فتنہ سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے خود کو معاشرے سے الگ نہ رکھیں۔ اس کے بجائے، اس رسی سے جڑے رہیں جو معاشرے کو متحد کرتی ہے۔ فتنہ کے دور میں، مرکزیت سے جڑے رہنا آپ کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔
سماجی فتنوں سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ مرکزیت سے متصل رہنا ہے

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 25 اپریل 2025
خطبہ 1: سماجی فتنوں سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ مرکزیت سے متصل رہنا ہے
خطبہ 2: نظام امامت کے قیام کے لیے اپنے اندر رغبت پیدا کئے بغیر شیعت کا دعویٰ کرنا بیکار
دور حاضر میں انسان جس بڑے خطرے کی زد میں ہے وہ فتنوں کا خطرہ ہے۔ اگر انسان ان فتنوں کے بارے میں صحیح آگہی نہ رکھتا ہو یا ان سے بچنے کی تدبیر اسے معلوم نہ ہو تو یہ انسان فتنوں کی لپیٹ میں آ کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔ قرآن کریم سورہ انفال کی آیت نمبر ۲۵ میں انسان کو فتنوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ {25}
ان فتنوں کے مقابلے میں تقویٰ اختیار کرو جو صرف ظالمین سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ظالم و مظلوم دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
امیر المومنین (ع) نے ان فتنوں کے بارے میں مومنین کی رہنمائی فرمائی ہے اور فتنوں سے محفوظ رہنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ امیرالمومنین کی ہدایات خاص طور پر اس وجہ سے بھی اہم ہیں کہ انہوں نے عظیم فتنوں کا دور دیکھا اور ان کا مقابلہ کیا۔ امیرالمومنین(ع) نے ہمیں اس بارے میں بھی آگاہی دی ہے کہ فتنہ کیسے پیدا ہوتا ہے، اس کی پرورش کیسے ہوتی ہے، اور پھر مضبوط اور طاقتور ہو کر وہ تباہی کیسے پھیلاتا ہے۔ نہج البلاغہ اور امیر المومنین کے خطبات پر مشتمل دیگر کتب میں بھی فتنوں سے متعلق یہ خطبہ پایا جاتا ہے۔
فتنے کے تباہ کن نتائج
نہج البلاغہ کے خطبہ 149 میں آپ (ع) فرماتے ہیں کہ جب فتنہ تباہی کا باعث بنتا ہے تو اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج بے قابو ہو جاتے ہیں اور لوگ اپنے آپ کو بچانے کے قابل نہیں رہتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب فتنہ پیدا ہوتا ہے تو وہ زلزلے اور آندھی کے مانند معاشرے کو زیر و زبر کر دیتا ہے اس وقت استقامت اور پائیداری رکھنے والے لوگوں کے حوصلے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور فتنوں کے سامنے وہ بھی ڈگمگا جاتے ہیں بہت ساری بڑی بڑی شخصیات گمراہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب فتنہ کے بادل چھا جاتے ہیں تو لوگوں کے ایمان اور یقین میں خلل پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ فتنے میں جھانکتے ہیں فتنہ انہیں چکنا چور کر دیتا ہے اور جو لوگ اس کی پرورش میں حصہ لیتے ہیں فتنے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ فتنے کے زیر اثر لوگوں کی حالت ان گدھوں جیسی ہے جو بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں، فتنے کی گرفت میں آئے ہوئے لوگ حقیقی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی، تہمت زنی اور ایک دوسری کی کردار کشی کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا عالمی فتنے کی ایک مثال
