پاکستان اب کسی کی توقعات سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ تاریخی طور پر، پاکستان نے بین الاقوامی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی محتاط پالیسی پر عمل کیا۔ اس نے نہ تو فلسطین کی حمایت کی اور نہ ہی اسرائیل یا امریکہ کا ساتھ دیا، بلکہ بے حسی کا انتخاب کیا. تاہم، اس صورت حال میں، پاکستان نے پارلیمنٹ سے اجازت لیے بغیر اپنی غیرجانبداری کو ترک کر دیا ہے اور تنازعات میں ایک فعال حصہ دار بن گیا ہے۔
جنسی معاملات میں تقویٰ (13) – بیوی کو شوہر کی محبوب بننا چاہیے/ پاکستان کا غیرجانبداری سے صہیونیت کی طرف جھکاؤ
انسانی زندگی میں جنسی توانائی کا ضابطہ
انسانی زندگی کا ایک بنیادی شعبہ، جنسی شعبہ ہے، اور یہ شعبہ زندگی کے دیگر تمام امور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انسانی نظام حیات میں، بنیادی طور پر عقل کو ہر چیز پر کنٹرول رکھنا چاہیے، لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ دوسری بہت ساری چیزیں جیسے خواہشات عقل پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک سب سے طاقتور خواہش جنسی خواہش ہے، جو زیادہ تر عقل کو اپنے تابع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ سب سے زیادہ طاقتور اور غلبہ پانے والی قوت ہے اس لیے اللہ نے اس توانائی کو منظم کرنے کے لیے بہت بڑا انتظام کیا ہے۔ یہ انتظام تین طریقوں سے کیا گیا ہے: ایک تقویٰ، دوسرا عفت؛ یعنی اندرونی خواہش پر قابو رکھنا اور تیسرا نکاح (شادی) ہے۔
تمام مذاہب کے ماننے والوں میں – اور یہاں تک کہ ان لوگوں میں جو کسی دین کو نہیں مانتے- شادی کا کلچر موجود ہے۔ شادی فطری اور عام چیز ہے جو اسی مقصد کے لیے رکھی گئی ہے۔ دین نے اس کو خوبصورتی سے ترتیب دیا ہے تاکہ اس نظام میں کوئی خلل پیدا نہ ہو جس سے انسانی زندگی کے دوسرے شعبے متاثر ہوں۔ قرآن نے نکاح اور جنسی معاملات میں جو نظم و ضبط پیش کیا ہے وہ اس حد تک ہے کہ دوسرے معاملات میں نظر نہیں آتا۔ ازدواجی نظام کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے اور جس فلسفے کے تحت یہ نظام بنایا گیا ہے وہ انسان کی جنسی خواہشوں کو سیراب کرنے، منظم کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا فلسفہ ہے۔
جنسی معاملات کو مرتب کرنے کے مراحل
شادی کے لیے کچھ قوانین اور احکامات رکھے گئے ہیں۔ جنسی معاملات کو منظم کرنے کے لیے پہلا قدم شرمگاہوں کی حفاظت اور دوسروں کی شرمگاہوں سے آنکھیں بند کرنا ہے۔ دوسرا مرحلہ شادی ہے جب آپ پختگی کی عمر کو پہنچ جائیں جس کے مختلف مراحل بھی ہوتے ہیں۔ یہاں دو مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک خاندان کی ترقی ہے جو اس موضوع کے قریب ہے لیکن ہماری بحث جنسی معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والے تقویٰ کے گرد ہے۔ ایک حوالہ کے طور پر، حضرت لوط نے اپنی بےراہ روی کا شکار قوم کا پہلا حل شادی کے طور پر اور دوسرا تقویٰ کے طور پر پیش کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی بیٹیاں بھی ان کے سامنے پیش کیں، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سماج اپنی بیٹیوں کو گھروں میں نہ بٹھائیں بلکہ انہیں شادی کر کے دیں تاکہ معاشرہ ہم جنس پرستی کا شکار نہ ہو۔ دوسری ہدایت جو انہوں نے اپنی قوم کو دی وہ تقویٰ تھا۔ خاندانی نظام اور اس کے آداب مختلف ہیں اور ہم یہاں اس موضوع سے متعلق گفتگو نہیں کریں گے۔
نکاح کا مقصد اور اس کی برکتیں
