اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں میں ایک برجستہ شخصیت سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی ہے۔ جنہوں نے جہاد کا حق ادا کیا ہے۔ جس طرح سید الشہدا کے زیارتناموں میں ہم گواہی دیتے ہیں کہ "اشھد انک جاھدت فی اللہ حق جہادہ"، اسی طرح سید نصراللہ کے بارے میں بھی یہ کہنا برحق ہے کہ کہ انہوں نے بھی جہاد کا حق ادا کیا ہے۔
شہید حسن نصراللہ راہ مقاومت کا سمبل
حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطاب بمناسبت برسی شہید مقاومت
۲۷ ستمبر ۲۰۲۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿۹۵﴾
سید مقاومت سید حسن نصراللہ اور دیگر شہدائے مقاومت و مزاحمت کے سالانہ یوم شہادت کے موقع پر تمام اہل اسلام بالخصوص راہروان راہ ولایت و مقاومت کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں۔
شہید حسن نصراللہ راہ مقاومت کا سمبل
سید نصر اللہ راہ مقاومت کا عنوان اور سمبل ہیں۔ اور اس حقیقی دین کی پہچان ہیں جس کے مطابق نبی کریم نے زندگی گزاری اور نظام الہی قائم کیا۔ تاریخ میں دین کی متعدد تفسیریں بیان کی گئیں اور دین کے نام پر کئی راستے، کئی مکتب اور فرقے بنائے گئے جنہیں اگر آج شمار کیا جائے تو شاید شمار میں نہ آ سکیں لیکن یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دین کے نام پر بنے ہوئے راستے اور سلسلے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔
نبی کریم نے اپنے اصحاب کو اکٹھا کر کے ریت پر تین لکیریں کھینچی اور فرمایا میرا راستہ یہ درمیان کا راستہ ہے اور اس کے متوازی راستے شیطان کے راستے ہیں میرا راستہ نہیں ہیں۔ گویا آپ(ص) نے مسلمانوں کی پہلی نسل کو اس بات کی طرف متوجہ کر دیا کہ میرے راستے کے مقابلے میں متوازی راستے بنیں گے اگرچہ وہ صراط مستقیم اور دین کے راستے نظر آئیں گے لیکن وہ حقیقت میں اللہ کا راستہ نہیں ہوں گے۔ آج اگر ہم غور کریں تو یہ لکیریں اور لائنیں ہزاروں کی تعداد میں پہنچ چکی ہیں۔ مسلکوں، فرقوں اور فرقوں کے اندر فرقوں کی صورت میں یہ راستے بن چکے ہیں۔ لیکن اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے جو راستہ مقرر فرمایا ہے وہ ایک ہی راستہ ہے اور وہ صراط مستقیم ہے۔ جس پر چل کر انسان نے اس مقصد کو حاصل کرنا ہے جو اللہ نے انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اس سیدھے راستہ اور سبیل کی اللہ نے پہچان رکھی ہے تاکہ ہر انسان آسانی سے پہچان سکے کہ اللہ کا راستہ کون سا ہے؟
شہداء صراط مستقیم کے روشن چراغ
اس صراط مستقیم کو روشن اور منور رکھنے کے لیے اللہ نے کچھ چراغ جلائے ہیں اور وہ چراغ شہدا ہیں۔ صراط مستقیم پر زندگی گزارنے اور راہ خدا میں جان قربان کرنے والی شخصیات کو اللہ نے اپنے راستے کے چراغ قرار دیا ہے۔ امام خمینی (رہ) نے اسی منطق کے تحت شہدا کو شمع محفل انسانیت قرار دیا تھا۔ چونکہ وہ راستے جن پر لوگ چلتے ہیں ان کے نشانات باقی رہتے ہیں اور وہ راستے جن پر کوئی چلتا نہیں ان کے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ راستوں کو برقرار رکھنے کے لیے ان پر رفت و آمد اور روشنی ضروری ہے۔ اللہ نے اپنے راستے کے لیے جن کو چراغ کا درجہ دیا ہے وہ شہدائے راہ خدا ہیں۔
راہ خدا میں مرنے سے پہلے اس پر جینا ضروری
وہ شہدا جو اللہ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ صرف جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے راہ خدا کے چراغ نہیں بن جاتے بلکہ وہ اس راستے پر زندگی گزارتے ہیں۔ اس راستے کے تقاضے پورے کرتے اور اس کے وفادار ہوتے ہیں۔ اور زندگی کے آخری لمحے تک اس پر قائم رہتے اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور پھر اسی راہ پر جان قربان کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے شہدا عظیم ہوتے ہیں۔ صرف مرنے سے کسی کو عظمت نہیں ملتی بلکہ راہ خدا پر جینے اور زندگی گزارنے سے کسی شہید کو یہ مقام ملتا ہے۔
