نظام امامت کی وہ بنیاد جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے رکھی تھی وہ بنیاد ہی رہ گئی اور اس پر کوئی عمارت تعمیر نہ ہو سکی، جبکہ دوسری طرف اہل سنت کے اکابرین نے جو بنیادیں ڈالیں بعد میں آنے والوں نے ان پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کر دیں۔
امامت عہد الہی کا نام ہے/ امام صادق(ع) عہد الہی کے امین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ﴾
[ البقرة: 130]
یوم شہادت امام صادق علیہ السلام کے موقع پر تمام ملت اسلامیہ خصوصا راہروان راہ ولایت کی خدمت میں تسلیت عرض ہے۔
امامت عہد الہی کا نام ہے
ائمہ طاہرین کی شہادت یا ولادت کے ایام، ایام اللہ میں شمار ہوتے ہیں ہرچند مومنین اور ان کے بالتبع علماء بھی ان کو رسومات کے طور پر گزار دیتے ہیں۔ اور وہ عہد جو ان ایام میں ہمیں اپنے ائمہ سے کرنا چاہیے وہ فراموشی کا شکار ہو جاتا ہے۔ امامت کو اللہ نے قرآن کریم میں اپنا عہد قرار دیا ہے۔ حضرت ابراہیم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقام امامت پر فائز فرمایا تو جب جناب ابراہیم نے اپنی ذریت کے لیے منصب امامت کا تقاضا کیا تو جواب میں اللہ نے اسے اپنا عہد قرار دیا اور فرمایا کہ میرا عہد ظالمین تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس آیت کی روشنی میں منصب امامت اللہ کا عہد ہے جو ذریت ابراہیم سے مخصوص ہے لیکن ذریت میں سے صرف اس کو ملے گا جو ظالم نہیں ہو گا۔ اللہ نے ظالمین کو امامت اور امامت کو ظالمین سے دور رکھا ہے۔
امام صادق(ع) عہد الہی کے امین
اور پھر سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۰ میں ارشاد فرماتا ہے کہ جس نے راہ ابراہیم سے بے رغبتی دکھلائی وہ سفیہ احمق اور نادان ہے۔ اور پھر فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو دنیا میں امامت اور رہبری کے لیے چنا ہے اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ذریت جناب ابراہیم میں وہ شخصیت ہیں جنہوں نے جناب ابراہیم کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے عہد امامت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ نبھایا۔ اللہ نے امام جعفر صادق کو اپنے عہد کے لیے چنا اور امام نے اس عہد کو تمام دشواریوں کے باوجود احسن طریقہ سے نبھایا۔
امام صادق(ع) کے دور کے سیاسی حالات اور مکتب جعفری کی تدوین
اصول کافی کی جلد ۲ میں ایک روایت ہے جو سدیر صیرفی نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے اس میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کا زمانہ سماجی اور سیاسی حالات کے لحاظ سے دیگر ائمہ کی نسبت مختلف تھا۔ چونکہ بنی امیہ کا آخری دور تھا اور ان کے خلاف بہت ساری تحریکیں جنم لی چکی تھیں اور ان سب تحریکوں کا نام اور پرچم اہل بیت(ع) کے نام سے تھا خصوصا کربلا کے قاتلین سے انتقام کے نام پر کئی تحریکیں وجود میں آئیں۔ حتیٰ کہ بنی عباس بھی کربلا کے نام پر اٹھے تھے اور بنی ہاشم اور اہل بیت(ع) سے منسلک افراد کی مدد سے بنی امیہ کے خلاف قیام کیا۔ اور جب برسر اقتدار آئے تو اہل بیت اطہار(ع) کو ہی اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔
بہرحال یہ وہ دور تھا جب امام جعفر صادق(ع) کو مکتب تشیع کی تدوین کا موقع میسر آیا تو آپ نے تشیع کی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کیا اور نظام امامت کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ اسی وجہ سے اس مکتب کا نام مکتب جعفری کہلایا۔
مکتب جعفری تعلیمات رسول اللہ(ص) پر قائم ہوا اور اہل بیت(ع) کے منہج سے امام جعفر صادق (ع) تک پہنچا اور امام نے باقاعدہ اسے ایک نظریاتی آئیڈیالوجی کی شکل دی اور منظم و مرتب کیا۔
امام صادق(ع) کے اپنے دور میں قیام نہ کرنے کی وجہ
سدیر صیرفی اس روایت میں کہتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف سے سیاسی تحریکیں اٹھ رہی تھیں اور ہر کوئی اہل بیت(ع) کے نام پر اپنی تحریک کا علم بلند کر رہا تھا ایسے دور میں ہم نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے یہ دریافت کیا کہ وہ کیوں کسی تحریک کی سرپرستی نہیں کر رہے ہیں؟ سدیر کا مطلب یہ تھا کہ امام کیوں دوسروں کی طرح کوئی تحریک چلا کر قیام نہیں کرتے۔ امام صادق (ع) نے پوچھا کہ کیا آپ میری خاموشی کو ناجائز سمجھتے ہیں؟ سدیر نے جواب دیا، کہ آپ کے چاہنے والے، آپ کے شیعہ اس وقت کثرت سے پائے جاتے ہیں جبکہ بنی امیہ اس وقت کمزور ہو چکے ہیں اور بنوعباس اقتدار کو ہاتھ میں لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں جتنے آپ کے شاگرد ہیں اتنے اگر امیرالمومنین علی (ع) کے پاس ہوتے تو وہ قیام کرتے۔
امام صادق (ع) نے سدیر سے کہا کہ وہ اندازہ لگائے کہ امام کے کتنے پیروکار ہیں؟ سدیر نے جواب دیا: شاید ایک لاکھ۔ امام نے دوبارہ سوال کیا، اور سدیر نے تعداد دو لاکھ تک بڑھا دی، یہاں تک کہ یہ دعویٰ کیا کہ آدھی مسلم دنیا امام کی پیروی کرتی ہے۔ امام صادق (ع) خاموش رہے، پھر سدیر سے پوچھا کہ کیا وہ مدینہ کے باہر کسی چشمے کی طرف آپ کے ساتھ جائیں گے؟ سدیر راضی ہو گیے، اور امام نے ایک خچر اور ایک گدھا منگوایا۔ جب سواریاں تیار ہو گئیں تو سدیر گدھے پر سوار ہو گئے۔ امام نے فرمایا: تم میری سواری پر کیوں بیٹھے ہو؟ سدیر نے جواب دیا کہ گدھا امام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ خچر بہتر ہے. لیکن امام صادق (ع) نے اصرار کیا کہ وہ گدھے کو ترجیح دیتے ہیں، چنانچہ سدیر خچر پر سوار ہوئے۔
چلتے چلتے نماز کا وقت ہو گیا اور سدیر ایک پانی کی جگہ پر رک گئے۔ امام صادق (ع) نے کہا کہ یہاں کھاری زمین اور نمکین پانی ہے یہاں نماز نہیں پڑھیں گے، پھر آگے بڑھے کہ ایک سرخ مٹی والی زمین پر پہنچے وہاں امام نے ایک لڑکے کو بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دیکھا اور سدیر سے فرمایا: تم نے دعویٰ کیا کہ میرے پاس آدھی دنیا ہے، اگر میرے اس ریوڑ کے برابر بھی پیروکار ہوتے تو میرے لیے خاموش رہنا اور قیام نہ کرنا جائز نہ ہوتا۔ نماز کے بعد سدیر نے بھیڑیں گنیں تو کل ریوڑ کے اندر سترہ بھیڑیں تھیں۔ امام علیہ السلام نے یہ واضح کر دیا کہ ساتھی میسر نہ ہونے کی وجہ سے امام مناسب ترین حالات میں بھی قیام نہیں کر سکتا۔
سیاسی تحریکوں میں امام(ع) کی عدم شمولیت کی وجہ
