فتنے میں حق کو پہچاننے کا دوسرا ذریعہ امام ہے، لیکن امام وہ جسے قرآنی نقطہ نظر سے امام سمجھا جاتا ہے، نہ کہ وہ امام جو صوفی اور کلامی اصطلاح میں پیش کیا جاتا ہے۔ صوفیانہ امام زمین کے علاوہ ہر چیز کا حاکم ہے لیکن اہل زمین کا حاکم نہیں ہے۔
فتنے کی پہچان کے لیے عقل و شعور اور امام کی ضرورت ہے

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 2 مئی 2025
خطبہ 1: فتنے کی پہچان کے لیے عقل و شعور اور امام کی ضرورت ہے
خطبہ 2: غالیوں سے مکمل طور پر رابطہ ختم کرنے پر امام رضا علیہ السلام کی تاکید
فتنہ کسے کہتے ہیں؟
فتنہ ایک ایسی چیز ہے جس سے معاشرے میں فکری طور پر الجھنیں پیدا ہوتی ہیں عملی طور پر جنگیں رونما ہوتی ہیں، اختلافات پیدا ہوتے ہیں، فرقے بنتے ہیں، مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے اور اقتدار کی رسہ کشی ہوتی ہے، اور ہر بہانے سے انسانی معاشرے کے اندر خلل پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایسی کیفیت بنتی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور اس کی سوجھ بوجھ ختم ہو جاتی ہے، حق و باطل کی تشخیص نہیں دے سکتا، اس کیفیت کو فتنہ کہتے ہیں۔ یہ فتنہ انسانوں اور انسانی معاشروں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس لیے فتنوں کے مقابلے میں تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔
فتنے اور فریضہ کی پہچان ضروری
امیرالمومنین (ع) نے فتنوں کے بارے میں سب سے بہترین جانکاری دی ہے اس لیے کہ آپ کا دور شدید فتنوں کا دور تھا۔ فتنوں کے دور میں ایک چیز جو انسان کے لیے پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان صحیح صورتحال کا تجزیہ نہیں کر سکتا۔ وہ معاملے کی حقیقت کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ وہ اپنے سامنے جو کچھ دیکھتا ہے اس پر قائم ہو جاتا ہے اور یہ فرق پیدا نہیں کر سکتا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ فتنہ ہے یا فرض- اس طرح وہ فرض سمجھ کر فتنے میں شریک ہو جاتا ہے۔
فتنہ کی تشخیص کے لیے عقل و شعور کی ضرورت
فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو عقل و شعور کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ صرف جسمانی صلاحیتیں فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس سے آج انسانی شعور غیر انسانی اسباب کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ آج مکمل طور پر انسانی شعور میڈیا کے اختیار میں ہے۔ میڈیا انسانی شعور کو جدھر موڑتا ہے انسان روبوٹ کی طرح اس میڈیا یلغار کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ لیکن جو شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر مقرر فرمایا ہے اس کا نام عقل ہے۔ یہ عقل جسمانی حواس و اعضاء و جوارح کے مقابلے میں آہستہ آہستہ نشوونما پاتی ہے۔ شعور کا مرکز انسان کی عقل ہے۔ بسا اوقات انسان پیدائشی طور پر یا سماجی اور ماحولیاتی طور پر کچھ ایسی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر عقل رشد و نمو نہیں کر پاتی۔ بلکہ ابتدائی درجہ پر ہی رہ جاتی ہے جس کے نتیجے میں انسان پر حماقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جسے دیوانہ پن کہتے ہیں۔ لیکن کچھ افراد کے اندر عقل تو ہوتی ہے لیکن وہ عقل کا صحیح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بے شعوری اور حماقت کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے اندر حق و باطل کی تشخیص کی صلاحیت نہیں ہوتی، جس بنا پر انہیں احمق اور بےوقوف انسان کہا جاتا ہے۔
