ہمیں فلسطینیوں، ایرانیوں اور امام حسین (ع) سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ ظالموں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستان اگر رسوائی کا راستہ چھوڑے گا تو اللہ اسے عزت دے گا۔ اگر ہم نے بے عزتی کا انتخاب کیا تو بھارت اور طالبان ہماری تذلیل کرتے رہیں گے۔
فرقان، تقویٰ کا نتیجہ؛ حق و باطل کی تشخیص معاشرے کی ضرورت

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 16 مئی 2025
خطبہ 1: فرقان، تقویٰ کا نتیجہ؛ حق و باطل کی تشخیص معاشرے کی ضرورت
خطبہ 2: مسلمان حکمرانوں کا طاغوت کی دہلیز پر سجدہ
دنیا و آخرت کا نظام اگر سمجھ میں آ جائے تو ہمیں تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ ہم تقویٰ کی نسبت بہت لاپرواہ ہیں اور تقویٰ کو ایک اضافی چیز اور زینت سمجھتے ہیں اگر حاصل ہو جائے تو بہت اچھا ہے لیکن اگر حاصل نہ ہو تو بھی نظام چل جائے گا۔ جیسے بعض لوگ گھروں کو سجاتے سنوارتے ہیں اور بعض لوگ صرف سادہ سا گھر بنا کر اس میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ اور زینت کے اوپر توجہ نہیں کرتے۔ رہائش کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گھر مزین نہ ہو تو بھی زندگی گزر جاتی ہے اور اگر مزین ہو تو بھی گزر جاتی ہے۔ تقویٰ کوئی زینت نہیں ہے کہ اگر نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تقویٰ کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ اس وجہ سے ہم تقویٰ کے سلسلے میں بہت سست ہیں جو اہمیت تقویٰ کو دینا چاہیے وہ نہیں دیتے۔
فرقان تقویٰ کا نتیجہ
تقویٰ کا اگر اور کوئی نتیجہ نہ ہو تو یہی ایک نتیجہ کافی ہے جو سورہ انفال کی آیت نمبر ۲۹ میں بیان کیا گیا ہے۔ تقویٰ کی اہمیت کے لیے یہی ایک ہی نتیجہ کافی ہے جبکہ تقویٰ دنیاوی اور اخروی زندگی کی بنیاد ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
"اے صاحبان ایمان، اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں فرقان عطا کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں چھپا دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔
بہت سے لوگ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ مومن نہیں ہیں۔ یہاں مخاطب وہ ہیں جنہیں قرآن سچا مومن مانتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں فرقان عطا کرے گا۔ تقویٰ کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے گناہوں کو چھپائے گا اور اس کے علاوہ آپ کو بخش دے گا۔ اور یہ انعامات صرف ان تک محدود نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ بے پناہ نعمتوں کا مالک ہے، جو آپ کو عطا کرے گا۔
فرقان کا مطلب
تقویٰ کا پہلا نتیجہ جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ فرقان ہے۔ فرقان قرآن کا نام ہے، فرقان تقویٰ کا نتیجہ ہے۔ فرقان کا مطلب "کسوٹی” اور ’’معیار‘‘ ہے۔ دوسری جگہ تقویٰ کا نتیجہ علم کے طور پر بیان کیا گیا ہے، لیکن فرقان عربی کے اصل لفظ "فرق” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے علیحدگی یا تفریق۔ عربی میں، "فرق” سر کے بالوں کی مانگ کو کہتے ہیں۔ وہ لکیر جو سر کے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے بنتی ہے۔ عربی ادب میں، ہر اس چیز کو فرقان کہتے ہیں جس کے ذریعے دو چیزوں کو الگ کیا جائے۔ مثال کے طور پر مدینہ کے لوگ پانی اور غلہ کو جن ابزار و آلات کے ذریعے تقسیم کرتے تھے انہیں فرقان کہتے تھے۔ فرق تقسیم اور جدائی کو کہتے ہیں اور فرقان اس وسیلے کو کہتے ہیں جس کے ذریعے تقسیم اور علیحدگی کی جائے۔
قرآن میں فرقان سے مراد