فتنے کی ایک مثال آج ہمارے موجودہ دور میں عالمی اور مقامی طور پر واضح نظر آ رہی ہے۔ فتنہ اتحاد کے ان بندھنوں کو کھول دیتا ہے جن سے امت مضبوط ہوتی ہے۔ حقائق اور سچائیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے تاکہ لوگ ان کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں۔ فتنوں کے دور میں حکمت کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ حماقتوں کے چشمے بہنے لگتے ہیں۔ جاہل اور نادان علم و دانش کے ترجمان بن جاتے ہیں، جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں، جہاں سوشل میڈیا مقامی اور بین الاقوامی معاملات پر رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے دانشور اور اہل فن کی بجائے نادان، جاہل اور بے وقوفوں کا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ لوگ اپنی جہالت کو حکمت سمجھنے لگے ہیں اور بے تابی سے اسے پھیلاتے جا رہے ہیں۔
عالمی فتنوں اور نجی فتنوں سب میں ایسا ہی ہے۔ امیر المومنین کی پیشنگوئی آج بالکل واضح نظر آتی ہے۔ جب فتنے اٹھتے ہیں تو ایک قوم دوسری قوم کو کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک شخصیت دوسری شخصیت کا گوشت نوچنے لگتی ہے۔
شہر اور دیہات کوئی فتنوں سے محفوظ نہیں
امیر المومنین فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ فتنے صرف شہروں میں پیدا ہوتے ہیں اور شہروں کو برباد کرتے ہیں بلکہ دیہاتی بدو بھی فتنوں کی آگ سے محفوظ نہیں رہتے، فتنوں کا ہتھوڑا ان کی ہڈیوں کو بھی چکنا چور کر دیتا ہے۔ یہاں مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے بدن کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں بلکہ فتنوں کا ہتھوڑا ان کے دین و ایمان کی ہڈیاں توڑ کر انہیں ہوا میں بکھیر دیتا ہے اس لیے کہ وہ اپنی مرکزیت سے الگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان فتنوں کی آگ سے وہی محفوظ رہتا ہے جو اپنی مرکزیت سے جڑا ہوا ہو۔
فتنوں کے اسباب و نتائج اور انسان کا انتخاب
جب فتنہ کسی بستی میں داخل ہوتا ہے تو اس میں تلخیاں اور پریشانیاں لے کر آتا ہے خوشیاں اور خوشخبریاں لے کر نہیں آتا۔ اللہ نے الہی سنتیں قائم کی ہیں جو کائنات پر حاکم ہیں، جن کے مطابق ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی سبب اور اثر ہوتا ہے۔ کچھ اسباب اور نتائج تلخ اور مہلک ہیں اور کچھ اسباب و نتائج نجات کے راستے ہیں۔ انسان کو ان میں انتخاب کی آزادی دی گئی ہے۔ انسان کو اپنی عقل و بصیرت سے نجات کے راستے انتخاب کرنا چاہیے اور ہلاکت کے راستوں سے بچنا چاہیے، لیکن جب فتنہ ظہور پذیر ہوتا ہے تو یہ انسانوں کو ایسے راستے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے جو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب فتنہ پھیلتا ہے تو جو لوگ ابتدا میں دودھ پلا پلا کر فتنوں کی پرورش کر رہے تھے ان سے اب دودھ کے بجائے خون ٹپکتا ہے۔
عصر فتن میں علماء کی ذمہ داری
پرامن دور میں علماء لوگوں کی رہنمائی اور نصیحت کرتے ہیں۔ ماضی کے علماء یہ کام کرتے تھے انہوں نے نصیحت کرنے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں اپنا فرض پورا کیا، لیکن آج کے علماء سے زیادہ تر جو چیز نظر آتی ہے وہ فرقہ واریت ہے۔ وہ مادیت پرستی ہے۔ علمائے کرام کی حیثیت صرف ان کے علم کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس علم کے اثرات یعنی حکمت، رہنمائی اور لوگوں کو برائی سے بچانے کی وجہ سے ہے جو دودھ کی پاکیزگی کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود امیرالمومنین (ع) اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ فتنہ کے زمانے میں ان سے دودھ کے بجائے خون اور پیپ ٹپکتی ہے۔
