عصر حاضر میں، کوئی بھی عالم کے روپ میں ظاہر ہونے والا خمس وصول کرنے اور تقسیم کرنے کے حق کا دعویٰ کر رہا ہے۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے چونکہ کوئی بھی دینی معیارات کا پابند نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جو یہ مال وصول کرتے ہیں وہ اپنے اس عمل کی توجیہ میں خود ساختہ دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔
مالی معاملات میں تقویٰ کی ضرورت/ امام رضا (ع) سے غالی کی بحث

حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ 30 مئی 2025
خطبہ 1: مالی معاملات میں تقویٰ کی ضرورت
خطبہ 2: امام رضا (ع) سے غالی کی بحث
اللہ تعالیٰ نے انسان کا وجود مادی مرحلے سے شروع کیا اور اسے کمال عطا کر کے غیر مادی درجے تک پہنچایا ہے۔ جب انسان کی زندگی کا آغاز مادیت سے ہوتا ہے تو اس کی ضروریات بھی مادی ہیں۔ ان مادی ضروریات کو اللہ تعالیٰ نے ایک نظام کی صورت میں انسان کی دسترس میں قرار دیا ہے۔ مادی ضروریات سے درست فائدہ اٹھانے کے لیے اللہ نے تشریعی نظام بنایا ہے۔ تکوینی نظام کے تحت اللہ نے انسان کے لیے مادی ضروریات پیدا کی ہیں اور انسان کی دسترس میں قرار دی ہیں اور تشریعی نظام کے ذریعے ان مادی ضروریات کے اندر نظم و ترتیب پیدا کی ہے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ مادی ضروریات کچھ افراد کے ہاتھ میں چلی جائیں اور باقی افراد ان سے محروم ہو جائیں۔ لہذا اس نظم و ترتیب کو برقرار کرنے کے لیے شریعت نے نظام معیشت تشکیل دیا ہے اور اس کے تحفظ کے لئے تقویٰ رکھا ہے۔ یعنی انسان کی معیشت تقویٰ کے دائرہ میں رہنا چاہیے۔ یہ مخصوص قسم کا تقویٰ ہے جو مادی اور مالی امور کے ساتھ مختص ہے۔
آمدنی کے ذرائع
اللہ نے بنی نوع انسان کے لیے کمائی کے مختلف جائز ذرائع مہیا کیے ہیں، جن کی بنیادی طور پر زراعت، تجارت، صنعت اور خدمات (سروسز) میں درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ ان تمام شعبوں میں محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، آمدنی کی ایک اور شکل موجود ہے جو ان چار روایتی طریقوں کے ذریعے حاصل نہیں کی جاتی ہے۔ یہ غنیمت کے نام سے جانی جاتی ہے- یعنی ایک قسم کا فائدہ جو پیشگی ارادے یا ہدف کی کوشش کے بغیر حاصل ہوتا ہے، جیسے کنواں کھودتے ہوئے زمین سے خزانہ مل جانا یا شکست خوردہ فوج سے جنگی سامان حاصل کرنا۔
غنیمت کا معنیٰ اور مفہوم
غنیمت کی اصطلاح غنم سے نکلی ہے جس کا مطلب مویشی ہے۔ قدیم زمانے میں، مال مویشی لوگوں کے بنیادی اثاثے تھے۔ اسلام سے پہلے جب ایک قبیلہ دوسرے کو جنگ میں شکست دیتا تو فاتحین مویشیوں اور دیگر وسائل پر قبضہ کر لیتے تھے۔ اس قسم کے اموال کو غنیمت (جنگی مال غنیمت) کہا جاتا ہے۔ اور بعد میں اس میں ہتھیاروں اور دیگر قیمتی اشیاء سمیت جنگ کے ذریعے حاصل ہونے والے کسی بھی فائدے کو شامل کر لیا گیا۔ قرآن غنیمت کی اصطلاح کو اس طرح کے فوائد کے لیے استعمال کرتا ہے، اور اسلامی فقہ بھی اس کا اطلاق ہر اضافی مال پر کرتی ہے جو کسی خاص محنت کے بغیر حاصل کیا گیا ہو۔
مال غنیمت کا حقدار کون؟
کسی شخص کے کل اثاثوں کے اندر، ایک اہم حصہ غنائم سے تعلق رکھتا تھا وہ مال جو براہ راست محنت و کوشش سے کمایا نہیں جاتا۔ اس قسم کا مال اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ اسلامی حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اسلامی حکومت میں اسلامی ہدایت کے مطابق اسے تقسیم کرے۔ چونکہ یہ مال اللہ کا مال سمجھا جاتا ہے، اس لیے اسے اللہ کے مقرر نمائندے کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے۔ ایسے ادوار میں جہاں اسلامی حکومت کا وجود نہیں ہے، جیسا کہ ائمہ کے دور میں، حکومتی کنٹرول ان کے پاس نہیں تھا لیکن غنائم پر اختیار ائمہ کے پاس تھا۔ ائمہ کے دور کے بعد، ان کے نمائندوں کو اس مال کا انتظام کرنا تھا، لیکن یہ نظام بالآخر منہدم ہوگیا۔
