فتنے کی آگ صرف ظالمین کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی بلکہ ظالم اور مظلوم، مومن اور کافر، حامی اور مخالف سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ صرف وہ فتنے کی آگ سے بچ سکتا ہے جس نے تقویٰ اختیار کیا ہو۔
فتنہ سماج کے لیے مہلک ترین بیماری، فتنے سے بچنے کا واحد راستہ تقویٰ

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 4 اپریل 2025
خطبہ 1: فتنہ سماج کے لیے مہلک ترین بیماری، فتنے سے بچنے کا واحد راستہ تقویٰ
خطبہ 2: امام علی (ع) غالیوں سے اظہار برائت
مہلک ترین چیزیں جو انسانی زندگی کی نابودی کا باعث بن سکتی ہیں اور قرآن کریم میں جا بجا بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک مہلک چیز فتنہ ہے۔ فتنہ انسانی بستی اور انسانی سماج کو تباہ اور ویران کر دیتا ہے۔ فتنہ انسان کی انفرادی زندگی کے لیے بھی تباہ کن ہے اور سماجی زندگی کے لیے بھی۔ قرآن ایک اس بات پر تاکید کی ہے کہ انسانی زندگی چاہے وہ انفرادی زندگی ہو چاہے اجتماعی زندگی اپنے ہر پہلو اور شعبے میں وہ فتنے کی زد میں ہے۔ یعنی فتنہ ایک ایسی حتمی چیز ہے جس سے انسانی زندگی بچ نہیں سکتی۔ نوع انسانی فتنہ سے الگ نہیں ہو سکتی۔ یہ انسانی زندگی کا لازمہ ہے۔
فتنے کے لغوی معنی
فتنہ کے لغت میں معنی ہیں کسی چیز کو شدید گرم کرنا، پگھلانا اور اس کے اندر موجود آمیزش اور ملاوٹ کو علیحدہ کرنا ہے۔ جیسے دھاتوں کو جب زمین سے نکالتے ہیں تو ان میں بہت سی چیزیں مخلوط ہوتی ہیں آگ کے ذریعے پگھلا کر ان میں مخلوط شدہ چیزوں کو الگ کرنے کے طریقہ کار کو ’فتن‘ کہتے ہیں۔
معاشروں کا تجزیہ اور ان میں موجود بیماریوں کی تشخیص ضروری
انسانی معاشروں کے اندر ملاوٹ آنا ایک لازمی امر ہے جہاں بہت سارے لوگ مختلف افکار و نظریات کے ساتھ اکٹھا زندگی گزار رہے ہوں وہاں فتنے پیدا ہونا حتمی اور یقینی ہے، چونکہ وہاں مختلف مذاہب کے آثار بھی نظر آئیں گے، مختلف تہذیبیں اور آباؤ و اجداد کی پیدا کردہ رسومات بھی نظر آئیں گی۔ ایسے معاشرے میں اپنے آپ کو فتنوں کی زد سے بچانے کے لیے انسان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ فتنہ بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے معاشرے کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور تجزیہ اور تحلیل کر کے اس میں پائی جانے والی بیماروں کو تشخیص دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، سماجی اور انسانی پیتھالوجی کو اکثر اسکالرز نظرانداز کر دیتے ہیں، اور معاشرے کو متاثر کرنے والی بیماریوں کی تشخیص دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ جب کہ ہم نے اپنی جسمانی صحت کی حفاظت کے لیے جامع تشخیصی ٹولز اور ویکسینیشن تیار کیے ہیں، ہمیں اسی طرح سماجی خرابیوں کی شناخت اور ان سے نمٹنے کی بھی ضرورت ہے، معاشرتی بیماریوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں مختلف سماجی بحرانوں سے دوچار معاشرے کو ان بحرانوں سے بچانا ہو گا۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، ہمیں سماجی علوم کے قیام کو ترجیح دینی چاہیے، بشمول سوشل پیتھالوجی، اور ایسے ادارے بنانا ہوں گے جو سماجی معالجین کو تعلیم، تشخیص اور ترقی دے سکیں۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے کے مذہبی دھڑے بہت کم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، اور سیکولر گروہ اکثر بدتر ہوتے ہیں۔ شہری آبادی لاتعلق ہوتی ہے، جبکہ دیہی کمیونٹیز سماجیات کے تصور سے بھی واقف نہیں ہوتی ہیں۔ بنیادی معلومات کی یہ کمی ہمارے معاشرے کو سماجی سائنسی اصولوں سے خالی کر دیتی ہے۔