شہداء کے درجات
شہداء کے بھی درجات ہیں سب سے بڑا درجہ ان شہدا کا ہے جو میدان جنگ میں شہید ہوتے ہیں اور جنگ و جہاد کی حالت میں دشمن کے ہاتھوں قتل کئے جاتے ہیں ان کے علاوہ جنہیں شہید کہا جاتا ہے وہ مجازی شہید ہیں۔ حقیقی شہید معرکہ قتال میں قتل ہونے والا مجاہد ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں حقیقی شہید وہ ہے جو راہ خدا میں زندگی گزارے، راہ خدا میں استقامت کا مظاہرہ کرے اور زندگی بھر راہ خدا میں جان قربان کرنے کی تیاری بھی کرے اور آخر میں جان بھی قربان کر دے۔
بہت سارے شہدا ہیں جو دل ناخواستہ مارے جاتے ہیں جبکہ وہ مرنا نہیں چاہتے۔ راہ خدا میں زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں لیکن مرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ موت سے بچنے کے لیے ہر طرح کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی بچا نہیں پاتے اور شہید ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ شہید جو ساری زندگی اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے آمادہ رہتا ہے بعض جگہوں پر اسے سو فیصد اپنی جان کی قربانی کا یقین ہوتا ہے اور بعض اوقات قرآئن و شواہد اسے بنا دیتے ہیں اور پھر بھی وہ اس راہ پر ثابت قدم رہتا ہے۔ یا قرآن کے بقول جب لوگ اللہ کا راستہ چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں تب شہدا اپنے قدموں سے چل کر اپنے مقتل میں جاتے ہیں: لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ۔
یہ عظیم اور حقیقی شہدا ہیں اس کے علاوہ جو نہ چاہتے ہوئے کسی حادثہ یا جنگ میں مارے جاتے ہیں وہ شہادت کے اس درجے پر فائز نہیں ہوتے۔
قائد شہدا کا مقام؛ اہل قیام اور اہل قعود میں فرق
وہ شہدا جو میدان قتال میں دوسروں کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں اور لشکر تیار کر کے اس کی سرپرستی کرتے ہیں اور خود بھی اللہ کی راہ میں قربان ہوتے ہیں اور ان کا لشکر بھی اللہ کی راہ میں قربان ہو جاتا ہے۔ یہ شہدا میدان جنگ کے شہدا سے بھی افضل ہوتے ہیں چونکہ یہ دیگر شہدا کے قائد اور سردار ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کا لقب دیا ہے اور ان کا موازنہ اہل قعود سے کیا ہے۔ اہل قعود وہ لوگ ہیں جو راہ خدا میں نہ جہاد و مبارزہ کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے قائل ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی میدان جہاد کی طرف جانے سے روکتے ہیں کہ اس راہ میں سوائے مشکلات اور قتل و غارت کے کچھ نہیں ہے لہذا جہاد کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں۔ قرآن نے ان کے لیے قاعدین کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اہل قعود باقی ہر اعتبار سے پاک و پاکیزہ لوگ ہوتے ہیں، کسی کا مال نہیں کھاتے، کسی پر ظلم نہیں کرتے، کوئی برائی نہیں کرتے لیکن جہاد و مبارزہ والے نہیں ہیں۔
اور تیسرا طبقہ وہ لوگ ہیں جو نہ اہل جہاد ہیں اور نہ اہل قعود۔ یعنی فساق، فجار اور جرائم پیشہ لوگ ہیں۔ انہیں قرآن کسی طبقہ میں شمار نہیں کرتا یہ ذخیرہ جہنم ہیں۔
وہ طبقہ جو پاک و پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لیکن اہل قیام و جہاد نہیں ہے قرآن کے بقول گرچہ یہ شاید اہل جہنم نہ ہوں لیکن جنت میں مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے۔
سورہ مبارکہ نساء کی آیت ۹۵:
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