جب شادی اسلامی اصولوں اور آداب کے تحت کی جاتی ہے، تو وہیں سے جنسی صلاحیتوں کا ضابطہ شروع ہوتا ہے۔ اس شادی کا ایک مقصد سکون کا حصول ہے، جو کہ مجموعی طور پر جسمانی، روحانی، جذباتی اور نفسیاتی سکون کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے، اور ان میں سے پہلا سکون جنسی سکون ہے، جب کہ دیگر اس سکون کا نتیجہ ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ان اصولوں کے مطابق شادی ہوتی ہے تو وہ انہیں موادت اور رحمت عطا کرتا ہے۔ مودت کا مطلب ہے وہ محبت جس کا اظہار کیا جائے۔
زن و مرد میں نظریہ مساوات کی مشکلات
ہماری زندگیوں میں پیدا ہونے والا ایک بڑا خلل مساوات کا کلچر ہے جس کے تحت یہ پرچار کیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں برابر ہیں اور وہ ایک دوسرے کے کام کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے کلچر میں بھی نظر آتا ہے اور ہمارے ڈراموں اور فلموں میں بھی۔ میاں بیوی کا رشتہ محبت اور شفقت پر مبنی ہونا چاہیے، نفرت، بغض اور حسد پر نہیں۔ یہ محبت اور شفقت شادی کے بعد آتی ہے، وہ محبت نہیں جو ہم اپنے معاشرے میں شادی سے پہلے دیکھتے ہیں۔ محبت کے اس رشتے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ یہ ایک اہم موضوع ہے جسے علماء سمیت سبھی نے چھوڑ دیا ہے۔ جنسی مسائل پر بات کرنے والے بھی اس موضوع کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ محبت میں مرد اور عورت کی حیثیت یکساں نہیں ہوتی۔ عورت کی ساخت جسمانی، جذباتی اور رجحان کے لحاظ سے مختلف ہے اور وہ محب کی نہیں بلکہ محبوب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرد اور عورت دونوں اس محبت کے تقاضوں کو یکساں طور پر پورا کرنے والے نہیں ہیں۔ انسان کی تخلیق کی ساخت کے مطابق مرد کا کردار عاشق اور محب کا ہے۔ عاشق اور محب معشوق اور محبوب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ محبوب عاشق کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ عورت کو محبوب کا کردار ادا کرنا چاہیے، اور اسے اس صلاحیت کو پروان چڑھانا چاہیے۔ جسمانی اعتبار سے بھی اور دیگر اعتبار سے بھی۔ مثال کے طور پر عورت کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو مرد کو پسند ہو اور اس کی جسمانی شکل اپنے شوہر کے لیے پرکشش ہو۔ عورت کی ظاہری شکل و صورت کا معیار مرد کی محبت کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔ محبت معاہدے کے ذریعے قائم نہیں ہوتی ہے – جیسے کہ لوگ ازدواجی معاہدے کی شرائط طے کرتے ہیں جن کی طرف مرد متوجہ نہیں ہوگا یا دوسری عورت سے شادی نہیں کرے گا۔ جو حقیقی معنوں میں محبوب کا کردار ادا کرے گا مرد اس سے محبت کرے گا۔ اگر ایک عورت کے ساتھ عقد ہو تو دوسری طرف کشش پیدا ہو جائے تو مرد اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ یہ کھانے کی طرح ہے: کھانا پکا کر سامنے رکھا ہوا ہے، اگر اس میں اچھی خوشبو نہیں ہے، تو آپ اس کھانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے جس کی خوشبو اچھی ہے۔
بچیوں کی تربیت کس نگاہ سے کریں؟
محبت میں دونوں کو تحلیل ہونا چاہیے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مرد عاشق کا کردار ادا کرے اور بیوی معشوق کا۔ معشوق پر یہ ایک اعلیٰ اور مشکل ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ اسے یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ وہ اپنے عاشق کو ہر وقت اپنی طرف متوجہ رکھے۔ ہمارے معاشرے اور ثقافت میں، ہم لڑکی کو ایک جنگجو کے طور پر تیار کرتے ہیں، اور اس کے والدین اسے ایک "دہشت گرد” کے طور پر بڑا کرتے ہیں — کہ اس کے شوہر اور سسرال والوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ اس کے بجائے انہیں لڑکیوں کی پرورش کرنی چاہیے کہ وہ پیاری کیسے بنیں۔ عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو عاشق میں بدل دے اور مرد کے دل پر قبضہ کرے۔ اگرچہ میاں بیوی دو مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہوں، لیکن پھر بھی عورت میں یہ فطری صلاحیت ہوتی ہے- اور اگر اس کی تربیت بھی ہو، تو وہ خود کو محبوب بنا سکتی ہے۔ اگر کوئی عورت گھر کی تمام صفائی ستھرائی کرے، گھر کے تمام کام انجام دے یا کاروبار میں اپنے شوہر کی مدد کرے لیکن وہ کام نہ کرے جس سے اس کا شوہر اس کی طرف متوجہ ہو تو وہ اپنے شوہر کی معشوقہ نہیں بن سکتی۔ گھر کے امور انجام دینا الگ ذمہ داری ہے گھر کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا ایک معاشرتی معاملہ ہے لیکن سب سے اہم شوہر کا خیال رکھنا اور شوہر کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔ اس کا مطلب صرف مرد کی جنسی تقاضوں کو پورا کرنا نہیں ہے، بلکہ اجتماعی طور پر اپنے شوہر کو اپنی طرف اس حد تک متوجہ کرنا ہے کہ مرد کسی دوسری عورت کی طرف متوجہ نہ ہو۔
فرضی کرداروں کی مثالیں اور اقدار کی اولویت
ہر گھر میں یہ مسئلہ ہے: شوہر اپنی بیوی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اڑوس پڑوس کی دوسری عورتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اگر مرد کی توجہ دوسری عورتوں کی طرف ہو تو یہ بیوی محبوبہ بننے کا ہنر نہیں جانتی۔ اس کے لیے عورت کو خوبصورت ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ کہانیاں صرف کچھ ذہنی تصورات کی وضاحت کے لیے بنائی گئی ہیں اوران کی کوئی خارجی حقیقت نہیں ہوتی۔ ایسی ہی ایک کہانی لیلیٰ اور مجنون کی ہے جو کہ ایک خیالی کہانی ہے جسے شاعروں نے کرداروں کی شکل میں خیالات کو پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ مولانا رومی بھی اپنی مثنوی میں اس کو پیش کرتے ہیں۔ ہر کوئی اس خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مجنون زیادہ جسمانی خوبصورتی کا حامل تھا، جب کہ لیلیٰ ایک عام عورت کی طرح بھی نہیں تھی اور اس میں کوئی خاص جسمانی کشش نہیں تھی- پھر بھی مجنون کو لیلیٰ سے پیار ہو گیا۔ اس خیالی کہانی میں ایک جہت یہ ہے کہ عورت میں اتنی روحانی ہمت اور صلاحیت ہو سکتی ہے کہ وہ جسمانی حسن کی مالک نہ ہونے کے باوجود لیلیٰ بن سکتی ہے۔ اگر کشش جسمانی ہے، تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ بدل سکتی ہے لیکن اگر کردار میں کشش پائی جاتی ہے تو یہ ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔
جب میں ایران میں تھا تو ایک فیملی اپنی بیٹی اور اس کے عاشق کے ساتھ میرے پاس آئی۔ وہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن لڑکی شیعہ تھی اور لڑکا سنی۔ والدین میرے پاس آئے اور کہا کہ لڑکا ہماری بیٹی سے شادی کے لیے شیعہ بننے کے لیے تیار ہے، اس لیے اسے شیعہ کر دیں۔ میں نے لڑکے سے پوچھا: تجھے شیعیت میں کیا کشش ہے؟ اس نے کہا میں کچھ نہیں جانتا لیکن میں اس لڑکی کی خاطر شیعہ بننے کو تیار ہوں۔ میں نے لڑکے سے کہا: کل اگر تمہیں کسی یہودی لڑکی سے محبت ہو جائے تو کیا تم یہودی ہو جاؤ گے؟ لڑکی کہنے لگی کہ وہ اس سے شادی نہیں کرے گی کیونکہ یہ شخص معرفت کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی خاطر مذہب تبدیل کر رہا ہے۔
عورت کا کردار اور محبوبیت