فتنوں کو مٹانے میں دین کے مناروں کا کردار
فتنہ دین کے منارے کو گرا دیتا ہے منارہ اس اونچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے نور پھیل رہا ہو۔ گزشتہ زمانے میں مساجد یا بندرگاہوں کے اوپر ایک لمبا ٹاور بنا کر اس میں چراغ جلاتے تھے تاکہ دور سے آنے والی کشتیوں کو پتہ چل جائے کہ ساحل قریب ہے۔
وہ شخصیات یا مراکز جن کی سوچ نورانی ہو جن کے افکار نورانی ہوں جن سے لوگوں کو ہدایت اور رہنمائی ملے وہ معاشرے کے اندر مناروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن مولانا روم کے بقول ’ نه هر که سر بتراشد قلندری داند‘ جس نے لمبی لمبی زلفیں رکھی ہوں ضروری نہیں ہے کہ وہ قلندر ہو۔ ممکن ہے اس کو حجام نہ ملا ہو یا کسی اور وجہ سے اس نے زلفیں لمبی کر لی ہوں۔ لمبی زلفیں رکھنے والا ہر کوئی قلندر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ضروری نہیں ہے کہ ہر اونچا ٹاور منارہ ہو آج مسجدوں پر اونچے اونچے ٹاور بنا کر نام منارہ تو رکھا دیا جاتا ہے لیکن وہاں سے نور نہیں پھیلتا یا صرف پرندے اس پر آ کر بیٹھتے ہیں یا ان پر لوڈ اسپیکر لگا دیے جاتے ہیں اور لوڈ اسپیکر سے بھی نورانی باتیں سنائی نہیں دیتی بلکہ فرقہ واریت، نفرت اور دشمنی کی باتیں پھیلاتی جاتی ہیں۔ نام تو منارہ ہے اور منارہ سے نور نکلنا چاہیے لیکن نور کے بجائے ظلمت نکلتی ہے۔ روشنی کے بجائے اندھیرا پھیلایا جاتا ہے۔
رسول خدا(ص) دو منارے امت کے لیے چھوڑ کر گئے قرآن اور اہل بیت(ع)۔ ہر دور کے فتنوں نے سب سے پہلے اہل بیت(ع) کو نشانہ بنایا اور اس منارہ ہدایت کو گرانے کی کوشش کی۔
طوفانی فتنوں میں اہل بصیرت کی احتیاطی تدبیریں
فتنہ یقین کی گرہیں کھول دیتا ہے، لوگوں کو اللہ، رسول اور ان کے دین کے بارے میں شک میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ فتنہ جب طوفانوں کی شکل اختیار کرتا ہے تو عقل و بصیرت والے تصادم سے بھاگ جاتے ہیں اور صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مزاحمت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، محض حفاظت کی امید رکھتے ہیں، اور اس طرح جاہل، نادان اور مجرم لوگوں کے لیے میدان خالی چھوڑ دیتے ہیں۔
امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ یہ طوفان کی شکل کا فتنہ جب آتا ہے تو اس کے اندر گرج اور چمک پائی جاتی ہے وہ لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے چیختا چنگاڑتا ہوا آتا ہے۔ لوگوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے فتنہ زبردستی آگے بڑھتا ہے۔ اس طرح کی افراتفری کے دوران، عربوں کو بھی بھاگنے کے لیے اپنے لمبے کرتے کو گھٹنوں تک اٹھانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بےنقاب ہو جاتے ہیں۔ امیر المومنین نے محاورے استعمال کیے ہیں کہ فتنے جب آتے ہیں پوری گرج چمک کے ساتھ آتے ہیں، اور لوگوں کی چھپی ہوئی چیزوں کو بے نقاب کر دیتے ہیں انہیں ننگا کر دیتے ہیں، رشتہ داریاں ختم کر دیتے ہیں، بھائی کو بھائی سے دور کر دیتے ہیں، گھر اجڑ جاتے ہیں، سماج بکھر جاتے ہیں۔
فتنوں میں گھسنا ہلاکت اور درکنار رہنا مصیبت
