تقویٰ حفاظت کا نام ہے حماقت کا نام نہیں ہے۔ امام خمینی(رہ) فرماتے ہیں کہ ایک دور ایسا تھا کہ تقویٰ حفاظت کے بجائے حماقت کے معنیٰ میں لیا جاتا تھا۔ احمقوں کو متقی سمجھا جاتا تھا
وہ راستے جن کے ذریعے فتنہ معاشرے کو تباہ کرتا ہے

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 18 اپریل 2025
خطبہ 1: وہ راستے جن کے ذریعے فتنہ معاشرے کو تباہ کرتا ہے
انسان کو مختلف نوعیت اور مختلف جوانب سے خطرات درپیش ہوتے ہیں اور ہر خطرے کے متناسب اللہ نے انسان کے لیے حفاظتی تدبیر قرار دی ہے جیسے ہم خود اپنے مال، اپنے گھر یا اپنی صحت کے لیے مختلف طرح کی حفاظتی تدبیریں بناتے ہیں اسی طرح انسانی زندگی کو کچھ ایسے خطرات درپیش ہیں جو برباد کنندہ ہیں جو انسانی زندگی کو ختم کر دیتے ہیں۔
فتنے کے اثرات نسل در نسل باقی رہتے ہیں
انسان کو اندر سے بھی خطرات درپیش ہیں اور باہر سے بھی۔ لیکن اندر سے زیادہ باہر کے خطرات زیادہ مہلک ہیں۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک بڑا خطرہ جو انسان کے دامن گیر ہو جاتا ہے وہ فتنہ ہے اور فتنہ ایسا مہلک خطرہ ہے جو انسان کو ہلاک بھی کرتا ہے اور پھر اس فتنے کے اثرات نسلوں تک باقی بھی رہتے ہیں۔ فتنے ان معمولی خطرات کی طرح نہیں ہیں جو عارضی طور پر طاری ہوں اور اس کے بعد اپنے اثرات بھی ساتھ لے جائیں۔ بلکہ فتنہ نسل در نسل دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس کی ایک واضح مثال برصغیر پر برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی تھی- اس کی ذہنی اور ثقافتی غلامی کی میراث اب بھی تمام مذاہب اور برادریوں میں برقرار ہے، جن میں سے بہت سے لوگ انجانے میں اس پر فخر کرتے ہیں۔ اس سے دنیا اور آخرت دونوں تباہی کا شکار ہوئی ہیں۔ اگرچہ بیماریاں گھر کے صرف ایک فرد کو یا ایک فیملی کو متاثر کرتی ہیں، لیکن کچھ فتنے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وہ پوری نسلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔
فتنے سے حفاظت کا راستہ تقویٰ
ایسے فتنے سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا ایک نظام قائم کیا ہے جس کا تذکرہ سورۃ الانفال کی آیت نمبر 25 میں ہے۔
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ {25}
اس فتنے سے اپنی حفاظت کرو جو ظالمین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ظالمین کے علاوہ مظلومین بھی اس فتنے کی گرفت میں آ جائیں گے۔
اگرچہ ظالم فتنہ شروع کرتے ہیں، لیکن اس کے نتائج صرف ان تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ یہ بالآخر مظلوموں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ایسے فتنے سے صرف قرآنی متقی ہی محفوظ رہتے ہیں، یعنی قرآن جو تقویٰ اختیار کرنے کو کہتا ہے وہ تقویٰ اگر انسان کے اندر ہے تو وہ ان فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اگر قرآن تقویٰ نہیں ہے بلکہ اخلاقی تقویٰ انسان کے اندر پایا جاتا ہے تو نادانستہ طور پر انسان اس کا شکار بن جاتا ہے یا چہ بسا وہ اس فتنے کی آگ کا ایندھن بھی بن جاتا ہے۔
سب سے بڑا بیوقوف سب سے بڑا متقی؟
