اگر آپ جناب زہرا(س) کی شخصیت کے اندر عدل کو تلاش کرنا چاہیں تو اسی خطبے کے ذریعے تلاش کر سکتے ہیں۔ آج ہم نے حضرت زہرا(س) کی شخصیت کو غیر متوازن بنا کر پیش کیا ہے۔ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ جناب زہرا فدک یعنی پراپرٹی کے لیے روتی رہیں۔ ان کی سب سے بڑی مصیبت جائیداد کا چھن جانا تھی۔
جناب زہرا(س) کے نزدیک عدل کا فلسفہ (پہلی مجلس)
خطبہ فدکیہ میں جناب فاطمہ زہرا(س) فرماتی ہیں:
فَجَعَلَ اَللَّهُ اَلْإِيمَانَ تَطْهِيراً لَكُمْ مِنَ اَلشِّرْكِ وَ اَلصَّلاَةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ اَلْكِبْرِ وَ اَلزَّكَاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نَمَاءً فِي اَلرِّزْقِ وَ اَلصِّيَامَ تَثْبِيتاً لِلْإِخْلاَصِ وَ اَلْحَجَّ تَشْيِيداً لِلدِّينِ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلْفُرْقَةِ وَ اَلْجِهَادَ عِزّاً لِلْإِسْلاَمِ وَ اَلصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اِسْتِيجَابِ اَلْأَجْرِ وَ اَلْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَامَّةِ وَ بِرَّ اَلْوَالِدَيْنِ وِقَايَةً مِنَ اَلسُّخْطِ وَ صِلَةَ اَلْأَرْحَامِ مَنْسَأَةً فِي اَلْعُمُرِ ] مَنْمَاةً لِلْعَدل [ وَ اَلْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ وَ اَلْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِيضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِيَةَ اَلْمَكَايِيلِ وَ اَلْمَوَازِينِ تَغْيِيراً لِلْبَخْسِ وَ اَلنَّهْيَ عَنْ شُرْبِ اَلْخَمْرِ تَنْزِيهاً عَنِ اَلرِّجْسِ وَ اِجْتِنَابَ اَلْقَذْفِ حِجَاباً عَنِ اَللَّعْنَةِ وَ تَرْكَ اَلسَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ وَ حَرَّمَ اَللَّهُ اَلشِّرْكَ إِخْلاَصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ فَاِتَّقُوا اَللّٰهَ حَقَّ تُقٰاتِهِ وَ لاٰ تَمُوتُنَّ إِلاّٰ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ – وَ أَطِيعُوا اَللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهَاكُمْ عَنْهُ فَإِنَّهُ إِنَّمٰا يَخْشَى اَللّٰهَ مِنْ عِبٰادِهِ اَلْعُلَمٰاءُ.
ترجمہ:
’’ پس اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ بنایا اور خدا نے نماز فرض کی تاکہ تکبر سے بچ سکو، زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق کی زیادتی کا ذریعہ بنایا اور روزوں کو اخلاص کی مضبوطی کا ذریعہ بنایا۔
اور حج کو دین کی مضبوطی کا وسیلہ بنایا اور عدل و انصاف کو واجب کر کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑا اور ہماری اطاعت کو ملت اسلام کا نظام بنایا اور ہماری امامت کو تفرقہ سے بچنے کیلئے امان قرار دیا اور جہاد کو اسلام کی عزت بنایا اور مصیبت میں صبر کو تحصیل اجر میں مددگار بنایا اور امر بالمعروف میں عوام الناس کی مصلحت کو قرار دیا۔ والدین کے ساتھ نیکی کو اس لیے واجب کیا کہ غضب خدا سے محفوظ رہا جائے اور صلہ رحم اس لیے مقرر کیا تاکہ عمر میں اضافہ ہو اور تعداد بڑھے اور قصاص اس لیے واجب کیا کہ خون ریزی رک جائے اور نذر و وفا کی راہ اس لیے نکالی کہ بندوں کی مغفرت مقصود تھی اور پیمانہ اور وزن پورا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ نقصان سے بچاؤ ممکن ہو اور شراب سے اس لیے ممانعت فرمائی کہ بندے برے اخلاق سے پاک رہیں اور زنا کا بے جا الزام لگانا اس لیے حرام کیا کہ لعنت کے سامنے ایک حجاب اور رکاوٹ پیدا ہو اور چوری کو اس لیے ممنوع قرار دیا کہ دوسروں کے مال میں بے اجازت تصرف کرنے سے لوگ باز رہیں اور خدا نے شرک کو اس لیے حرام کیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار خالص رہے۔