عورت بناؤ سنگھار سے نہیں اپنے کردار سے محبوب بنتی ہے۔ یہ کاسمیٹک محبوبیت فلموں میں ہوتی ہے۔ حقیقی زندگی میں محبوبیت اقدار کے ساتھ آتی ہے۔ خواتین کو یہ ہنر سیکھنا چاہیے کہ اپنے شوہروں کی محبوبہ کیسے بن سکتی ہیں۔ وہ محبت کرنے والی نہیں بن سکتیں۔ انہیں مرد کی محبت کو اپنی طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔ عورت اپنے شوہر کی اس حد تک پسندیدہ بن جائے کہ مرد کو دوسری عورتوں کا خیال تک نہ ہو۔ میڈیا کے اس دور میں خواتین کو اس بات کی زیادہ فکر رہتی ہے کہ ان کے شوہر کسی اور کی طرف راغب ہو جائیں گے۔ یہ عورت کی کمزوری ہے کہ وہ اپنے اندر کشش پیدا نہیں کر سکی اور یہ کشش شخصیت اور کردار کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بعض اوقات، ایک سیاہ جلد والے شخص کے اندر ایک اعلی شخصیت ہو سکتی ہے، اور ایک سفید جلد والے شخص کا کالا کردار ہو سکتا ہے. وہ چیزیں جو انسانوں کو ایک دوسرے کی طرف جذب کرتی ہیں وہ قابل قدر اقدار ہیں جو کشش پیدا کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی کا محبوب بننا چاہتے ہیں تو اپنے اندر شرافت، خوبیاں اور اعلیٰ اقدار پیدا کریں تاکہ وہ آپ کی طرف راغب ہوں۔ اگر آپ محبوب بننا چاہتے ہیں تو اپنے اندر اقدار پیدا کریں اور اگر کوئی آپ کو آپ کی اقدار کی وجہ سے پسند کرتا ہے تو وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ وہ مفادات کے پیچھے نہیں ہے۔
گھر میں عملی برتاؤ میں محبت برقرار رکھنا
جو چیز مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے وہ شخصیت ہے۔ عورت کو شخصیت کے اعتبار سے اپنے شوہر کی محبوب بننا چاہیے اور وہ اپنے کردار کو مزید سنوارے تاکہ اس طرح ان کے درمیان محبت کا رشتہ قائم رہے۔ مرد کی محبوبہ بننا عورت کا فرض اور ذمہداری ہے۔ عورت اپنے شوہر کو یہ طعنے دے کر جھگڑا نہ کرے کہ وہ دوسری عورتوں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ ایسی حرکتوں سے آدمی مایوس ہو جاتا ہے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ عورتوں کو اپنے شوہروں کے لیے خود کو سجانا چاہیے کیونکہ مردوں کو اس جسمانی کشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے کلچر میں ہماری عورتیں صرف اس وقت کپڑے پہنتی ہیں جب وہ باہر جاتی ہیں، اور جب وہ گھر واپس آتی ہیں تو میک اپ والا منہ دھو کر بدبودار کپڑے پہن کر اپنے شوہروں کے پاس آتی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جن سے اسے پردہ کرنا چاہیے، خود کو سجا سنوار پیش کرتی ہیں۔ اور جس کے لیے اسے خود کو سنوارنا چاہیے، اس کے پاس بدترین شکل میں آ جاتی ہیں۔ روحانی اقدار کے ساتھ عورت کو جسمانی کشش بھی پیدا کرنی چاہیے تاکہ یہ رشتہ مضبوط ہو۔
شوہر کے ساتھ کیسی زبان کا استعمال کریں؟
اپنی زبان سے اپنے شوہر کو مایوس نہ کریں۔ یہ وہ خطرناک ہتھیار ہے جسے عورتیں بغیر کسی عقل کے استعمال کرتی ہیں۔ اگر آپ اپنے شوہر کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہیں تو خاموش رہیں۔ ممکن ہے کہ مرد بری یا سخت زبان استعمال کرے لیکن بات یہ ہے کہ یہ محبت زبان سے ختم ہو جاتی ہے جو اس نازک رشتے کو کاٹنے کے لیے قینچی کی طرح کام کرتی ہے۔ اس کے بعد بہت سے شوہر صرف اس لیے عقد میں باقی رہتے ہیں کہ بچے ہیں، لیکن وہ دوسری جگہوں پر اپنی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جیسے ہی مرد گھر میں داخل ہوتا ہے، عورت اندر سے گولیاں برسانے لگتی ہے، اور مرد، بے عزت ہو کر گھر میں آتا ہے لیکن گھر میں آنا پسند نہیں کرتا۔ یورپ ہوتا تو پڑوسی کے گھر میں داخل ہو جاتا۔ یہ عورت کا ہنر ہے اگر مرد میں کچھ کمی بھی ہو تو زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کرے۔ ایک مرد کی اصلاح کے لیے آپ کو پیار اور محبت کی ضرورت ہے۔ اگر عورت اپنی زبان کم اور جذبات زیادہ استعمال کرے تو وہ مرد کی اصلاح کر سکتی ہے۔ محبت، رحم اور ہمدردی کے جذبات مرد کو اپنی بیوی کا عاشق بنا دیتے ہیں۔ پھر وہ کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا۔ عورت کو اس طرح محبوب بننا چاہیے کہ گھر میں مرد سب کچھ چھوڑ کر بیوی کی طرف متوجہ ہو۔ ایک مرد کو اس وقت اپنا موبائل رکھ دینا چاہئے جب وہ اپنی بیوی کے پاس ہو۔