یہ روایت اور دوسری اس طرح کی روایات میں آیا ہے کہ مختلف شیعہ رہنماؤں کی طرف سے امام علیہ السلام کو تحریکوں کی قیادت کرنے کے پیغامات آ رہے تھے جن میں مشہور دو رہنما تھے ایک ابومسلم خراسانی جو خراسان اور اطرف و اکناف کے علاقوں کے رہنما تھے اور دوسرے ابوسلمہ کوفی جو کوفہ اور اس کے گرد و نواح کے لیڈر تھے اور یہ کوئی کمزور گروہ اور تحریکیں نہیں تھیں بلکہ انہی افراد کے بل بوتے پر بنی عباس بنی امیہ کو شکست دے کر مسند اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے تھے لہذا ان دونوں رہنماؤں نے امام علیہ السلام کے پاس اپنے اپنے نمائندے بھیجے۔ اور روایات میں ہے کہ دونوں کے قاصد ایک ہی وقت میں امام کے پاس پہنچے۔ دونوں نے اپنا اپنا تعارف کروایا اور خطوط امام کے دیے امام نے بنا پڑھے خطوط کو جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا۔ اور قاصدوں نے جب پوچھا کہ ہم واپس جا کر کیا جواب دیں تو امام نے فرمایا کہ یہی جواب دینا کہ تمہارے خطوط تنور کی نذر کر دئے گئے۔
ایک تیسری تحریک جو حسنی سادات نے چلائی تھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے چچا زاد بیٹے عبد اللہ بن ابراہیم کو مہدی موعود بنا کر میدان میں اتارا گیا تھا ابراہیم نے امام علیہ السلام کو بھی اس تحریک کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ حسنی سادات اور بنی عباس نے ایک نشست رکھی جس میں امام علیہ السلام کو بھی دعوت دی۔ امام علیہ السلام میٹنگ میں پہنچے تو دیکھا کچھ افراد نقاب پہن کر بیٹھے ہوئے ہیں امام نے ابراہیم اور ان کے بیٹے عبد اللہ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی اور آخر میں کہا کہ تم بنوعباس کے لیڈر صفا کے ہاتھوں مارے جاؤ گے، لہذا اس کام سے باز آ جاؤ۔ لیکن ان کا یہ اصرار تھا کہ امام علیہ السلام عبداللہ بن ابراہیم کی بیعت کریں۔ امام علیہ السلام کے سمجھانے سے وہ نہیں سمجھے اور آخر کار دونوں اسی شخص کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
دوسری طرف ابوسلمہ جو کوفہ میں ایک مضبوط تحریک تھی اور جس نے بنی عباس کے ساتھ مل کر ان کو کامیاب بنایا تھا آخر میں انہی بنی عباس کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔
یہ مسلحانہ تحریکیں تھیں جو امام صادق علیہ السلام کے دور میں سامنے آئیں اور کچھ غیر مسلح اور نظریاتی تحریکیں بھی تھیں جن کی بنا پر کئی مضبوط گروہ معرض وجود میں آئے۔ امام علیہ السلام نے سدیر صیرفی کی حدیث کے ذریعے اپنے دور کا مکمل خاکہ پیش کر دیا کہ وہ کس خوفناک دور سے گزر رہے ہیں۔
امام صادق(ع) کے مخلص شاگردوں کی تعداد
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ امام صادق کے چار ہزار شاگرد تھے اور وہ بھی امام ابوحنیفہ جیسے بڑے نامدار شاگرد ۔ لیکن یہ شاگرد وہ تھے جنہوں نے چونتیس سال کے عرصے میں امام سے کسب فیض کیا تھا نہ کہ ایک ساتھ اتنی تعداد امام کے پاس حصول علم کے لیے آتے تھے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر امام کے پاس صرف اس لیے آتے تھے تاکہ امام کے نام کی سند سے وہ اپنی روٹیاں سیک سکیں۔ مختلف جگہوں پر مختلف عہدے سنبھال سکیں۔ وہ امام کے مخلص شاگرد نہیں تھے۔ حقیقت وہی تھی جو امام نے سدیر صیرفی کو بتا دی کہ ان کے پاس ۱۷ ساتھی بھی نہیں ہیں۔
امام صادق (ع) کا مختلف علوم میں مستحکم بنیادیں قائم کرنا