اسلامی حکومت کی عدم موجودگی اور مال خمس
عصر حاضر میں، کوئی بھی عالم کے روپ میں ظاہر ہونے والا خمس وصول کرنے اور تقسیم کرنے کے حق کا دعویٰ کر رہا ہے۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے چونکہ کوئی بھی دینی معیارات کا پابند نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جو یہ مال وصول کرتے ہیں وہ اپنے اس عمل کی توجیہ میں خود ساختہ دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ الہی اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں، متبادل دینی احکام موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اس طرح کے اموال کہاں اور کس طرح خرچ کیے جانے چاہیے۔ یہ ذمہ داریاں معتبر علماء پر عائد آتی ہیں اور بعض صورتوں میں خود اہل ایمان پر بھی عائد آتی ہیں۔
یہ موضوع اموال کی ملکیت اور تقسیم کے حوالے سے گہرے تجزیہ کا متقاضی ہے۔ تاہم، مختصراً، غنایم مال کی ایک الگ قسم ہے جس کے استعمال کے بارے میں قرآن نے واضح رہنمائی فراہم کی ہے اور اس سلسلے میں تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض چیزیں ہمیشہ فساد کے خطرے میں رہتی ہیں، اور مال و دولت ہمیشہ اور سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں۔ مال ایک عالمگیر کشش رکھنی والی چیز ہے۔ لوگ نہ صرف وہی مال چاہتے ہیں جو ان کا ہے بلکہ وہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کا نہیں ہے۔
مال کی طرح عورتیں بھی غیر محفوظ
مال کے بعد دوسری چیز جو غیر محفوظ ہے وہ قرآن کے مطابق عورتیں ہے، خاص طور پر مردوں کی خواہشات کے حوالے سے وہ غیر محفوظ ہیں۔ عورتیں فطری طور پر مردوں کے لیے پرکشش ہوتی ہیں، اس لیے قرآن نے ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ قرآن نے ان کے تحفظ کے لیے بھی خصوصی تقویٰ قرار دیا ہے۔
خواتین کو بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مردوں کی نامناسب نگاہوں سے محفوظ رکھیں۔ تاہم، آج کے ڈیجیٹل دور میں، بہت سی خواتین نادانستہ طور پر بے نقاب ہو چکی ہیں۔ موبائل فون، سوشل میڈیا اور سماجی روابط پر مبنی سافٹ ویئرز نے خواتین تک رسائی بہت آسان بنا دی ہے۔ لہٰذا اللہ کا نظام حفاظت مال و عورت دونوں پر محیط ہے۔
مال کی حفاظت کا صحیح طریقہ
مال کی حفاظت اس الہی نظام کے مطابق ہونی چاہیے جو اللہ نے اس کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ انسانوں نے اجتماعی وسائل، وراثتی اموال اور اسلامی حکومت سے متعلق اموال کا غلط استعمال کیا ہے اور اس کے نتیجے میں مال نے انسانوں کو ضائع کر دیا ہے۔ اس سے ایک گہرا سوال پیدا ہوتا ہے: کہ کیا انسان نے زیادہ مال ضائع کیا ہے، یا مال نے زیادہ انسان ضائع کیے ہیں؟ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ انسان مال کھاتا ہے لیکن حقیقت میں مال انسان کو کھا جاتا ہے۔ مال میں تقویٰ کا بنیادی اصول اپنے آپ کو مال کی تباہ کن نوعیت سے بچانا ہے۔ صحیح معنوں میں شریف انسان وہ ہے جو مال کے حملے اور اس کے فساد سے خود کو محفوظ رکھے۔
مالی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوششیں
امیر المومنین علی (ع) وہ اعلیٰ ترین ہستی ہیں جنہوں نے دنیا اور مال کے حملے سے خود محفوظ رکھا۔ بدقسمتی سے، آج کل کچھ علما حقائق کو فروغ دینے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے غلط کاموں کو خاص طور پر مال کے غلط استعمال کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنی علمی قابلیتوں کا استعمال کرتے ہوئے دلیلیں تراشتے ہیں۔ ان میں مالی معاملات میں تقویٰ کا فقدان ہے اور اپنی مالی کمزوریوں کو عبادتوں یا دیگر دینی رسومات کے ذریعے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ لوگ انہیں اس پہلو سے بڑا متقی اور پرہیزگار دیکھیں۔
قرآن میں مال غنیمت کے استعمال کے شرائط
یہ مسئلہ قرآن مجید کی سورہ الانفال آیت نمبر 69 میں بیان کیا گیا ہے، جو اس طرح کے مال کے صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے بارے میں ایک اہم پیغام ہے۔
فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ {69}
جو چیز آپ کے پاس غنیمت کے طور پر آئی ہے اسے کھانے کی آپ کو اجازت ہے، لیکن اس کی دو شرطیں ہیں: پہلی، یہ حلال ہونی چاہیے اور دوسری، طیب ہونی چاہیے۔ یہ دونوں الگ الگ تصورات ہیں۔ طیب اور طاہر مترادف نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد ایسی چیز ہے جو انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے۔
تزکیہ اور طہارت میں فرق
جیسے لفظ تزکیہ ہے، جسے سب نے طہارت کے مترادف سمجھا ہے جبکہ معنیٰ کے لحاظ سے تزکیہ اور طہارت میں کوئی ربط نہیں ہے تزکیہ زکات سے نکلا ہے اور طہارت طہر سے نکلا ہے۔ طہارت کا مطلب نجاست اور پلیدی کو دور کرنا ہے اور زکات کا مطلب ہوتا ہے بیج کو پرورش دینا۔ ان دونوں کو کیسے مخلوط کر دیا ہے یہ خود عجائب میں سے ہے۔ جیسے شہید مطہری شہید ہوتے وقت تک یہ تعجب کرتے رہے کہ علما نے کیسے تقویٰ کے معنیٰ کو ڈر اور پرہیز کر دیا جبکہ تقویٰ کے معنیٰ حفاظت کے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کا مطلب صرف مال کا کچھ حصہ نکالنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب ہے پرورش اور ترقی دینا۔ مال کا کچھ حصہ الگ کرنا زکات کہلاتا ہے یہ علم فقہ کی اصطلاح ہے قرآن کی اصطلاح نہیں ہے۔ قرآن نے ایتاء الزکات کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے زکات لاؤ نہ زکات دو۔ یعنی اللہ نے جو ابتدائی سرمایہ دیا ہے اسے بڑھاؤ اور اس میں اضافہ کرو۔ خواہ وہ مال ہو، اولاد ہو یا کردار ہو تاکہ وہ ترقی کرے اور پھلے پھولے۔
حلال و طیب سے مراد
اس فریم ورک میں زکوٰۃ کا اطلاق صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جن میں نشوونما کی فطری صلاحیت ہوتی ہے۔ قرآنی اصطلاحات کے اس باریک معنی کو اکثر تنگ یا تحریف کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، تقویٰ اور طیب کو اکثر سطحی تشریحات تک محدود کردیا گیا ہے۔ حلال سے مراد وہ چیز ہے جو جائز اور بلاقید و شرط ہے، جب کہ طیب سے مراد وہ چیز ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں اور روحانی اور اخلاقی ترقی میں اضافہ ہو۔
مال غنیمت کے بارے میں قرآنی حکم
لہٰذا، جب مال غنیمت یعنی قومی مال آپ کے ہاتھ لگتا ہے، تو سب سے پہلے اس کے حلال ہونے کی تصدیق کے لیے اس کا جائزہ لینا چاہیے، یعنی اس کے استعمال پر آپ کو کوئی دینی ممانعت یا قید و شرط نہ ہو۔ پھر، اس کا اندازہ لگانا چاہیے کہ آیا یہ طیب ہے، یعنی، کیا یہ آپ کے باطنی اور روحانی صلاحیتوں کی نشوونما میں معاون ثابت ہوگا؟