میاں بیوی کے رشتے میں جنسی خواہش کی مرکزیت
مرد اور عورت کے درمیان محبت کا یہ کردار ایک جیسا نہیں ہے: ایک کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے محبوب بننا پڑتا ہے، اور دوسرے کو عاشق بننا پڑتا ہے۔ محبوب کا کردار مشکل ہے کیونکہ اسے مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے اور اسے دوسری چیزوں سے غافل کرنا ہے۔ اللہ نے عورت کو محبوب بننے کی تمام صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ یہ صلاحیتیں غیر معمولی ہوتی ہیں لیکن معاشرے اور ماحول کے اثر سے ان صلاحیتوں میں ملاوٹ ہو جاتی ہے۔ اگر ان درست صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے تو وہ اپنے کردار کو محبوب جیسا بنا سکتی ہے۔ جب مرد اس پیاری بیوی کا عاشق ہو جائے تو عورت میں اگر کچھ خامیاں بھی ہوں تو وہ ان کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ لیکن ہماری عورتیں مایوس کن بیویوں کا کردار ادا کرتی ہیں، اور مرد صرف سماجی دباؤ یا بچوں کے لیے، ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ جو چیزیں میاں بیوی کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہیں ان میں سے ایک جنسی خواہش ہے، جو محور ہے اور اسے ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر صرف میک اپ ہو اور جنسی ضروریات پوری نہ ہوں تو میاں بیوی کی زندگی نہیں چل سکتی۔
شادی آدھے دین کے تحفظ کا ذریعہ
جب یہ رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو روایات کے مطابق آدھا اور دو تہائی دین بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ راز صرف اسی میں مضمر ہے کہ یہ رشتہ انسان کو سکون کے اس درجے پر پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی بندگی کے لیے زمین تیار کرتا ہے۔ یہ دونوں اللہ کی بندگی کے سفر کو آسان بناتے ہیں۔ ہم شادی سے پہلے لڑکے کو جمعہ کی نماز اور دروس میں آتے دیکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد وہ نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب ہے کہ شادی نے اس کے پورے دین کو غرق کر دیا ہے۔ یہ شادی محبت کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ دوسرے عوامل کی بنیاد پر ہوئی ہے جس نے زندگی میں بگاڑ پیدا کر دیا اور اس کی وجہ سے انسان کو عبادت سمیت کسی چیز میں لذت نہیں ملتی۔ انسان عجیب پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہو گیا ہے، لیکن وہ دماغی طور پر کشمکش کی حالت میں ہے اور اپنی بیوی سے نجات کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ اگر شادی دینی معیار کے مطابق ہو تو یہ محفوظ اور کامیاب زندگی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت میں اس کا انتظام کیا ہے اور ہمیں تعلیم و تربیت کا مرحلہ خود طے کرنا ہے۔
خطبہ 2
تقویٰ کی عدم موجودگی اور فلسطین سے خیانت
آج ہم تقویٰ کے بغیر مسلمانوں کی حالت دیکھ سکتے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ جو غداری کی جارہی ہے وہ عیاں ہے۔ تین ممالک ترکی، مصر اور قطر نے فلسطینی عوام کی نسل کشی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نام نہاد ثالث کے طور پر مداخلت کی لیکن حقیقت میں یہودیوں کے کٹھ پتلیوں کے طور پر کام کیا۔
قطر کے وزیراعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی اسرائیل نہیں فلسطینیوں کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو اب اسرائیل نہیں بلکہ طاقتور مسلم قوتوں کے ذریعے تباہ کیا جائے گا۔ جب ٹرمپ ’’حماس‘‘ کہتا ہے تو دراصل اس کا مطلب ’’فلسطینی‘‘ ہوتا ہے۔