امیر المومنین فرماتے ہیں کہ ایسے ماحول میں اگر تم فتنے سے الگ ہو گئے تو بیمار ہو جاؤ گے اور اگر فتنے میں گھس گئے تو ہلاک ہو جاؤ گے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جو لوگ فتنے میں گر جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں یا خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ جو مارے جاتے ہیں ان کا قصاص بھی نہیں لیا جا سکتا چونکہ قاتل کا پتہ نہیں ہوتا فتنوں میں مارا گیا قاتل معلوم نہیں، بدلہ کس سے لیا جائے گا۔ لیکن خوفزدہ ہو جاتے ہیں وہ اپنے لیے پناہ گاہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور فریبکار اور مکار مومن بن کر انہیں پہلے پناہ دیتا ہے اور پھر فتنے سے زیادہ برا حشر وہ ان کا کرتا ہے۔ اب جس نے پناہ لی وہ پچھتاتا ہے کہ کاش فتنے میں رہ کر مر جاتا بہتر تھا اس منافق کی پناہ حاصل کرنے سے۔ چونکہ اس کی پناہ گاہ میں نہ اس کی عزت بچی، نہ آبرو بچی، نہ مال بچا، نہ حیثیت بچی۔
فتنوں کے دوران تقویٰ کیسے اختیار کرو؟
فتنہ کے دوران انسان کیسے خود کو بچائے اور تقویٰ اختیار کرے؟ امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں کہ فتنہ کے علمبردار نہ بنو۔ فتنوں کے وقت، بعض گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ ایک فارسی کہاوت ہے، "ایک مچھیرا مچھلی پکڑنے کے لیے پانی کو کیچڑ بنا دیتا ہے،” کیونکہ مچھلی کیچڑ والے پانی میں جال نہیں دیکھ سکتی۔ فتنہ جتنا گہرا ہو گا، ایسے موقع پرستوں کے لیے اتنے ہی زیادہ اس میں فائدے ہیں۔
یہ چیز امریکی سیاست میں واضح ہے، جو تجارت کو فروغ دینے کے لیے دنیا بھر میں جنگیں اور بحران پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، چین اپنی مصنوعات کے لیے کھلے تجارتی راستوں کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی امن کا خواہاں ہے۔ امریکی صدر نے اپنی صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے ہی دن اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کے سودے کے لیے مودی اور بن سلمان سے رابطہ کیا – ہتھیار جو صرف جنگ کی صورت میں خریدے جائیں گے۔ اور اگر جنگ کہیں نہیں ہو گی تو ٹرمپ جیسے رہنما خود شروع کر سکتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک کاروبار اور خوشحالی کی جڑیں فتنوں میں ہیں، اس لیے وہ فتنے کے حامی، علمبردار اور اس کی علامتیں بن جاتے ہیں۔
فتنوں سے بچنے کا واحد راستہ مرکزیت سے متصل رہنا
فتنہ سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے خود کو معاشرے سے الگ نہ رکھیں۔ اس کے بجائے، اس رسی سے جڑے رہیں جو معاشرے کو متحد کرتی ہے۔ فتنہ کے دور میں، مرکزیت سے جڑے رہنا آپ کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ میں ہمیشہ لوگوں کو ہر جگہ مرکزیت قائم کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر، پنجاب، سندھ، اور کوئٹہ میں شیعہ کی بڑی آبادی ہے، لیکن کوئی مرکزیت موجود نہیں ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک مرکزیت ہے، حالانکہ یہ بھی اتنی مضبوط مرکزیت نہیں ہے۔ تاہم، مرکزیت سے جڑا رہنا بہت ضروری ہے، ورنہ فتنہ آپ کو کھا جائے گا۔
امیر المومنین (ع) فتنوں سے محفوظ رہنے کا نسخہ بتا رہے ہیں کہ فتنوں کے دور میں مرکزیت سے الگ نہ ہونا ورنہ شریر لوگوں کے ہاتھ لگ جاؤ گے۔ دینداری کا لبادہ اوڑھے ہوئے کسی دھوکے باز کے ہاتھ لگ جاؤ گے اور وہ تمہارے مال و دولت، عزت و آبرو اور حتیٰ دین و ایمان کا بھی صفایا کر دیں گے۔ لیکن اگر مرکزیت سے جڑے رہے تو تمہارا سب کچھ محفوظ رہ سکتا ہے۔ مرکزیت سے جڑنے کا مطلب کیا ہے؟ مرکزیت سے جڑنے کا مطلب ایک رہنما اور ایک لیڈر کے پیچھے ہو جاؤ اور قوم میں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرو اور سب مل کر فتنوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ۔ فتنوں سے بچنے کا یہی معقول طریقہ ہے اور یہی قرآنی تقویٰ اور حفاظتی تدبیر ہے۔