قرآن مجید کے سورہ نمبر 25 کا نام بھی "فرقان” ہے، یہاں فرقان سے مراد وہ الہی آگاہی ہے جس کے ذریعے انسان حق اور باطل میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہمارے بہت سے چیلنجز ایسی آگاہی کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات سے آگاہ ہیں، لیکن الہی آگاہی اور قوت تشخیص جس کے ذریعے ہم حق و باطل میں تفریق پیدا کر سکیں وہ مومنین سے مخصوص ہے۔ یہ آگاہی ہماری انفرادی، اجتماعی، اقتصادی اور تجارتی زندگیوں میں بہت ضروری ہے۔ یہ بنیادی آگاہی ہے جس کے ذریعے انسان مختلف امور کو تشخیص دے سکتا ہے۔
جب لوگ کسی بازار میں جاتے ہیں، اور ایک جیسی چیزوں کو دیکھتے ہیں، ان میں کچھ لوگ اپنے تجربے یا علم کی بنیاد پر ان چیزوں کی کوالٹی میں فرق محسوس کر لیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ، اس قابلیت سے عاری ہوتے ہیں اور دکاندار پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں۔ بعض تو تازہ سبزیوں کی شناخت کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں جس کے بعد اکثر اپنی زوجہ کی طرف سے ڈانٹ سنتے ہیں۔ اس کے برعکس، بصیرت رکھنے والے اچھے سے جانچ کرتے ہیں اور دانشمندی سے انتخاب کرتے ہیں۔ اچھے اور برے میں فرق کرنے کی یہ فکری صلاحیت فرقان ہے۔ انگریزی میں، اس کا ترجمہ "Criterion” یا "Insight” کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اور فارسی میں اس کو بینش کہتے ہیں۔ ہر چیز کو ایک جیسا دیکھنا بصیرت کے فقدان کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ ہدایت اور گمراہی کے راستوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔
غلط اور صحیح کی تشخیص کا فقدان
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بزرگ صحابہ کو ایک دائرے میں جمع کیا اور تین متوازی لکیریں کھینچیں۔ پھر صحابہ کو فرمایا کہ درمیانی لکیر میرا راستہ ہے جو حق و سچائی کا راستہ ہے اور جو دائیں اور بائیں متوازی لکیریں ہیں وہ شیطان کے گمراہ کن راستے ہیں۔ اور یہ حکمت کی بات ہے کہ دائیں اور بائیں ملتے جلتے راستے جو رسول اللہ کے راستے کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور ایک جیسے لگتے ہیں اور ان پر چلنے والا اگر اس کے پاس قوت تشخیص نہ ہو تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ راستہ بھی اسی طرف جا رہا ہے جہاں درمیانی راستہ جاتا ہے۔ یہی گمراہی پوری تاریخ میں نظر آتی ہے اور آج کہیں زیادہ ہے۔ یہ ہمارے زمانے کا المیہ ہے: آج ہنر اور مہارت ترقی کر چکے ہیں، لیکن صحیح اور غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ آج کی نسل ان چیزوں کے درمیان بھی فرق نہیں کر سکتی جو بظاہر الگ ہیں، ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے ہیں۔
قرآن پوچھتا ہے: ’’هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَِ‘‘ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے ایک جیسے ہیں؟ کیا مومن اور فاسق برابر ہیں؟ قرآن ان سوالات کو اس لیے اٹھاتا ہے کہ لوگ انھیں ایک جیسا دیکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اور فیصلہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے- آخر کار، وہ سب ایک ہی خاندان یا قبیلے سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں۔ لیکن قرآن نے معیارات قائم کیے ہیں اور ہم نے انہیں فراموش کر دیا ہے۔ بہت سے معاشروں میں زندگی کی بنیاد ثقافت ہے دین نہیں- اور یہ ثقافت عقیدے اور ایمان پر بھاری ہے۔ یہ ثقافت عقیدے یا اخلاقیات کی بنیاد پر رشتہ داروں کے درمیان تفریق سے روکتی ہے۔ ذرا اپنے دوستوں کو دیکھو کہ کتنے مومن ہیں اور کتنے فاسق ہیں؟ قرآن اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ تم مومن کو فاسق کے برابر نہ سمجھو۔
