زندگی کا مالی بوجھ بھی مکمل طور پر مرد کے دوش پر رکھا گیا ہے۔ چونکہ مرد کو خلقت کے اعتبار سے ہی ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے۔ لیکن عورت کو خلقت کے اعتبار سے ایسا بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں بنایا گیا ہے۔
جنسی معاملات میں تقویٰ (15) – ناشزہ بیوی اور شوہر کے جنسی حقوق کی عدم تکمیل/ غلو کے خلاف تنبیہ: امام رضا(ع) کا غالیوں کے خلاف سخت اقدام
ازدواجی زندگی میں جو چیز بھی انسان کی ضرورت ہے اس کا مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے عورت پر اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں ڈالا گیا ہے۔ اسی لیے مرد کو قیم بنایا گیا ہے؛ سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں ارشاد ہے:
ٱلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَانِتَٰتٌ حَافِظَٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ ۚ وَٱلَّٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا۟ عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
” مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے- پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو- انہیں خواب گاہ میں الگ کردو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلند اور بزرگ ہے” ۔
زندگی کا مالی بوجھ بھی مکمل طور پر مرد کے دوش پر رکھا گیا ہے۔ چونکہ مرد کو خلقت کے اعتبار سے ہی ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے۔ لیکن عورت کو خلقت کے اعتبار سے ایسا بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں بنایا گیا ہے۔
صالح اور فاسد کا تصور
قرآن نے عورت کے دوش پر جو ذمہ داری رکھی ہے وہ صالح بننا ہے دو لفظیں قرآن میں ایک ساتھ استعمال ہوئی ہیں؛ ایمان اور عمل صالح۔ صالح فاسد کے مقابلے میں آتا ہے۔ اگر کوئی چیز مثلاً کھانا پکانے کے معیار کے مطابق ہو تو یہ صالح کھانا ہے۔ ورنہ یہ فاسد ہے. اس موسم میں آلودگی کی وجہ سے ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے معیار کے ذریعے ماپا جاتا ہے جس کے مطابق کسی حد تک ذرات ہوا میں رہ سکتے ہیں۔ اگر اس سے زیادہ ہو جائیں تو ہوا فاسد ہے۔ اسی طرح انسان کی شخصیت صالح ہونی چاہیے یعنی اس کا کردار اور عقل وہی ہونا چاہیے جو اللہ نے بیان فرمایا ہے۔ اگر نہیں تو یہ فاسد آدمی ہے۔
بیوی کے انتخاب کے وقت کن صفات کو پیش نظر رکھنا ضروری
اس آیت کے مطابق بیوی کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ صالح ہو اور اس کا فیصلہ شادی کے انتخاب کے وقت ہونا چاہیے۔ ان دنوں ہم بیوی کے لیے فاسد لڑکیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں جو آن لائن یا دوسری جگہوں پر لڑکوں سے تعلقات قائم کرتی ہیں اور پھر شادی کے مرحلے تک پہنچ جاتی ہیں۔ وہ لڑکی فاسد ہے جس نے ایک مرد سے ناجائز تعلقات استوار کر رکھے ہوں۔ جب آپ شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں، تو دو چیزوں کا خیال رکھیں؛ پہلے وہ قانت، پھر صالحہ ہو۔ جیسا کہ پچھلے خطبے میں ذکر کیا گیا کہ قانیت سے مراد وہ خواتین ہیں جو اطاعت کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ اس لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر رہنے کے لیے تیار ہو۔ پھر وہ صالحہ ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام صالح عورتیں شوہر کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ یہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب خاندان والے زبردستی شریک حیات کا انتخاب کر کے بچوں کی شادی کر دیں۔ شادی کے لیے شرط ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں رشتہ کو دل سے قبول کریں نہ کہ صرف زبانی ۔