ٹرمپ نے جن تین قوتوں کا حوالہ دیا وہ ترکی، مصر اور پاکستان ہیں۔ تاہم اسرائیل نے ترکی کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اس لیے نہیں کہ ترکی اسرائیل کے خلاف ہے بلکہ تاریخی وجوہات کی بنا پر۔ جب اسرائیل نے اس سرزمین پر قبضہ کیا تو یہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھی جس پر ترکی کی حکومت تھی۔ اس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اس سرزمین کے کچھ حصے سلطنت عثمانیہ کو واپس کیے جائیں گے۔ اگرچہ یہ معاہدہ اب برقرار نہیں ہے کیونکہ سلطنت اب موجود نہیں ہے، اردگان اب بھی دعویٰ کرتا ہے کہ یہ تمام زمینیں ترکی کو واپس کر دی جانی چاہئیں، اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ پرانے معاہدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
اس لیے اسرائیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ترکی فلسطین میں داخل ہوتا ہے تو ان تاریخی معاہدوں میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نتیجتاً اسرائیل نے صرف مصری اور پاکستانی افواج کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔ تاہم یہ قوتیں فلسطینیوں کی مدد نہیں کریں گی بلکہ وہ انہیں دبانے کے لیے وہاں جائیں گی۔
پاکستان کا غیرجانبداری سے صہیونیت کی طرف جھکاؤ
پاکستان اب کسی کی توقعات سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ تاریخی طور پر، پاکستان نے بین الاقوامی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی محتاط پالیسی پر عمل کیا۔ اس نے نہ تو فلسطین کی حمایت کی اور نہ ہی اسرائیل یا امریکہ کا ساتھ دیا، بلکہ بے حسی کا انتخاب کیا- ایک ایسا موقف جو بذات خود غیر اسلامی تھا، چونکہ غیر جانبدار رہنا بھی جرم ہے۔
تاہم، اس صورت حال میں، پاکستان نے پارلیمنٹ سے اجازت لیے بغیر اپنی غیرجانبداری کو ترک کر دیا ہے اور تنازعات میں ایک فعال حصہ دار بن گیا ہے۔ ابراہم معاہدے کے حوالے سے پاکستان سعودی عرب کی باضابطہ شمولیت کا انتظار کر رہا ہے۔ نومبر میں سعودی عرب نے معاہدے کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پاکستان بھی اس میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ٹرمپ جہاں بھی سفر کرتا ہے، وہ پاکستان کی قیادت کو ’’عظیم‘‘ کہہ کر سراہتا ہے اور اس کی وجہ پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے دکھائی گئی حد سے زیادہ چاپلوسی اور خوشامد ہے۔ پھر بھی وزیر اعظم صاحب یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اس طرح کی خوشامد کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ پاکستان کی حکومت اپنے عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئی، تو وہ عوام یا پارلیمنٹ سے مشورہ کیے بغیر صہیونی لابی کے ساتھ کیسے اتحاد کر سکتی ہے؟ کیا یہ پاکستان کے لیے جائز ہے؟
پاکستان کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاتعلق رہنے کی سابقہ پالیسی اب بھی فعال غداری کی اس پالیسی سے بہتر تھی۔
علاقائی تنہائی اور پاکستان کی المناک حالت
آج پاکستان کی حالت انتہائی افسوسناک ہے۔ حال ہی میں بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تھی اور حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ ایک اور سرحد پر افغانستان کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں سرحدیں مؤثر طور پر حالت جنگ میں ہیں۔ تیسرے ہمسایہ ملک ایران کو اب میڈیا اور تکفیری عناصر کی طرف سے ایک فرقہ وارانہ مہم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ریاستی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ قوتیں جان بوجھ کر ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