بیماریوں سے آلودہ معاشرہ کا علاج تقویٰ
وہ معاشرہ جس میں ملاوٹ آ چکی ہو وہ بیماری کا شکار معاشرہ ہے اور ملاوٹ کسی چیز کی عمر کو کم کر دیتی ہے خالص چیز کی عمر زیادہ ہوتی ہے لیکن ملاوٹ والی چیز زیادہ دیر باقی نہیں رہتی۔ جو چیزیں معاشرے کی ترکیب کے لیے ضروری ہیں انہیں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اور جو بیکٹیریاز اور جراثیم معاشرے کے تانے بانے کو ختم کرنے میں لگے ہیں انہیں تشخیص دے کر معاشرے سے ختم کرنا چاہیے۔ معاشرہ انسانی بدن کی نسبت زیادہ بیماریوں کا شکار ہوتا ہے اس لئے کہ معاشرے کا دروازہ بیماریوں کے لیے کھلا ہوا ہے جبکہ بدن طبیعی حفاظتی نظام موجود ہے۔ جسم اندر اور جسم کے باہر اللہ نے خلقت میں ہی حفاظتی نظام رکھ دیا ہے وہ اٹومیٹک کام کرتا رہتا ہے اور انسان کو بیماریوں سے محفوظ بناتا ہے۔ لیکن سماج کی حفاطت کے لیے ایسا اٹومیٹک کوئی حفاظتی نظام نہیں ہے لہذا سماج کو معمولی وائرس بھی نابود کر دیتا ہے۔ سماج کی حفاظت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو حفاظتی نظام بنایا ہے وہ تقویٰ ہے جسے خود انسانوں نے عمل میں لانا ہے۔
فتنہ انسانی معاشرے کا لازمہ
یہ فتنہ ان سماجی بیماریوں میں سے ایک ہے جو معاشرے کا تانا بانا اکھاڑ دیتی ہے۔ اور فتنے کا وقوع پذیر ہونا لازمی اور حتمی ہے۔ قرآن کریم سورہ عنکبوت کی ابتدائی آیتوں میں ارشاد فرماتا ہے:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
’’کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا؟‘‘
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
’’بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔‘‘
’’وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ‘‘ یعنی کیا ان کو فتنوں میں مبتلا نہیں کیا جائے گا؟ یقینا کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے بھی جتنی قومیں آئیں سب کو فتنوں میں مبتلا کیا گیا۔ کیوں کہ معاشرے میں یہ جاننے کے لیے کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے معاشرے کو فتنوں میں مبتلا کرنا ضروری ہے۔ معاشرے کو آزمایش میں ڈالنا ضروری ہے۔ یہ سنت الہی ہے۔
فتنے سے بچنے کا راہ حل
لیکن فتنے سے بچنا کیسے ہے یہ سمجھنا ضروری ہے۔ فتنہ ایک سماجی آگ ہے جو سماج کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے لہذا اس سے بچنے کے لیے حفاظتی تدبیر کی ضرورت ہے۔ اور اس حفاظتی تدبیر کا نام ہے تقویٰ۔
آج تمام اہل فکر و دانش کا ماننا ہے کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے جتنا آج کی نسل کو فتنوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اتنا گزشتہ دور کی نسلوں کو نہیں کرنا پڑا لہذا فتنوں سے بچنے کے لیے امیر المومنین علی علیہ السلام نے بھی رہنمائی فرمائی ہے۔ اس لیے کہ امیر المومنین کا دور بھی فتنوں کا دور تھا۔ وہ سماج جسے رسول خدا نے تشکیل دیا تھا رسول خدا(ص) کی رحلت کے ۴۰ سال بعد وہ سماج مہلک بیماریوں اور شدید فتنوں میں مبتلا ہو گیا۔