کعبہ کے ٹھیکیداروں میں ظالم و مظلوم کی تشخیص کا فقدان
ہمارے معاشرے کا ایک اور ناقص معیار جمہوریت ہے، جس میں ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم ظالم اور مظلوم میں فرق کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ حال ہی میں، کعبہ کے محافظ ظالم اور مظلوم کے درمیان فرق کیے بغیر، امریکہ سے آنے والے ظالم کے سامنے سجدہ ریز نظر آئے۔ کیا ان کو نہیں معلوم کہ یہ وہی ہے جو فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کا شریک ہے؟ سب معلوم ہے لیکن اس کے باوجود وحی، قرآن، اہل بیت(ع) و صحابہ کی سرزمین پر ایسے اندھے قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں ظالم اور مظلوم میں فرق نظر نہیں آتا۔ اسی طرح باقی دنیا میں بھی آپ دیکھ لیں کہ اکثر لوگوں کو ظالم و مظلوم میں فرق نظر نہیں آتا۔
فرقان کہاں سے حاصل ہوتا ہے؟
فرقان اور یہ قوت تشخیص کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں تو قوت تشخیص کی ضرورت کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بعض فرقوں کے لوگ اپنے گروہ کے ہر عالم کی تعریف کرتے ہیں، چاہے وہ عالم فاسد، ہیرا پھیری کرنے والا، فرقہ واریت پھیلانے والا، یا مذہب کو مسخ کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ فرقان کے بغیر، ہمارے پاس اچھائی اور برائی کی تمیز کا معیار نہیں ہے۔ قرآن فرقان کا لفظ حق اور باطل کے درمیان تفریق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن وسیع تر ادب میں، اس کا اطلاق کسی بھی قسم کی تشخیص پر ہوتا ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر کوئی اہلبیت(ع) اور بنو امیہ کے درمیان فرق پیدا نہیں کر سکتا یا الہی رہنماوں اور فاسد لیڈروں میں فرق نہیں کر سکتا۔
عزت کی بنیاد قرآنی معیارات یا ثقافتی و سیاسی تعصبات؟
کیا ہم علماء کو قرآن کے مقرر کردہ معیارات کی بنیاد پر عزت دیتے ہیں یا ثقافتی اور سیاسی تعصبات کی بنیاد پر؟ اگر آپ پاکستان کے فاسد افراد کی درجہ بندی کریں تو سیاست دان سرفہرست ہوں گے۔ پھر بھی لوگ انہیں ووٹ دیتے ہیں اور انہیں قائدانہ کردار دیتے ہیں۔ یہ فرقان کی کمی کا نتیجہ ہے۔ فرقان تشخیص کی توانائی کا نام ہے جو تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔
سورہ انفال کی آیت نمبر 29 بیان کرتی ہے کہ اگر مومن تقویٰ اختیار کر لیں تو اللہ انہیں فرقان یعنی تمیز کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے گا۔ آپ انتہائی ذہین علماء کو دیکھ سکتے ہیں جو علم کے باوجود عصری مسائل میں حق اور باطل کی تمیز کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کے اعمال ذاتی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام کی نہج البلاغہ میں ایک دعا ہے کہ خدایا مجھے ان لوگوں کی طرح نہ بنا دینا کہ جو مجھے فائدہ پہنچائیں تو میں ان کی تعریف کروں اور اگر مجھے فائدہ نہ پہنچائیں تو میں ان کی مذمت کروں۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص میری تعریف کرے لیکن اس کا عمل اچھا نہ ہو۔ ایسے شخص کو محض تعریف کرنے کے نتیجے میں مجھے فائدہ نہیں پہنچانا چاہیے۔ اسی طرح کسی کو صرف اس لیے تنقید نہیں کرنی چاہیے کہ وہ مجھے فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے اگرچہ وہ خود اچھا آدمی ہو۔ جو درست ہے اس کو درست کہو چاہے وہ آپ کا دشمن ہو اور جو غلط ہے اس کو غلط کہو چاہے وہ آپ کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ یہی قوت فرقان ہے جو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔
میڈیا یا سوشل میڈیا فرقان نہیں
سوشل میڈیا فرقان نہیں ہے وہ ناقابل اعتبار ہے بلکہ کوئی بھی میڈیا بھروسے کے قابل نہیں ہے۔ یہ تمہیں فرقان نہیں دے گا۔ حالیہ پاک بھارت تنازع کے دوران ایک بھی درست نکتہ پیش نہیں کیا گیا۔ میڈیا سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے نہیں بلکہ گمراہی پھیلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
تقویٰ فرقان کو جنم دیتا ہے۔ تقویٰ کا مطلب صرف اللہ سے ڈرنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ایک محفوظ زندگی گزارنا ہے۔ آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو بظاہر متقی نظر آتے ہیں جن میں فرقان کی کمی ہے۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ کہاں جانا ہے، کس کے ساتھ ملنا ہے، یا کیا کہنا ہے۔ یہ حقیقی تقویٰ نہیں ہے۔ سچا تقویٰ ایک حفاظتی طریقہ کار ہے جس پر صحیح طریقے سے عمل کرنے سے فرقان حاصل ہوتا ہے جو کہ تشخیص کی اندرونی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
جدید طرز زندگی اور تشخیص کی صلاحیت کا خاتمہ
جدید طرز زندگی نے تشخیص دینے کی اس صلاحیت کو ختم کر دیا ہے، ہماری اعلیٰ صلاحیتوں کو دبا دیا ہے۔ جس طرح بہت سی جسمانی بیماریاں ہماری طرز زندگی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں، اسی طرح غصہ اور بے صبری جیسی ذہنی اور جذباتی بیماریاں بھی اسی سے جنم لیتی ہیں۔ اس نفسیاتی اور ذہنی تنزل سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہمیں با تقویٰ طرز زندگی اختیار کرنا چاہیے-
آج، ہمارے جسم بیمار ہیں، ہماری روحیں بیمار ہیں، اور معاشرہ بیمار ہے- بیماری کے اندر ایک بیماری۔ ایسی حالت میں ہم امن کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟ بیمار روح، بیمار جسم اور بیمار معاشرہ سکون نہیں دے سکتا۔ انسان کی بھلائی کے لیے اللہ کا فطری نظام تقویٰ ہے۔ اگر آپ اس کے مطابق زندگی گزاریں گے تو آپ محفوظ رہیں گے، اور آپ کی اندرونی اور بیرونی بیماریاں ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گی۔
افسوس کی بات ہے کہ ہم تقویٰ اختیار کرنے کے بجائے تفریحی چیزوں، کھانے پیچنے کی چیزوں اور سماجی اجتماعات میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ لیکن تقویٰ سے جڑی ایک محفوظ زندگی میں ذہنی سکون بھی پایا جاتا ہے اور فرقان بھی حاصل ہوتا ہے۔
ہمارے دور کا سب سے بڑا نقصان
یہ ہمارے دور کا سب سے بڑا نقصان ہے: ہم زندگی کے تمام شعبوں میں تشخیص دینے کی صلاحیت کھو چکے ہیں، پھر بھی ہم جنت میں اعلیٰ مقام کی امید رکھتے ہیں۔ اگر جنت نفسیاتی عدم استحکام یا بے لگام خواہشات میں مبتلا لوگوں کے لیے تیار کی ہوئی جگہ ہے تو شاید یہ امید درست ہو۔ لیکن اگر جنت اللہ کی قربت اور اعمال صالحہ کا نتیجہ ہے تو ہمیں اپنے طرز زندگی کو تقویٰ کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔
بہترین زندگی تقویٰ کی زندگی ہے۔ جس کا پھل دنیا اور آخرت دونوں میں ملتا ہے۔ اور وہ فرقان ہے، اس کے بعد اللہ کی طرف سے گناہوں کی پردہ پوشی، اور آخرکار اس کی بخشش شامل حال ہوتی ہے۔
خطبہ 2
مسلمان حکمرانوں کا طاغوت کی دہلیز پر سجدہ