لہٰذا تقوای الہی اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور جب مرو تو مسلمان ہی مرو۔ اور اوامر میں خدا کی اطاعت کرو اور جن امور سے منع کیا ہے۔ ان سے باز رہو۔ بے شک خدا کے بندوں میں سے اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘
خطبہ فدکیہ فلسفہ احکام دین کا اہم باب
جناب فاطمہ زہرا(س) کا نورانی خطبہ جو خطبہ فاطمیہ یا خطبیہ فدکیہ کے نام سے معروف ہے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد پیش آنے والے واقعات کو مدنظر رکھ کر حاکم وقت اور صحابہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اگر چہ یہ خطبہ اپنے حق کے حصول کے لئے بیان فرمایا لیکن یہ ایک جامع اور حکیمانہ خطبہ ہے۔ دین کا ایک مکمل نصاب ہے جس کے اندر توحید سے لے کر احکام و حقوق تک بیان ہوئے ہیں۔ اس خطبے میں ایک اہم اور نایاب باب فلسفہ احکام دین ہے۔ دینی نصاب میں یہ باب عام طور پر متروک نظر آتا ہے۔ فلسفہ احکام وہ باب ہے جس میں احکام کے اہداف و مقاصد اور ان کی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں۔
اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے جو دین بھیجا ہے اس کے مختلف ابواب ہیں ان میں سے ایک بہت اہم باب احکامات اور دستورات ہیں اس خطبہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان احکامات کا مقصد و ہدف کیا ہے؟ دین شناسی کے میدان میں بلکہ اجتہاد و استنباط کے میدان میں بھی اس موضوع کو بطور کلی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ مثلا ہمارے اجتہادی نظام میں ہمارے علمائے دین ادلہ شرعیہ سے استنباط کرتے ہوئے احکام کو کبھی اہداف و مقاصد احکام کے ساتھ بیان نہیں کرتے، یعنی وہ احکام کا دائرہ ہدف و مقصد کے تابع قرار نہیں دیتے جبکہ ایک طرف تمام علما کا متفقہ مبنیٰ ہے کہ احکام منافع و مقاصد کے لیے وضع کئے گئے ہیں۔
احکام دین کا مصلحت اور مفسدہ کے تابع ہونا
ایک زمانے میں اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان یہ بحث کافی عروج پر تھی کہ یہ احکام دین کسی مصلحت کے تحت ہیں یا کسی مفسدہ کے تحت ہیں؟ یعنی اگر کسی چیز کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے تو یہ اس کے اندر موجود کسی فساد کی وجہ سے حرام ہے یا اللہ نے اپنی مرضی سے اس کو حرام کر دیا ہے اگر چہ اس حرام شدہ چیز میں کوئی مفسدہ نہیں ہے بلکہ اگر اس میں کوئی فائدہ بھی ہو تو بھی اللہ نے اس کو پیش نظر نہیں رکھا اور اس کو حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح جس چیز کو اللہ نے واجب قرار دیا ہے کیا اس کے اندر کوئی مصلحت تھی جس کی بنا پر اس کو واجب قرار دیا ہے؟ اشاعرہ کے نزدیک حرمت اور وجوب کے لیے کسی مفسدہ یا مصحلت کی ضرورت نہیں ہے دوسری طرف علمائے معتزلہ و امامیہ کا یہ ماننا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی چیز میں کوئی مصلحت یا مفسدہ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کو واجب یا حرام قرار دے دے۔ بلکہ یہ تمام احکام موضوعات، اعمال و اشیاء کے اندر موجود مصلحتوں اور مفسدوں کی بنیاد پر ہیں۔
درحقیقت یہی درست مبنیٰ ہے اور امامیہ آج تک اسی مبنیٰ پر قائم ہیں کہ تمام احکام مصلحتوں اور مفسدوں کے تابع ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے فقہا جب اجتہاد اور استنباط کے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں تو اس مبنیٰ کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور احکام شریعت کے استنباط کے وقت وہ اشیاء کی مصلحتوں اور مفسدوں کو پیش نظر رکھ کر فتویٰ نہیں دیتے۔