یہ دور ایک طرف جہاں سیاسی تحریکوں کا دور تھا وہاں دوسری طرف علوم کی تدوین کا دور بھی تھا۔ مختلف مکاتب فکر کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں مختلف نظریاتی ڈھانچے تیار کیے جا رہے تھے اور یہ سارا کام اہل سنت کے درمیان ہو رہا تھا ایسے ماحول میں امام علیہ السلام نے سیاسی تحریکوں میں الجھے بغیر اہل تشیع کے اندر علوم کے مختلف شعبوں میں ایک منظم اور مستحکم نظریاتی بنیادیں قائم کیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی جسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کہتے ہیں کی بنیاد پر دنیا کی مختلف کمپنیاں اپنے اپنے سسٹم تیار کر رہی ہیں کہیں پر چیٹ جی پی ٹی ہے اور کہیں پر ڈیپ سیک ہے اور کہیں پر کچھ اور ہے۔ یہ اے آئی کے تازہ ترین سسٹم ہیں جن کی بنیاد پر مستقبل میں دنیا تقسیم ہو گی اور ہر کوئی ان میں سے کسی ایک نظام کے تحت قرار پا کر دنیا میں ترقی کر پائے گا۔ آنے والی نسلیں اور آنے والا زمانہ انہیں چیزوں کا ہو گا۔ لہذا جس نے آج یہ سسٹم منظم کیا وہ کل دنیا میں سراٹھا کر جی پائے گا۔
امام صادق علیہ السلام کا دور بھی کچھ ایسا ہی دور تھا جس میں ہر کوئی نظام سازی میں لگا ہوا تھا اگر امام صادق (ع) سیاسی تحریکوں کا حصہ بن جاتے اور اس سسٹم سازی کی طرف توجہ نہ کرتے تو آج تشیع کا نام و نشان باقی نہ ہوتا چونکہ جس نظام نے شیعوں کو آج تک باقی رکھا اور شیعہ سر اٹھا کر دنیا میں جینے کے قابل ہیں، وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی زحمتوں کا نتیجہ ہے۔
امام صادق(ع) کا نظام امامت کو تدوین کرنا
امام جعفر صادق علیہ السلام نے نظام امامت کو تدوین کیا، فقہ جعفری کو منظم کیا اور شیعہ عقائد کو مستحکم بنایا جس کی بنیاد پر شیعت آج تک قائم ہے۔ لیکن ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام نے نظام امامت کی بنیاد رکھ دی تو ان کے بعد آنے والے دیگر ائمہ طاہرین کو اس بنیاد پر عمارت کھڑی کرنا چاہیے تھی لیکن چونکہ بنی عباس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بنی امیہ سے زیادہ ائمہ اہل بیت(ع) پر تشدد کرنا شروع کر دیا تھا۔ بنی امیہ کے دور میں ائمہ طاہرین کم سے کم اپنے گھروں میں تو آزاد تھے لیکن بنی عباس نے انہیں گھروں میں بھی آزاد نہیں رہنے دیا بلکہ مختلف حربوں سے انہیں گھروں کے اندر بھی نظربند کر دیا۔
لہذا نظام امامت کی وہ بنیاد جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے رکھی تھی وہ بنیاد ہی رہ گئی اور اس پر کوئی عمارت تعمیر نہ ہو سکی، جبکہ دوسری طرف اہل سنت کے اکابرین نے جو بنیادیں ڈالیں بعد میں آنے والوں نے ان پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کر دیں۔
نظام امامت کو عملی شکل دینے والے واحد شخص امام خمینی(رہ)
آج جب ہم اپنی گزشتہ چودہ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ پہلے شخص جنہوں نے امام صادق علیہ السلام کے بنائے ہوئے نظام امامت کی بنیاد پر عمارت کھڑی کی وہ امام خمینی ہیں۔ صدیوں بعد ایک ایسا فقیہ پیدا ہوا جس نے اس نظام امامت کو عملی جامہ پہنایا جبکہ کوئی دوسرا فقیہ اور مجتہد بلکہ خود امام صادق علیہ السلام کے شاگرد بھی یہ کام کرنے سے قاصر رہے۔
اس کی وجہ کیا تھی؟ وجہ صاف واضح ہے۔ امامت عہد الہی کا نام ہے اور اس عہد کے ساتھ قائم رہنے کے لیے خود کو متعہد کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ لوگ عہد امامت کے ساتھ متعہد نہیں ہوئے۔ نتیجے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہنا پڑا کہ میرے ساتھیوں کی تعداد ۱۷ بھی نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دس پندرہ ساتھی ہیں بلکہ کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ لوگ ڈگریوں کے لیے امام کے پاس آتے تھے اور نوکری کے لئے دوسروں کے پاس جاتے تھے۔ تاریخ اس طرح کے طلاتم اور بحرانوں سے بھری پڑی ہے ۔ اور بحرانوں میں گری ہوئی انسانیت کو کئی نفسیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سخت بحرانوں میں ائمہ طاہرین(ع) کا کردار
