آج ہماری آنکھوں کے سامنے ایک زندہ مثال غزہ اور فلسطین ہے۔ تاریخ کو صرف پڑھا اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے، لیکن آج کی نسل کے مصائب ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھے جا سکتے ہیں، ان کی زندگی، ان کی جدوجہد اور ان کے رد عمل جدید انسانیت کے اخلاقی زوال کو ظاہر کرتے ہیں۔
جنسی معاملات میں تقویٰ (12) – شادیاں آسان بنائی جائیں/ غزہ میں امن افواج کی تعیناتی کا مقصد حماس کا خاتمہ
جنسی توانائی اور شادی کا مقصد
جنسی توانائی انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی جاتی ہے۔ اس توانائی کو منظم کرنے کا حل نکاح ہے، جس کا مطلب ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے میں گھل مل جائیں، اور اپنی شخصیت کو ایک دوسرے میں ضم کر دیں۔ اس اتحاد کا مقصد سکون کا حصول ہے۔ میاں بیوی دونوں اس رشتے میں سکون پاتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے مودت اور رحمت کے دو تحفے آتے ہیں۔
جنسی خواہش کی قدرتی طاقت
پاگلوں اور بیماروں کے علاوہ تمام انسان فطری طور پر جنسی توانائی کے مالک ہوتے ہیں۔ اس توانائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے بےلگام چھوڑا جا جا سکتا ہے۔ یہ ایک طاقتور قوت ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ظاہری طور پر، ہم کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی جنسی ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے ہوتے ہیں گویا ان کے اندر اس طرح کی کوئی سوچ پیدا ہی نہیں ہوتی ہے۔ اور وہ شادی کو نظر انداز کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں انہوں نے اپنے جنسی رجحان کو نظر انداز نہیں کیا ہوتا ہے بلکہ اسے دوسروں سے چھپایا ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک فطری خواہش ہے جو لامحالہ جنم لیتی ہے۔
یہ بھوک کی طرح ہے جو جان بوجھ کر نہیں، بلکہ فطری طور پر انسان پر اس حد تک حاوی ہو جاتی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنسی ضرورت اور رجحان بھوک سے بھی زیادہ طاقتور ہے اور اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لوگ جو شادی نہیں کرتے وہ اپنی جنسی خواہش کو مختلف طریقوں سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے ایک مشت زنی ہے وہ یہ سوچتے ہیں کہ یہ ایک محفوظ اور سستا طریقہ ہے۔
تاہم طویل مدت میں اس کے اثرات دماغ اور جسم پر ظاہر ہوتے ہیں اور انسان کئی آفات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بات شادی کے بعد زیادہ واضح ہوتی ہے جب ایسے شخص کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے خود کو تباہ کر لیا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو شادی کے بعد بھی اپنی جنسی زندگی کو اللہ کی رہنمائی کے مطابق نہیں چلاتے۔ اس کے بجائے، وہ میڈیا، فلموں اور جنسی مواد پر مبنی سائٹوں جیسے دیگر ذرائع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آج میڈیا کا زیادہ تر مواد جنسی نوعیت کا ہے۔
یہاں تک کہ پاکستان، ایران اور ہر جگہ، اگر ہم سروے کریں کہ لوگ سب سے زیادہ کیا دیکھتے ہیں، تو وہ جنسی مواد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اس کے ذریعے خوشی اور سکون تلاش کرتے ہیں۔ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ان ذرائع سے رہنمائی بھی لیتے ہیں۔