اپنے آپ کو شیطان کے پھندوں سے بچائیں اور دشمن کے بچھائے ہوئے جال میں نہ پڑیں۔ حرام کھانے سے پرہیز کریں۔ لقمہ حرام کھا کر کس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں۔ جس خدا نے اس لقمہ کو حرام کیا ہے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے لوگوں کی نظروں سے تو بچ سکتے ہو لیکن خدا کی نگاہوں سے نہیں بچ سکتے۔
یہ نہج البلاغہ کا ایک خطبہ تھا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ورنہ نہج البلاغہ کا ہر خطبہ تقویٰ کی عملی تصویر کو پیش کر رہا ہے جو انسان کی زندگی کو محفوظ بنانے میں بہترین کارساز ہے۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو لباس تقویٰ زیب تن کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خطبہ 2
مواریث انبیاء کو منتقل کرنے میں امام صادق(ع) کا کردار
انسانی زندگی کی ہدایت اور حفاظت کے لیے اللہ نے جو اہتمام کیا ہے ان میں انبیاء کرام کو بھیجنا، آسمانی کتابوں کو نازل کرنا، آئمہ ہدیٰ کا سلسلہ قائم کرنا ہے۔ انبیاء کی تعلیمات اور وراثت کو آگے منتقل کرنے میں سب سے زیادہ اگر کسی امام کو موقع ملا تو وہ امام صادق علیہ السلام ہیں۔ آپ نے انبیاء اور دیگر ائمہ کے مقاصد کو پورا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو جو ذمہ داریاں سونپی وہ اکثر ان کی قوموں کی طرف سے پیدا کی جانے والی مشکلات اور دشواریوں کی وجہ سے ادھوری رہ گئیں۔ قرآن جابجا ان مشکلات کی عکاسی کرتا ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ امتوں نے کس قدر اپنے نبیوں کو پریشان کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا کہ کسی نبی کو اتنا نہیں ستایا گیا جتنا مجھے ستایا گیا۔ اور یہی مصائب ان کی اولاد بالخصوص علی (ع) اور ان کی اولاد پر بھی ڈھائے گئے۔ اگر یہ ظالم اور سرکش قومیں نہ ہوتیں، بنوامیہ اور بنوعباس جیسے درندہ صفت لوگ نہ ہوتے تو آج دنیا کا نقشہ اور اس کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ انہوں نے ائمہ کی کوششوں کو ناکام بنایا اور ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ آج بھی ایسے جاہل، منافق اور فتنہ گر لوگ موجود ہیں جو اپنے آپ کو پیغمبر اکرم کی امت میں شمار کرتے ہیں اور ائمہ سے وابستگی کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن نبوت اور امامت کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔
مکتب جعفریہ مواریث انبیاء کا جامع نظام
امام صادق علیہ السلام نے اس مشن کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ انبیاء اور ائمہ کی وراثت اور تعلیمات کو باقاعدہ ایک جامع مکتب اور نظریاتی بنیاد کی صورت میں منظم کیا۔ انہوں نے مذہب کے بکھرے ہوئے اقوال کو ایک ایسے ڈھانچے میں بدل دیا جو سماجی اور مذہبی نظام کو سہارا دے سکے۔ اور باآسانی اس مضبوط ڈھانچے پر دینی سماجی نظام قائم کیا جا سکے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سماجی کے اندر امام صادق علیہ السلام کی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکی۔ امام صادق (ع) کا مکتب اگرچہ مدارس میں پڑھایا جاتا تھا، لیکن 1,200 سال بعد صرف ایک شخص امام خمینی(رہ) کے نام سے نمودار ہوا جو آپ کی تعلیمات پر معاشرتی نظام کی تعمیر میں کامیاب ہوا۔
