بدمستی یعنی وسائل کی فراوانی نے جنہیں اندھا اور ہلاک کر دیا۔ انجام دونوں کا ایک ہی ہے ایک بدبختی کے نتیجے میں ہلاک ہو رہا ہے دوسرا بدمستی کے نتیجے میں۔ لہذا امیر المومنین فرماتے ہیں اگر انسان نعمتوں سے مالامال ہے تو بدمست نہ بنے اور اگر نعمتوں سے محروم ہے تو بدبخت نہ بنے۔ دونوں صورتوں میں اپنے انسانی معیار پر قائم رہے۔
امام علی (ع) کی نگاہ میں فتنہ کیسے پیدا ہوتا اور پھیلتا ہے؟

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 11 اپریل 2025
خطبہ 1: امام علی (ع) کی نگاہ میں فتنہ کیسے پیدا ہوتا اور پھیلتا ہے؟
خطبہ 2: ائمہ (ع) کی غالیوں سے شدید نفرت اور دشمنی
تقویٰ وہ حفاظتی تدبیر ہے جو مہلک خطرات سے انسان کو بچاتا ہے۔ جو خطرات مہلک اور نابود کرنے والے نہیں ہیں ان سے بچانے کے لیے تقویٰ کے دوسری تدبیریں ہیں۔ انسان کی زندگی میں پیدا ہونے والے مہلک خطرات میں سے ایک فتنہ ہے۔ فتنہ ممکن ہے انسان کے جسموں کو نقصان نہ پہنچائے لیکن انسان کی انسانیت کو تباہ کر دیتا ہے۔
فتنے کی آگ
فتنہ (آزمائش یا فساد) ایک بھڑکتی ہوئی آگ کی مانند ہے جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے سوائے پتھروں کے۔ پتھروں کا نہ جلنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ نقصان نہیں ہوا۔ اسی طرح جب انسانی معاشرے میں فتنہ کی آگ بھڑکتی ہے تو اس میں سوائے ان لوگوں کے جن کو قرآن نے پتھر کہا ہے: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ جن کے دل پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوتے ہیں وہ اس فتنے کی آگ میں بچ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا نقصان کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ فتنے کی ان کی انسانیت کو جلا دیا ہے۔
امام علی (ع) کا دور فتنوں کی آماجگاہ
پوری انسانی تاریخ میں کوئی بھی دور فتنوں سے مکمل طور پر خالی نظر نہیں آتا خاص طور پر امیر المومنین (ع) کا دور فتنوں سے بھرا ہوا دور تھا۔ امیر المومنین نے اپنی ساری توانائی فتنوں کو ختم کرنے میں لگا دی لیکن پھر بھی فتنوں کا خاتمہ نہیں ہوا اور یہ فتنوں کا سلسلہ آج تک جاتی ہے۔ جدید علماء اور سماجیات کے ماہرین متفقہ طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارا موجودہ دور شدید اور وسیع فتنوں میں گھرا ہوا ہے جس کے تباہ کن نتائج آنے والی نسلوں تک پھیل جائیں گے۔
جب کوئی معاشرہ فتنے کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے تباہ کن اثرات نسل در نسل باقی رہتے ہیں۔ ہماری موجودہ نسل نہ صرف ماضی سے وراثت میں ملنے والے فتنوں کا شکار ہے بلکہ اس وقت کے نئے اور منفرد فتنوں سے بھی متاثر ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ایک بڑا فتنہ انگریزوں کا استعماری غلبہ تھا۔ اگرچہ نوآبادیاتی حکمرانی ختم ہو چکی ہے، لیکن اس کے ثقافتی اور نفسیاتی اثرات ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں برقرار ہیں اور ممکنہ طور پر آنے والی نسلوں تک باقی رہیں گے۔ یہ فتنہ اپنے پیچھے کھنڈرات اور ایک گہری جڑوں والی میراث چھوڑ گیا ہے جسے اب بہت سے لوگوں نے قبول کر لیا ہے، جس سے اس کی گرفت سے بچنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