"اندھے بیمار اور معذور افراد کے علاوہ گھر بیٹھ رہنے والے صاحبانِ ایمان ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والے ہیں- اللہ نے اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر امتیاز عنایت کئے ہیں اور ہر ایک سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اجر عظیم عطا کیا ہے”۔
قاعدین کا مجاہدین سے تقابل
مومنین میں سے وہ لوگ جنہوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور اہل میدان نہیں ہیں وہ مجاہدین کے برابر نہیں ہیں۔
قاعدین اور مجاہدین کے درمیان تقابل بیان کرتے ہوئے جو یہ فرما دیا کہ یہ برابر نہیں ہیں اتنا بیان کافی تھا لیکن اس کے بعد پھر دھرا کر اللہ نے فرمایا کہ جو مجاہدین ہیں ان کا درجہ قاعدین سے بلند ہے۔ پھر تیسری دفعہ اسی آیت کے اندر انہی دو گروہوں کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجاہدین کا اجر بہت عظیم ہے۔ پہلے فرمایا کہ مجاہدین اور قاعدین برابر نہیں ہیں، پھر فرمایا کہ مجاہدین کا درجہ بلند ہے پھر تیسری دفعہ مطلقا مجاہدین کو قاعدین پر فضیلت اور برتری بخشی ہے۔ یہ برتری صرف اللہ کی راہ میں عبادتوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی راہ میں زندگی گزارنے اور پھر اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے حاصل ہوتی ہے۔
شہید حسن نصراللہ اور دیگر شہدا میں فرق
جس طرح اللہ نے تمام نیکیوں کو برابر قرار نہیں دیا جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا: فَوْقَ كُلِّ ذِي بِرٍّ بَرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ اَلرَّجُلُ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ فَإِذَا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ فَلَيْسَ فَوْقَهُ بِرٌّ۔
ہر نیکی کے اوپر نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں قتل ہو جائے پس جب انسان راہ خدا میں قتل ہو جائے، پھر اس کے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے۔ سب سے بڑی نیکی اللہ کی راہ میں شہادت ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ قتل ہونے والوں کو بھی برابر قرار نہیں دیا۔
اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں میں ایک برجستہ شخصیت سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی ہے۔ جنہوں نے جہاد کا حق ادا کیا ہے۔ جس طرح سید الشہدا کے زیارتناموں میں ہم گواہی دیتے ہیں کہ "اشھد انک جاھدت فی اللہ حق جہادہ”، اسی طرح سید نصراللہ کے بارے میں بھی یہ کہنا برحق ہے کہ کہ انہوں نے بھی جہاد کا حق ادا کیا ہے۔
یہ شخصیت شہادت سے پہلے بھی بہت عظیم شخصیت تھی اور شہادت نے انہیں اور بھی عظیم بنا دیا۔ ان کی عظمت کی گواہی صرف ان کے چاہنے والے ہی نہیں دیتے بلکہ ان کے دشمن بھی دیتے ہیں۔ جس طرح شہید قاسم سلیمانی کا قاتل بھی ان کی عظمت کا اقرار کرتا ہے کہ وہ عظیم جرنیل، عظیم کمانڈر اور عظیم انسان تھے اسی طرح سید حسن نصر اللہ بھی انہیں کمالات کے مالک تھے۔
شہید نصراللہ جیسی شخصیت کیسے وجود میں آئی؟
آج ہمیں شہید نصراللہ کی برسی کے موقع پر یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ایسی شخصیتیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟ اگر یہ راز ہمیں پتا چل جائے کہ ایسی شخصیتیں کیسے ماحول اور کس مکتب میں تربیت پاتی ہیں تو دوسروں کے لیے راستہ کھل جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے کچھ شخصیات کو چن کر انہیں یہ عظمت عطا کر دی اور باقی والوں کو محروم کر دیا۔ خدا عادل ہے۔ آج کا ہر جوان سید مقاومت کے مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔ بلکہ ان سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ اللہ نے یہ میدان ہر انسان کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے جو سفر طے کرنا ہے وہ انسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے کسی کو اٹھا کر کسی مقام پر فائز نہیں کرنا ہے۔ اللہ نے شہید نصراللہ، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار، شہید صفی الدین یا شہید قاسم سلیمانی جیسی کسی شخصیت کو زبردستی اس مقام تک نہیں پہنچایا۔ اور جو اس مقام پر نہیں پہنچے انہیں اللہ نے زبردستی محروم نہیں رکھا۔ بلکہ یہ راستہ انتخابی اور اختیاری ہے۔ اللہ نے سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں سب اپنی مرضی سے جہاں پہنچنا چاہے پہنچ سکتا ہے۔ جو شخص جس جگہ ہے وہ اس کا اپنا فیصلہ اور اپنا اختیار کردہ راستہ ہے۔ شہید نصراللہ اور دیگر شہدائے مقاومت نے خود مجاہدت کا راستہ اختیار کیا اور اس راستے کو طے کر کے کامیابی کی منزل پر فائز ہو گئے۔ اولٰیک ھم الفائزون۔
شہید نصراللہ کے حوالے سے دنیا میں انجام پانے والے کام
آج پوری دنیا میں شہید حسن نصراللہ کے یوم شہادت پر ان کی شخصیت کی خصوصیات کا برملا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ان کی بہادری و شجاعت ، بصیرت و آگاہی، اور تدبیر و مدیریت جیسی ان تمام خصوصیات کو ان کی شخصیت سے آگاہ لوگ برملا بیان کر رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے ایک کام یہ ہو رہا ہے کہ سلسلہ وار روزانہ ان کی شخصیت کا ایک گوشہ دنیا والوں کے سامنے بیان کیا جا رہا ہے اور دوسرا کام جو ان کے حوالے سے ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی جہادی شخصیت نے دنیا کے جوانوں پر کیا اثرات چھوڑے ہیں انہیں علمی دلائل اور تجزیاتی انداز میں بیان کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ان کی مقاومت اور مزاحمت کے پہلووں کو نمایاں کر رہے ہیں کچھ ان کی قیادت کے اوصاف اور کچھ ان کے اخلاقی پہلووں کو اجاگر کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ درست اور حقیقت پر مبنی ہے اس میں کوئی مبالغہ اور تصنن نہیں ہے۔
لیکن یہاں پر جو اہم چیز ہمارے لیے جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کی شخصیت کیسے وجود پاتی ہے؟ وہ کون سا نظام ہے جو ایک عام سے بچے کو اپنی آغوش میں لیتا ہے اور اسے سید مقاومت بنا دیتا ہے؟ اورطعصر حاضر کے میدان جہاد کا سپہ سالار اور اپنے رہبر اور قائد کا مضبوط بازو بنا دیتا ہے؟
دو خطے کے شیعوں کا آپس میں موازنہ ضروری
اس موضوع کو مزید ملموس انداز میں بیان کروں؛ دنیا میں چند ملک ایسے ہیں جہاں پر قابل اعتنا شیعہ آبادی ہے۔ ان میں سب سے پہلا ملک ایران ہے اور اس کے بعد آبادی کے تناسب کے لحاظ سے عراق ہے۔ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے شیعہ اکثریتی ملکوں میں بحرین، آذربائیجان اور لبنان کا نام شامل ہے۔ لیکن خود شیعہ آبادی کو اگر پیش نظر رکھا جائے ایران و عراق کے بعد شائد پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کا نام آئے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی نمایاں شیعہ آبادی موجود ہے۔ افریقی اور مغربی ممالک میں بھی ایک کثیر تعداد شیعوں کی مقیم ہے۔
آج کے دور میں جس طرح سے ایک ملک کا دوسرے ملک کے ساتھ مختلف پہلووں کے اعتبار تقابل اور موازنہ کیا جاتا ہے اور یہ موضوع علمی اداروں اور محققین کی تحقیقات کا حصہ ہوتا ہے اسی طرح ہمیں ایک ملک کے شیعوں کا دوسرے ملک کے شیعوں کے ساتھ بھی تقابل اور موازنہ کرنا چاہیے۔
لبنان کے شیعوں کا پاکستان کے شیعوں کے ساتھ موازنہ