پھر تیسری صفت حافظات الغیب ہے یعنی شوہر کی عدم موجودگی میں گھر کی حفاظت کرنا۔
نشوز کی وجوہات
ناشزہ عورت وہ ہے جو مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے میں نافرمانی کرتی ہے۔ قرآن نے اس لفظ کو دو مرتبہ اسی تناظر میں استعمال کیا ہے جس کے تحت نشوز، مرد اور عورت دونوں ہو سکتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو ازدواجی زندگی کو کیسے چلایا جائے؟ یہ نشوز ہمارے معاشرے میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی مدنظر نہیں رکھی جاتی، یعنی ان کی شادی ذہنی آمادگی کے ساتھ نہیں ہوتی۔ ہر نسل کو اس طرح کی تربیت کی ضرورت ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوم کو تربیت کیا اور اس میں پاکیزہ شخصیتں پیدا کیں۔ ہماری معاشرے میں تعلیم و تعلم کے زیر سایہ انسان کی شخصیت سازی نہیں ہوتی۔ بلکہ قدرتی طور پر جس طرح کھیتوں میں گھاس پھوس خود اگتا ہے اسی طرح ہمارے معاشرے میں انسان کی شخصیت خودبخود ابھرتی ہے۔ اور خاص طور پر وہ زیادہ تر جنسی معاملات میں منحرف ہو جاتے ہیں۔ اکثر بچے جنسی فساد میں ملوث ہوتے ہیں لیکن والدین اسے چھپا دیتے ہیں اور خاموش رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کے مطابق ان کی تربیت کے بجائے ہم اس طرح کے فساد کو آنکھوں سے دیکھ کر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ازدواجی زندگی کے حقوق کی عدم ادائیگی کے طور پر نشوز
ہمارے سماج میں نشوز کثرت سے پایا جاتا ہے کہیں مرد ناشز ہے یعنی اپنی بیوی کے ازدواجی حقوق پورے نہیں کر رہا ہے اور کہیں پر عورت ناشزہ ہے یعنی اپنے شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہی ہے۔ سب سے بڑا اور بنیادی حق ان دونوں کے لیے جنسی تعلق ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہم حقوق کے بارے میں سب سے کم فکر مند ہیں، جب کہ مغرب میں حقوق پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دین میں ذمہ داریاں بھی ہیں، فرائض بھی ہیں اور حقوق بھی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ جہاں ذمہ داریاں ہوں گی وہاں حقوق بھی ہوں گے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے مرد کو قیم بنایا ہے، یعنی امور کا منتظم، تو دوسری طرف عورت کو اطاعت کے لیے تیار رہنا ہے۔ پس اگر عورت قانت اور صالحہ نہ ہو اور مرد کے حقوق ادا نہ کرے تو وہ ناشزہ ہے۔
نشوز کی لغوی وضاحت
عربی میں ناشزہ کا مطلب ایک ٹیلہ ہے جو میدانی زمین میں پایا جاتا ہے (پہاڑی علاقوں میں نہیں)۔ قرآن نے اس لفظ کو اسی معنی کے ساتھ قانت کے خلاف استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے اطاعت کے لیے آمادہ و تیار ہے۔ پہاڑی علاقوں میں پہاڑیوں اور ٹیلوں کا ہونا غیر متوقع نہیں ہے لیکن میدانی اور ہموار علاقے میں کسی ٹیلے کا ابھرنا غیرمتوقع ہے۔ تیز ہواؤں اور طوفانوں کی وجہ سے میدانی علاقوں میں ریت کے ٹیلے بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے اسی معنی کو میاں بیوی کے درمیان پائے جانے والے تعلقات کے بارے میں استعمال کیا ہے۔ جیسے کسی میٹنگ میں ایک شخص کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو اور اٹھ کر چلا جائے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح جب میاں بیوی میں سے کوئی اپنی ازدواجی زندگی کی ذمہداری قبول کرنے سے انکار کر دے تو یہ نشوز ہے۔ یعنی ازدواجی زندگی میں جس چیز کی توقع کی جاتی ہے وہ مرد کا قیم ہونا اور عورت کا قانت اور اپنے حقوق کی ادائیگی کے لیے تیار ہونا ہے لیکن جو اس کے برخلاف کرے وہ ناشزہ کہا جائے گا۔ اگر بیماری جیسی کوئی حقیقی وجہ ہو تو وہ قابل قبول ہے۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں کے پاس کچھ حقیقی وجوہات ہوں تو ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ حقوق کی ادائیگی میں صرف بہانے بنا رہے ہیں تو یہ نشوز ہے۔ یہ ازدواجی زندگی میں مسائل کی اصل بنیاد ہے، جس کا مطلب ہے ازدواجی حقوق کی فراہمی نہ کرنا۔ بیوی کو مرد کے حقوق پورے کرنے ہوتے ہیں اور سب سے پہلے مرد کے جنسی حقوق ہیں جو اسے ادا کرنے چاہئیں۔
ناجائز تعلقات اور جذباتی بے وفائی
یہ عام بات ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں۔ شادی شدہ مرد کا کسی دوسری عورت سے اگر کوئی تعلق ہے تو بعض اوقات وہ ظاہری طور پر بھائی بہن کی طرح دکھاوا کرتے ہیں۔ ایسے تعلقات رکھنے والے زیادہ وقت جنسی گفتگو میں صرف کرتے ہیں اور کئی بار ایک دوسرے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ کزنز میں عام طور پر آپس میں سب مل کر خوشیوں کی محفلیں مناتے ہیں۔ الفاظ اور ایک دوسرے کی شکل و صورت سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ بیوی کو غیر مرد کے ساتھ اجنبی جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ وہ ایسی باتیں نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس قسم کے تعلقات رکھ سکتی ہے۔ لیکن یہی مرد و عورت بہت سے معاملات میں اپنے شوہر یا اپنی بیوی کے ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔ ایک ہی گھر میں رہنے، ایک ساتھ کھانا کھانے اور ایک ہی بیڈ روم میں سونے کے باوجود ان کے سرد تعلقات ہیں۔ یہ وہی نشوز ہے جس کا قرآن اس آیت میں ذکر کرتا ہے کہ اس کا آغاز بیوی سے ہوتا ہے، لیکن آیت نمبر 128 میں قرآن کہتا ہے کہ مرد بھی نشوز کر سکتا ہے۔
نشوز اور ازدواجی رشتے میں عدم استحکام کے نتائج
پھر اس کا حل کیا ہے؟ قرآن نے اس کا راہ حل بھی بیان کیا ہے۔ جب مرد عورت کے ساتھ بدتمیزی کرے گا، اگر وہ ماڈرن گھرانے سے ہے تو وہ کھل کر کہے گی کہ میرے قریب مت آنا۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں وہ شرم کے مارے نہیں کہے گی لیکن عملی طور پر حقوق ادا نہیں کرے گی۔ اگر یہ نشوز ان کے درمیان خاص طور پر اس وقت پیدا ہو جائے جب بیوی ایسا کرے تو یہ امید نہ رکھیں کہ مرد اس کے نارمل ہونے کا انتظار کرے گا۔ وہ دوسرے آپشنز تلاش کرے گا۔ مرد ناجائز کاموں کی طرف جانے میں وقت نہیں لگاتا اور بہت تیزی سے پھسل جاتا ہے اور عورت کو حیا کی وجہ سے وقت لگتا ہے۔ عورت کو یہ جواز یا موقع مرد کو نہیں دینا چاہیے۔ عورت کو سیکھنا چاہیے کہ مرد دوسرے رشتوں سے کیسے لذت حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے قانونی رشتے میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ شادی سے پہلے کے تعلقات میں آدمی اپنی گرل فرینڈ کے لیے تحائف لے گا اور نرم، رومینٹک زبان استعمال کرے گا۔ لیکن شادی کے بعد وہ یہ سب بھول جاتا ہے۔ آپ میاں بیوی کے درمیان ایسا کیوں نہیں کرتے؟ شوہر اور بیوی کو اپنے درمیان رومانوی انداز میں بات کرنی چاہیے جیسے وہ دوسروں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔
تمتّع اور باہمی لذت کا تصور
قرآن میں ایک اور لفظ استعمال ہوا ہے جو مرد اور عورت کے تعلق کے لیے تمتّع ہے۔ اس سے مراد لذت ہے جو ایک دوسرے کو فراہم کرنا مرد اور عورت کا حق ہے۔ اس نے تمتع کے لیے عورت سے نکاح کیا ہے اور لفظ متعہ یہاں سے نکلا ہے۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لیے خوشگوار ماحول فراہم کرنا چاہیے۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو قدرتی طور پر انسان کو لذت کی ضرورت ہے اس لیے وہ انٹرنیٹ، محلے اور دوسری جگہوں پر جائے گا۔ اور وہاں اس لذت کو تلاش کرے گا جو غیرشرعی اور ناجائز ہو گی۔