غزہ عصر حاضر کا سب سے بڑا امتحان
آج کے دور میں سب سے بڑا فتنہ جس نے مومن اور منافق کو مکمل طور پر علحیدہ علیحدہ کر دیا ہے وہ غزہ جنگ کا فتنہ ہے۔ غزہ کا معرکہ ایک امتحان اور آزمائش ہے۔ اور روئے زمین پر بسنے والی تمام انسانیت کے لیے سخترین آزمائش ہے۔ اس آزمائش میں اگر ہم انسانی معاشرے کا تجزیہ کریں تو پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک طرف اہل مزاحمت و مقاومت ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا ہے۔ چاہے وہ کلمہ گو ہوں یا بت پرست ہوں، مغربی ہوں یا مشرقی ہوں، سب اس امتحان میں مبتلا ہیں اور صرف وہ اس امتحان سے کامیاب ہوں گے جو اہل تقویٰ ہیں جو واقعی مومن ہیں اور جو مزاحمت کے صف میں کھڑے ہیں۔
نہج البلاغہ میں فتنوں کی پیدائش کی تصویر کشی
امیر المومنین فتنوں کی پیدائش کی بہت خوبصورت تصویر کشی کرتے ہیں کہ سب سے پہلے کسی فتنے کی پیدائش انسان یا حیوان کے بچے کی طرح ہوتی ہے یعنی فتنہ پہلے نطفے کی شکل اختیار کرتا ہے یہ نطفہ کچھ عوامل کے ذریعے دوسروں میں منتقل ہوتا ہے اور دوسرے اسے رحم مادر کی طرح پروان چڑھاتے ہیں پھر نطفے سے فتنے کا جنین بنتا ہے آخر میں اس فتنے کی باقاعدہ ولادت ہوتی ہے اور فتنہ جنم لیتا ہے پھر اس فتنے کو کچھ دودھ پلانے والے آ جاتے ہیں اور کچھ لوریاں دینے والے اسے لوریاں دیتے ہیں اپنے کندھوں پر سوار کرتے ہیں اسے جوان کرتے ہیں اور ایک طاقتور فتنہ بناتے ہیں۔
پھر جب فتنے کے اندر طاقت آ جاتی ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور وہ تباہی مچاتا چلا جاتا ہے۔ وہ اندھا ہو جاتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس نے اسے دودھ پلایا تھا، کس نے اسے لوریاں دی تھیں، وہ سب کو ملیا میٹ کر دیتا ہے اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ اب فتنے کے بعد معاشرہ، معاشرہ نہیں رہتا بلکہ راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ اور آنے والوں کے لیے مقام عبرت بن جاتا ہے۔
لہذا قرآن کریم نے فتنوں کی آگ سے بچنے کے لیے جو تدبیر پیش کی ہے وہ تقویٰ کی تدبیر ہے۔
سورہ انفال کی آیت نمبر 25 میں ارشاد فرماتا ہے:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ {25}
’’اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین کو پہنچنے والا نہیں ہے اور یاد رکھو کہ اللہ سخت ترین عذاب کا مالک ہے‘‘۔
فتنوں کی آگ سے کون شخص بچ سکتا ہے؟
فتنے کی آگ صرف ظالمین کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی بلکہ ظالم اور مظلوم، مومن اور کافر، حامی اور مخالف سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ صرف وہ فتنے کی آگ سے بچ سکتا ہے جس نے تقویٰ اختیار کیا ہو۔
آج مسلمان معاشرے کا ایمان، غیرت، حمیت، شعور سب کچھ فتنوں کی آگ نے جلا کر راکھ کر دیا ہے ورنہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اسرائیل دن دھاڑے غزہ پر اتنا ظلم کرے اور پھر اپنے ظلم کو سینہ تان کر بیان بھی کرے کہ اس نے 39 ہزار بچوں کو یتیم کر دیا ہے غزہ کے نہتے بچوں کے خیموں پر بم گرا کر اپنی شجاعت کی داستانیں رقم کرے اور تمام مسلم ممالک دیکھ رہے ہوں، خبریں سن رہے ہوں لیکن کسی کو ٹس سے مس نہ ہو۔ علامہ اقبال کے بقول:
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
یہ مسلمان نہیں ہیں ان کے اندر سے عشق ختم ہو گیا ہے، شرم ختم ہو گئی ہے انسانیت مر چکی ہے اب یہ راکھ کا ڈھیر ہیں۔ ان مسلمانوں کو کس نے رکھ میں تبدیل کیا ہے فتنوں کی آگ نے۔ ان فتنوں سے صرف تقویٰ انسان کو نجات دے سکتا ہے۔ اور وہ بھی سماجی اور اجتماعی تقویٰ۔ پورا سماج مل کر اپنے اندر تقویٰ پیدا کرے تو وہ فتنوں کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
دوسرا خطبہ
انسان کے بہکنے کا خطرہ زیادہ کہاں پر ہے؟
امیر المومنین علی علیہ السلام نے تقوی کے نظام میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا ہیں تمام انبیاء و ائمہ کا بنیادی طور پر مقصد بعثت و امامت یہی تھا کہ نظام تقوی قائم کریں لیکن امیر المومنین علیہ السلام نے تقوی کی تشریح بھی کی ہے حکمت بھی بیان کی ہے اور خطرات کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ویسے تو ہم خطرہ اسے سمجھتے ہیں جہاں سے انسان پھسل سکتا ہے، بہک سکتا اور لغزش پا سکتا ہے امیرالمومنین نے ان جگہوں کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں سے انسان پھسل سکتا ہے۔ اور بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں سے پھسلنے کی کوئی توقع نہیں ہوتی۔ جو پھسلنے کی جگہ نہیں ہوتی لیکن انسان پھر بھی پھسلتا ہے۔ جیسے کوئی اپنے ہی گھر میں پھسل کر گر جاتا ہے اور اسے شدید چوٹ لگ جاتی ہے جبکہ اپنا گھر پھسلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ امیر المومنین نہج البلاغہ کی حکمت نمبر 117 میں ایسی ہی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جہاں پھسلنے کی کوئی توقع نہیں لیکن پھر بھی انسان پھسل رہا ہے اور بہک رہا ہے اور وہ امیر المومنین کی اپنی ذات ہے امیر المومنین تو ایسی نورانی ہستی اور پاکیزہ شخصیت اور کمالات کا مجموعہ ہیں ان کے بارے میں کیسے کوئی انسان پھسل سکتا ہے! ظاہر ہے یہ کمی امیر المومنین میں نہیں ہو سکتی بلکہ لوگوں میں یہ کمی پائی جاتی ہے کہ لوگ جو امیر المومنین کی ذات کی طرف آتے ہیں لیکن پھسل جاتے ہیں آپ فرماتے ہیں دو طرح کے لوگ میرے بارے میں ہلاک ہوں گے۔
هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ
مجھ سے افراطی محبت رکھنے والا اور بغض رکھنے والا پھسل کر ہلاک ہو سکتا ہے۔ غلو اور بغض بھی بہت بڑا فتنہ ہے جس کی طرف امیرالمومنین نے اشارہ کیا ہے۔ یعنی یہ بھی ایک افتنان ہے جس میں لوگ مبتلا ہوں گے کوئی غلو کرے گا اور کوئی دشمنی اور نفرت کرے گا۔
ائمہ کے نزدیک سب سے بڑا خطرہ
غلو کو تمام ائمہ اطہار علیہم السلام نے نمایاں طور پر ذکر کیا ہے کہ مومنین کے لیے ایک بڑا خطرہ غلو ہے اور آج کے معاشرے میں غلو اتنا سرایت کر چکا ہے کہ علماء بھی غلو سے محفوظ نہیں ہیں۔ یعنی جب تک علماء بھی غلو سے کام نہیں لیں گے عوام انہیں مومن ہونے کی سرٹیفکیٹ نہیں دے گے۔
یہ فتنہ امیر المومنین کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس کی پیش گوئی کر چکے تھے اس لیے امیر المومنین نے اس کی نشاندہی کی اور باقی ائمہ اطہار(ع) نے اپنے اپنے دور میں غلو کے فتنے کا مقابلہ کیا اور شدت کے ساتھ کیا۔ تشیعوں کو غلو سے محفوظ رکھنے کے لیے ائمہ اطہار نے زیادہ مشقت اٹھائی۔