مذہبی رہنمائی کو نظر انداز کرنا اور میڈیا کے اثر و رسوخ کی پیروی کرنا
علمائے اسلام نے جنسی معاملات کے لیے دین کی دی ہوئی رہنمائی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر بحث کرنا شرمناک سمجھ لیا ہے، جب کہ دوسروں نے اسے بغیر کسی غور و فکر کے کھلے عام بے نقاب کیا ہے، تاکہ ہر کوئی باآسانی اس تک رسائی حاصل کر سکے۔ اس طرح مذہبی راہ حل ہونے کے باوجود اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور لوگ دوسرے ذرائع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
لوگ پھر فلموں اور ڈراموں سے رہنمائی لیتے ہیں جن کے مرکزی موضوعات محبت، رومانس اور ہوس ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کہانی میں ایسے عناصر شامل نہ ہوں، ان فلموں کے کردار کھلے عام جنسی اشتہارات کے طور پر کام کرتے ہیں جو خواہشات کو ابھارتے ہیں۔ یہ ویڈیو مواد — فلمیں، ڈرامے اور سوشل میڈیا — لوگوں کے لیے تسکین کا ذریعہ بن گیا ہے۔
ثقافتی اور سماجی محرک
دوسرا ذریعہ ہماری سماجی ثقافت ہے۔ شادی کی تقریبات میں لوگ دلکش اور شہوت انگیز کپڑے پہنتے ہیں۔ خواتین فنکشنز میں شرکت کے لیے میک اپ پر ہزاروں روپے خرچ کرتی ہیں، جس سے جنسی محرک کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ بازاروں میں، عورتیں گھر سے نکلتے وقت جس طرح کا لباس پہنتی ہیں — تنگ کپڑے، چمکدار میک اپ، اور توجہ طلب ظاہری شکلیں — وہ اس خواہش کو ظاہر کرتی ہیں کہ ہر کوئی انہیں دیکھے گا کیونکہ عورتوں میں فطری طور پر خودنمائی کی خواہش پائی جاتی ہے۔
یہی بات مردوں پر بھی لاگو ہوتی ہے، حالانکہ فطرت کے اعتبار سے عورتیں اپنے خصائل کا مظاہرہ کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، تمام پرفارمنگ آرٹس – فلموں، ڈراموں، اسٹیج شوز میں – خواتین مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ عورتوں کے اندر نمائش کی صلاحیت فطری طور پر پائی جاتی ہے مردوں کو یہ چیز سکھانی پڑتی ہے، فطری نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ حجاب خواتین کے لیے واجب ہے تاکہ وہ اس طرح کی نمائش میں رکاوٹ پیدا کر سکے۔
مرد، اس کے برعکس، خواتین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور خواتین کو دیکھ کر، سن کر یا ان کے ساتھ بات چیت کرکے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ انسان اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اللہ نے اس کو منظم کرنے کے لیے ایک بہترین نظام بنایا ہے لیکن مذہبی لوگ اس موضوع کو نظر انداز کرتے ہیں اور لوگوں کو درست رہنمائی نہیں دیتے۔
مذہبی معاشرے میں "نبذ” جیسی بیماری کا وجود
قرآن نے مذہبی معاشرے میں موجود سماجی بیماری کے لیے "نبذ” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ﴿وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ بقرہ ۱۰۱
نبذ کا مطلب ہے کسی چیز کو بیکار اور فضول سمجھ کر پھینک دینا۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ اللہ کی ہدایت کو بے کار سمجھ کر اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیتے ہیں۔
ہم نے اللہ کے دین کو ایسے ہی غیر ضروری اور فضول سمجھ کر پھینک دیا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے پورے جنسی انتظام کو مکمل طور پر پھینک دیا ہے، حالانکہ جنسی پہلو اب بھی ہر چیز پر حاوی ہے اسے نہیں پھینکا صرف اللہ کی بنائی ہوئی تدبیر کو پھینک دیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اگر کسی نے پاگل کتے کے لیے کوئی پنجرہ بنایا ہو تو ایک شخص آئے اور پنجرے کو اٹھا کر پھینک دے اور کتے کو کھلا چھوڑ دے۔ یہی کام ہم نے کیا ہے۔