دوسرا خطبہ
تقویٰ کا سرچشمہ قرآن کریم، انبیاء کرام اور ائمہ طاہرین (ع) ہیں۔ اور تقویٰ کا سب سے نمایاں اور بلند منارہ امیر المومنین علی (ع) ہیں۔ ان کی حکمت، حکمران، سیرت اور عمل مجسم تقویٰ ہیں۔ انہوں نے امت کے تحفظ کے لیے ہر پہلو کی وضاحت کی۔
ان کے اقوال میں سے حکمت 117 میں یہ بیان ہے:
’’میری وجہ سے دو لوگ ہلاک ہوں گے: حد سے زیادہ محبت کرنے والا یعنی غلو کرنے والا اور حد سے زیادہ نفرت کرنے والا۔‘‘
جیسا کہ ذکر کیا گیا، کہ یہ بات صرف امیر المومنین ہی کہہ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی سیاسی، سماجی، دینی، مسلم یا غیر مسلم رہنما نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ ہمارے چاہنے والے بھی ہلاک ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر تمام رہنما یہی کہتے ہیں: ہمارے پیروکار بچ جائیں گے چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ لیکن امیرالمومنین نے فرمایا: اگر تم مجھ سے محبت کرنے میں مبالغہ آرائی کرتے ہو تو تم بھی ہلاک ہو سکتے ہو- جس طرح مجھ سے نفرت کرنے والے ہلاک ہو جائیں گے۔۔
اہل بیت(ع) نے اس خطرے کو واضح طور پر اجاگر کیا۔ علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار (جلد 25) میں غلاۃ اور ان کے خلاف ائمہ (ع) کی جدوجہد کو اور اپنے شیعوں کو غالیوں سے بچانے کے لیے ائمہ نے جو اقدامات کئے اس پر ایک مکمل باب مرتب کیا ہے۔
زیر بحث روایت 20ویں حدیث ہے جو امام رضا (ع) سے منقول ہے۔ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا:
مجھے عبودیت کے دائرے سے باہر نہ نکالنا، مجھے بندہ ہونے کی حد سے آگے نہ بڑھانا۔
مطلب یہ ہے کہ مجھے الوہیت کے درجہ تک نہ لے جاؤ۔ میرا ذکر اس طرح نہ کرو جس سے میری عبدیت کی نفی ہو۔ لیکن جن فضائل کا تذکرہ کرتے ہو جو میری عبدیت کی نفی نہیں کرتے، ان کا ذکر کرو، پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور امام رضا علیہ السلام سے کہا:
’’اے فرزند رسول ہمارے لیے اللہ کا تعارف کروائیں‘‘۔
امام رضا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کیا۔
سننے کے بعد آدمی نے کہا:
"اے فرزند رسول، جو لوگ آپ کے پیرو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان میں ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ نے ابھی اللہ کے بارے میں جو صفات بیان کی ہیں، یہ علی کی صفات ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ علی اللہ رب العالمین ہیں۔”
راوی کہتا ہے:
جب امام رضا علیہ السلام نے یہ سنا تو آپ کے کندھے کانپ اٹھے اور آپ کے مبارک چہرے پر پسینہ آ گیا۔
اس کے بعد فرمایا:
"اللہ پاک ہے، اللہ پاک ہے، اللہ پاک ہے اس سے جو یہ ظالم اور کافر اللہ کے بارے میں کہتے ہیں۔”
پھر فرمایا۔
کیا علی (ع) کھانے والوں میں کھانا نہیں کھاتے تھے؟ کیا پینے والوں میں نہیں پیتے تھے؟ کیا شادی کرنے والوں میں شادی نہیں کرتے تھے؟ کیا ان کی اولادوں کی طرح اولاد نہیں تھی؟ کیا وہ بولنے والوں میں نہیں بولتے تھے؟ کیا نماز نہیں پڑھتے تھے؟ کیا رکوع نہیں کرتے تھے؟ کیا انہوں نے سجدہ نہیں کیا تھا؟ شادی کرنا، اور انسانی اعمال انجام دینا کیا ایک خدا کے لیے قابل قبول ہیں؟، پھر تم سب خدا ہو سکتے ہو، کیونکہ تم کھاتے پیتے اور شادی بھی کرتے ہو۔”
آدمی نے کہا:
’’اے فرزند رسولؐ، وہ کہتے ہیں کہ جب علی (ع) نے ایسے معجزات دکھائے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں دکھا سکتا تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ اللہ ہیں۔‘‘
امام رضا علیہ السلام نے جواب دیا:
"علی سے جو معجزات ظہور پذیر ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کے اعمال تھے، نہ کہ کسی مخلوق کے اعمال، جب وہ معجزات دکھاتے تھے تو یہ ان کے ذریعے سے اللہ کا عمل تھا۔”
انہوں نے مزید فرمایا:
"جب علی (ع) نے انسانی صفات کو ظاہر کیا تو لوگوں نے شک کیا اور جب معجزات ظاہر ہوئے تو وہ غلو کرنے لگے؛ وہ اس لیے شک میں مبتلا تھے کہ وہ اللہ کے عمل اور بندے کے عمل میں فرق نہیں سمجھتے تھے۔”
امام نے فرمایا:
"انبیاء کرام نے بھی معجزات دکھائے — کیا لوگ انہیں خدا کہتے ہیں؟ نہیں، معجزات اللہ کے اعمال تھے، جو اس کے نبیوں کے ذریعے دکھائے گئے ہیں۔”
پھر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
غالیوں نے خود کو نہیں سمجھا، ان کی جہالت انہیں غلو کی طرف لے گئی، علی (ع) کی حد سے زیادہ تعریف ان کے انحراف کا باعث بنی۔ لہذا کافر اور گمراہ ہیں۔ چونکہ اس کام سے انہوں نے اللہ کی تحقیر کی ہے۔ اس کی شان گھٹا دی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے علی (ع) کو بعض کرامات عطا کیے ہیں تاکہ لوگ ان کے مرتبے کو پہچانیں، ان کے حکم کی تعمیل کریں اور ان کی پیروی کریں۔ لیکن یہ اعزاز و کرامات انہیں خدا نہیں بنا دیتے۔
پھر امام رضا علیہ السلام نے ایک مثال دی:
"ایک بادشاہ جس کی انتظار میں لوگ انتظار میں ہوں وہ اپنے آگے ایک ایلچی کو ایک گروہ اور تحائف کے ساتھ بھیجتا ہے، لوگ اس ایلچی کو بادشاہ سمجھ کر اسے بادشاہت کا تاج پہنا دیتے ہیں، وہ اسے بادشاہ کی عزت سے نوازتے ہیں؛ جب حقیقی بادشاہ آتا ہے تو اس سے منہ موڑ لیتے ہیں، کیونکہ ان کے دل اس ایلچی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں؛ یہی حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے علی کو خدا سمجھ لیا اور جو حقیقی خدا ہے اس کو پہچانا ہی نہیں”۔
انہوں نے مزید کہا:
"لوگوں نے دیکھا کہ اللہ نے علی کو کیا دیا – معجزات، شجاعت، علم – اور انہوں نے غلو کرلیا اور علی علیہ السلام کو خدا سمجھ بیٹھے۔
پھر امام نے فرمایا:
’’اے لوگو، بتاؤ کہ اگر کوئی خادم کو بادشاہ سمجھ بیٹھے تو اس کی کیا سزا ہے؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’وہ سزا کا مستحق ہے۔‘‘
امام نے فرمایا:
’’تم نے اپنے معاملے کا خود فیصلہ کیا ہے، یہ لوگ اللہ کے عذاب کا سامنا کریں گے، کیونکہ وہ اس کے بندے کو اس برابر سمجھتے تھے۔‘‘
پھر امام رضا علیہ السلام نے واضح طور پر فرمایا:
"علی اور ان کی اولاد عظیم المرتبت بندے ہیں، وہ مخلوق ہیں، ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے سوائے اس کے جو اللہ انہیں دیتا ہے، وہ زندگی، موت، قیامت، تنگی، وسعت، حرکت یا خاموشی پر قابو نہیں رکھتے – سوائے اس کے جو اللہ انہیں عطا کرتا ہے، جو انہیں اللہ کے سوا رب بناتا ہے وہ کافروں میں سے ہے۔”
پھر فرمایا۔
’’لیکن ان لوگوں نے ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے باطل عقیدہ کو نہیں چھوڑا اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے، ان کی خواہشات ناکام ہوئیں، ان کی خواہشیں برباد ہوئیں، وہ دردناک عذاب میں مبتلا رہے۔‘‘
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
"اے لوگو! علی اور ان کی اولاد خدا کے بندے ہیں، خدا نہیں، ان کے پاس صرف وہی ہے جو اللہ نے ان کے سپرد کیا ہے، ان کا رب مخلوقات کی صفات سے بلند ہے، جو ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا معبود مانے وہ کافر اور گمراہ ہے۔”