شعور سے کیا مراد ہے؟
شعور سے مراد باریک اور دقیق آگاہی ہے۔ شعور عربی میں ’’شعر‘‘ سے نکلا ہے شعر کا مطلب بال ہے۔ اور شعور بال کی تشخیص کو کہتے ہیں۔ بال اتنا باریک ہوتا ہے جو بھوسے میں نظر نہیں آتا۔ بھوسے میں بال کی تشخیص کے لیے تیز باریک اور دقیق نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا جس طرح بھوسہ میں بالوں کا ایک تنکا تلاش کرنا مشکل ہے، اسی طرح فتنہ کے دوران باریک اور چھپی ہوئی حقیقتوں کو پہچاننے کے لیے باریکی بینی اور دقیق نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
امام کائنات کا مرکز اور امت کا دل ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک پوری کائنات بنائی ہے اور اس داخلی کائنات کا ایک مرکزی ادارہ بنایا ہے جس کا نام عقل ہے۔ اسی طرح انسانی سماج میں بھی اللہ نے اس کائنات کے اندر ایک مرکزی ادارہ قائم کیا ہے جس کو امام کہتے ہیں۔ روایات کے مطابق معاشرے میں امام قلب اور عقل کا درجہ رکھتا ہے۔ یعنی جہاں سے معاشرے کو شعور ملتا ہے وہ امام ہے۔ امام صادق (ع) نے یہ چیز اپنے ایک شاگرد ہشام کو تعلیم دی تھی، ہشام کا ایک بار کوفہ کے ایک عالم سے مقابلہ ہوا جو لوگوں کو امامت کے تصور میں الجھا رہا تھا۔ ہشام نے وضاحت کی کہ امام جسم میں دل کے مانند ہے جو تمام کاموں کے لیے ضروری ہے۔ یہ سن کر عالم نے پہچان لیا کہ ہشام امام صادق علیہ السلام کا شاگرد ہے۔ امام نے ہشام کی تعریف کی اور دوسروں کو بھی ان جیسا بننے کی تاکید کی۔
فتنوں کی تشخیص امام کا کام
بدقسمتی سے، بعض شیعوں کے درمیان امام کے تصور کو صوفیانہ افکار نے مسخ کر دیا ہے۔ یہ دونوں مکاتب فکر قرآنی امام کے تصور کے مخالف نظریات پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں امام صرف ایک روحانی شخصیت ہے، جو سماجی قیادت سے لاتعلق ہے۔ اس کے برعکس، قرآنی امام وہ شخص ہے جسے لوگوں کے امور پر اختیار دیا گیا ہے، جس کو ان کی قیادت اور رہنمائی کا کام سونپا گیا ہے۔ قرآنی امام ہر دور میں موجود ہے۔ وہ براہ راست اللہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے، جیسے انبیاء یا ان کے جانشین یا نمائندے۔ انبیاء اور منصوص امام کی عدم موجودگی بطور کلی امام کی ضرورت کی نفی نہیں کرتی، بلکہ اگر امام معصوم حاضر نہیں ہے تو نائب امام کے پاس سارے اختیارات موجود ہیں۔ یہی امامت کا تسلسل ہے۔ جس طرح ہر دور میں عقل انسانی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح لوگوں کو امام کے بغیر چھوڑنا اللہ کی حکمت کے خلاف ہے۔ جس طرح انسان کو عقل کے بغیر رکھنا عدل الہی کے خلاف ہے اسی طرح کسی معاشرے کو امام کے بغیر رکھنا عدل الہی کے خلاف ہے۔ امام کا کام فتنوں کو تشخیص دینا ہے۔ سخت اور پیچیدہ معاملات میں صرف امام یہ تشخیص دے سکتا ہے کہ فتنہ کیا ہے اور فریضہ کیا ہے۔
آج بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن میں انسان کی بے شعوری ثابت ہوتی ہے بہت سارے فرائض کو مومنین فتنہ سمجھ کر ان سے دست بردار ہو جاتے ہیں جبکہ وہ فرائض ہوتے ہیں۔ اور ان کے اندر مومنین کی حصہ داری ضروری ہوتی ہے۔
بنی امیہ کا فتنہ؛ خلیفہ کشی
امیر المومنین (ع) کا دور نہایت پیچیدہ دور تھا۔ تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد افراتفری کے درمیان خلافت ان کے پاس آئی۔ چونکہ قتل خلیفہ کے پیچھے جس گروہ کا ہاتھ تھا وہ بنی امیہ کا گروہ تھا جس نے پوری مہارت کے ساتھ خلیفہ کشی بھی کر دی اور امت کو ہمیشہ کے لیے فتنے میں دھکیل بھی دیا ۔ ایسے ماحول میں اقتدار امیرالمومنین (ع) کی چوکھٹ پر آیا۔ آپ اس کے باوجود کہ اس کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اگرچہ اقتدار آپ کی دہلیز پر متعدد بار آیا، لیکن آپ نے اسے ہمیشہ ٹھکرایا کیونکہ وہ صحیح راستے سے نہیں آرہا تھا۔