لیکن آج کی مناسبت سے میں یہ چاہتا ہوں کہ لبنان کے شیعوں کا پاکستان کے شیعوں کے ساتھ بعض اعتبار سے موازنہ کروں۔ لبنان کے ۷۰، ۸۰ سال پہلے شیعہ کہاں تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں اور پاکستان کے شیعہ کہاں تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں؟
ہم پاکستان بننے کے بعد سے یعنی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ سے آج ۲۰۲۵ تک ۷۸ سال کے اس عرصے کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اور لگ بھگ ۸۰ سالہ پاکستان کے تشیع کا ۸۰ سالہ لبنان کے تشیع کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ جب ۱۹۴۷ میں پاکستان بنا اس کے دوسرے سال ۱۹۴۸ میں اسرائیل وجود میں آیا اور اسرائیل کے پڑوس میں واقع لبنان میں شیعہ موجود تھے۔ یہ کیسے شیعہ تھے اور ان کی اس وقت کیا حالت تھی اور ان کے مقابلے میں ہم اور ہماری حالت کیا تھی؟ اس چیز کو جاننا بہت ضروری ہے۔
پاکستان وجود میں آنے کے وقت شیعوں کی صورتحال
جب پاکستان وجود میں آیا تو گرچہ پاکستان بنانے والوں اور پاکستان چلانے والوں میں شیعہ شخصیات موجود تھیں لیکن دینی اعتبار سے پاکستان کے شیعوں کی حالت یہ تھی کہ پورے پاکستان میں صرف ایک شیعہ دینی مدرسہ تھا۔ انگشت شمار شیعہ مساجد اور امام بارگاہیں تھیں، اس دور میں شیعوں کا سب سے بڑا سرمایہ خطباء حضرات تھے گرچہ ان کی تعداد بھی بہت کم تھی لیکن جو تھے وہ بہت ہی نمایاں شخصیات کے مالک تھے۔ ان میں سے کچھ ایک نجف اشرف کے تعلیم یافتہ تھے اور کچھ لکھنو کے تعلیم یافتہ، عوام کی زمام انہیں خطباء اور ذاکرین کے ہاتھ میں تھی۔ پاکستان میں شیعت کو جس چیز نے نمایاں حیثت عطا کی تھی وہ عزاداری تھی اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ عزاداری محض رسوماتی اور عقیدتی عزاداری تھی کسی مقصد کے تحت انجام پانے والی عزاداری نہیں تھی۔
پاکستان میں تبدیلی کی وجوہات
۱۹۷۹ میں پاکستان کے شیعوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اس کی وجہ دو واقعات تھے ایک واقعہ خود پاکستان کے اندر رونما ہوا جس نے پاکستان کے شیعوں کو ہلا دیا اور دوسرا واقعہ ایران کے اندر رونما ہوا جس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو ہلا دیا۔ ایران میں رونما ہونے والا واقعہ انقلاب اسلامی کا ظہور تھا جس نے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شیعوں کو بھی متاثر کیا اور پاکستان میں رونما ہونے والا واقعہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا اور ساتھ ساتھ افغانستان کی جنگ تھی۔ ان دو واقعات نے پاکستان کے شیعوں کو شدید جھنجھوڑا۔ ضیاء الحق نے پاکستان میں جب نظام مصطفیٰ کے قیام اور فقہ حنفیہ کے نفاذ کا نعرہ لگایا تب شیعوں کو خیال آیا کہ اگر ہم صرف عزاداری میں مصروف رہے تو ہمیں بھی حفنی بنا دیا جائے گا۔ اور چونکہ ملک میں مارشل لا تھا لہذا ضیاء الحق ڈنڈے کے زور سے ملک میں یہ نظام نافذ کر رہا تھا۔
لہذا یہاں شیعوں کو ہوش آیا اور انہوں نے ۱۹۷۹ میں ہی ایک کنونشن بلائی اور اس میں علامہ مفتی جعفر حسین پہلی دفعہ ملت تشیع کے قائد منتخب ہوئے اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نام کی تنظیم کو وجود میں لایا گیا۔ یہاں سے شیعوں میں تحرک پیدا ہوا اور انہوں نے ضیاء الحق کے مقابلے میں احتجاجی کاروایاں شروع کیں۔
انقلاب اسلامی کے پاکستان پر اثرات
