صیہونی بجا طور پر نفرت کے قابل ہیں اور ان سے عالمی نفرت مزاحمت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ دنیا اب اسرائیل سے نفرت کرتی ہے۔ ٹرمپ کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جنسی معاملات میں تقویٰ (9) – نکاح کا مفہوم/ ہفتہ یکجہتی فلسطین و حماس
حجۃ الاسلام و المسلمین استاد سید جواد نقوی
پرنسپل جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور
مسجد بیت العتیق
لاہور، پاکستان
خطبات جمعہ ۰۳ اکتوبر ۲۰۲۵
خطبہ 1: جنسی معاملات میں تقویٰ (9) – نکاح کا مفہوم
خطبہ 2: ہفتہ یکجہتی فلسطین و حماس
جنسی توانائی اور اس کے اثرات
انسان کے اندر موجود سب سے طاقتور توانائی، جنسی توانائی ہے۔ یہ توانائی انسانوں کی انفرادی اور سماجی دونوں زندگیوں پر سب سے زیادہ اثر انگیز ہونے والی قوت ہے لہذا اگر اسے بے قابو کر دیا جائے تو اس کے بڑے خطرات رونما ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر متوازن اور قابو میں رہے تو نہ صرف اس کے خطرات سے محفوظ ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے بہت سارے فوائد بھی انسان کی نجی، عائلی اور سماجی زندگی میں وجود پاتے ہیں۔ تاہم، اگر اس میں تعادل و توازن نہ ہو، اس کی مدیریت نہ ہو، تو یہ انسان کے لیے انتہائی تباہ کن طاقت میں تبدیل ہو کر اسے مکمل تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔
اگر ہم پاکستانی معاشرے کے اندر مختلف زمروں کے لوگوں کے درمیان ایک سروے کریں مثلا اسٹیٹس، عمر اور جنس وغیرہ کے اعتبار سے، اور یہ معلوم کرنا چاہیں کہ لوگوں پر کس چیز کا سب سے زیادہ اثر اور دباؤ ہے، تو ہمیں جنسی قوت مرکزی نقطہ کے عنوان سے نظر آئے گی۔ ایسے سروے کو علمی اصطلاح میں استقراء کہتے ہیں جو باقی دلائل کی نسبت زیادہ قابل اعتماد ہوتا ہے چونکہ اس میں افراد کا مشاہدہ ہوتا ہے اور حقائق کو افراد کے مشاہدے کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ پہلا طریقہ شادی شدہ خاندانوں سے ان کی زندگی کے بارے میں حقائق پر مبنی سوالات پوچھنا ہے مثلا یہ سوال پوچھا جائے کہ ان کی زندگی میں سب سے زیادہ دباؤ اور الجھن کس چیز کی ہے؟ بشرطیکہ وہ جواب میں مصحلت اندیشی سے کام نہ لیں بلکہ حقیقت پر مبنی جواب دیں۔
دوسرا طریقہ مشاہدہ ہے۔ مشاہدہ سروے سے مختلف ہے کیونکہ یہاں آپ سوالات نہیں پوچھتے بلکہ براہ راست خود علمی اصولوں اور سماجی ضابطوں کے مطابق تشخیص دیتے ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر مریض میں بیماری کو تشخیص دیتا ہے۔ دونوں طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ جنسی صلاحیت انسانی مسائل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، حالانکہ لوگ عام طور پر شرم کی وجہ سے اس کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ درحقیقت ہمیں زیادہ شرم نہیں آتی لیکن ہم اس معاملے میں شرمیلا ہونے کا بہانہ کرتے ہیں۔ شرمیلا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے حقائق کا اعتراف و اظہار نہیں کرتے، ان کا علاج اور ان کو سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے۔
جنسی اعتبار سے صحت مند معاشرے کے لیے قرآنی اصول
جنسی اعتبار سے صحت مند معاشرے کے لیے قرآن نے پہلا اصول جو بیان کیا ہے وہ شرمگاہ کی حفاظت ہے۔ اس کی کئی جہتیں ہیں:
۱. نمائش سے بچنا: اس کا مطلب ہے کہ جنسی اعضاء یا کسی ایسی چیز کو ظاہر نہ کرنا جو دوسروں میں جنسی خواہش کو جنم دیتا ہے، جیسے تنگ یا چھوٹا لباس پہننا جس سے جسم کے اعضاء بے نقاب ہوں۔
۲. ناجائز کاموں سے بچنا: اس کا مطلب ہے غیر محرموں کے ساتھ گھل مل جانے سے پرہیز کرنا اور ناجائز جنسی سرگرمیوں جیسے مشت زنی، زنا اور زناکاری سے بچنا۔
۳. ضائع نہ کرنا: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا کی دی ہوئی اس توانائی کو ضائع یا غلط استعمال نہ کرنا۔
دوسرا قرآنی حکم نکاح ہے، جس کا مقصد جنسی معاملات کو منظم کرنا ہے۔ قرآن میں شادی کے لیے دو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں: نکاح اور ازدواج۔
• نکاح کا ترجمہ عام طور پر مولانا کے ذریعہ پڑھے جانے والے عقد کے طور پر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں عقد نکاح کا ذریعہ ہے، عقد کے ذریعے نکاح قائم کیا جاتا ہے۔
• نکاح کا نتیجہ زوجیت (جوڑا) ہے۔ نکاح کے معنیٰ زوجیت نہیں ہیں، ان سب اصطلاحات کے معنی الگ الگ ہیں گرچہ سب کا ایک دوسرے سے تعلق پایا جاتا ہے۔ عقد پیوند قائم کرنے اور دونوں کے درمیان شرعی رشتہ قائم کرنے کو کہتے ہیں۔ عقد کے نتیجہ میں نکاح وجود پاتا ہے اور نکاح کے نتیجے میں زوجیت بنتی ہے۔
نکاح کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
لفظ نکاح کے متعدد معانی اور استعمالات ہیں:
ایک معنی گھل جانا یعنی ایک شئی کا دوسری شئی میں اس طرح سے مل جانا کہ ان تمام اعضا آپس میں مخلوط ہو جائیں۔
• لفظ نکاح کو عرب اس وقت بھی استعمال کرتے ہیں جب بارش کا پانی زمین کی مٹی میں رس جاتا ہے اور زمین نیچے تک گیلی ہو جاتی ہے۔
• یا جب آدمی پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے – پوری نیند نہیں بلکہ آہستہ آہستہ غنودگی آنکھوں پر چھا جاتی ہے۔
• یا جب خوشبو ہوا میں گھل مل جاتی ہے، خوشبو کے اجزاء ہوا کے ذرات میں گھل مل جاتے ہیں۔
• یا جب چینی یا نمک پانی میں مکمل طور پر گھل جاتا ہے، اور اپنی شناخت کھو دیتا ہے لیکن اپنا اثر چھوڑ دیتا ہے۔
یہ گھل جانا نکاح کا اصل معنی ہے۔ جس کو قرآن نے دو افراد کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کے لیے استعمال کیا ہے۔
اس رشتے کے لیے لفظ نکاح کا انتخاب خوبصورت اور معنی خیز ہے۔ نکاح میں، دو افراد کا وجود اس حد تک گھل مل جاتا ہے کہ وہ اپنی آزاد شناخت کھو دیتے ہیں، جس سے ایک نئے مشترکہ وجود کو جنم ملتا ہے۔ چینی کی مٹھاس پانی میں رہتی ہے حالانکہ چینی بطور آزاد ذرہ ختم ہو جاتی ہے اور پانی بھی اپنی سابقہ شناخت کھو دیتی ہے۔ اور ایک تیسری چیز وجود پاتی ہے جسے شربت کہتے ہیں۔ اسی طرح نکاح سے صرف دو افراد جوڑا نہیں بنتے، جوڑا تو جوتوں کا بھی جوڑا ہوتا ہے جو ہمیشہ الگ الگ رہتے ہیں۔ نکاح سے میاں بیوی ایسے گھل مل جائیں کہ ان میں دوئیت کا تصور نہ رہے۔
اس کے برعکس، والدین اور بچوں کے درمیان خون کے رشتے فطری ہیں، معاہدے اور عقد کے نہیں۔ وہ محبت اور احترام پر قائم ہیں لیکن شناخت الگ رہتی ہے۔ میاں اور بیوی کے درمیان واحد ایسا رشتہ ہے جس میں ایک انسان دوسرے میں گھل جاتا ہے۔ دیگر تمام رشتوں سے الگ اس رشتے کی بنیاد جنسی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے قائم کی جاتی ہے۔ جنسی توانائی وہ طاقت ہے جس کی بنیاد پر قائم ہونے والا رشتہ دو انسانوں کو اس قدر آپس میں قریب کر دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ دیگر کسی رشتے میں یہ چیز نہیں پائی جاتی۔ گرچہ فرائیڈ کا یہ دعویٰ ہے کہ تمام تعلقات جنسی نوعیت کی بنیاد پر ہوتے ہیں، لیکن علماء اور اسکالرز نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