یہ ماجرہ خاص طور پر جنگ بدر کے بعد نازل ہونے والی قرآن کی ایک آیت سے متعلق ہے، جہاں مسلمانوں کو معجزانہ فتح حاصل ہوئی۔ تقریباً ستر قیدی پکڑ لیے گئے۔ امام علی (ع) کے علاوہ زیادہ تر مسلمانوں نے مالی فائدے کے لیے قیدی پکڑے۔ چونکہ اسلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ جنگ میں اگر دشمن کے افراد کو قید کر لیا جاتا تھا تو دشمن پیسے دے کر انہیں چھڑواتا تھا لہذا اسی لالچ میں مسلمانوں نے جنگ بدر میں دشمنوں کو قتل کرنے کے بجائے انہیں قیدی بنانے کی کوشش کی۔ لیکن امام علی (ع) نے کوئی قیدی نہیں پکڑا جو سامنے آیا اسے واصل جہنم کر دیا۔
اللہ کی طرف سے عطا کردہ اس فتح کے باوجود، بہت سے لوگوں نے ان سے مادی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے تاوان حاصل کرنے کے ارادے سے قیدیوں کو پکڑ لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ دو کو چھوڑ کر باقی تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے تو اس سے صحابہ میں بے چینی پیدا ہو گئی، کیونکہ وہ مالی انعام کی توقع رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایک آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ جب تک اسلام مکمل غلبہ حاصل نہیں کر لیتا نبی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دشمنوں کو قیدی بنائے۔ جنگ کا مقصد مادی فائدہ نہیں تھا بلکہ اسلامی حکومت کا قیام تھا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جانا تھا کہ کتنے دشمنوں پر قابو پایا گیا، نہ کہ پکڑا گیا۔
تاہم، چونکہ قیدی پہلے ہی لے جا چکے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فدیہ کی رقم کو حلال اور طیب ہونے کی شرط پر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ پھر بھی قرآن نے انہیں یاد دلایا کہ یہ جنگ کا مقصد نہیں تھا۔ مسلمانوں کی یہ پہلی جنگ تھی جس میں غنیمت حاصل ہوئی تھی، اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں بہتری کی امید کرتے ہوئے مال کی اچانک آمد سے پرجوش تھے۔ اس لیے جب اس کے استعمال کی اجازت دی گئی، تو اللہ نے مال کے ساتھ ساتھ تقویٰ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
اس آیت کا گہرا پیغام بدر کے قیدیوں یا غنیمت کے اس مخصوص واقعہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ، یہ ایک عالمگیر اصول کو بیان کرتا ہے کہ مال کے فساد سے خود کو بچائیں۔ اور مال کے ساتھ اپنے معاملات میں تقویٰ کو مجسم کرنے کی کوشش کریں – امام علی (ع) فرمایا کرتے تھے کہ "دنیا ہر روز نئے بھیس میں مجھے دھوکہ دینے کی کوشش میں میرے پاس آتی ہے، لیکن میں کہتا ہوں: جاؤ کسی اور کو دھوکہ دو، کیونکہ تم مجھے دھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہو گی۔”
خطبہ 2
امیر المومنین کی تعلیمات میں مہلک خطرات کے اسباب
تقویٰ کی حفاظت کے لئے اللہ نے انسان کو جو اسباب فراہم کئے ہیں ان میں سب سے بڑا وسیلہ اہل بیت(ع) اور خصوصا امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) ہیں۔ امیر المومنین (ع) کی تعلیمات تقویٰ کے محور پر ہی ہیں۔ امام علی علیہ السلام نے تقویٰ کا نظام قائم کیا اور اسے اپنی زندگی پر بھی نافذ کیا اس لیے آپ مجسم تقویٰ ہیں۔ لہذا امیر المومنین کی تعلیمات کی روشنی میں انسان ضروری نہیں ہے صرف ان خطرات کا شکار ہو کر ہلاک ہو جائے جو بدنام ہوں چہ بسا ایسی جگہوں پر بھی مہلک خطرات اس کے دامنگیر ہو جائیں جہاں پر وہ نجات کی توقع کر رہا تھا۔ آپ (ع) نے ہمیں آگاہ کیا ہے:
وَ قَالَ عليه السلام: هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ
میری وجہ سے دو قسم کے لوگ ہلاک اور تباہ ہیں: وہ جو مجھ سے مبالغہ آرائی سے محبت کرتا ہے یعنی اور وہ جو مجھ سے نفرت کرتا ہے۔