دوسری جانب ایران کے انقلاب اسلامی نے بھی پاکستان پر معمولی اثرات چھوڑے گرچہ اس میں پاکستان کے شیعوں کے لیے کوئی خصوصی پیکیج نہیں تھا اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی مبلغ اس کام کے لیے پاکستان میں مامور ہوا تھا۔ پاکستان کے شیعوں کی نسبت جماعت اسلامی والے ایران کے انقلاب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ چونکہ مولانا مودودی پہلے سے انقلابی فکر کا پرچار کر رہے تھے۔ ضیاء الحق نے شیعوں کو بہت بڑا جھٹکا دیا اور کئی جہادی تنظیمیں جیسے سپاہ صحابہ کو جنم دیا۔ ان کو شیعوں سے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ ایران سے مل نہ جائیں۔ انہیں کنٹرول کرنے کے لیے انہوں نے وہابی علماء کو میدان میں اتارا اور شیعوں کو تکفیر کرتے کرتے ان کا قتل عام شروع کر دیا۔ شیعہ سنی منافرت جو پاکستان بننے سے پہلے موجود تھی وہ فرقہ واریت میں بدل گئی۔ اور ۲۰۱۴ تک اسی بنیاد پر پاکستان میں قتل و غارت کا بازار خوب گرم رہا۔
۸۰ سال قبل لبنان کے شیعوں کی صورتحال
جب پاکستان بنا اس دوران لبنان کے شیعوں کی حالت پاکستان کے شیعوں سے بہت زیادہ بدتر تھی۔ اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی ہر لحاظ سے لبنانی شیعوں کی حالت بہت اسفناک تھی۔ لبنان کا شیعہ اس ملک کا ایک تیسرے درجہ کا شہری شمار ہوتا تھا۔ سب سے پست اور گھٹیا کام شیعہ انجام دیتے تھے۔ پاکستانی شیعہ اس وقت گرچہ کمزور تھے مگر ان کی یہ حالت نہیں تھی کہ انہیں سڑکوں پر جھاڑوں جیسے گھٹیا کام کرنا پڑیں۔
لبنان کے شیعوں کو پسماندگی سے نکالنے میں آیت اللہ بروجردی کا اہم کردار
اس دور کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ بروجردی نے جب پوری دنیا کے شیعوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی تو سب سے برے حالات لبنان کے شیعوں کے تھے۔ کمزور پسماندہ اور سماجی طور پر دھتکارے ہوئے۔ جنہیں گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ آیت اللہ بروجردی کو لبنان کے شیعوں کی حالت کے بارے میں سن کر سب سے زیادہ تکلیف ہوئی۔ آیت اللہ بروجردی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے وقت کی علمی شخصیت ہونے کے باوجود قیادت کی بھی بےپناہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہایت بابصیرت شخص تھے۔ یہاں تک کہ شاہ ایران بھی ان سے ملاقات کرنے قم ان کے گھر جایا کرتا تھا۔ انہوں نے اپنے دور مرجعیت میں ایران اور دیگر ممالک کے شیعوں کو مضبوط اور منظم کرنے کے ساتھ ساتھ لبنان کے شیعوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی طرف خاص توجہ دی۔ انہوں نے شاہ سے ہماہنگی کرتے ہوئے اپنے ایک شاگرد سید امام موسی صدر کو لبنان بھیجا۔ موسی صدر ایک خوبصورت اور فعال جوان تھے۔ آیت اللہ بروجردی کے نمائندے کے طور پر وہ لبنان چلے گئے۔
امام موسی صدر لبنان کے شیعوں کے معمار
امام موسی صدر نے لبنان کے شیعوں کی حالت زار پر گریہ بھی کیا اور ان کی حالت بہت بہتر بنانے کے لیے بہت سارے اقدامات بھی کئے جو ایک مفصل داستان ہے۔ دنیا کے پسماندہ ترین شیعوں کو قابل فخر شیعہ بنانے کے لیے اس معمار نے بنیادی کردار ادا کیا۔ لیکن ان کو آیت اللہ بروجردی کی پشتبانی حاصل تھی لہذا انہوں نے بہت ہی اعلیٰ اقدامات کئے۔ سید جیسے قد و قامت اور شکل و صورت میں وجیہ اور خوبصورت تھے ویسے ان کی فکر بھی زیبا اور اعلیٰ تھی۔ سید موسی صدر نے ان کی معاشی زندگی کے لیے مختلف مواقع فراہم کئے، تعلیم کے لیے کئی اسکول تعمیر کروائے، فلاحی اور اصلاحی مراکز قائم کئے اور ان کو اس پسماندگی سے اوپر اٹھانے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ وہاں کے دیگر اقوام شیعوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بعض ان کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اور بعض ان کے فقیر ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ کاروبار، ملازمت یا کسی سیاسی پلیٹ فارم پر ان کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ سید موسی صدر نے ایک جامع حکمت عملی اختیار کی، انتھک محنت اور کوشش کی، دن کو خود مختلف اسکولوں میں جاکر بچوں کو پڑھاتے تھے اور رات میں لوگوں کو مجلسوں کے بہانے سے جمع کر کے انہیں دینی تربیت کرتے تھے۔