امیر المومنین کے دور میں فتنوں کی شدت کی وجوہات
آپ (ع) نے فرمایا کہ جو لوگ آپ کے پاس اقتدار لے کر آئے وہ کوئی نیک نیتی سے نہیں آئے، وہ وفادار اور پائیدار لوگ نہیں تھے لیکن ان کی بھیڑ نے امیرالمومنین پر حجت تمام کر دی اس لیے وہ اقتدار کی لگام سنبھالنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد آپ(ع) نے چند فوری اقدامات کئے؛ ایک تو جو اشرافیہ طبقے کے ذریعے بیت المال لوٹا گیا تھا اسے واپس خزانے میں لوٹایا گیا۔ دوسرا بڑا اقدام بدعنوان اور نااہل گورنروں کو برطرف کرنا تھا بشمول معاویہ بن ابی سفیان، جو شام کے گورنر تھے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مزید فتنوں نے سر اٹھایا اور اسی وجہ سے بعد میں خوارج کے فتنے نے جنم لیا۔ ان بڑے واقعات کے ساتھ ساتھ، بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی سامنے آئے چھوٹے ان بڑے واقعات کے مقابلے میں چھوٹے تھے ورنہ بذات خود تو وہ بھی بڑے فتنے تھے جن میں سے ایک کوفہ کے گورنر کی برطرفی تھی۔
کوفہ کے گورنر ابوموسی اشعری ایک متقی اور قابل احترام مذہبی شخصیت کے طور پر مانے جاتے تھے۔ ان کی برطرفی میں تاخیر کے مشورے کے باوجود علی علیہ السلام نے ان کی معزولی کا حکم جاری کیا۔ بعد ازاں شواہد نے ثابت کیا کہ ابوموسی اشعری گورنر کے عہدے کے قابل نہیں تھے، حتیٰ کہ علی (ع) کے مشیروں نے بھی اس کا اعتراف کیا۔
فتنے کی تشخیص میں ابوموسی اشعری کی نا اہلیت
جنگ جمل کے دوران بصرہ میدان جنگ بن گیا۔ مخالف لشکر مکہ (حجاز) سے آیا جبکہ علی (ع) مدینہ میں تھے۔ جنگ کہیں اور ہو سکتی تھی، لیکن حالات نے جنگ کا میدان بصرہ بنا دیا، جہاں علی (ع) نے مقامی گورنر یعنی ابوموسی اشعری جو حکومت امیرالمومنین میں کوفہ کے گورنر تھے کے پاس ایک وفد بھیجا تاکہ وہ خلیفہ المسلمین علی علیہ السلام کے لیے ایک لشکر آمادہ کریں، لیکن بصرہ کے گورنر نے مخالفت کرتے ہوئے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ہرگز یہ کام نہیں کریں گے، ابوموسی اشعری نے مسجد کوفہ میں جا کر خطبہ دیا جس میں کہا کہ یہ فتنہ ہے اس میں شامل نہ ہوں۔
انہوں نے پوری فصاحت و بلاغت سے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’فتنہ کے دور میں بہترین شخص وہ ہے جو گھوڑے پر سوار ہونے کے بجائے کھڑا ہو، اور اس سے اچھا آدمی وہ ہے جو بیٹھا ہو اور اس سے اچھا آدمی لیٹا ہوا ہے اور فتنے کے دور میں سونے والا سب سے اچھا آدمی ہے‘‘۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی ابوموسی اشعری کو بعد میں عمرو بن عاص کے خلاف ثالثی میں علی (ع) کا نمائندہ مقرر کیا گیا جہاں وہ بری طرح ناکام رہے۔ تب لوگوں کو اشعری کی اصلیت کا احساس ہوا۔ ان کے تقویٰ نے انہیں فتنے کو پہچاننے میں مدد نہیں کی کیونکہ یہاں تقدس نہیں بلکہ احساس اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو ابوموسی اشعری کے پاس نہیں تھی۔
شخصیتوں پر حق کو نہ پرکھو
جنگ جمل کی ایک اور مثال پیش کرتے ہیں؛ ایک صحابی نے علی (ع) کے پاس آکر کہا: "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جب آپ کے مدمقابل غیرمعمولی لوگ ہوں گے اور ان میں ام المومنین عائشہ (ع) شامل ہوں گی تو ہم آپ کی حمایت کریں گے؟” علی (ع) نے بے مثال حکمت کے ساتھ جواب دیا: "تمہارے اندر تنگ نظری پائی جاتی ہے، تم شخصیتوں کے اوپر حق کو پرکھ رہے ہو، جبکہ تم پہلے حق کو پہچانو، پھر دیکھو کہ کون اس کے ساتھ کھڑا ہے؟۔ ضروری نہیں کہ بزرگ یا مشہور شخصیات ہمیشہ حق کے ساتھ ہوں۔”