معاشرتی نظام کے قیام میں امام صادق(ع) کو درپیش چیلنج
امام صادق (ع) کو اس معاشرتی نظام کی تعمیر میں درپیش سب سے بڑا چیلنج ان کے زمانے کے لوگوں میں رغبت کا فقدان تھا۔ اگرچہ 34 سالوں میں آپ کے 4,000 شاگرد پیدا ہوئے، لیکن جب امام کو واقعی ان کی ضرورت تھی، تو چار بھی ان کے ساتھ نہیں تھے۔ یہ شاگرد امام صادق علیہ السلام کے بے مثال علم و حکمت کو پہچانتے ہوئے ان کے پاس آئے اور ان سے علم کی سندیں حاصل کر کے اپنے زمانے کی ظالم حکومتوں کے قاضی اور مفتی بن گئے۔ لیکن اس نظام کو عملی شکل دینے میں انہوں نے امام کا ساتھ نہ دیا۔
امام صادق کے واقعی پیروکاروں کی تعداد ایک روایت کی روشنی میں
اصول الکافی کی جلد 2 میں ایک روایت ہے جو حماد الانصاری السدیری بیان کرتے ہیں کہ وہ امام صادق (ع) کی زیارت کے لیے گئے اور وہ خود بھی امام صادق اور امام محمد باقر علیہما السالم کے شاگردوں میں سے تھے۔ انہوں نے امام سے سوال کیا کہ آپ زمانہ کی مختلف عوامی تحریکوں کے درمیان کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟ سدیر کا مطلب یہ تھا کہ امام کیوں دوسروں کی طرح کوئی تحریک چلا کر قیام نہیں کرتے۔ امام صادق (ع) نے پوچھا کہ کیا آپ میری خاموشی کو ناجائز سمجھتے ہیں؟ سدیر نے جواب دیا، کہ آپ کے چاہنے والے، آپ کے شیعہ اس وقت کثرت سے پائے جاتے ہیں جبکہ بنی امیہ اس وقت کمزور ہو چکے ہیں اور بنوعباس اقتدار کو ہاتھ میں لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں جتنے آپ کے شاگرد ہیں اتنے اگر امیرالمومنین علی (ع) کے پاس ہوتے تو وہ قیام کرتے۔
امام صادق (ع) نے سدیر سے کہا کہ وہ اندازہ لگائے کہ امام کے کتنے پیروکار ہیں؟ سدیر نے جواب دیا: شاید ایک لاکھ۔ امام نے دوبارہ سوال کیا، اور سدیر نے تعداد دو لاکھ تک بڑھا دی، یہاں تک کہ یہ دعویٰ کیا کہ آدھی مسلم دنیا امام کی پیروی کرتی ہے۔ امام صادق (ع) خاموش رہے، پھر سدیر سے پوچھا کہ کیا وہ مدینہ کے باہر کسی چشمے کی طرف آپ کے ساتھ جائیں گے؟ سدیر راضی ہو گیے، اور امام نے ایک خچر اور ایک گدھا منگوایا۔ جب سواریاں تیار ہو گئیں تو سدیر گدھے پر سوار ہو گئے۔ امام نے فرمایا: تم میری سواری پر کیوں بیٹھے ہو؟ سدیر نے جواب دیا کہ گدھا امام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ خچر بہتر ہے. لیکن امام صادق (ع) نے اصرار کیا کہ وہ گدھے کو ترجیح دیتے ہیں، چنانچہ سدیر خچر پر سوار ہوئے۔
چلتے چلتے نماز کا وقت ہو گیا اور سدیر ایک پانی کی جگہ پر رک گئے۔ امام صادق (ع) نے کہا کہ یہاں کھاری زمین اور نمکین پانی ہے یہاں نماز نہیں پڑھیں گے، پھر آگے بڑھے کہ ایک سرخ مٹی والی زمین پر پہنچے وہاں امام نے ایک لڑکے کو بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دیکھا اور سدیر سے فرمایا: تم نے دعویٰ کیا کہ میرے پاس آدھی دنیا ہے، اگر میرے اس ریوڑ کے برابر بھی پیروکار ہوتے تو میرے لیے خاموش رہنا اور قیام نہ کرنا جائز نہ ہوتا۔ نماز کے بعد سدیر نے بھیڑیں گنیں تو کل ریوڑ کے اندر سترہ بھیڑیں تھیں۔
نظام امامت کے قیام کے لیے رغبت کا ہونا ضروری