نکاح کے ذریعے جنسی توانائی کا انتظام
شرمگاہ کی حفاظت نکاح کے ذریعے ہوتی ہے جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں۔ جنسی توانائی، جیسے بھوک اور پیاس، قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے اور خود ہی ختم نہیں ہوتی۔ تاہم، بھوک اور پیاس کے برعکس، جو نامکمل ہونے کی صورت میں انسان کو کمزور کر دیتی ہے، جنسی خواہش جب بیدار ہوتی ہے تو دوسری خواہشوں پر غالب آ جاتی ہے۔
یہ ایک ہیوی ڈیوٹی برقی آلات کی طرح ہے جو بجلی کی زیادہ سے زیادہ طاقت کو کنزیوم کرتا ہے۔ اسی طرح، انسانی وجود میں، مختلف صلاحیتیں توانائی استعمال کرتی ہیں، لیکن ایک صلاحیت جو فعال ہونے پر سب سے زیادہ توانائی استعمال کرتی ہے وہ ہے جنسی صلاحیت۔ ایک بار بیدار ہونے کے بعد، یہ عقل، عفت اور شائستگی کو ختم کر دیتی ہے، جو ایک شخص کو جرم اور حرام کاموں کی طرف لے جا سکتی ہے۔
اس لیے اس توانائی کی منصوبہ بندی اور اس کا انتظام اس کی مخصوص نوعیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس کا حل نکاح ہے، جو مرد اور عورت کو ایک دوسرے میں جذب کر دیتا ہے۔ یہ عقد یعنی ایگریمنٹ سے شروع ہوتا ہے، لیکن دوسرے ایگریمنٹس کے برعکس، یہ محض لین دین نہیں ہے۔ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان معاہدوں کے برعکس، یہ ایگریمنٹ ایک گہرا ذاتی اور وجودی تعلق قائم کرتا ہے کیونکہ دیگر معاملات میں ایگریمنٹ کرنے والے دو افراد آپس میں گھل مل نہیں جاتے صرف عقد ایسا ایگریمنٹ ہے جس میں افراد مکمل طور پر آپس میں گھل مل جاتے ہیں اور جو چیز ان کو ایک دوسرے کے وجود میں جذب ہونے کا باعث بنتی ہے وہ جنسی توانائی ہے۔
وہ عقد اور شادیاں جو لڑکے لڑکی کی مرضی سے نہیں ہوتیں ان میں نکاح کی کیفیت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی اس لیے کہ وہ کبھی ایک دوسرے میں گھل مل نہیں سکتے۔ ایک چھت کے نیچے ضرور زندگی گزارتے ہیں مگر دو الگ الگ افراد کی طرح رہتے ہیں۔
قرآن نے نکاح کا لفظ استعمال کر کے یہ بتا دیا کہ جو چیز میاں بیوی کو ایک دوسرے میں جذب ہونے کا سبب بنتی ہے وہ جنسی توانائی ہے۔
اگر شادی کے ذریعے جنسی توانائی کو درست سمت نہ دی جائے تو پھر یہ اپنا راستہ خود تلاش کر لے گی۔ جنسی توانائی کسی کا انتظار نہیں کرتی، نہ ماں بات کی اجازت کا، نہ مولانا کا اور نہ حلال و حرام کا۔ جیسے عرض کیا کہ یہ توانائی ہیوی موٹر کی طرح ہے جب اس میں ابال آئے تو انسان کی دیگر تمام معنوی و مادی توانائیوں پر غالب آ جاتی ہے اور انسان کو مکمل نکیل ڈال لیتی ہے اور اسے اپنے پیچھے گھسیٹ لاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی عقل کو بھی اسیر کر لیتی ہے۔ انسانی عقل بہت طاقتور ہے، لیکن صرف جنسی خواہش ہی اس پر غلبہ پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لہٰذا، اس سے پہلے کہ یہ قوت تباہی کا باعث بن جائے، اسے نکاح کے الٰہی منصوبے کے ذریعے محدود کر لینا چاہیے۔
نکاح بطور تحفظ دین