غلو تشیع کی اندرونی بیماری
ایک بیماری وہ ہے جو باہر سے لگتی ہے اور ایک بیماری وہ ہے جو خود اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ اندر والی بیماری زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے، لکڑی کو اگر اندر سے دیمک کھا جائے تو اس کا کوئی اعلاج نہیں ہوتا۔ تشیع کا حفاظتی نظام باہر کی طرف سے بہت مضبوط ہے۔ ناصبیوں، ملحدوں، بے دینوں اور دیگر فرقوں سے تشیع کو محفوظ رکھنا آسان ہے۔ دیگر فرقوں کی طرف سے جو خطرات تشیع کو متوجہ ہیں شیعوں پر جو طرح طرح کی تہمتیں لگائیں جاتی ہیں یا ان کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ان سب کا جواب اور بندوبست تشیع کے پاس موجود ہے لیکن تشیع کو اندر سے اگر کوئی بیماری لگ جائے اور دیمک کی طرح اندر سے چاٹنا شروع کر دے تو اس کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ائمہ اطہار(ع) کے زمانے میں بنو امیہ اور بنو عباس بیرونی خطرہ تھا ائمہ اطہار اس خطرے کے مقابلے میں سپر بنے رہے اور شیعوں کو ان خطرات سے محفوظ رکھا لیکن ائمہ اطہار اس بات کی طرف بھی متوجہ تھے کہ اگر بنی امیہ اور بنی عباس سے شیعہ بچ بھی گئے تو ان کو اندر سے اگر دیمک لگ گئی تو وہ تشیع کو اندر سے چاٹ کر راکھ بنا دے گی۔ اس لیے انہوں نے بارہا غلو کے خطرے کی طرف متوجہ کیا۔ جتنی توانائی ائمہ نے بیرونی خطرے کے مقابلے کے لیے صرف کی اتنی ہی اندرونی خطرات کے لیے بھی صرف کی۔ مرحوم علامہ مجلسی رحمت اللہ علیہ نے بہار الانوار کی جلد ۲۵ میں ایک پورا باب مرتب کیا ہے جس کا عنوان ہی غلو ہے۔
ائمہ کے نزدیک غلو سے اپنی اولاد کو بچانے کی تاکید
اس باب کی چند روایات گزشتہ خطبوں میں پڑھی تھیں ان میں سے روایت نمبر چار مرحوم علامہ مجلسی نے نقل کی ہے جس میں رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ میرے حق سے بالاتر مجھے نہ قرار دو جو میرا حق ہے اس سے اوپر مجھے نہ لے جاؤ۔ اللہ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے عبد چنا ہے میں عبد خدا ہوں، بندہ خدا ہوں اور اس بندگی کی بنیاد پر اللہ نے مجھے نبوت کے لیے چنا ہے۔
جب لوگ ائمہ طاہرین کے بارے میں غلو کرتے ہوئے نعوذ باللہ الوہیت کے قائل ہوتے ہیں تو ان کی بندگی ختم ہو جاتی ہے ان کے سارے مناصب کی نفی ہو جاتی ہے۔
بحارالانوار کی حدیث ششم میں امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اپنے جوانوں اور بچوں کے متعلق خبردار اور محتاط رہو کہ کہیں وہ غالیوں کے فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ غالیوں کے خطرے سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھو کہ انہیں فاسد نہ کر دیں۔ غالی روئے زمین پر سب سے بڑا شر ہیں۔ یہ غالی کیا کرتے ہیں؟ سب سے پہلے عظمت خدا کی تحقیر کرتا ہے اللہ تبارک و تعالی کا مقام گھٹاتا ہے اللہ کو گراتا ہے۔ آپ اکثر سنتے رہتے ہیں کہ غالی اہل بیت(ع) کے فضائل بیان کرتے وقت سب سے پہلے اللہ کی ناتوانی اور عاجزی بیان کرتے ہیں اسے مغلوب اور چھوٹا بناتے ہیں تاکہ یہ اہل بیت کو بڑا دکھا سکیں۔
غلو عظمت خدا کو گھٹانے کا سبب