اللہ نے اس جنسی قوت کے لیے تقویٰ، عفت اور نکاح کا نظام بنایا، لیکن ہم نے اسے ترک کر دیا۔ نتیجتاً، لوگوں نے اپنے جنسی معاملات کو سنبھالنے کے لیے دوسرے ذرائع کا رخ کیا ہے۔ یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ آج مسلم معاشروں میں سب سے مشکل چیز شادی ہے۔
شادی کے معاملے میں مشکلات
پہلی بڑی مشکل یہ ہے کہ شادی کرنی ہے یا نہیں۔ سماج اور خاندان اس فیصلے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جب کوئی شادی کرنا چاہتا ہے تو ہر کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
اگلی مشکل یہ ہے کہ شادی کہاں کی جائے۔ شریک حیات کے انتخاب کا معیار اتنا غلط مقرر کیا گیا ہے کہ شادی کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔
انتخاب کے بعد بھی ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ شادی کب کرنی ہے۔ کچھ لوگ شادی کا فیصلہ صرف اس وقت کرتے ہیں جب ان کے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے بہو کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ اپنے بیٹے کے لیے بیوی کی بجائے نرس کی تلاش کرتے ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل
ایک اور مسئلہ مشترکہ خاندانی نظام ہے، جہاں پورا خاندان ایک گھر میں رہتا ہے۔ کبھی سماجی تعاون کے لیے یہ ضروری تھا لیکن موجودہ دور میں یہ ماڈل انتہائی نقصان دہ ہو چکا ہے۔ اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے خاندان روزانہ تنازعات کا سامنا کرتے ہیں – صبح سے شام تک بدسلوکی کی لڑائیاں، جس کے بعد جنگ بندی کی کوششیں ہوتی ہیں۔
ایسے خاندانوں میں گھر کا سارا بوجھ صرف ایک لڑکی پر آتا ہے جس کی شادی ابھی خاندان میں ہوئی ہے۔ وہ لڑکے سے شادی کر لیتی ہے، لیکن باقی سب — ساس، سسر، اور دوسرے — اسے قابو کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ رشتہ داروں کو شوہر کا کردار نہیں بدلنا ہوتا بلکہ بیوی کا کردار بدلنا رہتا ہے۔ اللہ نے روزمرہ کی زندگی کو چلانے کے لیے آسان نظام مقرر کیا ہے لیکن ہم نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔
بڑے خاندانوں میں، یہاں تک کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کیا پکانا ہے ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ دوپہر کے کھانے تک بھوک بڑھ جاتی ہے، اور جب ابھی تک فیصلہ نہیں ہو پاتا، تو دلائل شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ معاملات میں، شوہر یا بیٹوں نے وقت پر کھانا تیار نہ ہونے کی وجہ سے بیویوں یا ماؤں کو قتل بھی کیا ہے۔ جب بھوک حاوی ہو جاتی ہے تو انسان کنٹرول کھو دیتا ہے۔ اللہ نے بھوک مٹانے کو آسان بنایا ہے — جس طرح ایک بچہ ماں کا دودھ آزادانہ طور پر حاصل کرتا ہے — اسی طرح شادی کو بھی جنسی ضرورت کو منظم کرنے کے لیے آسان ہونا چاہیے۔
شادی میں الہی معیار کو نظر انداز کرنا