آج بھی لوگ حق کی بجائے شخصیات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ شخصیات انحراف کا شکار ہوتی ہیں، ان کے پیروکار پھر بھی ان کے وفادار رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیعوں میں مراجع تقلید کے پیروکار مختلف دھڑوں میں بٹ چکے ہیں، مختلف علماء کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ اب جب خود مراجع کے درمیان اختلافات پایا جاتا ہے تو ان کے پیروکاروں میں ان سے زیادہ شدید قسم کا اختلاف رونما ہوتا ہے۔ اصولی طور پر، یہ سب فرقے بن چکے ہیں۔ جہاں ایک بزرگ جو کچھ کہہ دے اس کے ماننے والے اس کی اندھی تقلید کر کے اس کے پیچھے ہو جاتے ہیں۔ لیکن دین میں معیار کسی بزرگ کا قول نہیں ہے بلکہ عقل اور دلیل معیار ہے۔ اگر کسی عالم نے دلیل کے ساتھ حق بات کہی تو یہاں اس کے پیچھے چلنا چاہیے لیکن اگر اس نے حق بیان نہیں کیا تو اس کو چھوڑ کر حق کا ساتھ دینا چاہیے، شخصیت کا نہیں۔
حق کا ساتھ دو، شخصیت کا نہیں
ہر دور میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ یہودیوں نے موسیٰ (ع) اور تورات کی بجائے اپنے ربیوں کی پیروی کی۔ جب عیسائیت کا ظہور ہوا تو لوگ بائبل کی بجائے پادریوں کی پیروی کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں آپ نے جو کچھ بھی پہنچایا وہ قرآن سے تھا، اور قرآن نے خود آپ کو تنبیہ کی ہے: "اے نبی ! اگر آپ کوئی چیز گھڑتے ہیں اور ہماری طرف منسوب کرتے ہیں تو ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔”
اسلام میں حق کا معیار
لہذا اسلام میں قرآن، سنت رسول اور سیرت اہل بیت(ع) معیار حق ہیں۔ فتنے کے دوران انسان کو بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، جو عقل سے آتی ہے، بشرطیکہ عقل تربیت یافتہ ہو اور وہ عقل سلیم بن چکی ہو۔ یہ عقل سلیم شعور کا منبع ہے۔ اگر آپ پیچیدہ مسائل میں حق کو پہچان سکتے ہیں، تو اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کے اندر شعور پایا جاتا ہے- لیکن اگر آپ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ بزرگ کیا کہتے ہیں جو وہ کہہ دیں وہی حق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ فتنوں میں صحیح راستہ تلاش نہیں کر سکتے۔ آپ کی عقل ابھی پختہ نہیں ہوئی ہے۔
فتنہ میں حق کو پہچاننے کا دوسرا ذریعہ امام
فتنے میں حق کو پہچاننے کا دوسرا ذریعہ امام ہے، لیکن امام وہ جسے قرآنی نقطہ نظر سے امام سمجھا جاتا ہے، نہ کہ وہ امام جو صوفی اور کلامی اصطلاح میں پیش کیا جاتا ہے۔ صوفیانہ امام زمین کے علاوہ ہر چیز کا حاکم ہے لیکن اہل زمین کا حاکم نہیں ہے۔ لیکن قرآن نے امام کو زمین کے حکمرانی کے لیے بنایا ہے۔ زمین اور اہل زمین کا اختیار اسے دیا ہے۔ لہذا امیرالمومنین (ع) نے فتنوں کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے ان سے محفوظ رہنے کے لیے تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی تاکید کی اور فتنوں کی تشخیص شعور سے ممکن ہے اور شعور کا پہلا رکن تقویٰ ہے۔
خطبہ دوم
علی(ع) کی ہدایات ہلاکت سے بچنے کا سبب
امیرالمومنین (ع) نے تقویٰ کے بارے میں جو ہدایات بیان فرمائی ہیں وہ انسان کو ہلاکت میں گرنے سے بچا سکتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کو خبر نہیں ہوتی کہ وہ ہلاکت کی طرف جا رہا ہے کیونکہ وہ ان کاموں کو سعادت سمجھ کر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ لہذا امیر المومنین نے نہج البلاغہ کی حکمت نمبر ۱۱۷ میں ارشاد فرمایا:
وَ قَالَ عليه السلام: هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ
میری وجہ سے دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے: وہ جو مجھ سے مبالغہ آرائی سے محبت کرتے ہیں اور وہ جو مجھ سے بغض رکھتے ہیں۔
امیرالمومنین (ع) امت کی نجات کا وسیلہ ہیں، عروۃ الوثقیٰ اور سفینۃ النجاۃ ہیں، لیکن یہی وسیلہ نجات فرما رہا ہے کہ دو طرح کے لوگ ہلاک ہوں گے۔ اور ان کا کوئی اور جرم بھی نہیں ہو گا، امیر المومنین کی ذات کے بارے میں ان کی غلط فہمی ان کی ہلاکت کا باعث ہو گی۔ یعنی جو امیرالمومنین کو درجہ الوہیت تک لے جائے وہ بھی ہلاک ہے اور جو ان سے دشمنی کرے وہ بھی ہلاک ہے۔
غلو عصر حاضر کا بڑا فتنہ
یہ دو گروہ یعنی غالی اور ناصبی امیر المومنین کے زمانے میں پیدا ہوئے اور دیگر ائمہ اطہار(ع) کے دور میں بھی موجود رہے ہیں اور ہر دور میں موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ بلکہ آج تو اسلامی امت میں ایک بڑے فتنے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اور پوری امت مسلمہ کو اس فتنے کا شکار بنا دیا ہے۔ امت مسلمہ کا ایک بہت طبقہ غلو کا شکار ہے اور دوسرا بڑا حصہ اہل بیت(ع) کے بغض میں مبتلا ہے۔
پاکستان بالخصوص ہر فتنہ کے لیے ایک انتہائی زرخیز زمین ہے۔ اس سرزمین میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے بہت کم محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن پہلے سے ہی اس قسم کی الجھن کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ان فتنوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے ان فتنوں کو قبول کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جتنا غلو کا فتنہ بڑا ہے اتنا ہی ناصبیت کا فتنہ بھی بڑا ہے ناصبیت پر بھی گفتگو کریں گے لیکن فی الحال غلو کے حوالے سے ائمہ اطہار(ع) کے کچھ مزید اقوال نقل کرتے ہیں۔
بحار الانوار کی جلد 25 میں علامہ مجلسی نے غالیوں کے بارے میں ائمہ اطہار سے متعدد روایات نقل کی ہیں۔ اپنی زندگی کے دوران، ائمہ نے نہ صرف اپنے دور کے ظالموں جیسے بنو امیہ اور بنو عباس کا مقابلہ کیا، بلکہ غلو کے فتنہ سے لاحق اندرونی خطرے کا بھی مقابلہ کیا۔
مسئلہ غلو پر امام رضا(ع) اور مامون کی گفتگو
روایت 17، باب دہم میں، امام رضا (ع) نے مامون کے ساتھ ایک گفتگو بیان کی ہے۔ مامون نے ایک بار ان سے کہا، "مجھے اطلاعات ملی ہیں کہ لوگ آپ اور آپ کے آباؤ اجداد کے بارے میں اپنے عقائد میں غلو کرتے ہیں۔ ” امام رضا (ع) نے جواب میں سلسلۂ معصومین سے روایت نقل کی یعنی اپنے والد امام موسیٰ کاظم (ع)، انہوں نے امام جعفر صادق (ع) سے، انہوں نے امام محمد باقر (ع) سے، انہوں نے امام علی ابن الحسین (ع) سے، انہوں نے امام حسین (ع) سے، انہوں نے امام علی (ع) سے، اور آخر میں پیغمبر اکرم (ص) سے۔ اس سلسلے کو ’’سلسلۃ الذہب‘‘ یعنی سنہری سند کہا جاتا ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: میرے حق سے مجھے اوپر نہ اٹھاؤ یعنی میں اللہ کا بندہ اور اللہ کا نبی ہوں مجھے اس حق سے اوپر نہ لے جاؤ، اس لیے کہ اس سے پہلے کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا، اس نے مجھے اپنا بندہ منتخب کیا۔
یہ بات مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے آپ کو "عبداللہ” کہلوانے کو ترجیح دی۔