فتنوں سے بچنے کے لیے قرآن کی رہنمائی
قرآن فتنے سے بچنے کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور سورۃ الانفال، آیت 25 میں دفاع کے ایک مخصوص نظام کا خاکہ پیش کرتا ہے، جو ایسے تباہ کن عناصر سے افراد اور برادریوں کی حفاظت کے لیے ایک الہی نسخہ ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ {24}
’’اے ایمان والو اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور تم سب اسی کی طرف حاضر کئے جاؤ گے‘‘
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ {25}
’’اور اس فتنے میں تقویٰ اختیار کرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان لو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے‘‘
قرآن خبردار کرتا ہے کہ فتنہ اکثر ظالموں کے ظلم کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کا اثر صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہتا۔ یہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے – مومنین، صالحین اور مظلوم۔ جیسا کہ امام علی (ع) فرماتے ہیں، فتنہ اندھا ہے۔ یہ دوست یا دشمن، ظالم یا بے گناہ میں فرق نہیں کرتا۔ جس طرح آگ جلانے والے درختوں میں فرق نہیں کرتی اسی طرح فتنہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ آگ اور فتنہ دونوں کی فطرت ایک ہی ہے – جو لوگ ان کے زیر اثر آتے ہیں انہیں جلا کر راکھ بنا دیتا ہے۔
قرآن حکم دیتا ہے: ” وَاتَّقُوا فِتْنَةً ” – "اپنے آپ کو فتنے سے بچاؤ” – خبردار کرتا ہے کہ یہ خطرہ صرف ظالموں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ اس لیے کسی کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
امام علی (ع) کا دور وسیع فتنوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ ان کی اپنی حکومت کے اندر سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو ترک کرنے کے نتیجے میں پیدا کیے۔ ایک بار جب الہی ہدایت کو نظر انداز کر دیا جائے تو فتنہ جنم لیتا ہے اور دھیرے دھیرے سب پر غالب آنا شروع ہو جاتا ہے۔
فتنے کی پیدائش امام علی(ع) کی نگاہ میں
نہج البلاغہ کے خطبہ 149 میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ أَغْرَاضُ بَلَايَا قَدِ اقْتَرَبَتْ، فَاتَّقُوا سَكَرَاتِ النِّعْمَةِ وَ احْذَرُوا بَوَائِقَ النِّقْمَةِ۔
اے گروہ عرب! تم ایسی ابتلاؤں کا نشانہ بننے والے ہو کہ جو قریب پہنچ چکی ہیں۔ عیش و تنعم کی بدمستیوں سے بچو اور عذاب کی بتاہ کاریوں سے ڈرو۔
ایک اور جگہ امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ خدایا مجھے نعمتیں عطا کر لیکن نعمتوں کے نتیجے میں مجھے بدمست نہ بنا۔ اور اگر نعمتوں سے محروم رہوں تو محرومیت کے نتیجے میں مجھے بدبخت نہ بنا۔
نعمتوں میں بدمستی اور محرومیت میں بدبختی
آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہی دو حالتیں ہیں: بدمست اور بدبخت۔ بدبختی یعنی محرومیوں نے جنہیں تباہ کر دیا اور مقصد زندگی سے ہٹا دیا ہے۔
بدمستی یعنی وسائل کی فراوانی نے جنہیں اندھا اور ہلاک کر دیا۔ انجام دونوں کا ایک ہی ہے ایک بدبختی کے نتیجے میں ہلاک ہو رہا ہے دوسرا بدمستی کے نتیجے میں۔
لہذا امیر المومنین فرماتے ہیں اگر انسان نعمتوں سے مالامال ہے تو بدمست نہ بنے اور اگر نعمتوں سے محروم ہے تو بدبخت نہ بنے۔ دونوں صورتوں میں اپنے انسانی معیار پر قائم رہے۔
اس کی مثالیں بہت ساری ہیں جیسے آج روز جمعہ ہے جب کسی غریب فقیر سے کہا جائے کہ نماز جمعہ میں چلو تو کہتے ہیں کہ کیا نماز جمعہ پڑھیں گھر کے خرچے ہی نہیں پورے ہوتے، بجی کے بل ہی ادا نہیں ہو پاتے۔ اگر کسی امیر سے کہا جائے کہ نماز جمعہ میں کیوں نہیں آتے کہے گا کہ کیسے نماز میں آ سکتے ہیں، ہمارے پاس اتنے گاہک ہوتے ہیں کہ نماز کے لیے وقت نہیں ملتا۔ کہیں مہمانی پر جانا ہے کسی نے ہمارے یہاں آنا ہے۔
دونوں کا نتیجہ ہلاکت ہے لہذا امیر المومنین فرماتے ہیں کہ نعمتوں کی فراوانی میں بدمست ہونے اور محرومیت میں بدبخت ہونے سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرو۔
وَ تَثَبَّتُوا فِي قَتَامِ الْعِشْوَةِ وَ اعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ
اور فتنوں کے دھندلکوں اور فتنہ کی کجریوں میں اپنے قدموں کو روک لو۔ جب اندھیرا آپ کو اس حد تک گھیر لے کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ ہو جائے تو مضبوطی پیدا کرو۔
عِنْدَ طُلُوعِ جَنِينِهَا وَ ظُهُورِ كَمِينِهَا وَ انْتِصَابِ قُطْبِهَا وَ مَدَارِ رَحَاهَا،
’’جب فتنہ کا چھپا ہوا خدشہ سر اٹھائے اور مخفی اندیشہ سامنے آ جائے اور اس کا مدار مضبوط ہو جائے‘‘۔
امام علی (ع) فتنہ کے پیدا ہونے کے بارے میں ایک مضبوط استعارہ پیش کرتے ہیں: جس طرح ایک بچہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کی پیدائش سے پہلے رحم میں خاموشی سے نشوونما پاتا ہے، اسی طرح فتنہ بھی خاموشی سے شروع ہوتا ہے مرد و زن میں سے کسی ایک کے ذہن میں فتنے کی فکر پنپتی ہے اور پھر یہ گندی سوچ آگے بڑھنا شروع ہوتی ہے۔ اس کا ابتدائی مرحلہ پوشیدہ (جنین) ہوتا ہے، لیکن جب یہ پیدا ہوتا ہے، تو یہ اپنی کشش کا قطب قائم کرتا ہے، لوگوں کو اپنے ارد گرد کھینچتا ہے اور معاشروں میں تباہی مچاتا ہے۔
تَبْدَأُ فِي مَدَارِجَ خَفِيَّةٍ وَ تَئُولُ إِلَى فَظَاعَةٍ جَلِيَّةٍ، شِبَابُهَا كَشِبَابِ الْغُلَامِ وَ آثَارُهَا كَآثَارِ السِّلَامِ يَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُودِ أَوَّلُهُمْ قَائِدٌ لِآخِرِهِمْ وَ آخِرُهُمْ مُقْتَدٍ بِأَوَّلِهِمْ، يَتَنَافَسُونَ فِي دُنْيَا دَنِيَّةٍ وَ يَتَكَالَبُونَ عَلَى جِيفَةٍ مُرِيحَةٍ، وَ عَنْ قَلِيلٍ يَتَبَرَّأُ التَّابِعُ مِنَ الْمَتْبُوعِ وَ الْقَائِدُ مِنَ الْمَقُودِ فَيَتَزَايَلُونَ بِالْبَغْضَاءِ وَ يَتَلَاعَنُونَ عِنْدَ اللِّقَاءِ.