فاطمہ زہرا(ع) اور عدل کا فلسفہ
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس موضوع کی طرف توجہ دلائی گرچہ آپ ایک سخت اور پرآشوب دور سے گزر رہی تھیں لیکن پھر بھی دین شناسی کے معاملے میں آپ نے اس اہم باب کو فراموش نہیں ہونے دیا۔ ان مجالس میں ہمارا عنوان گفتگو یہی موضوع ہے جو جناب سیدہ کونین نے اپنے خطبہ میں ان الفاظ کے ذریعے ارشاد فرمایا ہے: فَجَعَلَ اَللَّهُ اَلْإِيمَانَ تَطْهِيراً لَكُمْ مِنَ اَلشِّرْكِ۔۔۔ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ۔ یہاں تک گزشتہ سالوں کی مجالس میں گفتگو ہوئی اور بات اس فقرہ تک پہنچی کہ عدل کو اللہ نے دلوں کی تنسیق کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
اس خطبہ کے دو نسخے تاریخ میں موجود ہیں ایک کے مطابق تنسیق ’ق‘ کے ساتھ وارد ہوا ہے اور دوسرے نسخے میں ’ک‘ کے ساتھ یعنی تنسیک وارد ہوا ہے۔ دونوں کے معنیٰ بیان کیے جائیں گے۔
تنسیق اور تنسیک کے معنیٰ
عدل کا فلسفہ کیا ہے؟ انسانی معاشرے میں عدل کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ جناب زہرا(س) فرماتی ہیں کہ عدل کے قیام کا مقصد دلوں میں نظم و نسق پیدا کرنا ہے۔ تنسیق کے معنیٰ نظم و نسق اور کسی چیز کو مرتب کرنا ہیں۔ لیکن اگر ’’تنسیک‘‘ پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہے ہموار راستہ۔ مناسک حج اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ یعنی غیر مرتب چیز کو سیدھا اور ہموار کر دینا۔ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيکاً لِلْقُلُوبِ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے میں عدل کو اس لیے رکھا تاکہ عدل کے ذریعے دلوں کو ہموار کیا جائے۔
شیعہ امامیہ تعلیمات کے مطابق عدل اصول دین میں شامل ہے لیکن باقی مسالک میں عدل اصول دین کا حصہ نہیں ہے توحید، نبوت اور قیامت ہی ان کے اصول دین ہیں لیکن ان کے یہاں فروع دین میں امامت اور عدل دونوں کی بحث موجود ہے۔
نظام الہی میں عدل کی حیثیت
پروردگار عالم نے انسانی ہدایت کے لیے جو نظام بنایا ہے اس کے اندر عدل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ الہی اور قرآنی نظام کو عدل کے ستون پر استوار کیا گیا ہے۔ قرآن نے مقصد بعثت انبیاء کو عدل قرار دیا ہے۔ اسی طرح آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد بھی انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یعنی انبیاء اور آسمانی کتابیں دونوں کو بھیجنے کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنا ہے؛ لیقوم الناس بالقسط۔۔۔ اس اعتبار سے عدل کی بنیادی حیثیت قرآن کی رو سے واضح ہے اور عقل کے اعتبار سے بھی عدالت، انسانی نظام میں بنیادی رکنیت رکھتی ہے۔ حتیٰ عصر حاضر جہاں پر بطور کلی انسانوں کے بنائے ہوئے نظام حاکم ہیں وہاں پر بھی عدل و انصاف کے نعرے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس اصول کو نہ ہی قرآن سے لیا ہے چونکہ وہ قرآن کو نہیں مانتے اور نہ انبیاء سے اس کا کوئی سروکار ہے۔ لہذا غیر الہی معیاروں سے بنائے نظام کے اندر بھی عدل و انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہونا اس بات کی دلیل ہے انسانی عقل عدل و انصاف کا تقاضا کرتی ہے۔
عدل کی انسانی معاشرے کو ضرورت