یہ توانائی صرف میاں بیوی کے رشتے میں سکون پاتی ہے جہاں ان کے درمیان کوئی رازداری نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روایت میں فرمایا کہ نکاح کے ذریعے آدمی کا آدھا دین محفوظ ہو جاتا ہے جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ دو تہائی دین اس کے ذریعے محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ کوئی دین کے اتنے بڑے حصے کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟
جب نکاح کے ذریعے جنسی توانائی کی تسکین ہو جاتی ہے، تو یہ دوسری صلاحیتوں جیسے کہ عقل کو متاثر نہیں کرتی۔ دوسری صورت میں، یہ تمام انسانی توانائیوں کو اپنی طرف موڑ لیتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کوئی بھاری موٹر تمام بجلی کھینچ لیتی ہے۔
نکاح کو نظر انداز کرنے کے نتائج
ایسے لوگ بھی ہیں جو ناجائز کاموں میں ملوث ہیں اور ناجائز طریقوں سے جنسی ضروریات پورا کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر وہ بغیر شادی کے بھی پر سکون نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ناجائز متبادل طریقہ تلاش کر لیا ہے۔ لیکن ان کے اعمال عفت پر مبنی نہیں ہیں۔ اگر جنسی توانائی کسی حلال راستے سے باہر نکالے بغیر اپنے اندر جمع کی جائے، تو یہ بالآخر ایک دن دھماکے کی طرح پھٹ جائے گی۔
ایسے دباؤ کا شکار شخص صحیح طریقے سے عبادت نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مدرسوں، مسجدوں اور گرجا گھروں میں بڑے پارسا بننے والے افراد کے درمیان بھی بدکاریاں دیکھتے ہیں۔ جو لوگ ظاہری طور پر پاکیزہ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں وہ اکثر بدکار نکلتے ہیں، کیونکہ وہ جس ماحول میں رہتے ہیں انہیں فطری طریقہ استعمال کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا اس وجہ سے وہ چور راستوں سے وارد ہوتے ہیں اور اس توانائی کا جواب دیتے ہیں۔ وہ بے نقاب ہوں یا نہ ہوں، تباہی ان کے اندر موجود ہوتی ہے۔
جب دینی راستے کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس کی جگہ فسق و فجور لے لیتا ہے۔ بہت سے لوگ اس وقت تک مطمئن رہتے ہیں جب تک برائیوں کو عوامی سطح پر بے نقاب نہیں کیا جاتا، لیکن حقیقت میں، فساد برقرار رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نکاح کو انسانی دین کی حفاظت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر کوئی نکاح سے اجتناب کرتا ہے تو وہ حضرت لوط کی قوم سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس حقیقت سے غافل ہیں، جب کہ بدکاری اور تباہی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمارے تمام نوجوانوں کو عفت اور تقویٰ کی توفیق عنایت فرمائے۔
خطبہ 2
تقویٰ سے دوری اور دینی بے حسی کا نقصان
آج کی نسل تقویٰ کے فقدان کی وجہ سے انسانیت سمیت سب کچھ کھو چکی ہے، لیکن پھر بھی وہ اس نقصان کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ جمعہ کی نماز تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جمعہ کی نماز میں شرکت میں بہت کم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
غزہ؛ ہفتہ یکجہتی فلسطین و حماس
غزہ کا مسئلہ شروع ہوئے دو سال ہونے کو ہیں۔ یہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوا، اور اب ہم دوبارہ 7 اکتوبر کے قریب آ رہے ہیں۔ ہمیں 1 اکتوبر سے 7 اکتوبر تک پورا ہفتہ غزہ کے لیے یکجہتی کے ہفتے کے طور پر وقف کرنا چاہیے۔ دشمنوں نے فلسطین کو تباہ کرنے اور حماس اور مزاحمت کو ختم کرنے کے نئے منصوبے بنائے ہیں۔ ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کچھ پاکستانی قائدین اس کوشش کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں، حالانکہ اب وہ اس سے انکار کے بہانے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاریخی دھوکہ دہی اور موجودہ علاقائی چالبازی