’’فتنے ہمیشہ چھپے ہوئے راستوں سے ظاہر ہوا کرتے ہیں اور انجام کار ان کی کھلم کھلا برائیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ان کی اٹھان ایسی ہوتی ہے جیسے نوخیز بچے کی اور ان کے نشانات ایسے ہوتے ہیں جیسے پتھر (کی چوٹوں) کے۔ ظالم آپس کے عہد و پیمان سے اس کے وارث ہوتے چلے آتے ہیں۔ اگلا پچھلے کا رہنما اور پچھلا اگلے کا پیروکار ہوتا ہے۔ وہ اسی رذیل دنیا پر مرمٹتے ہیں اور اس سڑے ہوئے مردار پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ جلد ہئ پیروکار اپنے پیشرو رہنماؤں سے اظہار بیزاری کریں گے اور ایک دوسرے کی دشمنی کے ساتھ علیحدگی اختیار کر لیں گے اور سامنے ہونے پر ایک دوسرے کو لعنت کریں گے‘‘۔
فتنے کا نطفہ
فتنہ کا نطفہ ایک بری سوچ کے طور پر بویا جاتا ہے – ایک ایسا برا خیال جو سب سے پہلے شیطانی فطرت کے حامل شخص کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ فساد کے بیج کی طرح، پھر اس کے پیروکاروں یا شاگردوں کو منتقل کیا جاتا ہے. اس طرح فتنہ پھیلنا شروع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، فرقہ واریت کا نطفہ کسی استاد کے ذہن میں جڑ پکڑتا ہے پھر وہ اسے اپنے شاگردوں تک پہنچاتا ہے یا سوشل میڈیا پر اس کا پرچار کرتا ہے۔ ایک بار جب اسے سامعین مل جاتے ہیں، تو یہ اسے ماں کی اپنے رحم میں رکھ کر جنین کو پرورش دیتے ہیں پھر جب فتنے کی ولادت ہوتی ہے تو یہ مائیں اسے دودھ پلا کر بڑا جوان کرتی ہیں۔
اپنے ابتدائی مرحلے میں، ہر فتنہ ایک مرکزی محور کے طور پر اپنی جگہ بناتا ہے، اور رفتہ رفتہ اس محور کے گرد ایک مدار بنتا ہے- ایک ایسا مدار جس کے ذریعے فتنہ گھومتا ہے اور لوگوں کو اپنے گھیرے میں لیتا ہے۔ یہ احتیاط کا لمحہ ہے: جب فتنہ کا مدار بن رہا ہو تو لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ اور فتنے کو اسی وقت دفن کرنا چاہیے لیکن ایک بار جب فتنہ اپنے مدار سے باہر نکل جائے اور زور پکڑ جائے، تو فتنے کو روکنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
فتنے کے مراحل
ابتدائی طور پر پوشیدہ، فتنہ مختلف مراحل میں خاموشی سے آگے بڑھتا ہے، ہر قدم پر مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اس کے برے نتائج آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار اس کی غلاظت اور تباہی عام اور وسیع ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر، فتنہ اپنی جوانی کے مرحلے تک پہنچ جاتا ہے، وہ مضبوط جارحانہ انداز اختیار کر لیتا ہے اس مرحلے میں یہ ظالموں اور جابروں کا آلہ کار بن جاتا ہے۔
اکثر، فتنہ کسی دینی مدرسے، فرقہ، گروہ، منبر یا حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک بار جب یہ پختہ ہو جاتا ہے، یہ وراثت بن جاتا ہے اور ظالموں کے ذریعہ ہتھیار بن جاتا ہے۔ پہلا ظالم فتنے کا علمبردار اور قائد بنتا ہے اور بعد میں آنے والا ظالم اس کا مقتدی اور راستے پر چلنے والا ہوتا ہے۔ ظالموں کے یہ گروہ آپس میں لڑتے ہیں وہ فتنے کے گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ہر دھڑا اپنی قیادت تشکیل دیتا ہے، اور دشمنی اس کے بعد شروع ہوتی ہے- جس کے نتیجے میں بہتان، کردار کشی، اور باہمی نفرت پیدا ہوتی ہے۔ جب وہ ملتے ہیں تو ان کی بات چیت لعنت اور دشمنی سے بھر جاتی ہے۔