غالیوں کے خلاف ائمہ کا مبارزہ
امام علی (ع) سے لے کر آخری امام (ع) تک، متفقہ طور پر ائمہ نے غلو کی مسلسل شدید مخالفت کی ہے، اور بعض اوقات ظالموں کی مخالفت سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ غالیوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے خاص طور پر شیعہ برادری کو ہدایت کی کہ وہ اپنے آپ کو غلات سے دور رکھیں۔
امام رضا (ع) نے بارہا اس امر پر تاکید کی جیسا کہ بحار الانوار کی جلد ۲۵ کے باب دہم میں روایت ہوئی ہے۔ جس میں امام (ع) فرماتے ہیں:
"اے اللہ! ہمیں صراط المستقیم پر قائم رکھ جو ان لوگوں کا راستہ جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئی ہیں، نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر غضب ہوا یا گمراہ ہو گئے۔ امام علی (ع) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس راستے کی تلاش کا حکم دیا ہے جو انبیاء، صادقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ہے۔ اور جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے جو گمراہ ہیں ان کے راستے سے اللہ کی پناہ مانگو، اور وہ یہودی ہیں اور ان سے بھی زیادہ اہل شر وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے لعنت کی ہیں اور ان پر اللہ نے غضب نازل کیا ہے ’’ضالین‘‘ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں غلو کیا اور وہ نصاریٰ ہیں پھر امیر المومنین(ع) نے فرمایا: جو بھی اللہ تعالیٰ کا انکار کرتا ہے وہ بھی مغضوب اور گمراہ ہے۔ امام رضا(ع) نے اس مزید اضافہ کیا کہ جو بھی امیرالمومنین علی(ع) کو عبودیت سے بڑھا کر الوہیت کے درجے تک لے جائے وہ بھی مغضوب اور گمراہ ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نے خود فرمایا تھا کہ ہمیں عبودیت سے آگے نہ بڑھاؤ ۔ ہمیں عبودیت کے درجے پر رکھ کر جو بھی ہماری شان میں خوبیاں بیان کرو درست ہے۔ ہمیں اللہ کا بندہ جان کر اگر تم ہمارے فضائل شمار کرنا چاہو گے تو شمار نہیں کر سکو گے۔ لیکن ہمارے بارے میں غلو نہ کرنا جس طرح عیسائیوں نے عیسی مسیح کے بارے میں غلو کیا۔ ’’انی بری من الغالین‘‘ میں غالیوں سے بری ہوں۔
غالی کی امام علی کے خدا ہونے پر امام رضا سے بحث
اس روایت کو بیان کرتے وقت مجمع میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر امام رضا (ع) سے کہا کہ اے فرزند رسول! ہمارے لیے اللہ کی صفات بیان کرو۔ اس لیے کہ ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں کچھ اور بیان کرتے ہیں اور ہم ائمہ کی صفات کے ساتھ خدا کی صفات کو مخلوط کر دیتے ہیں اس لیے آپ ہمارے لیے اللہ کی صفات بیان کریں۔
امام رضا (ع) نے جواب دیا: "جو شخص اللہ کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے وہ ساری زندگی گمراہ رہے گا اور کبھی صحیح راستہ نہیں پائے گا، ایسے شخص کی ہر بات ہمیشہ غلط ہوگی۔”
اس کے بعد امام نے مزید فرمایا: "میں اللہ کو اس طرح بیان کروں گا جیسا کہ اس نے خود کو بیان کیا ہے۔ اگرچہ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اللہ کی کوئی جسمانی شکل نہیں ہے، ہماری جسمانی صلاحیتوں کے ذریعے محسوس نہیں کیا جا سکتا، اور اس کا موازنہ اس کی مخلوقات میں کسی سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسے اس کی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے۔”