پھر امام رضا علیہ السلام نے مامون کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیتیں تلاوت کیں: ﴿ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ﴾ [ سورة آل عمران: 79]
اس آیت میں یہ حکم ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی کتاب، حکمت اور نبوت لے کر لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے اور اللہ کی طرف دعوت نہ دے، یعنی لوگوں کو اپنا بندہ بنائے خدا کا بندہ نہ بنائے۔ بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ کہے کہ کتاب کی تعلیم کے نتیجے میں اللہ کے بندے بنو۔
امام رضا علیہ السلام نے مزید فرمایا:
"علی (ع) فرماتے تھے کہ مجھ سے تعلق رکھنے والے دو گروہ ہلاک ہو جائیں گے اور میں ان دونوں سے اظہار بیزاری کرتا ہوں: وہ جو میری محبت میں غلو کو پہنچ جائے، اور وہ جو بغض رکھے اور مجھے ولایت و امامت کے حق سے محروم کر دے۔”
امام رضا علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:
"ہم اہلبیت (ع) اپنے آپ کو ہر اس شخص سے الگ سمجھتے ہیں جو ہمارے درجات کو اللہ کے بندوں کے مقام سے بلند کر کے الوہیت تک پہنچاتا ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا جو انہیں اللہ کا بیٹا سمجھتے تھے۔”
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا:
"کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر تمہیں اور تمہاری ماں کو معبود مان لیں؟”
عیسیٰ (ع) نے جواب دیا: تو پاک و پاکیزہ ہے میں وہ بات کبھی نہیں کہہ سکتا جو کہنے کا مجھے حق نہیں ہے۔ تو جانتا ہے جو میرے اندر ہے جبکہ میں نہیں جانتا کہ تیرے اندر کیا ہے۔ میں نے انہیں صرف وہی بتایا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا: ‘اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔’ جب میں ان کے درمیان تھا تو میں ان پر گواہ تھا، تو ہر چیز پر گواہ ہے۔”
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ کا بندہ ہونے پر فخر تھا اور فرشتوں نے بھی اس مقام سے کبھی انکار نہیں کیا۔ اللہ فرماتا ہے:
"عیسی صرف اللہ کے رسول تھے، ان سے پہلے بھی رسول گزرے، دونوں نے کھانا کھایا۔”
امام رضا (ع) نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی انسانی فطرت کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرح کھانا کھاتے اور ہضم کرتے تھے۔
امام رضا(ع) کا غالیوں سے اظہار برائت
پھر امام علیہ السلام نے مزید کہا:
"جو کوئی بھی انبیاء یا اماموں کی الوہیت پر یقین رکھتا ہے، ہم ایسے شخص سے دنیا اور آخرت دونوں میں بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔”
اس کے باوجود آج بہت سے مقررین، خطیب اور ذاکر حضرات منبروں سے غلو کا پرچار کرتے ہیں اور وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے لیے بازار گرم ہے۔ لوگ اس میں خرید و فروخت کرتے ہیں۔
غلو کی مذمت کرنے والی مزید روایات
روایت 18 میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
"جو کوئی تناسخ پر ایمان رکھتا ہے وہ کافر ہے۔ (تناسخ یعنی اللہ ائمہ میں حلول کر جاتا ہے یا ایک امام کی روح دوسرے امام میں حلول کر جاتی ہے)، پھر فرمایا: غالیوں پر اللہ کی لعنت ہو، جان لو یہ غالی مجوس ہیں، اور جان لو یہ غالی نصاریٰ ہیں، اور جان لو یہ مرجئہ ہیں یہ خوارج کے مشابہ ہیں۔ ان کے ساتھ نہ بیٹھو، ان کی گواہی نہ دو، ان سے دوستی نہ کرو”۔