فتنے کی زمین
انسانی معاشرے زرخیز زمینوں کی مانند ہوتے ہیں، ان میں جو کچھ بویا جاتا ہے اسے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج پاکستان کی سرزمین حکمت، اصلاح یا ترقی کے لیے نہیں بلکہ فتنے کے لیے انتہائی زرخیز ہو چکی ہے۔ علم اور حکمت کے بیج بونے کی کوشش کرو تو وہ مرجھا جاتا ہے۔ لیکن فتنہ، حماقت یا فرقہ واریت کا بیج بوئیں، اور یہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
سیاست ہو، مذہبی ادارے ہوں یا تعلیمی نظام، فتنہ ہر کونے میں گھس چکا ہے۔ اس پر غور کریں: جب اسکولوں میں خواتین اساتذہ کو جینز پہننے سے منع کرنے کا قانون پاس کیا جاتا ہے، اسی حکومت کی وزارت اطلاعات نے سینما ہالوں پر چھاپے مارے جن میں فحش مواد دکھایا جاتا ہے۔ دریں اثنا، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں، ناجائز تعلقات پروان چڑھتے ہیں، طلبہ کے درمیان اور یہاں تک کہ طلباء اور اساتذہ کے درمیان۔ یہ رویے نصاب کا حصہ نہیں ہیں، پھر بھی وہ پروان چڑھتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ معاشرتی ماحول اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوفِ وَ الْقَاصِمَةِ الزَّحُوفِ، فَتَزِيغُ قُلُوبٌ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ وَ تَضِلُّ رِجَالٌ بَعْدَ سَلَامَةٍ وَ تَخْتَلِفُ الْأَهْوَاءُ عِنْدَ هُجُومِهَا وَ تَلْتَبِسُ الْآرَاءُ عِنْدَ نُجُومِهَا.
’’اس دور کے بعد ایک فتنہ ایسا آئے گا جو امن و سلامتی کو تہ و بالا کرنے والا اور تباہی مچانے والا اور خلق خدا پر سختی کے ساتھ حملہ آور ہونے والا ہو گا بہت سے دل ٹھراؤ کے بعد ڈانواں ڈول اور بہت سے لوگ ایمان کی سلامتی کے بعد گمراہ ہو جائیں گے‘‘۔
ایک فتنے سے کئی فتنے جنم لیتے ہیں
فتنہ صرف مزید فتنوں کے لیے جگہ بناتا ہے، ہدایت، علم یا ترقی کے لیے جگہ نہیں بناتا۔ فتنے کی فصل ایک دفعہ کاشت ہو گئی پھر وہ رکتی نہیں ہے۔ پھر فتنے سے کئی فتنے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک مذہبی بغاوت لامحالہ سیاسی انتشار کا باعث بنتی ہے۔ ایک جگہ کرپشن پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ جس طرح جنگلی پودے جو بغیر لگائے بغیر اگتے ہیں وہ ہوا سے پھیلتے ہیں، اسی طرح فتنہ پھیلتا ہے۔ فتنہ کے بیج مساجد، سوشل میڈیا اور عوامی پلیٹ فارمز سے پھوٹتے ہیں اور لوگ اسے قبول کرنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ افراتفری، بہتان یا اسکینڈل کے بارے میں بات کریں تو آپ کو سننے والے لاکھوں کی تعداد میں ملیں گے لیکن تعلیم اور ترقی یا اصلاح کی بات کی بات کریں تو سیکڑوں کی تعداد میں بھی سننے والے نہیں ملیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل فتنے کے لیے زرخیز زمین بن چکے ہیں۔ اب اس کا علاج کیا ہے؟ علاج صرف تقویٰ میں مضمر ہے۔ تقویٰ فتنوں کے طوفانوں کے مقابلے کے لیے موثر ڈھال ہے۔ ہمیں امام علیہ السلام کے بیانات پر غور کرتے ہوئے ان تباہ کن فتنوں کی آگ سے خود کو بچانا چاہیے۔
خطبہ 2
امام علی علیہ السلام نے مبغضوں اور غالی محبوں کے فتنوں کے خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے بیان فرمایا:
وَ قَالَ عليه السلام: هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ
میری وجہ سے دو قسم کے لوگ تباہ ہوں گے: وہ جو مجھ سے افراطی محبت کرتا ہے اور وہ جو مجھ سے شدید نفرت کرتا ہے۔
غالیوں اور ناصبیوں دونوں پر امام علی کی لعنت
غلو (مذہب میں انتہا پسندی) ایک خطرناک فتنہ ہے جس نے موجودہ نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، خاص طور پر پاکستانی قوم جو غلو اور ناصبییت (اہلبیت علیہم السلام سے نفرت) دونوں سے متاثر ہے۔ ماضی میں ناصبیوں نے کھلم کھلا امام علی (ع) پر لعنت بھیجی تھی، آج وہ زیادہ باریک بینی سے کام کرتے ہیں: علی (ع) پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے، وہ اہلبیت (ع) کے دشمنوں کی تعریفیں اور ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ نفرت پھیلانے کا یہ بالواسطہ طریقہ پاکستانی معاشرے کے اندر بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔
غلو، شیعہ مذہب میں دیمک کے مانند
ناصبییت باہر سے شیعیت کی شناخت کو نشانہ بناتی ہے جبکہ غلو اسے اندر دیمک کی طرح اس کے عقیدے کی بنیادوں کو کھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ائمہ معصومین (ع) نے غالیوں کے خلاف سخت اور غیر سمجھوتہ کرنے والا مؤقف اختیار کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک گروہ امام علی (ع) کے پاس آیا، سلام کرنے کے بعد امام کو "اپنا رب” کہا۔ امام علی (ع) نے فوراً ان کی سرزنش کی اور کہا کہ معافی مانگو۔ لیکن جب انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے تو امام علی (ع) نے ایک گڑھا کھودنے کا حکم دیا، اس میں آگ جلائی اور انہیں خود اس میں ڈال دیا۔ یہ ان کے انحراف کی سزا تھی۔ یہ انتہائی سزا کسی دوسرے گروہ کو نہیں دی گئی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غلو کا نظریہ واقعی کتنا خطرناک اور تباہ کن ہے۔
امام رضا (ع) کی روایت: غلو اور تفویض کی تردید
علامہ مجلسی کی بحار الانوار سے غلو کی دسویں روایت میں امام رضا (ع) فرماتے ہیں:
"جو اللہ کو اس کی مخلوق سے مشابہ مانتا ہے وہ مشرک اور کافر ہے، جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل اللہ کی طرف سے مقرر ہے، وہ بھی کافر ہیں۔ ہم ایسے لوگوں سے دنیا اور آخرت میں دور رہتے ہیں، یہ ہمارے پیرو نہیں ہیں اور ہم ان کے امام نہیں ہیں۔”
امام رضا (ع) واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ ائمہ کی طرف شرک اور تقدیر سے منسوب روایات کو غالیوں نے ائمہ کی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش میں گھڑ لیا ہے۔ یہ من گھڑت روایتیں اب بھی شیعیت پر حملہ کرنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ایک راوی نے امام رضا (ع) سے کہا: دوسرے ہم پر ایسے عقائد کا الزام لگاتے ہیں۔ تو اس نے امام کی طرف سے ایک زبردست ردعمل کا سامنا کیا، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ ائمہ سے محبت کرنا کافی نہیں ہے- ان کی رہنمائی اور عقائد پر بھی عمل پیرا رہنا چاہیے، عملی طور پر ان کے اصولوں کی مخالفت کرتے ہوئے محض تعریف کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
غلات (غالیوں) کے بارے میں شیعوں کو امام کی تنبیہ
امام رضا (ع) واضح طور پر ہدایات دیتے ہیں:
• جو غلات سے محبت کرتا ہے وہ اماموں سے بغض رکھتا ہے۔
• جس نے کسی غالی سے دوستی کی اس نے ائمہ سے تعلق منقطع کر دیا۔