روایات میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شادی کا پہلا رشتہ رد کر دے جو اللہ کے معیار پر پورا اترتا تھا تو جب وہ شخص اپنے معیار کے مطابق شادی کرے گا تو میاں بیوی اس خاندان کی تباہی کا سبب بن جائیں گے۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول یہ روایت کہتی ہے کہ جب کوئی شخص ایسے معتبر رشتے کو رد کرتا ہے جو اللہ کے معیار پر پورا اترتا ہے اور شادی کے لیے دوسروں پر انحصار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی شخص کے ذریعے اس خاندان کو تباہ کر دیتا ہے۔
اہلبیت (ع) کی مثال اور پیروکاروں کی منافقت
شادی کے پہلے مرحلے کو آسان بنایا جائے۔ ہم اہلبیت (ع) کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ہمارے اعمال خصوصاً شادی کے بارے میں ہمارا طریقہ کار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم بالکل اہل بیت(ع) کے پیروکار نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے لباس اور حلیے میں بھی ان کی رہنمائی کو نظر انداز کرتے ہیں، یہاں تک کہ بعض شیعہ علماء اپنی داڑھی تراشتے ہیں۔
کم از کم اہلبیت (ع) کے معیار کے مطابق شادی کریں۔ انہوں نے شادی کو سادہ بنایا تھا، لیکن ہم ان کے راستے پر چلنا اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایران میں ایک انتہائی ذمہ دار انقلابی کمانڈر کی بیٹی کی شادی معیوب اور غیر مہذب طریقے سے ہوئی جس نے سب کو چونکا دیا اور امریکہ اور اسرائیل کی جنگ نے ایران کا اتنا نقصان نہیں کیا جتنا اس شادی نے کر دیا۔
وہ سرفہرست دس انقلابی شخصیات میں شامل تھے، پھر بھی ان کی بیٹی کے اقدامات نے بڑی بے عزتی کی۔ یہ نقصان امریکہ یا اسرائیل کے کسی بھی میزائل سے زیادہ تھا۔ ایرانی انقلاب سے محبت کرنے والے ظاہری تصویر اور باطنی حقیقت میں فرق دیکھ کر مایوس ہو گئے۔ اللہ منافقوں کو بے نقاب کرتا ہے- ایسی حرکتوں کی مذمت ہونی چاہیے۔
اسرائیل اور دشمن کے آلہ کاروں نے اس شادی سے انقلاب کے خلاف خوب فائدہ اٹھایا ہے جبکہ اسرائیل کی ایک پائی بھی اس شادی پر خرچ نہیں ہوئی۔ پیسہ ایران کے اسی اعلیٰ عہدہدار کا خرچ ہوا ہے اور پیسہ خرچ کر کے پوری دنیا میں اپنی بےآبرو ہوا۔ اگر وہ اہل بیت(ع) کے طریقہ کار پر شادی کرواتا تو ہرگز اسے اتنی رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
نبی اور اہلبیت کی شادیوں کی سادگی
شادیوں کو الہی معیار کے مطابق آسان بنایا جانا چاہیے نہ کہ ہمارے خود ساختہ رسم و رواج کے مطابق۔ تاکہ اہلبیت (ع) کے مخالفین بھی ان میں عیب تلاش نہ کر سکیں۔ اہلبیت (ع) نے عام لوگوں سے شادی کی اور انہیں معمولی خواتین کے ذریعے اللہ نے یہ انوار دنیا میں بھیجے۔
اگر آپ ائمہ اطہار علیہم السلام کی امہات کا مطالعہ کریں تو آپ انہیں عام گھرانوں کی خواتین پائیں گے جن سے ان کا تعلق تھا۔ ہمارے خطیب انہیں شہزادیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ اس خیال کو ناپسند کرتے ہیں کہ امام شہزادی سے کم کسی سے شادی کرے۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی ازواجِ مطہرات اعلیٰ صفات کی حامل عام عورتیں تھیں اور ان کی شادیاں سادہ تھیں۔
امام علی (ع) کی شادی بہت معمولی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ و سلم نے ان سے اپنی بیٹی سے شادی کرنے کو کہا حالانکہ ان کے پاس جہیز کے لیے پیسے نہیں تھے۔ امام علی (ع) کے پاس صرف ایک اونٹ، ایک تلوار اور زرہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زرہ بیچنے اور اس کا پیسہ شادی پر خرچ کرنے کو کہا اور اس رقم سے گھر کا سامان خود بھی خرید لیا۔ کسی نے کہا تھا کہ سب سے معزز آدمی کی شادی سادہ ترین گھر میں ہوتی ہے۔