لبنانی شیعوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت کو اوپر لانے کے لیے انہوں نے لبنان کی سیاست میں ان کے لیے دروازہ کھولا۔ موجودہ سیاسی پارٹیوں میں اثر و رسوخ پیدا کر کے جب انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تو بہت سارے اطراف کے ممالک کے کان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے خطرے کا احساس کرنا شروع کیا۔ سعودی حکمران آل سعود، لیبیا کے حکمران کرنل قذافی، شام کے حافظ اسد ان سب نے سید موسی صدر سے خطرے کا احساس کیا چونکہ ان سب کے لبنان سے مفادات وابستہ تھے اور انہوں نے لبنان میں شیعہ قوم کو ایک بہترین قیادت کے سائے میں پروان چڑھتے ہوئے دیکھا تو انہیں یہ محسوس ہوا کہ اس قوم کے ذریعے لبنان میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے جو ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے۔ لہذا کرنل قذافی نے ایک جلسے میں انہیں لیبیا دعوت دی اور وہاں پر انہیں اغوا کر لیا اور آج تک کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ وہ کہاں ہیں۔ اب زیادہ تر یہی گمان کیا جاتا ہے کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔
شہید مصطفیٰ چمران کا لبنان میں کردار
اسی دوران ایران کی ایک اور مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر مصطفیٰ چمران سید موسی صدر کے ساتھ تعاون کے لیے خود لبنان جا پہنچی۔ انہوں نے امریکہ میں انجینیرنگ میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی اور جب انہیں لبنان کے شیعوں کی خستہ حالی کی خبر ملی تو امریکہ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر وہ لبنان چلے گئے اور سید موسی صدر کے ساتھ مل کر تعلیمی اور تعمیری امور میں اہم کردار ادا کیا۔
حزب امل کی تشکیل میں موسی صدر کا رول
سید موسی صدر اور شہید چمران نے لبنان میں حزب امل کے نام سے ایک اعلیٰ تنظیم بنائی جس کی ایک سیاسی شاخ قائم کی اور ایک اس کا عسکری ونگ تیار کیا۔ اس کے سربراہ نبیہ برّی آج بھی لبنان کی حکومت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اور شیعوں کے دفاع کے لیے اس تنظیم کو مسلح بھی کیا۔
انقلاب اسلامی کے شیعیان لبنان پر اثرات
دوسری جانب ایران میں انقلاب اسلامی رونما ہو چکا تھا اور اسی دوران سید موسی صدر کو اغوا بھی کر لیا گیا تھا۔ انقلاب کے وقت لبنانی شیعوں کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی گرچہ ابھی کوئی طاقت شمار نہیں ہوتے تھے لیکن اس پسماندگی سے اٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بن چکے تھے۔
اسی دوران اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کر لیا تھا اور حزب امل نے اسرائیل سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئی۔ حزب امل کے صدر مھدی شمس الدین نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر کے لبنان کو اس کے قبضے سے آزاد کروانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام ثابت ہوئے۔ پھر لبنان کی تمام قوموں نے مل کر بھی اسرائیل کو لبنان سے باہر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آخرکار اسی حزب امل کے چند جوان اٹھے اور انہوں نے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ جہادی کاروائیاں کرنے کا ارادہ کیا لیکن حزب امل کے سربراہان نے انہیں اجازت نہیں دی لہذا انہوں نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کر کے حزب اللہ کی بنیاد رکھی جن میں سید عباس موسوی اور سید نصر اللہ بھی شامل تھے۔