• جس نے غالی کی تعظیم کی اس نے ائمہ کی توہین کی ہے۔
• غالیوں کی حمایت یا ان کے ساتھ نیکی کرنا اہلبیت پر ظلم کے مترادف ہے۔
• صرف وہی لوگ ائمہ سے سچی وفاداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں جو اس طرح کے بد عقیدہ لوگوں سے دوری اختیار کریں۔
ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غلات صرف گمراہ نہیں ہیں بلکہ اہلبیت (ع) کے مقصد کے لیے نقصان دہ بھی ہیں۔ یہ روایت ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے شیخ صدوق کی تصنیف ’عیون اخبار الرضا‘ میں درج ہے، پھر بھی جدید منبروں سے اس کا ذکر کم ہی ملتا ہے۔
غلو پر امام مہدی (عج) کا خط
بحار الانوار کے اس باب کی نویں حدیث میں امام مہدی (ع) کی طرف منسوب ایک خط ان کے ایک نمائندے محمد ابن علی کو بھیجا گیا تھا۔ امام (ع) نے لکھا:
"اے محمد ابن علی! اللہ ان صفات سے بہت بالاتر ہے جو لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں، ہمارے شیعوں کو مطلع کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو طاقت اور علم میں شریک نہ کریں، غیب کا علم صرف اللہ کے لیے ہے، آدم سے لے کر میرے دور تک تمام انبیاء اور ائمہ اللہ کے بندے ہیں، اس کے شریک نہیں۔”
امام علیہ السلام ان جاہل شیعوں کی وجہ سے گہرے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے جو اماموں کے لیے الہی صفات کا دعویٰ کرتے ہیں یا اللہ کی ربوبیت یا مخلوق میں ان کی شرکت کا دعویٰ کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
"میں اللہ کے حضور گواہی دیتا ہوں کہ میں ان لوگوں سے لاتعلق ہوں جو کہتے ہیں کہ ائمہ کے پاس اللہ کی طرح غیب کا علم ہے، جو ہمیں ہمارے مقرر کردہ درجات سے زیادہ بلند کرتے ہیں وہ ہم سے اور اللہ سے جدا ہو گئے ہیں۔”
خط کے آخر میں ایک ٹھوس رہنمائی پائی جاتی ہے:
"یہ خط آپ کے کندھوں پر اور ان تمام لوگوں کے لیے امانت ہے جو اسے سنتے یا پڑھتے ہیں، اسے مت چھپائیں- اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ ہمارے شیعوں تک پہنچ جائے، اس پیغام کو اس وقت تک نشر کرتے رہیں جب تک ہمارے تمام پیروکار اس حقیقی توحید کی طرف واپس نہ آجائیں جسے ہم اور ہمارے آباؤ اجداد نے برقرار رکھا ہے، اگر کسی نے اس پیغام کو چھپایا یا اس پر عمل نہ کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو گی۔”
غلو تباہ کن فتنہ
ہمارے زمانے کے امام (ع) کی طرف سے یہ خط واضح کرتا ہے کہ غلو ایک تباہ کن فتنہ ہے – جو شیعیت کی بنیاد کو تباہ کر دیتا ہے۔ ائمہ نے اسی وجہ سے غلات کے خلاف سخت زبان اور سخت کارروائی کا استعمال کیا چونکہ ان کے عقائد توحید کو مسخ کرتے ہیں، اماموں کو بدنام کرتے ہیں، اور شیعوں کے درمیان کمزور دلوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
آج افسوسناک بات یہ ہے کہ چند شیعہ اجتماعات میں غالیوں نے اپنے مرکز بنا لیے ہیں۔ وہ عقیدے کی غلط تشریح کرتے ہیں اور اہلبیت کی پاکیزہ محبت کو مشرکانہ مبالغہ آرائی میں بدل دیتے ہیں۔ لہٰذا اہلبیت کے ہر مخلص پیروکار پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ غلو کے خلاف کھڑا ہو، دوسروں کو اس کے خطرات سے آگاہ کرے اور توحید و ولایت کے متوازن راستے کی طرف لوٹ آئے جیسا کہ خود ائمہ نے سکھایا ہے۔