آج ہماری شادیاں اسراف کی شاہانہ نمائش ہیں۔ شادیوں میں تین سو پکوان پیش کرنا جنون ہے۔ جب امبانی کے بیٹے نے ایسی شادی کی تو اس نے طاغوتی نظام کا نمونہ پیش کیا۔ کیا مومنین کو اس کی پیروی کرنی چاہئے؟ ہم اہلبیت (ع) کا نام لیتے ہیں لیکن ان کے طریقے کو نہیں اپناتے۔
اگر ہم واقعی ان سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں کم از کم ایک شادی کرنی چاہیے جیسا کہ انھوں نے کی تھی۔ شادی کے بعد بھی پہلے دن سے ایک نظام ہے کہ زندگی کیسے گزاری جائے – ایک ایسا نظام جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اللہ ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس کے مقرر کردہ نظام ہدایت پر عمل پیرا ہو سکیں۔
خطبہ 2
تقویٰ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی زندگی کی حفاظت کے لیے عطا کردہ حفاظتی تدبیر ہے۔ تقویٰ کے بغیر زندگی اپنا انسانی جوہر کھو دیتی ہے کیونکہ جب زندگی غیر محفوظ ہو جاتی ہے تو سب سے پہلی چیز جو فنا ہو جاتی ہے وہ خود انسانیت ہے۔
غزہ و فلسطین انسانیت کے خاتمے کی زندہ مثال
ہم آج اپنے دور میں اس حقیقت کے گواہ ہیں اور تاریخ بھی اس کی گواہی دیتی ہے کہ جب بھی کسی قوم نے تقویٰ کے بغیر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا، خواہ وہ ایمان کا دعویٰ کریں یا نہ کریں، ان کی زندگی غیر انسانی ہو گئی۔
آج ہماری آنکھوں کے سامنے ایک زندہ مثال غزہ اور فلسطین ہے۔ تاریخ کو صرف پڑھا اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے، لیکن آج کی نسل کے مصائب ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھے جا سکتے ہیں، ان کی زندگی، ان کی جدوجہد اور ان کے رد عمل جدید انسانیت کے اخلاقی زوال کو ظاہر کرتے ہیں۔
آج انسانیت کا سب سے بڑا امتحان فلسطین اور غزہ ہے۔ اگرچہ ظلم کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ظالموں اور جارحوں کی حالیہ بربریت نے دنیا کی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ دو سال تک، انہوں نے نسل کشی کی- بائیس ہزار خواتین اور بچوں سمیت ستر ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا- اور اب وہ امن کا اعلان کر رہے ہیں۔ بے گناہوں کا قتل عام کرنے والے اب امن کا جھنڈا لہرا رہے ہیں اور جن لوگوں نے نسل کشی میں مدد کی وہ اب اس جھوٹے امن عمل میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اپنے جرائم پر ایسے فخر کر رہے ہیں جیسے انہوں نے انسانیت پر احسان کیا ہو۔
جب کسی مسلم ملک کا وزیر اعظم قصائی، قاتل، ظالم سے کہتا ہے کہ ’’تمہاری وجہ سے دنیا میں امن قائم ہوا ہے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمہیں زندہ رکھے‘‘ اور پھر اسے امن کے نوبل انعام کے لیے بھی تجویز کرتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسل کشی عزت اور انعام کی وجہ بن گئی ہے۔
غزہ میں امن افواج کا مقصد حماس کا خاتمہ
حال ہی میں، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر حماس معاہدے کی پاسداری نہیں کرتی ہے، تو ہم اسے تباہ کر دیں گے۔ دو دن بعد، اس نے اعلان کیا کہ امریکہ کے ساتھ اتحادی طاقتور اسلامی فوجوں نے حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے نائب صدر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مشرق وسطیٰ اور دیگر مضبوط مسلم فوجیں غزہ میں "امن کی فوج” کے بہانے داخل ہونے کے لیے تیار ہیں، حماس کے ہتھیاروں کو قبضے میں لے لیں گی، سرنگوں کو تباہ کریں گی اور ان کی ہتھیاروں کی فیکٹریوں کو ختم کر دیں گی۔