امام خمینی (رہ) یہ فرماتے تھے کہ انقلاب سے پہلے، لوگوں میں یہ چیز عام تھی کہ جو جتنا بڑا بیوقوف ہو گا اتنا بڑا متقی ہو گا۔ تقویٰ کا یہ مسخ شدہ تصور خودبخود لوگوں میں نہیں پھیلا تھا بلکہ پھیلایا گیا تھا کہ نادان اور نافہم لوگ متقی ہوتے ہیں اور ابھی بھی یہ تصور پایا جاتا ہے۔ حقیقی متقی وہ ہوتا ہے جو آگاہ ہو، حالات سے باخبر، ذہین اور چالاک ہو، دشمن کی چالوں کو سمجھتا ہو۔ چونکہ تقویٰ حفاظت کی ایک شکل ہے، اس لیے اسے بصیرت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جو احمق متقی ہیں وہ فتنے کا شکار بھی بن جاتے ہیں اور فتنے کی آگ کو ہوا بھی دینے لگتے ہیں۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کی پہلی حکمت میں ذکر کیا ہے: كـُنْ في الفتـْنَةِ كابْنِ اللبُوْنِ۔ فتنے کے اندر ابن لبون بن جاؤ، یعنی اونٹی کے اس نابالغ بچے کی طرح بن جاؤ، لا ظهْرٌ فـَيُرْكـَبَ ولا ضَرْعٌ فـُيحْلبَ۔ کہ جو نہ سواری کے قابل ہوتا ہے اور نہ دودھ دینے کے قابل۔ یعنی کہنے کا مقصد یہ تھا کہ نہ فتنوں کے لیے سواری بنو اور نہ فتنوں کو دودھ پلاؤ۔
تقویٰ حفاظت کا نام ہے حماقت کا نہیں
تقویٰ حفاظت کا نام ہے حماقت کا نام نہیں ہے۔ امام خمینی(رہ) فرماتے ہیں کہ ایک دور ایسا تھا کہ تقویٰ حفاظت کے بجائے حماقت کے معنیٰ میں لیا جاتا تھا۔ احمقوں کو متقی سمجھا جاتا تھا اور احمقوں کا ایک کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ فتنوں میں خود بھی محفوظ نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے بلکہ اس سے بڑھ کر خود بھی فتنوں کی سواری بھی بن جاتے ہیں اور فتنوں کو دودھ پلانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔
آج کے دور میں ان احمقوں کا کردار بہت نمایاں ہے کتنے لوگ ہیں جو تفرقے کو دودھ پلا رہے ہیں اور کتنے ایسے احمق ہیں جو فتنوں کی سواری بنے ہوئے ہیں سوشل میڈیا پر یہ چیز واضح طور پر نظر آئے گی۔
فتنے کا ظہور نہج البلاغہ کی نگاہ سے
نہج البلاغہ کے خطبہ 149 میں امام علی علیہ السلام نے فتنہ کا ظہور کیسے ہوتا ہے اس کی وضاحت کی ہے۔ یہ خطبہ ایک سماجی بصیرت پیش کرتا ہے کہ سماج کس طرح ان فتنوں کی پرورش کرتا ہے جو انسانی معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ امیرالمومنین معاشرے میں فتنوں کے حمل کے آثار دیکھ کر اس کی ولادت کی تشریح اس خطبے میں بیان کرتے ہیں جیسے سیاستدان آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا "نیا جنم” ہونے والا ہے، نئے جنم کے لیے کس طرح مشرق وسطیٰ کا نطفہ منعقد ہوا ہے سیاستداں اس کو حالات کے تناظر میں دیکھ لیتے ہیں۔ بعض اوقات، یہ منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں، جیسے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ماضی کی ناکامیاں یا "صدی کی ڈیل” کا خاتمہ۔ لیکن اب، وہ زیادہ پراعتماد لگ رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق پاکستان اور وسیع تر مسلم امہ پر ہوتا ہے۔ سماجی اصول جو فتنہ پر حکومت کرتے ہیں وہ مذہب سے بالاتر ہیں۔ وہ خدائی قوانین ہیں جو تمام معاشروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ کچھ معاشرے بنجر ہیں، کچھ بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک، فتنے کی پرورش کے لیے زرخیز زمین ہیں۔
ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوفِ وَ الْقَاصِمَةِ الزَّحُوفِ، فَتَزِيغُ قُلُوبٌ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ وَ تَضِلُّ رِجَالٌ بَعْدَ سَلَامَةٍ وَ تَخْتَلِفُ الْأَهْوَاءُ عِنْدَ هُجُومِهَا وَ تَلْتَبِسُ الْآرَاءُ عِنْدَ نُجُومِهَا. مَنْ أَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْهُ وَ مَنْ سَعَى فِيهَا حَطَمَتْهُ، يَتَكَادَمُونَ فِيهَا تَكَادُمَ الْحُمُرِ فِي الْعَانَةِ قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُودُ الْحَبْلِ وَ عَمِيَ وَجْهُ الْأَمْرِ.