مرجئہ ایک فرقہ تھا جو جنگ صفین کے بعد بنو امیہ کے دور میں پیدا ہوا۔ ان کا ماننا تھا کہ جب تک کوئی کلمہ پڑھتا ہے، کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کے اعمال پر تنقید کرے، چاہے وہ کوئی بھی گناہ کیوں نہ کرے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے معاملات مکمل طور پر اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور موت کے بعد انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، کسی کو دوسرے کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہیے، ہر شخص کو اپنے اعمال کا خیال رکھنا چاہیے۔ امام رضا فرماتے ہیں کہ یہ غالی مرجئہ ہیں یعنی فاسد لوگ ہیں دین سے خارج لوگ ہیں۔
امام رضا(ع): غالی کافر مفوضہ مشرک
روایت 19 میں امام رضا (ع) سے غالیوں اور مفوضہ کے بارے میں پوچھا گیا۔ مفوضہ وہ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ موجود ہے، لیکن اس نے اپنی تمام طاقت و اختیار کو تخلیق کے بعد اماموں کو سونپ دیا۔ یہ عقیدہ تفویض کے نام سے جانا جاتا ہے۔
امام رضا (ع) نے جواب میں فرمایا کہ غالی کافر ہیں اور مفوضہ مشرک ہیں۔ اس کے بعد امام نے ایک سخت تنبیہ بیان کی: جو بھی غالیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھتا ہے، یا ان کے ساتھ صحبت اٹھنا بیٹھنا کرتا ہے، ان کے ساتھ لین دین رکھتا ہے، ان کے ساتھ کھانا پینا کرتا ہے، ان کے خاندانوں میں شادی بیاہ کرتا ہے، اپنی بیٹیوں کا ان کے ساتھ نکاح کرتا ہے، ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرتا ہے، کسی بھی چیز کے حوالے سے ان کی کسی بات کی تصدیق کرتا ہے، یا حتیٰ کہ ایک لفظ کی حد تک ان کی مدد کی، تو وہ اللہ، رسول اور ہم اہل بیت(ع) کی ولایت سے خارج ہو جائے گا۔
امام رضا (ع) اس بات پر روشنی ڈال رہے ہیں کہ غلو کا فتنہ کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہے۔ وہ جانتا تھے کہ جہاں شیعہ عباسی حکومت کے جبر سے بچ سکتے ہیں، وہ غالیوں کے ذریعے اندرونی طور پر تباہ ہو سکتے ہیں۔ اگر آج بھی شیعہ مذہب کو بیرونی دشمنوں مثلاً اسرائیل، امریکہ اور ناصبیوں (اہلبیت سے عداوت رکھنے والے) سے بچا لیا جائے تو بھی غالیوں کے ذریعے اس کو اندر سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔
غلو دیمک کی طرح شیعت کو اندر سے کھوکھلا کر سکتا ہے
امام امت کی عقل اور مرکز ہونے کے ناطے یہ سمجھتے تھے کہ اندرونی فساد کی یہ شکل دیمک کی طرح انہیں اندر سے کھا جائے گی۔ یہ غلو شیعوں میں گہرائی تک گھس چکا ہے۔
چونکہ بہت سے لوگ اہلبیت (ع) کی مستند تعلیمات سے ناواقف ہیں، اس لیے منبر سے جو بھی تبلیغ کی جاتی ہے اسے حقیقی شیعہ عقیدہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ چیز غالیوں کو – جو جھوٹ گھڑتے ہیں اور انھیں اہلبیت (ع) سے منسوب کرتے ہیں – ایک کھلا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان مبالغہ آرائی کرنے والوں کی طرف سے پیش کی گئی مسخ شدہ تصویر کی وجہ سے دوسروں میں شیعت سے دشمنی پیدا ہوتی ہے۔
المناک ستم ظریفی یہ ہے کہ خود ائمہ نے ایسے غالیوں کو اپنا دشمن قرار دیا تھا، لیکن آج شیعہ برادری میں ان کی تعریف اور تمجید کی جاتی ہے۔ بعض مقررین، چاہے وہ ذاتی طور پر غلو پر یقین نہیں رکھتے، لیکن پھر بھی غلو کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ بصورت دیگر انہیں مالی امداد یا تقریر کی دعوت نہیں ملے گی۔ اپنی آمدنی اور سامعین کو محفوظ رکھنے کے لیے، وہ مبالغہ آرائی اور انحراف کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسا گروہ ہے جس سے سچے مومنوں کو کھلے عام برائت کا اظہار کرنا چاہیے اور ان پر لعنت بھیجنا چاہیے اس لیے کہ ائمہ نے ان پر اللہ اور رسول کی لعنت بھیجی ہے۔