میں نے ایک بار اپنے جامعہ کے ایک استاد سے کہا کہ عقائد پر زیادہ تر کتابیں ملحدوں یا منکروں کی تردید کے لیے لکھی گئی ہیں۔ یہ کتابیں اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور انہیں مومن طلاب کو پڑھایا جاتا ہے جنہیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم فرض کرو کہ خدا نہیں ہے اور پھر دلیل کے ذریعے ان کے لیے خدا ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اعتقادی نصاب کو اس طرح سے ترتیب دیں جس طرح قرآن اللہ کا تعارف اس کی نشانیوں کے ذریعے پیش کرتا ہے، نہ کہ فلسفیانہ دلایل کے ذریعے۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "اللہ دور ہے، لیکن مخلوق سے منقطع نہیں؛ ہر چیز کے اندر موجود ہے، لیکن مخلوط نہیں، جیسے قرآن کہتا ہے کہ اللہ قیوم ہے، یعنی ہر چیز اسی پر منحصر ہے، تم مومنوں کو پہلے منکر بنا کر اللہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو، اس طرح کی بحثوں کے لیے فلسفیانہ تربیت یافتہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں خود کو پہچنوانے کے لیے فرماتا ہے: اپنے اندر پائی جانے والی نشانیوں اور آفاق کے اندر موجود نشانیوں کے ذریعے اللہ کو پہچانو نہ کہ فلسفیانہ دلائل سے۔
امام رضا(ع) کی حدیث میں خدا کی معرفت
امام نے آگے فرمایا: "مخلوق کو جتنی اللہ کی معرفت ہے وہ اتنی اس کی اطاعت کرتی ہے اور جو معرفت نہیں ہے اس سے آگے گذر جاتے ہیں۔ وہ قریب ہے لیکن محدود نہیں، وہ دور ہے، لیکن غائب نہیں، وہ موجود ہے، بغیر مشابہت کے، وہ ایک اور ناقابل تقسیم ہے۔ وہ اپنی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے، اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔”
اس مقام پر وہی شخص دوبارہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرا ایک دوست ہے جس کا دعویٰ ہے کہ آپ نے جو صفات بیان کی ہیں وہ سب علی (ع) پر صادق آتی ہیں، اس لیے وہ اللہ ہیں۔
یہ سن کر امام رضا علیہ السلام کانپنے لگے اور آپ کے چہرے پر پسینہ آ گیا۔ فرمایا:
"اللہ پاک و منزہ ہے، وہ ان کافروں کے دعووں سے بہت بلند ہے! کیا تم نہیں جانتے کہ علی (ع) سب کی طرح کھانا کھاتے تھے، سب کی طرح پانی پیتے تھے، کیا انہوں نے شادی نہیں کی تھی؟ وہ تمام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے، اور وہ اللہ کے سامنے عاجزی کرتے تھے اور اس کے لیے سجدہ کرتے تھے، کیا اللہ کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، شادی کرتا ہے؟ تو یہ صفات تم میں سے ہر ایک میں پائی جاتی ہیں تو کیا تم سب خدا ہو گئے ہو؟ کیوںکہ یہ ساری صفات تم سب کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ”
امام علی کے خدا ہونے پر غالی کی دلیل
پھر بھی وہ آدمی ضد پر قائم رہا اور سچائی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا: ٹھیک ہے جو صفات آپ نے ذکر کی یہ علی میں موجود تھیں لیکن علی نے جو معجزات دکھائے ہیں وہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں دکھا سکتا لہذا یہ معجزات ان کے اللہ ہونے پر دلیل ہیں۔ اللہ نے اپنی پہچان آسان کرنے کے لیے علی کی شکل میں خود کو ظاہر کیا۔ تمام تر استدلال کے باوجود، وہ آدمی باز نہیں آیا، جو اس کے دل میں گہری گمراہی کی نشاندہی کرتا ہے۔
امام نے واضح کیا: "یہ معجزات اللہ کی طرف سے اپنے برگزیدہ بندوں کو ان کے الٰہی مشن کے ثبوت کے طور پر عطا کیے گئے تھے، نہ کہ الوہیت کے ثبوت کے طور پر۔”
یہ روایت آئندہ خطبے میں بھی جاری رہے گی۔ اللہ ہمیں اس طرح کے خطرناک فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں لباس تقویٰ زیب تن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