امام علی علیہ السلام اس خطبہ میں اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک فتنہ دوسرے فتنے کو جنم دیتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے جسم میں لگنے والی ایک بیماری جسم کو مزید کمزور بنا کر دوسری بیماریوں کے لیے فضا ہموار کرتی ہے۔ امام فتنے کی شکل میں آنے والے ایک زلزلہ سے خبردار کرتے ہیں جو مضبوط ترین عمارتوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ یہ فتنہ لوگوں کے دلوں میں شک اور الجھن پیدا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ پختہ یقین رکھنے والے بھی غیر یقینی ہو جاتے ہیں۔ عقائد کی عمارتیں بکھر جاتی ہیں۔ لوگ خود اپنی بات پر بھی متفق نہیں ہوتے- صبح کچھ اور شام کو کچھ ہوتے ہیں۔ جوں جوں فتنہ پختہ ہوتا جاتا ہے، حق اور باطل میں تمیز ختم ہو جاتی ہے، غلط صحیح اور صحیح غلط ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ فتنہ کے ایجنٹوں کے لیے نرم رویہ دکھانا بھی خطرناک ہے، جیسا کہ قرآن ظالموں کی طرف مائل ہونے سے بھی خبردار کرتا ہے کہ ظالموں کے لیے اگر تمہارے دلوں میں برم گوشہ پیدا ہوا تو تم بھی ان کے ظلم میں شریک ہو جاؤ گے اور فتنہ کی آگ تمہارے دامن گیر بھی ہو جائے گی۔
فتنہ زدہ معاشرے میں سچ و جھوٹ کی تشخیص کا مشکل ہونا
امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ لوگ فتنہ میں شامل ہوتے ہیں ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے – جیسے گدھے بوجھ کے دباؤ میں ہوتے ہیں۔ جب فتنے میں ملوث افراد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو ایک دوسرے پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ امام علیہ السلام اسلام کو ایک رسی کے طور پر بیان کرتے ہیں جو اعتصام کے ذریعے اللہ کی مرضی کو انسانی کوششوں سے جوڑتی ہے۔ ہمارا مقصد اس رسی کے ذریعے تحفظ حاصل کرنا ہے۔ تاہم، فتنہ کے دوران، اس رسی کی گرہیں کھل جاتی ہیں، جس سے یہ بے اثر ہو جاتی ہے، حالانکہ یہ لوگوں کے درمیان رہتی ہے۔ اس کے بعد معاشرہ ابہام کا شکار ہو جاتا ہے، سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایسی حالت میں، لوگ اکثر کہتے ہیں، "کیا ہو رہا ہے؟” -یہ سماجی مصیبت کی ایک واضح علامت ہے۔
تَغِيضُ فِيهَا الْحِكْمَةُ وَ تَنْطِقُ فِيهَا الظَّلَمَةُ وَ تَدُقُّ أَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا وَ تَرُضُّهُمْ بِكَلْكَلِهَا. يَضِيعُ فِي غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ وَ يَهْلِكُ فِي طَرِيقِهَا الرُّكْبَانُ، تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَاءِ وَ تَحْلُبُ عَبِيطَ الدِّمَاءِ وَ تَثْلِمُ مَنَارَ الدِّينِ وَ تَنْقُضُ عَقْدَ الْيَقِينِ. يَهْرُبُ مِنْهَا الْأَكْيَاسُ وَ يُدَبِّرُهَا الْأَرْجَاسُ، مِرْعَادٌ مِبْرَاقٌ كَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ. تُقْطَعُ فِيهَا الْأَرْحَامُ وَ يُفَارَقُ عَلَيْهَا الْإِسْلَامُ. بَرِيئُهَا سَقِيمٌ وَ ظَاعِنُهَا مُقِيمٌ. بَيْنَ قَتِيلٍ مَطْلُولٍ وَ خَائِفٍ مُسْتَجِيرٍ، يَخْتِلُونَ بِعَقْدِ الْأَيْمَانِ وَ بِغُرُورِ الْإِيمَانِ.