یہ وہ کام ہے جو روزمرہ مجالس میں ممبروں پر ہوتا ہے اور میڈیا میں نشر ہوتا ہے، لوگ اس میں نعرے لگاتے اور داد دیتے ہیں۔ لیکن تعجب ہے نہ علماء نہ عوام اور نہ مومنین کوئی ان پر ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔ اللہ کے مقام کو گھٹا کر یا انبیاء کے مقام کو گھٹا کر اہل بیت اطہار(ع) کے مقام کو بڑھانا یا اہل بیت(ع) کو اللہ کے ساتھ قیاس کرنا یہ غالیوں کی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہے، اللہ کی ذات کسی کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے۔ اللہ کے علاوہ جو کچھ ہے وہ مخلوق خدا ہے۔ مخلوق کو خالق کے ساتھ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح بعض ائمہ اطہار کا مقام بڑھانے کے لیے انبیاء کو تحقیر کرتے ہیں انبیاء کا مقام گھٹاتے ہیں، نبیوں کو چھوٹا کر کے پیش کرتے ہیں اہل البیت کا مقام اس طرح ثابت نہیں ہوتا ۔ معاشرے کے اندر جو لوگ چھوٹے ہوتے ہیں ان کو بڑا ثابت کرنے کے لیے بڑوں کی نفی کی جاتی ہے یعنی بڑوں کو چھوٹا بنایا جاتا ہے تاکہ چھوٹوں کو بڑا دکھایا جا سکے۔ لیکن جو خود بڑے ہوتے ہیں ان کے لیے کسی کو چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلا ابھی ایک چھوٹے قد کا آدمی ہے ہم اسے سب سے بلند قد والا ثابت کرنا چاہتے تو مجمع میں جتنے لمبے قد والے ہیں ان کو بٹھا دو اور اس کے بعد کہہ دو وہ سب سے بڑا ہے۔ ایسے بڑھائی ثابت نہیں ہوتی۔ بڑھائی ثابت کرنے کے لیے جتنے لمبے قد والے ہیں انہیں کھڑا کرنا ہو گا اور ان کے درمیان اس کے قد کی لمبائی ثابت کرنا ہو گی۔
امیرالمومنین کو بڑا ثابت کرنے کے لیے کسی کو گھٹانے کی ضرورت نہیں۔ کسی کی عظمت کا انکار کرنے کی ضرورت نہیں۔ علی خود اتنا بلند ہیں کہ ان کے پیروں کی خاک کی بلندی تک کسی کی رسائی نہیں۔ لیکن غالی علی علیہ السلام کو بلند مرتبہ ثابت کرنے کے لیے انبیاء تو انبیاء خدا کو بھی چھوٹا بنا دیتے ہیں۔ یہ شرک ہے یہ جرم اور کفر ہے اللہ کی عظمت اور قدرت کا انکار کرنے والے یا اس کی قدرت اور عظمت کو کم کرنے والے چھٹے امام کی نظر میں سب سے بری مخلوق ہیں۔
غلو شرک اور کفر
اور یاد رہے غلو صرف شیعوں میں نہیں ہے بلکہ اہل سنت بھی اس بیماری کا شکار ہیں۔ اور غلو نہ صرف اہل بیت(ع) یا دیگر بزرگان کے بارے میں کیا جاتا ہے بلکہ سیاسی شخصیات اور علماء کے بارے میں غلو کیا جا رہا ہے۔ فقہا کے بارے میں غلو کیا جا رہا ہے مثلا علماء و فقہاء کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ ائمہ کے برابر ہو جائیں اور ائمہ کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ برابر ہو جائیں یہ غلو ہے۔ ائمہ اطہار کا اپنا مقام ہے اہل بیت کا اپنا مقام ہے علماء کا اپنا مقام ہے انبیاء کا اپنا مقام ہے۔ آپ کسی کو حد سے بڑھاو یہ فضائل نہیں ہیں یہ شرک اور کفر ہے اور اس کی وجہ سے انسان دین سے دور ہو جاتا ہے۔
امام صادق کے نزدیک مقصر غالی سے بہتر