آج امت مسلمہ کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ تحفظ کی خاطر مسلمان طاغوت (جھوٹی طاقتوں) کی پناہ مانگ رہے ہیں۔ جب حکمران، سیاست دان، رہنما اور علماء تقویٰ کو چھوڑ دیں گے تو عوام بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے تقویٰ سے دوری اختیار کریں گے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پیدا ہو گا۔ خوف کی اس حالت میں، لوگ دوسرے شکاریوں سے تحفظ حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں- ایک درندے سے دوسرے جانور کا رخ کر کے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ آج مسلمانوں کی المناک حالت کو بیان کرتا ہے۔
دنیا کے سیاسی نقشے میں تبدیلی کی کوشش
اس وقت دنیا کے سیاسی جغرافیہ کو نئی شکل دی جا رہی ہے، اور ایک نیا عالمی نقشہ تیار کیا جا رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ جو کہ مسلمانوں کا گڑھ تھا، کو ختم کر دیا گیا، اور ایک نیا مشرق وسطیٰ تشکیل دیا گیا، جس نے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔ عرب قبائل کو اسرائیل کی حمایت کے بدلے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ یہ عرب حکومتیں اسلام سے غداری کرتے ہوئے شیطانی قوتوں کی وفادار رہیں۔
دنیا کا یہ نیا نقشہ کچھ عرصے سے ترسیم ہو رہا ہے، لیکن عالمی طاقتیں اب اس پر نظر ثانی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس ایجنڈے کے طور پر بعض حکومتوں، حکمرانوں اور گروہوں کو جنہیں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ان کا مقصد موجودہ نظاموں کو منہدم کرنا اور کلیدی خطوں کا کنٹرول سنبھال کر اور دوسروں کو تباہ کر کے ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد رکھنا ہے۔ اس منصوبے میں امریکہ، صیہونی اور یورپ جارح کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ عرب اور ترک غدار ہیں۔
اب مغربی ایشیا بھی اس تشکیل نو میں الجھا ہوا ہے، اور پاکستان بھی اس منصوبہ کا حصہ ہے۔ پاکستان کو ایک بے ضابطہ ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے – ایک ایسی ریاست جو اپنی موجودہ شکل میں موجود نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا مقصد پاکستان کو "ری سیٹ” کرنا ہے، اور ہندوستان کو ایک علاقائی اسرائیل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جس طرح اسرائیل عربوں کے خلاف ایک شیطانی قوت بن کر ابھرا، اسی طرح بھارت کو پاکستان کے خلاف ایک شیطانی قوت بننے کے لیے کھڑا کیا جا رہا ہے۔
ملک کی اندرونی کمزوریاں حملے کا سبب
سب کو سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان اب صرف پڑوسی ملک نہیں رہا۔ اس نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے اور جب اسے پاکستان کمزور نظر آیا تو اس نے حملہ کر دیا۔ کمزوری کا یہ ادراک ایک غلط فہمی تھی، لیکن یہ پاکستان کے اپنے حکمرانوں، سیاست دانوں، جرنیلوں، ججوں، اور اقتدار کے بھوکے افراد کی طرف سے بھیجے گئے اندرونی اشاروں سے پیدا ہوئی۔ انہوں نے ایک ٹوٹی ہوئی معیشت، فرقہ وارانہ تنازعات، اور اخلاقی فسادات کو تباہی کی علامتوں کے طور پر پیش کیا، بنیادی طور پر بھارت کو یہ اشارہ دیا کہ پاکستان گرنے کے لیے تیار ہے۔
سب سے اہم اشارہ یہ بیانیہ تھا کہ پاکستان کی فوج کمزور ہو چکی ہے۔ جب کہ میں سیاست میں فوج کی شمولیت کا کھلا ناقد ہوں، فوج قوم کی بنیادی دفاعی قوت ہے، اور پاکستان کا دفاع اس کا فرض ہے۔ اس غلط تاثر کو درست کیا گیا ہے کہ فوج غیر فعال اور محض سیاسی ہے۔ برسوں سے سیاسی گفتگو فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