یہ افواہیں نہیں بلکہ سرکاری بیانات ہیں جو امریکی اور پاکستانی میڈیا، وائٹ ہاؤس کی بریفنگ اور ٹرمپ کی اپنی پوسٹس میں ریکارڈ اور شائع کیے گئے ہیں۔ ابھی کل ہی، اسرائیل کی کابینہ نے مغربی کنارے کے الحاق کی باضابطہ منظوری دی، جہاں محمود عباس حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم اور پندرہ دیگر ممالک نے اس فیصلے کی مذمت کی لیکن ٹرمپ نے کہا کہ اگر اسرائیل آگے بڑھتا ہے تو امریکی امداد بند کر دی جائے گی۔
اسی دوران پاکستان سمیت یہی بائیس ممالک شرم الشیخ میں بے شرمی سے جمع ہوئے اور ظالموں کی اطاعت کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہ آٹھ مسلم ریاستوں کے عہدیداروں نے ٹرمپ سے ملاقات کی، اسرائیل کو انعام دینے اور غزہ کی مزاحمت کو دبانے کے ان کے منصوبے کی حمایت کی پیشکش کی۔
حماس کو نابود کرنے میں مسلم ممالک کی کوششیں
ایک امریکی مصنف باب ووڈورڈ نے غزہ جنگ پر اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ "الاقصیٰ طوفان” آپریشن کے بعد جب امریکی وزیر خارجہ نے عرب دارالحکومتوں (مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب) کا دورہ کیا تو عرب حکمرانوں نے شکایت کی: "ہم آپ کو عرصہ دراز سے کہہ رہے ہیں کہ حماس کو زندہ نہ رہنے دیں، حماس سے نہ صرف اسرائیل کو خطرہ ہے بلکہ ہماری اپنی حکومتیں بھی خطرے میں ہیں لہذا اب حماس کو جلدی سے ختم کریں۔”
یوں وحشیانہ بمباری شروع ہوئی۔ بڑے پیمانے پر قتل عام کے بعد بھی اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے میں ناکامی کا اعتراف کیا اور مسلم اتحادیوں سے فوجی مداخلت کی اپیل کی۔ یہ "اسلامی” فوجیں جو اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں اب غزہ کے باقی ماندہ کھنڈرات کو ختم کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
یہ ہے آج کی انسانیت – تقویٰ کے بغیر انسانیت۔ یہ بے ایمان مسلمان قومیں ہیں اور دوسری طرف نیتن یاہو اور ٹرمپ کھڑے ہیں۔ دونوں میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ تقویٰ کے بغیر انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔
دوہرا معیار اور منافقت
پاکستانی حکومت فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا دعویٰ کرتے ہوئے قرآن اٹھاتی ہے، جب کہ ان کے اقدامات ٹرمپ اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ فارسی کہاوت کی طرح ہے:
ایک چور چوری شدہ مرغی کو بازو کے نیچے لے جاتے ہوئے پکڑا گیا جس کی دم نظر آ رہی تھی۔ جب سامنا ہوا تو اس نے خدا کی قسم کھائی کہ اس نے اسے چوری نہیں کیا۔ مالک نے جواب دیا: "کیا میں تمہاری قسم مانوں یا مرغی کی دم پر یقین کروں؟”
اسی طرح، پاکستانی حکومت فلسطین کے ساتھ وفاداری کی قسم کھاتی ہے جبکہ "مرغی کی دم” (ٹرمپ کے ساتھ ان کا اتحاد) سب پر عیاں ہے۔
اگر وہ مخلص ہیں تو اب انہیں مغربی کنارے کی حفاظت کرنے دیں جس کی وہ حمایت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں — کیونکہ غزہ پہلے ہی فروخت ہو چکا ہے۔ یا تو نام نہاد امن معاہدے کو حقیقی طور پر نافذ کریں یا اس سے دستبردار ہو جائیں اور کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں۔