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ایسے خطیبوں اور غالیوں سے اپنی نسلوں کو بچاؤ یہ تباہ کرنے والے ہیں۔ امام فرماتے ہیں اللہ کی قسم غالی یہود و نصاری اور مجوسیوں سے بڑھ کر شر ہیں غالیوں کا خطرہ اور فساد یہود و نصاریٰ و مجوس کے فساد سے زیادہ ہے کیونکہ مجوس بھی شرک کرتے ہیں یہود و نصاریٰ بھی شرک کرتے ہیں لیکن غالی کا شرک ان سب سے بالاتر ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر غالی ہمارے پاس آ جائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے لیکن جو مقصر ہے یعنی ائمہ کی شان کم کرتا ہے یا ان سے بغض رکھتا ہے وہ اگر ہمارے پاس آ جائے تو امام فرماتے ہیں ہم اسے قبول کریں گے۔ غالی کو ہم اپنے پاس نہیں بیٹھنے دیں گے لیکن مقصر کو اپنے پاس بٹھائیں گے۔ مقصر جو ائمہ کو گالیاں دیتا ہے ان کی توہین کرتا ہے امام فرماتے ہیں اسے ہم اپنے پاس بٹھائیں گے لیکن غالی جو ان کی تعریفیں کرتا ہے اس کو نہیں بٹھائیں گے۔ لوگوں نے پوچھا: یابن رسول اللہ اے فرزند رسول خدا یہ کیسے ہے یہ تو اپ کو ماننے والا ہے آپ کی تعریفیں کرنے والا ہے آپ سے محبت رکھتا ہے وہ بغض رکھتا ہے آپ آسے قبول کر لیں گے اس کو قبول نہیں کریں گے؟ امام علیہ السلام نے دلیل دی؛ غالی نے غلو کو اپنی عادت بنا لیا ہے اس نے ہمارے غلو میں دین کو ترک کر دیا ہے اس نے صوم و صلاۃ کو چھوڑ دیا ہے وہ اگر توبہ بھی کر لے تو وہ راہ راست پر نہیں آ سکتا۔ چونکہ اس نے دین کو ہی چھور دیا ہے۔ لیکن مقصر نے دین کو نہیں چھوڑا وہ ہماری توہین کرتا ہے اگر توبہ کر لے گا تو راہ راست پر آ جائے گا۔
امیر المومنین کا غالیوں سے اعلان برائت
اسی طرح بحارالانوار کی ۲۵ جلد کے دسویں باب کی ساتویں روایت جو امیر المومنین علی علیہ الصلوۃ والسلام سے مروی ہے میں آپ فرماتے ہیں کہ اے خدا میں ان غالیوں سے بیزار ہوں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہا جس طرح عیسی ابن مریم نے برائت کا اعلان کیا تھا میں ان لوگوں سے اظہار برائت کرتا ہوں جو میرے بارے میں غلو کرتے ہیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں خدایا تو انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے، ان کو اپنی رحمت سے دور کر دے، ان سے اپنی نعمتیں چھین لے، ان سے اپنی مغفرت اور بخشش دور کر دے۔
بہرحال اس باب میں اور بھی بہت ساری روایات ہیں جو غلو کی شدید مذمت کرتی ہیں اور غالیوں سے اظہار برائت کرتی اور ان سے دور رہنے کی تاکید کرتی ہیں۔
لہذا جس طرح ائمہ طاہرین نے غالیوں سے اظہار نفرت کیا ہے اسی طرح ہمیں بھی ان سے نفرت اور دوری کا اظہار کرنا چاہیے اور ان کے لیے بالکل کوئی نرم گوشہ اپنے دلوں میں نہیں رکھنا چاہیے۔
امام علی کی غالیوں کے حق میں بد دعا
اب امیر المومنین علیہ السلام غالیوں کے بارے میں فرما رہے ہیں: خدایا ان کو ہمیشہ کے لیے خزل فرما یعنی ان کو چھوڑ دے ان سے اپنی رحمت دور کر لے ان سے ہدایت دور کر لے ان کی بخشش ان سے لے لے رحمت و نعمتیں اپنی ان سے لے لے نصرت اپنی ان سے لے لے اور انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دے حاصل کر خدایا ان غالیوں کو خصل کر رسوا کر ان کو اور خدایا ان میں سے کسی کی بھی نصرت نہ کرنا اور میں ان غالیوں سے بیزار ہوں۔ یہ غلو جو آج میٹھا کر کے بیان کیا جاتا ہے اور مومنین خوش ہوتے ہیں کہ یہ فضائل ہیں نہ عزیزان امیر المومنین علیہ السلام اور ائمہ اطہار کے لیے سب سے زیادہ بیزاری کا مذہب غلو ہے۔
اس باب میں اور بھی بہت ساری روایات ہیں لیکن سب روایات کے اندر جو چیز مشترکہ طور پر بیان ہوئی ہے وہ غالیان کا کفر اور ان سے اظہار برائت اور اپنے بچوں کو ان سے دور رکھنے کی تاکید ہے۔