضد میں فلسطین سے دوری اختیار کر لی۔ چونکہ شیعوں نے فلسطین میں دلچسپی ظاہر کی ہے لہذا اہل سنت فلسطین سے دور ہو گئے۔
امام خمینی (رہ) نے یہ نہیں سوچا تھا کہ 46 سال تک صرف یوم منایا جاتا رہے گا اور فلسطین مزید 46 سال قبضے میں رہے گا۔ امام کے مدنظر تو یہ تھا کہ اگر واقعا یوم القدس ہو یعنی عالمی بیداری پیدا ہو تو چھ سال بھی نہیں لگنے چاہیے۔ لیکن یہ علماء کی کوتاہی، حکمرانوں کی غداری اور عوام کی لاپرواہی نے فلسطین کو 46 سال تک دشمن کے قبضے میں باقی رکھا ہے اور اس دوران جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔
مزاحمت اپنے موقف پر قائم
مزاحمت اپنا فریضہ نبھا رہی ہے اس نے اپنی ساری قربانیاں پیش کر دیں، اور اپنی ساری طاقت لگا دی اور ابھی بھی اتنی قربانیاں دینے کے باوجود اپنی جگہ پر مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کا اعتراف اسرائیل اور امریکہ نے خود کیاہے چونکہ حماس نے ان کے یرغمالی جو واپس کئے ہیں اور جو باقی ہیں وہ کہاں سے نکال کر لا رہے ہیں اور کہاں چھپا رکھے ہیں جبکہ پورا غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، نہ موساد پتا لگا سکی نہ سی آئی اے کو خبر ہو سکی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حماس کی جنگی مشینری ابھی بھی قائم ہے ان کے ٹھکانے ابھی بھی محفوظ ہیں ورنہ اگر یرغمالیوں کے ٹھکانوں کا ذرہ برابر سراغ ملتا تو اسرائیل کسی بھی صورت میں حماس کے ساتھ مذاکرات کی ذلت برداشت نہ کرتا۔
حزب اللہ کی قیادت ہر چند شہید ہو چکی ہے لیکن حزب اللہ کا انفراسٹریکچر سارا مضبوط ہے اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے یمن مضبوط ہے حشد الشعبی مضبوط ہے ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یہ جو حالات نے تھوڑا پلٹا کھایا ہے اور اسرائیل کی ڈوبتی ہوئی کشتی دوبارہ سنبھل گئی ہے یہ اردوگان اور بن سلمان جیسے خائنوں کی وجہ سے ہے۔
مزاحمت کے سامنے دو اہم محاز
آج مزاحمت کے سامنے دو محاذ ہیں ایک صیہونی جنایت کار اور دوسرے صیہونی خیانت کار۔ جنایتکار امریکہ اور مغربی ممالک ہیں جو اسرائیل کو مسلسل جنگی اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور خیانتکار ترکی سمیت عرب حکمران ہیں۔ اب مزاحمت کو ان دو محاذوں پر جنگ لڑنا ہے ظاہر ہے کہ مزاحمت کا کام اور سخت ہو چکا ہے ۔ جب تک یہ خیانت کار اور جنایتکار باقی رہیں گے مقاومت کا ہدف پورا نہیں ہوگا اور یہ بیداری لوگوں کے اندر آنا ضروری ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم فلسطین کے خیانتکار کو حکومت کی کرسی سے کھینچ کر نیچے اتارے۔ اپنی مملکت کو خیانت کاروں سے آزاد کرائے جیسے اردگان ہے ابھی ترکی کی پارلیمنٹ کے ایک نمائندے نے میڈیا پر اپنے ایک بیان کے دوران باقاعدہ اعداد و شمار بیان کئے ہیں اور ترکی کی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اس نے بتایا ہے کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی پائلٹوں کی ٹریننگ ترکی میں ہوتی رہی ہے۔ اسرائیل کے جنگی جہاز ترکی میں ٹریننگ دیتے رہے ہیں اور اس کے بقول جتنا ان جہازوں کو ایندھن کی ضرورت تھی وہ ترکی فراہم کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد ترکی اسٹیل کی صنعت میں سب سے بڑا ملک ہے اور اعلیٰ کوالٹی کا اسٹیل جو اسلحہ سازی میں استعمال ہوتا ہے وہ ترکی میں تیار ہوتا ہے اور ترکی کے اسی پارلیمانی نمائندے جس کا کلیپ بھی انٹر نٹ پر موجود ہے کے بقول اس جنگ کے دوران یعنی سات اکتوبر 2023 سے لے کر 2025 تک ترکی نے 20 ارب ڈالر کی تجارت اسرائیل کے ساتھ کی ہے جس میں زیادہ تر جنگی ساز و سامان ترکی نے اسرائیل کو دیا ہے اور اس میں اسٹیل بھی شامل ہے۔
خیانتکاروں کی موجودگی میں آزادی فلسطین مشکل
ظاہر ہے کہ اس قسم کے خیانت کار جب تک موجود رہیں گے فلسطین کیسے آزاد ہو سکتا ہے۔ ترکی نے داعش بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ترکی نے یہ تحریرالشام بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ دہشت گردی کا گڑھ ترکی رہا ہے اور اب اس کی نظریں عراق اور شام پر ٹکی ہوئی ہیں یہ خیانتکار خنجر لے کے پشت میں مارنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں جیسا کہ انہوں نے ایران، حزب اللہ اور حماس کی پشت پر خنجر مارا۔ بشار اسد کی حکومت گرا کر بنو امیہ کی حکومت قائم کی۔ یہ بہت بڑا خنجر ہے اور یہ سارے اسرائیل کے اصلی محافظ ہیں جس طرح امریکی سیکرٹری نے سکیورٹی کے معاملات میں کہا تھا کہ اگر ایران اپنے سارے میزائل بھی اسرائیل پر مار دے اسرائیل کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں ہے اس لیے کہ مشرق وسطیٰ کے سات ممالک اسرائیل کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اور ان کے ساتھ اسرائیل کے تحفظ کا معاہدہ ہے وہ اسرائیل کا تحفظ کریں گے ۔
اسرائیل اگر تنہا ہو تو اسے تباہ کرنے کے لیے اکیلا حماس کافی ہے اکیلا حزب اللہ کافی ہے اکیلا انصار اللہ اس صہیونی ریاست کو تباہ و برباد کر سکتا ہے اور طوفان الاقصیٰ نے اس چیز کو ثابت بھی کر دیا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خیانتکار اور جنایتکار اس کا ساتھ نہ دیں۔
یوم القدس کو رسم سے تحریک میں تبدیل کرنے کی ضرورت
یوم القدس جو آج ہم نے گزارا ہے وہ در حقیقت ایک بنیادی تحریک ہے جس نے پانچ سال میں اپنا کام مکمل کرنا تھا ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے آج 46 سال اس کو گزر چکے ہیں۔ آج یوم القدس صرف ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔ اگر یوم القدس کی تحریک صحیح معنوں میں چلائی جائے تو مزاحمت کا ادھورا کام جلد مکمل ہو جائے گا فلسطین آزاد ہو جائے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی دنیا کے تمام حریت پسندوں، مجاہدوں اور قدس کی آزادی کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کی کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ الله