حزب اللہ کی تشکیل اور امام خمینی کا کردار
ان چار پانچ جوانوں نے تہران کا سفر کیا اور امام خمینی (رہ) کی خدمت میں حاضر ہو کر لبنان کے شیعوں کی صورتحال بیان کی اور اپنے اہداف و مقاصد سے امام کو آگاہ کیا۔ امام خمینی نے ان کے ساتھ تعاون کا حکم دیا اور حزب اللہ کو ہر طرح سے مضبوط بنانے کے لیے ایرانی حکومت کو موظف کیا۔ اس کے بعد تیس سال کے عرصے میں ایران کے تعاون اور اپنی محنتوں سے حزب اللہ مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔
وہی لبنان کے شیعہ جن کے لیے کل تک اپنا پیٹ بھرنا ایک چیلنج تھا آج ایک سید کی تدبیر سے وہ اسرائیل کے لیے چیلنج بن گیے۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں اس کام میں ایران نے کوئی کمی نہیں چھوڑی اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ انقلاب نے ایرانی شیعوں کے لیے اتنا کام نہیں کیا جتنا لبنانی شیعوں کے لیے کیا۔ اس بات پر ایرانی عوام کو بھی شکوہ ہے اور انقلاب مخالف جماعتیں بھی ابھی تک اس بات پر اعتراض کرتی ہیں۔ لیکن بہرحال ایرانی حکومت نے حزب اللہ کو اس قدر مضبوط بنایا کہ حتیٰ جنگی ہتھیار اور میزائل بنانے کی ٹیکنالوجی تک انہیں دے دی۔ جس کے نتیجے میں حزب اللہ سب سے طاقتور جماعت بن گئی۔
شیعیان لبنان قابل فخر قوم
اگر زمین زرخیز ہو اور اس زرخیز زمین کو سید امام موسی صدر جیسا ایک مخلص معمار مل جائے اور آیت اللہ بروجردی جیسا قائد مل جائے تو اس زرخیز زمین میں کاشت کیا ہوا بیج کبھی مرتا نہیں ہے۔ اور پھر جب آیت اللہ بروجردی سے بہتر قائد امام خمینی کی شکل میں مل جائے اور سید موسی صدر سے بہتر سید حسن نصر اللہ جیسا معمار مل جائے تو صرف لبنان نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل جاتا ہے۔ ہزار آفرین ہے لبنان کے شیعوں پر جنہوں نے آیت اللہ بروجردی سے لے کر امام خامنہ ای تک اور موسی صدر سے لے کر سید نصراللہ تک کسی کی محنت ضائع نہیں کی۔
لیکن اس کے برعکس آپ پاکستان کے شیعوں کو دیکھیں وہ جہاں تھے آج بھی وہی ہیں یہ زمین کی تاثیر ہے لبنان کی زمین کی تاثیر دیکھیں اور پاکستان کی زمین کی تاثیر کو بھی دیکھیں وہاں جو بیج بویا تھا وہ کتنا پھولا پھلا اور پاکستان کی سرزمین میں بویا ہوا بیج کہاں چلا گیا؟!
مولانا روم کہتے ہیں:
بر سماع راست هر کس چیر نیست
لقمهٔ هر مرغکی انجیر نیست
نتیجہ؛ شیعیان پاکستان کی نسبت شیعیان لبنان کی کامیابی
انقلاب اسلامی کا قیام تمام دنیا کے لیے تھا امام خمینی اور امام خامنہ ای کی قیادت تمام دنیا کے لیے تھی علامہ اقبال کی فکر پوری دنیا کے لیے تھی۔ برصغیر میں علامہ اقبال آئے اور لبنان میں موسی صدر آئے۔ موسی صدر کا اقبال سے کوئی موازنہ نہیں ہے اقبال کا مقام بہت بلند ہے موسی صدر ایک معلم ہیں لیکن اقبال ایک مفکر ہیں انہیں دین الہام ہوا ہے انہوں نے نہ کسی مدرسے میں دین سیکھا نہ کسی استاد سے پڑھا اللہ نے انہیں قرآن کی تلاوت سے دین الہام کیا۔ آج ۸۰ سال بعد دیکھیں کہ اقبال کی فکر سے پاکستان میں کیا اثر ہوا ہے؟۔ پورے پاکستان میں کوئی ایسی شخصیت یا کوئی ایسا ادارہ نہیں بتا سکتے جس نے اقبال کی فکر کے ذریعے پاکستانی قوم کا سربلند کیا ہو اور وہ دنیا میں کسی اعتبار سے نام لینے کے قابل بنی ہو۔
لیکن وہاں پر وہ قوم جو کل تک سڑکوں پر جھاڑو دیتی تھی وہ ایک قائد کی رہنمائی سے اتنا بلند ہو گئی کہ آج پوری دنیا میں نمونہ عمل بن چکی ہے اور پوری دنیا کی مظلوم قوموں کی امامت کر رہی ہے۔
ہم سید مقاومت اور دیگر مظلوم شہدا کے خون کا واسطہ دے کر اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ان شہدا کے صدقے میں ملت فلسطین کو ظلم سے نجات عطا فرمائے۔