ہمارے موجودہ وزیر اعظم بار بار طالبان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کو نہ بھیجیں، پھر بھی ان کی بات کوئی نہیں سنتا۔ اس کمزور پالیسی نے بیرونی طور پر دشمنوں کو مو قع دیا ہے۔ جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا تو پاکستان یہ کہتا رہا کہ وہ سب کے ساتھ امن چاہتا ہے۔ ایسے سفارتی بیانات جارحیت کا جواز بن گئے۔ بھارت نے اسرائیل کے ہتھکنڈوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنی پہلی جنگ لڑنے کے گھمنڈ کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا: ہوائی حملے اور ڈرون حملے خوف پیدا کرنے کے لیے کیے گئے۔
لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس قوم کو اندرونی غداروں اور بیرونی جارحوں دونوں سے محفوظ رکھا اور ہماری افواج نے اس قدر زبردست جواب دیا کہ بھارت جنگ بندی پر آمادہ ہونے پر مجبور ہوگیا۔ شکرگزاری کے اس دن پر، ہمیں اللہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے – نہ صرف زبانی، بلکہ عمل کے ذریعے۔ حقیقی شکرگزاری اس کمزور سفارتی بیان بازی کو ترک کرنے میں ہے جو غلط اشارے بھیجتی ہے۔ حقیقی شکرگزاری کا مطلب مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا، مقابلہ کرنا اور دشمنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
فلسطین، ایران اور امام حسین(ع) کو مشعل راہ بناؤ
ہمیں فلسطینیوں، ایرانیوں اور امام حسین (ع) سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ ظالموں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستان اگر رسوائی کا راستہ چھوڑے گا تو اللہ اسے عزت دے گا۔ اگر ہم نے بے عزتی کا انتخاب کیا تو بھارت اور طالبان ہماری تذلیل کرتے رہیں گے۔
اس سے پہلے کہ ہندوستان مکمل طور پر دوسرا اسرائیل بن جائے، جیسا کہ امام خمینی (رہ) نے خبردار کیا تھا، ہمیں اسے ختم کرنے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ اس حکمت عملی پر پاکستانی عوام، فوج، قائدین اور علماء کو عمل کرنا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ حملہ کرے، ان سے اپنی سرزمین پر ہی نمٹا جانا چاہیے۔ اللہ پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ اگر ہم ایمان کے ساتھ اٹھیں گے تو وہ ہمارے ساتھ ہو گا- اور یہ اس کا وعدہ ہے کہ چھوٹے گروہ طاقتور دشمنوں پر قابو پا سکتے ہیں۔
سچے اور جھوٹے دوستوں میں تشخیص کی ضرورت
پاکستان کو بھی فلسطین کے بارے میں اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ ’’یہ جنگ ہماری نہیں‘‘ کہنا ناکامی کا ثبوت ہے۔ ہم اسرائیل نہیں گئے تھے لیکن اسرائیل اب انڈیا کے ذریعے ہم سے لڑنے آیا ہے۔ یہ ان کی حکمت عملی تھی۔ آذربائیجان اور ترکی، اگرچہ پاکستان کے دوست ہیں، غزہ جنگ کے دوران انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ دھوکہ کیا اور اب خود کو پاکستان کے اتحادی قرار دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ترکی کے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ پاکستان کے سچے دوست نہیں ہیں – یہ آپ کے دشمنوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تاکہ آپ کو اندر سے کمزور کریں۔
اس لیے ہمیں چوکنا رہنا چاہیے۔ اگر پاکستان مزاحمت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسے ترکی یا آذربائیجان سے نہیں بلکہ حماس، حزب اللہ اور یمنی افواج جیسی حقیقی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ یمن ترکی یا آذربائیجان سے زیادہ بامعنی مدد پیش کر سکتا ہے۔
یہ اعزاز اللہ نے پاکستان کو دیا ہے اس کا حقیقی شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اندرونی اختلافات کو ختم کرنا، زمینی اتحاد کا مظاہرہ کرنا، نہ صرف تقریروں میں بلکہ عملی اتحاد ہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس ملک کو ہر خطرے سے محفوظ رکھے۔