امام فرماتے ہیں کہ ہدایت یافتہ معاشرے میں صحیح اور غلط واضح ہوتا ہے۔ فتنہ لوگوں کو اندھا کر دیتا ہے، حکمت کے چشموں کو خشک کر دیتا ہے اور اس کی جگہ جہالت لے لیتا ہے۔ حکمت کے بارے میں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حکمت ایک مضبوط، عقلی علم ہے جس کی تائید دلیل اور شواہد سے ہوتی ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب فتنہ عروج پر ہوتا ہے تو لوگ دانشوروں اور علماء کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجتاً جہالت پھیلتی ہے اور بے وقوف اور احمق لوگ مذہبی، سماجی، سیاسی اور روحانی معاملات پر قابض ہونے لگتے ہیں۔
فتنہ زلزلہ کی طرح معاشرے کو تباہ کرتا ہے
حالیہ رمضان میں اس کی ایک واضح مثال سامنے آئی، جہاں ٹی وی پروگراموں میں مفتیوں اور مولانا لوگوں کے ساتھ روزے کے قوانین پر بحث کرنے والی غیر مہذب لباس والی خواتین بھی موجود تھیں۔ ان کی گفتگو، اکثر غیر معقول اور مضحکہ خیز، عوام کی رہنمائی کرتی ہے۔ امام علی (ع) ایسے فتنے کو ایک زلزلے سے تعبیر کرتے ہیں جو ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے، منبروں، اسٹیجوں اور ٹی وی چینلوں پر سب سے زیادہ نااہل افراد کو سامنے لایا جا رہا ہے۔
امام علی (ع) کا دور شدید فتنہ سے نشان زد تھا، اور انہوں نے اس کی پیدائش، پھیلاؤ اور مومنین کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں کے بارے میں گہری بصیرت فراہم کی۔ اپنے خطبہ کے آخری حصے میں وہ تقویٰ کو فتنہ سے بچانے کی کلید قرار دیتے ہیں۔
خطبہ 2:
غلو اور ناصبیت کے فتنوں سے شیعہ سنی سب مشکلات کا شکار
امام علی علیہ السلام نے غالیوں اور ناصبیوں کے فتنے سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
.وَ قَالَ عليه السلام: هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ
غلو نے شیعہ مسلک کی شبیہ کو مسخ کر دیا ہے، جس طرح ناصبیت نے سنی فرقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دونوں طرف کی انتہا پسندی نے شناخت کے معیارات کو تبدیل کر دیا ہے: شیعوں میں، جو غلو میں شامل نہیں ہوتا ہے اسے اکثر حقیقی پیروکار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سنیوں میں، جو بھی اہلبیت (ع) سے نفرت کا اظہار نہیں کرتا اسے رافضی کہا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک اب سنی ہونے کا مطلب اہلبیت (ع) کے دشمنوں بشمول بنو امیہ اور بنو مروان کی تعریف کرنا ہے۔ ان دو فتنوں – غلو اور ناصبیت – نے اسلام کے دونوں بڑے فرقوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے
اہل بیت(ع) کا غلو کے شر سے انتباہ
پیغمبر اکرم (ص) سے لے کر امام مہدی (ع) تک ائمہ اہلبیت (ع) نے غلو کے شر سے مسلسل تنبیہ کی ہے۔
امام رضا (ع) سے روایت ہے:
ہمدانی نے امام رضا (ع) سے ان جھوٹے دعووں کے بارے میں پوچھا جو لوگ ائمہ سے تعلق رکھتے ہیں، خاص طور پر یہ خیال کہ لوگ اللہ کے بجائے ائمہ کے بندے ہیں۔ امام نے کبھی بھی ایسا دعویٰ کرنے کی سختی سے تردید کی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اور ان کے آباؤ اجداد نے ہمیشہ صرف اللہ کی بندگی کا اقرار کیا۔ انہوں نے استدلال کیا کہ اگر ائمہ لوگوں کو اپنے بندوں کے طور پر دیکھتے ہیں تو انہیں بیعت لینے کی ضرورت نہیں رہے گی – جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا نہیں ہیں، بلکہ خدا کے مقرر کردہ رہنما ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ ائمہ کی ولایت کو قبول کرنا ان کے مرتبے کو بڑھانے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
یہ آج بہت زیادہ مبتلی بہ مسئلہ ہے، کیونکہ بعض ذاکرین ائمہ کی طرف مبالغہ آمیز دعووں کو غلط طور پر منسوب کرتے رہتے ہیں۔
مزید روایات:
• روایت 11: امام صادق (ع) نے امام باقر (ع) اور پیغمبر (ص) کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دو گروہوں کو کبھی بھی پیغمبر کی شفاعت حاصل نہیں ہوگی: ظالم حکمران اور غالی (وہ لوگ جو ائمہ کے مقام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں)۔
• روایت 12: امام صادق (ع) تقویٰ کو برقرار رکھنے، اللہ کی عظمت کا احترام کرنے، پیغمبر اکرم (ص) کی تعظیم و تکریم کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور ان سے کسی کو بالاتر نہیں رکھتے اور اہلبیت (ع) سے انصاف کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ ائمہ کے لیے وہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے جس کا انھوں نے خود دعویٰ نہیں کیا ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اہلبیت کے بغیر اٹھایا جائے گا۔
• روایت 13، روایت 12 کے پیغام کو تقویت دیتی ہے۔
• روایت 14: امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ غلات کی مجلس میں جانا بھی کسی کو دین سے خارج کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ پھر پیغمبر اکرم (ص) کا حوالہ دیتے ہیں: دو گروہ اسلام سے باہر ہیں – غالی اور وہ جو مطلق تقدیر پر یقین رکھتے ہیں۔
اہل بیت(ع) صرف اللہ کے بندے ہیں
• روایت 15: امام علی (ع) تنبیہ کرتے ہیں، "ہمارے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرو، اور کہو: ہم اللہ کے بندے ہیں اور اس کی ربوبیت میں رہتے ہیں۔”
• روایت 16: امام صادق (ع) نے اپنے زمانے کے مشہور غلایوں کے نام – مغیرہ بن سعید، حمزہ بن بروری، حارث، عبداللہ ابن حارث، اور ابو الخطاب – بیان کر کے اس بات پر روشنی ڈالی کہ انہوں نے اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے ائمہ کے نام پر ہزاروں روایات گھڑ لیں۔ یہ من گھڑت روایات اکثر حدیث کی کتابوں میں نظر آتی ہیں۔
شیعہ مذہب میں بغیر تحقیق کے کوئی روایت قبول نہیں
ائمہ علیہم السلام نے واضح کیا ہے: شیعہ عقیدہ ہر حدیث کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کرتا۔ کسی روایت کو قرآن کے خلاف پرکھا جائے اور اس کے راوی کی اعتباریت اور اخلاص کا جائزہ لیا جائے۔ کوئی بھی روایت جو قرآن سے متصادم ہو اسے رد کر دینا چاہیے۔ بدقسمتی سے، آج بہت سے لوگ اس اصول کو نظر انداز کر چکے ہیں اور منتخب طور پر غلو کی احادیث کو فروغ دیتے ہیں، یہاں تک کہ مشہور و معروف لوگوں سے بھی اس طرح کی من گھڑت روایات سننے کو ملتی ہیں۔