آج ہمارا ملک بحرانوں کا شکار ہے اور ان بحرانوں میں لوگ ذہنی اور نفسیاتی طور پر تناؤ اور ناامیدی کا شکار ہیں۔ جس معاشرے کے اندر ناامیدی پھیل جائے وہ معاشرہ تباہ اور ناکام ہو جاتا ہے۔ چونکہ مایوسی صرف ایک احساس نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جو سرطان کی طرح انسان کی ساری صلاحتیں چھین لیتی ہے اور اس کے عزائم کو چکنا چور کر دیتی ہے۔ لیکن اس بحرانی کیفیت میں اگر کوئی لیڈر اور رہنما اپنی قوم کو منظم رکھ کر اسے بحرانوں سے عبور کروا دے تو یہ قوم اور یہ قائد کبھی شکست نہیں کھا سکتے ہیں۔ ائمہ کا دور بھی سخت بحرانوں کا دور تھا لیکن ائمہ طاہرین نے بڑی ظرافتوں سے اپنی قوم کو بحرانوں سے محفوظ باہر نکال دیا۔ جس کے بعد اس قوم نے کبھی کسی بحران سے شکست نہیں کھائی۔
تاریخ گواہ ہے کہ سب سے زیادہ اگر کوئی قوم دنیا میں بحرانوں کا شکار رہی ہے تو وہ شیعہ قوم ہے، بنی امیہ کا دور ہو یا بنی عباس کا دور یا اس کے بعد آنے والے سلاطین کا زمانہ ہو سب سے زیادہ شیعوں پر یلغار کی گئی۔ لیکن یہ قوم کبھی ناامید ہو کر بلوں اور سوراخوں میں نہیں گھسی، بلکہ ہرمیدان میں پیش پیش رہی۔ اس لیے کہ ان کے قائدین واقعی معنوں میں راہبر تھے راہزن نہیں تھے۔ انہوں نے بحرانوں کی اوٹ میں اپنی قوم کو لوٹا نہیں۔ بلکہ انہیں حوصلہ دے کر ہر میدان پار کروایا۔
بے رغبت قوم حشرات الارض کی طرح بکھر جاتی ہے
آج ہمیں جو نفسیاتی خلا بھرنے کی ضرورت ہے وہ امید و رجا اور رغبت کا خلا ہے۔ قاضی تقدیر نے ازل سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بے رغبت قوم حشرات الارض کی طرح بکھر کر ختم ہو جاتی ہے چونکہ اس کے اندر کچھ کرنے کی رغبت نہیں ہوتی، اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، اور اگر مقصد ہو بھی تو اس کے حصول کے لیے کوئی ارادہ، محرک اور انگیزہ نہیں ہوتا۔ ان کے سروں پر جب اولے پڑتے ہیں تو وہ بلوں اور سوراخوں میں پناہ گاہیں تلاش کرتے ہیں۔
بے رغبت قوم بھیڑوں کے ریوڑ کے مانند
یہی بے رغبتی تھی جس نے ہمیں بھی نظام امامت کی عمارت کھڑی کرنے سے محروم رکھا۔ بے رغبتی جب کسی قوم میں آ جائے تو وہ قوم بھیڑوں کے ریوڑ کے مانند ہو جاتی ہے۔ ریوڑ کو چرواہا جس چراگاہ میں بھی لے جائے وہ وہاں چلا جاتا ہے۔ نہج البلاغہ میں امیر المومنین یہی فرماتے ہیں کہ ’’أتباع كلّ ناعق، يميلون مع كلّ ريح‘‘، یہ ریوڑ ہر آواز کے پیچھے چلنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر طرح کی ہوا اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ بھوکے ریوڑ کو کہیں پر سبزہ نظر آنا چاہیے وہ نہ آؤ دیکھے گا نہ تاؤ دیکھے گا، نہ حرام کی فکر ہو گی نہ حلال کی پروا ہو گی۔ نہ چرواہے کو دیکھے گا، نہ راستے کی پرواہ کرے گا نہ راہبر کو دیکھے گا۔ اس کو صرف چارہ چاہیے۔ کوئی سیاسی جماعت، کوئی بھی طاغوت اس ریوڑ کو صرف چارہ دکھا دے اور چراگاہ کا دروازہ کھول دے تو یہ سارا ریوڑ وہاں گھس جائے گا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بے رغبتی ہے۔ اس قوم میں خود سے کچھ کرنے کی رغبت نہیں ہے۔ لہذا وہ ان مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔ قرآن کریم سورہ بقرہ کی ۱۳۰ ویں آیت میں یہی تو اعلان کر رہا ہے: وَمَن يَرۡغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبۡرَٰهِـۧمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفۡسَهُۥ۔ جس نے ابراہیم کے طریقے، نظام اور سسٹم سے بے رغبتی کا اظہار کیا، جو راہ و روش ابراہیم سے بیزار ہوا، اس نے اپنے آپ کو سفیہ اور بیوقوف بنا دیا۔ بے رغبت انسان سفیہ ہوتا ہے اور جس کے اندر رغبت پائی جاتی ہے وہ فقیہ ہوا کرتا ہے۔ فقیہ یعنی سمجھدار، دین فہم اور دین کی گہرائی کو سمجھنے والا۔
راہ ابراہیم سے بے رغبتی کا نتیجہ حماقت
یہ ابراہیم کون ہیں اور ملت ابراہیم یعنی ابراہیم کا راستہ اور طریقہ کیا ہے؟ ابراہیم وہ ہیں جنہیں اللہ نے رہبر اور امام بنایا۔ اور ان کا راستہ اور طریقہ کتاب و حکمت کی تعلیم اور تزکیہ نفوس ہے جو اس سے پچھلی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ لہذا جس نے اس راستے سے بے رغبتی کا اظہار کیا وہ سفیہ اور احمق بن جائے گا اور جس نے اس راہ میں رغبت دکھلائی وہ فقیہ اور دانشمند ہو گا۔
اللہ نے انسان کے لیے جو بھی مقامات رکھے ہیں وہ رغبت کی بنا پر رکھے ہیں۔ مادی نعمتوں سے اللہ نے سب کو نوازا ہے لیکن روحانی مقامات صرف انسانوں کی رغبت کی بنا پر انہیں دئے گئے ہیں۔ اللہ حکیم ہے اور بے رغبت انسان کو کچھ دینا اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ علماء اور دانشور افراد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے اندر رغبت پیدا کریں۔ آج نظام امامت کے تئیں شیعہ قوم کے اندر بالکل کوئی رغبت نہیں پائی جاتی۔ شیعہ علماء میں کتنے افراد ایسے ہیں جو اپنی قوم میں اس موضوع پر کام کر رہے ہیں؟
رغبت کسے کہتے ہیں؟
رغبت کہتے کسے ہیں؟ راغب اصفہانی رحمت اللہ علیہ نے رغبت کے معنیٰ وسیع طلب کے کیے ہیں۔ وادی رغیب یعنی وسیع و عریض وادی۔ وہ وادی جس کی وسعت بہت زیادہ ہو اور اس میں بہت کچھ سما جانے کی گنجائش پائی جاتی ہو۔ انسان کے اندر اگر چیونٹی کے جتنی طلب ہو گی تو یہ حرص ہے رغبت نہیں۔ رغبت یہ ہے کہ انسان کے اندر بہت وسیع اور شدید طلب ہو۔ ایسی طلب جس میں مطلوب کی طرف رجحان اور جھکاؤ بھی پایا جاتا ہو۔ مرغوب کے لیے شدید کشش پائی جاتی ہو۔ اور اس کے حصول کے لیے شدید انتظار اور جد وجہد کرے۔
اللہ سے رغبت کی دعا کے لیے امام زمانہ(ع) کی تاکید
امام زمانہ نے جو اپنے چاہنے والوں کو دعا تعلیم کی ہے اس میں اللہ سے اسی طرح کی رغبت مانگنے کی تاکید کی ہے۔ اللّٰهُمَّ ارْزُقْنا تَوْفِيقَ الطّاعَةِ، وَبُعْدَ الْمَعْصِيَةِ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَتَفَضَّلْ عَلىٰ عُلَمائِنا بِالزُّهْدِ وَالنَّصِيحَةِ، وَعَلَى الْمُتَعَلِّمِينَ بِالْجُهْدِ وَالرَّغْبَةِ، علما کو زہد و نصحیت کی توفیق عطا فرما اور متعلمین کو جہد اور رغبت کی توفیق عطا فرما۔ جہد صرف کوشش کو نہیں کہتے بلکہ اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کرنے کا نام جہد ہے۔ اور دوسری چیز جس کی طالب علموں کو ضرورت ہے وہ رغبت ہے۔ طالب علم رغبت کے بغیر امتحان پاس کر کے ڈگری لے کر نوکری تو کر سکتا ہے لیکن نظام الہی کے قابل نہیں بن سکتا۔