امام نے واضح کر دیا کہ ہماری پیروی کا دعویٰ کرنے والے تو بہت ہیں لیکن ان پیروکاروں کے اندر نظام امامت کو قائم کرنے کی کوئی واقعی رغبت نہیں پائی جاتی۔ انہوں نے امام سے ذاتی یا فکری وجوہات کی بنا پر رابطہ کیا، نہ کہ الہی ہدایت یافتہ نظام کی تعمیر کے لیے۔ اگرچہ اس وقت چار ہزار طالب علم تھے لیکن اب تک چالیس ملین طالب علم دنیا بھر کے مدارس کے ذریعے امام صادق علیہ السلام کی تعلیم حاصل کر چکے ہوں گے۔ لیکن ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس نظام کے لیے صحیح معنوں میں رغبت رکھتے ہیں جس کے لیے امام زمانہ (عج) ہمیں ’’دولتِ کریمہ‘‘ یعنی ایک عظیم اسلامی طرز حکمرانی کے قیام کی رغبت پیدا کرنے کی تاکید کرتے ہیں کہ تم اللہ سے دعا مانگو؛ ’’اللھم انا نرغب الیک فی دولۃ کریمۃ‘‘۔
نظام امامت کے قیام کی راہ میں غالی ایک رکاوٹ
امام صادق (ع) نے فرمایا کہ ان نام نہاد پیروکاروں میں سے بہت سے غالی ہیں – جنہوں نے حقیقی اسلام سے بغاوت کی ہے۔ وہ ائمہ کے نام بیچتے ہیں اور اس طرح انہیں شیعہ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ان کی حمایت پر قیام نہیں کر سکتے۔ لوگ نام ائمہ کا استعمال کرتے ہیں، نام کربلا اور نجف کا استعمال کرتے ہیں لیکن بیعت ابو سلمہ خراسانی جیسے دھوکے بازوں کے ہاتھ پر کرتے ہیں، جس نے بنو عباس کے لیے ایک لشکر تیار کرنے کے لیے اہل بیت (ع) کے ناموں کا استعمال کیا۔ امام (ع) نے فرمایا: "ابو سلمہ ہم میں سے نہیں ہے” اور انہوں نے مغیرہ بن سعید اور ابو الخطاب پر لعنت بھیجی جنہوں نے امام باقر (ع) کے نام سے روایتیں گھڑ لیں۔
آج بھی ایسا ہی ہے، آج بھی سترہ سچے پیروکار نہیں ہیں، بازار دھوکے بازوں سے بھرا ہوا ہے جو منبروں سے اماموں کے ناموں کا کاروبار کرتے ہیں۔ کیا ہم انہیں شیعہ شمار کر سکتے ہیں؟ یہ ایک المیہ ہے۔
نجی طور پر نظام امامت کا قیام عمل ضروری
پاکستانی شیعوں کو آپس میں امامت کا نظام قائم کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ آپ کے اپنے معاشروں اور گھروں میں، جہاں آپ کو کوئی نہیں روکتا، آپ یہ نظام بنا سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں نہ بھی ہو سکے تو مقامی طور پر اس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے رغبت کی ضرورت ہے — اور یہ رغبت غائب ہے۔ امام زمانہ (عج) ہم سے اسلامی حکومت کے قیام کی رغبت کے لیے دعا مانگنے کی تاکید کرتے ہیں جو اسلام کی عزت اور اس کے دشمنوں کے لیے ذلت کا باعث ہو۔
اگر امام صادق علیہ السلام انتخابات کے موسم میں حاضر ہو کر پوچھیں کہ "کتنے میرے ساتھ ہیں اور کتنے طاغوت کے ساتھ ہیں؟” تو اس کی تلخ حقیقت کیا ہوگی؟ رغبت کی یہ کمی امامت کے ہر دور میں برقرار رہی ہے۔ آخرکار، اللہ (ص) امامت کا تحفہ اٹھاتے ہوئے پوچھ سکتا ہے "تمہیں اماموں کی ضرورت کیوںکر ہے جب تم ان کے ساتھ معبودوں کی طرح سلوک کرتے ہیں، لیکن ان کے نظام کے تحت رہنے سے انکار کرتے ہیں؟” اگر ہم صحیح معنوں میں اپنے اندر رغبت پیدا کریں تو امام کا ظہور ہو جائے گا۔ رَغَبَت محض تقریر میں نہیں ہے بلکہ یہ عملی رجحان اور عملی جھکاؤ سے متعلق ہے۔ اگر آپ کچھ چاہتے ہیں، تو آپ اس کا پیچھا کریں گے؛ رغبت کے بغیر، یہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر رغبت ہوتی تو آج نظام امامت ہمارے پاس ہوتا صرف امامت کا عقیدہ یا امامت کی رسمیں نہ ہوتیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ زمین میں الہی نظام کو نافذ کرے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اہل زمین کے اندر اس نظام کے قیام کی رغبت پیدا ہو جائے۔ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہمارے اندر دولت کریمہ کی رغبت پیدا فرمائے۔