عرب حکمران تو اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی ان کے شریک تھے۔ ان بدو قبائل نے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ غداری کی اور اس طرح فلسطین میں اسرائیل کے قیام میں مدد کی۔ بعد میں انہوں نے اسرائیل کو مضبوط کرنے میں مدد کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے پلیٹ فورمز پر موجودہ سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ مزاحمت مضبوط ہو چکی ہے، اور اس لیے طاقتور اداکار اسے ختم کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوششیں کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ خاموش رہنے والے حکمران خاموش نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ ان کے لوگ بیدار ہوئے اور اسرائیل سے نفرت کا اظہار کیا۔ تقریباً 77 ممالک کے رہنماؤں نے مبینہ طور پر نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کیا اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ اسے تقریباً خالی ہال میں اپنا خطاب دینا تھا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل تنہا ہو گیا ہے اور اسے دوبارہ بحالی کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ مزاحمت مضبوط رہی ہے۔ آج مزاحمت ختم نہیں ہو رہی لیکن اسرائیل کی بقاء مشکل ہو گئی ہے۔
انہوں نے مسلم حکمرانوں سے مدد مانگی ہے۔ ٹرمپ نے ایک منصوبہ بنایا، جس کی ایک ایک شق کا مقصد اسرائیل کو بچاتے ہوئے حماس کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ مسلم ممالک اسرائیل کو زندہ رہنے میں مدد کر سکتے ہیں اور پاکستان اس گروپ کا حصہ ہے۔ ترکی، سعودی عرب، امارات، قطر، اردن، مصر اور پاکستان نے ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ گروپ وہ کرے گا جو امریکہ براہ راست نہیں کر سکتا۔ وہ ان غداروں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حماس اور حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غیر مسلح نہیں ہوں گے۔ قطر کے امیر نے ٹرمپ کو بتایا کہ وہ اس منصوبے پر عمل نہیں کر سکتے اور پاکستان کے حکمران نے بھی کہا ہے کہ یہ وہ منصوبہ نہیں تھا جو انہوں نے ٹرمپ کو تجویز کیا تھا۔
عالمی عوامی دباؤ بمقابلہ مسلم حکمرانوں کی ملی بھگت
یہ صورتحال برطانیہ جیسے ممالک کے لوگوں پر اثرانداز ہوئی ہے جہاں غیر مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ کل ہی کی خبر میں، میں نے دیکھا کہ آٹھ ہزار فلمی اداکاروں نے اسرائیل کا بائیکاٹ کیا ہے۔ اگرچہ یہ اکثر کرپٹ اور فحاش لوگ ہوتے ہیں لیکن ان میں انسانیت اب بھی موجود ہے۔ وہ اس طرح کا موقف اختیار کر کے کافی عزت کے مالک بن سکتے ہیں۔ ان میں کوئی مسلمان اداکار نہیں ہے۔ یہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اداکار، پروڈیوسر اور ہدایت کار ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اسپین، اٹلی اور جنوبی افریقہ میں اسرائیل کے خلاف حکومتوں پر شدید دباؤ ہے۔ لیکن مسلم ممالک میں حکمرانوں پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ان قوموں کے لوگ اپنے حکمرانوں کے مذہب پر چلتے ہیں جو غدار ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ فلسطین کی پیٹھ میں چھرا نہ گھونپیں۔ اگر حکمران ایسا کرتے ہیں تو عوام انہیں یہ باور کرائیں کہ وہ اقتدار میں نہیں رہیں گے۔ ہمیں اس ہفتے کے دوران فلسطین کی فعال حمایت کرنی چاہیے۔ فلسطین کو زندہ رکھنے کا تاج حماس، حزب اللہ اور انصار اللہ کے سر ہے اور وہ اپنے تباہ شدہ شہروں کے باوجود مضبوط ہیں۔ یہ مسلمان حکمران ظالموں سے حماس کی سرنگیں بند کرنے کا کہہ رہے ہیں، اس کے باوجود مبینہ طور پر اب بھی غزہ کے کھنڈرات کے نیچے سات ہزار جنگجو موجود ہیں۔ ہمیں ہر ممکن طریقے سے فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔
مزاحمت کی کامیابی اور مسلم اتحاد کی دعوت
صیہونی بجا طور پر نفرت کے قابل ہیں اور ان سے عالمی نفرت مزاحمت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ دنیا اب اسرائیل سے نفرت کرتی ہے۔ ٹرمپ کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مسلم حکمرانوں کا ایک تیسرا گروہ ان فلسطین مخالف منصوبوں کے ساتھ صف آرا ہے اور اگر وہ ٹرمپ کی تجاویز سے خود کو دور نہیں کرتے ہیں تو مسلم امہ کو کھل کر اپنا غصہ نکالنا چاہیے۔ یہ حکمران صیہونی بن کر کام کر رہے ہیں اور ایسے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جسے امت مسلمہ قبول نہیں کرے گی۔
پاکستان کی طرف سے سینیٹر مشتاق کے موقف اور یکجہتی کی تعریف
ہم پاکستانی سینیٹر مشتاق کے کردار کو سراہتے ہیں، جنہوں نے صمد فلوٹیلا میں حصہ لیا – بحری کارواں جس نے دنیا بھر سے 44 جہازوں اور پانچ سو سماجی کارکنوں کے ساتھ غزہ تک امداد پہنچانے کی کوشش کی۔ ان پر حملہ کیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ یہ مزاحمت کا ایک بڑا عمل تھا اور انہوں نے شروع سے ہی فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کی ہے اور آواز اٹھائی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔ یہ غدار حکمران ٹرمپ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر چکے ہیں لیکن سینیٹر مشتاق مسلم امہ کے ترجمان بن کر پاکستانی عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سینیٹر مشتاق جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے پاکستانیوں کے جذبات جھلک رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ٹرمپ کے ساتھ جو ٹویٹ کیا یا بات کی ہے وہ پاکستان کی آواز نہیں ہے۔ اس کے بجائے سینیٹر مشتاق کی آواز پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔
انشاء اللہ، اگر محاصرہ توڑنے کی ضرورت پیش آئی تو یہ پوری قوم – نوجوان، مرد اور عورتیں – غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے جائیں گے۔ ہم فلسطینی عوام کو یکجہتی کے ہفتہ کے دوران یہ پیغام دیتے ہیں: آپ نے اپنی مزاحمت کے ساتھ بہت سے محاذ کھولے ہیں، اور ہم حتمی فتح تک ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ اپنے عزم کے ساتھ ان شیطانوں کے مقاصد کے مقابلے میں ڈٹے رہیں۔ پوری پاکستانی قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ کوئی اور کھڑا نہ ہو، حسین ابن علی اور علی ابن ابو طالب کے پیروکار ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ ایران، حزب اللہ اور پاکستان کے شیعہ آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اللہ اس ظلم کا خاتمہ کرے، ان ظالموں کو رسوا کرے، اور انصاف کرنے والوں کو کامیابی عطا فرمائے۔