وہ دوستانہ تعلقات جو پاکستان نے جنگ کے زمانے میں ایران کا ساتھ دینے پر استوار کیے تھے اب ان فرقہ پرست گروہوں نے برباد کر دیے ہیں۔ چین جو کبھی پاکستان کا مضبوط پارٹنر تھا اس نے بھی اس پر عدم اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے۔ چین امریکہ سے متصادم ہے اور پاکستان کی امریکہ سے قربت قدرتی طور پر اس اتحاد کو خطرہ ہے۔ یہ خود پاکستان کی غداری ہے، کیونکہ وہ اب اپنے چاروں پڑوسی ممالک کو الگ کر رہا ہے۔
تاریخی طور پر، پاکستان ہمیشہ ملک کے اندر سرگرم غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے جو قومی معاملات میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ معاشی طور پر یہ نئی پالیسی پاکستان کو شدید دھچکا پہنچا سکتی ہے۔ تاہم سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ اب پاکستان کو پسند کرنے لگا ہے۔ جب شیطان آپ کو پسند کرنے لگتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کچھ غلط کر رہے ہیں- اور یہ ایک سنگین تنبیہ ہے۔
ٹرمپ کی تعریف پاکستان کے لیے نعمت نہیں بلکہ نحوست ہے۔ ابھی تک اس نئی صف بندی سے کوئی ٹھوس فائدہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے، جبکہ پاکستان میں مختلف اندرونی گروہ صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
اندرونی تنازعات اور فرقہ وارانہ ٹارگٹنگ
ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) ریاست کے ساتھ تنازعات میں مبتلا ہے۔ مریدکے میں TLP (تحریک لبیک پاکستان) کے خلاف حال ہی میں ایک فوجی آپریشن کیا گیا، اور اب ریاست نام نہاد "توازن کی پالیسی” کے طور پر اپنی توجہ شیعہ برادری کی طرف موڑ رہی ہے۔
ان کو شیعوں سے کیا خوف ہے؟ پاکستان کی پوری تاریخ میں، شیعوں نے کبھی بھی ریاست کے خلاف انتہا پسندی، بغاوت یا تشدد میں حصہ نہیں لیا۔ پھر بھی، محض توازن کے غلط احساس کو برقرار رکھنے کے لیے ان کو باغی سمجھا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جیکب آباد میں ایک صحافی کو اپنے ہی قبائلیوں نے قتل کر دیا لیکن تین بے گناہ شیعہ گرفتار کر لیے گئے۔ ایسی پالیسیاں اور سفارتی رویے تباہ کن ہیں – یہ صرف ٹرمپ کی دوستی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی ساکھ اور اتحاد کو تباہ کر رہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران، پاکستان نے مؤثر طریقے سے چینی ہتھیاروں کا استعمال کیا، جس سے ٹرمپ ناراض ہے، کیونکہ وہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات توڑنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اپنے وقار اور آزادی کی حفاظت کرنی چاہیے اور صیہونیوں کے ساتھ اتحاد انتہائی بے عزتی ہے۔ جو بھی ایسا کرتا ہے وہ پاکستان، اس کے بانیوں اور اس کے عوام کا غدار ہے۔
خیانت کے دینی اور اخلاقی نتائج
یہ پاکستان کی دیرینہ پالیسی تھی کہ وہ صیہونی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اگر محمد بن سلمان اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسا کرنے دیں اور وہ خود اس کے نتائج کا سامنا کریں لیکن پاکستان کو اس راستے پر نہیں چلنا چاہیے۔
اگر پاکستان فلسطین کی حمایت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تو کم از کم اس کے ساتھ غداری کرنے سے باز رہے۔ فلسطین کے خلاف غداری کا حصہ بننا ایک سنگین جرم ہے اور ایسا عمل اللہ اور اس کے رسول کو کبھی خوش نہیں کرے گا۔
ایسی خیانت کرنے والوں کو آخرت میں نجات کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ عمل سیاسی اور روحانی طور پر قوم کی روح پر سیاہ داغ رہے گا۔