اللہ کے نظام کے قابل وہ طالب علم بن سکتا ہے جس کے اندر وسیع طلب پائی جاتی ہو، جس کے اندر کسی اعلیٰ مقام کے حصول کی رغبت پائی جاتی ہے وہی کسی مقام تک پہنچ سکتا ہے۔
دوسری دعا جو امام زمانہ (ع) نے ہمیں پڑھنے کی تاکید کی ہے وہ دعائے افتتاح ہے۔ دعائے افتتاح کے آخری حصے میں دولت کریمہ کے لیے رغبت پیدا کرنے کی دعا ہے۔ اللَّهُمَّ إِنَّا نَرْغَبُ إِلَیْکَ فِی دَوْلَهٍ کَرِیمَهٍ تُعِزُّ بِهَا الْإِسْلامَ وَ أَهْلَهُ۔ نظام امامت کے قیام کے لیے اپنے اندر رغبت پائے جانے کی دعا مانگو۔ تمہارے اندر جب تک اس نظام کے لیے رغبت نہیں آئے گی یہ نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ تمہاری بے رغبتی کی وجہ سے امامت کا نظام معطل ہے۔ تمہاری رغبتی کی وجہ سے امام غائب ہیں۔ اور تمہاری بے رغبتی کی وجہ سے امام کی مسند پر طاغوت بیٹھے ہوئے ہیں۔
عوام سے زیادہ علما کے اندر بے رغبتی
آپ عوام کو چھوڑیں خود علما کا جائزہ کر لیں۔ کتنے علما ایسے ہیں جن کے اندر نظام امامت کے قیام کے لیے رغبت پائی جاتی ہے۔ آپ علما کے پاس بیٹھیں، ان کی گفتگو سنیں، ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں، کہیں پر بھی ان کے اندر رغبت نظر نہیں آئے گی۔ لہذا جس قوم کے علما بے رغبت ہوں اس قوم میں رغبت کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اللہ سے رغبت کی توفیق مانگنے کی تاکید ہے۔
لوگوں کی بے رغبتی اور امام صادق کا قیام نہ کرنا
امام صادق علیہ السلام کے دور میں بھی قوم کا یہی حال تھا لوگوں میں نظام امامت کے قیام کے لیے کوئی رغبت نہیں تھی۔ لوگوں نے مختلف عناوین سے سیاسی تحریکیں چلائیں چونکہ ان تحریکوں میں ان کو رغبت تھی لیکن امامت کے نظام میں ان کو کوئی رغبت نہیں تھی۔ اسی وجہ سے امام نے گلا کیا کہ میرے پاس ۱۷ آدمی بھی ایسے نہیں ہیں جن کے سہارے میں قیام کر سکوں۔ ائمہ پر رونے والے تو بہت ہیں امام علی (ع) سے لے کر امام حسن عسکری (ع) تک سب پر رونے والے بہت ہیں۔ ان کے دور میں بھی تھے اور آج ہمارے دور میں بھی ہیں لیکن جو ائمہ کا مشن تھا جو امام علی کا مشن تھا جو امام صادق (ع) کی آرزو تھی اس کو پورا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ چونکہ اس کام میں رغبت نہیں ہے۔
حسرت کا رونا رونے کے بجائے رغبت کا رونا روئیں
حسرت کا رونا اور ہے اور رغبت کا رونا اور ہے۔ آج تک جو دولت کریمہ اور نظام امامت قائم نہیں ہو سکا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم زندگی ساری حسرت کا رونا روتے رہتے ہیں کاش ہم کربلا میں ہوتے تو یہ کر لیتے کاش ہم کوفے میں ہوتے تو یوں کر لیتے۔ کاش فلاں جگہ ہوتے تو یہ کر لیتے۔ یہ حسرت کا رونا ہے۔ رغبت کا رونا یہ ہے کہ آپ آج جہاں پر ہو وہاں امام کے لیے کیا کر رہے ہو۔ کیا آج امام زمانہ (عج) کو تمہاری ضرورت نہیں ہے؟ امام زمانہ(ع) کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تمہارے اندر کتنی رغبت پائی جاتی ہے؟ امام زمانہ نے دولت کریمہ تمہاری مدد سے قائم کرنا ہے لیکن جب اندر اس نظام کے لیے رغبت ہی نہیں ہو گی تو تم بیٹھ کر حسرت کا رونا ہی روتے رہو گے اس کے علاوہ کچھ کر نہیں سکتے۔ لہذا حسرت کے رونے سے نکل کر رغبت کا رونا رونے کی ضرورت ہے۔