بنابرایں یہ چیز مسلمات میں سے ہے کہ عدل و انصاف انسان کی ضرورت ہے۔ اس پر کسی دلیل و برہان کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کے وجود کہ عدل دینی اور عقلی اعتبار سے انسان کی ضرورت ہے آج کے دور میں سب سے زیادہ بحران عدل و انصاف کا ہی ہے۔ دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ترقی یافتہ دنیا، ترقی پذیر دنیا اور پسماندہ دنیا۔ اگر ہم ترقی یافتہ دنیا کا مشاہدہ کریں تو وہاں بھی عدالت کا شدید بحران نظر آتا ہے۔ روز بروز ترقی ضرور ہو رہی ہے لیکن عدالت کے معیارات کے مطابق نہیں۔ دیگر ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا تو عدالت سے بہت دور نظر آتی ہے۔
پس مشکل کہاں ہے؟ عدالت کی ضرورت پر عقل و دین دونوں متفق ہیں۔ دنیا کا ہر انسان عدل پسند ہے پھر کیوں انسان عدل کے قیام میں ناکام ہے؟ اس کی ایک وجہ عدل کے معنی و مفہوم میں علماء اور اسکالرز کی طرف سے پیدا کردہ کنفیوژن و تشویش ہے۔
عدل کی تعریف اور علماء کا اختلاف
تاریخ کے درجہ اول کے علماء جن کے علوم کی بنیاد پر آج انسانی علوم کی عمارتیں کھڑی ہیں، جیسے سقراط، افلاطون، ارسطو، فارابی اور ابن سینا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو تو حضرت مسیح (ع) کی ولادت سے پہلے کے علماء ہیں جن کی علمی بنیادوں پر شرق و غرب کے علوم کی بنیادیں قائم ہیں۔ ان علماء کی طرف بھی اگر ہم رجوع کریں تو عدل و عدالت کی تعریف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پھر ان کے بعد جو درجہ دوم کے علماء ہیں جنہوں نے ان کے علمی ذخائر سے استفادہ کیا اور اپنی علمی بنیادیں قائم کیں ان کے یہاں بھی عدل و عدالت کی تفسیر میں اختلاف نظر آتا ہے۔ ان کے بعد آنے والے علماء میں تو اختلاف کا ہونا لازمی ہے چونکہ جب ان علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے جن کے دسترخوان علمی پر ساری انسانیت بیٹھی ہوئی ہے تو باقی میں اختلاف کا پایا جانا بدیہی ہے۔
جو لوگ اکیڈمک انداز میں عدل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں وہ اسی اختلاف سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس کے بارے میں یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ اور علماء کے متضاد اقوال اکٹھا کر کے عدل کو اتنا پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ عقل انسانی اس کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔
عدل کا قرآنی مفہوم
قرآنی اسلوب میں عدل کوئی پیچیدہ شئی کا نام نہیں ہے۔ قرآن نے بہت سادہ طریقہ اپنایا ہے چونکہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مبین اور واضح زبان میں نازل ہوا ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے اور پھر قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بہت ہی آسان اور سب کے لئے قابل فہم ہے۔ اور اللہ نے قرآن کو نازل کیا ہے یعنی یوں نہیں کہ آسمان سے زمین پر آتارا ہے بلکہ علم الہی سے ذہن بشری پر اسے اتارا گیا ہے تاکہ انسان کی دسترس میں آ جائے اور عام انسان اسے آسانی سے سمجھ سکے۔ چونکہ قرآن ھدی للناس ہے عام آدمی کی ہدایت کے لیے آیا ہے۔ عام آدمی کے لیے قرآن نازل کرنا اور عام آدمی کے فہم سے اسے بالاتر رکھنا یہ حکمت الہی کے خلاف ہے۔ جناب فاطمہ زہرا(س) نے اس جملے میں جس عدل کا تذکرہ کیا ہے کہ عدل کو اللہ نے تنسیق قلوب کے لیے قرار دیا ہے تو اس سے مراد قرآنی عدل ہے۔
عربوں میں لفظ کا استعمال
عربوں میں لفظ عدل سب سے پہلے کس چیز کے لیے استعمال کیا گیا؟
عربوں نے سب سے پہلے لفظ عدل کو اپنی محبوب چیز اونٹ کے لیے استعمال کیا ہے۔ اونٹ عربوں کے لیے صحرائی جہاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ریت پر اور ریت کے طوفان میں آسانی سے چل لیتا ہے۔ چونکہ نہ ہی اس کے پیر ریت میں دھستے ہیں اور نہ ہی اس کی آنکھ میں دھول جا سکتی ہے اس کی آنکھ میں پلک کے نیچے ایک اضافی جلی ہوتی ہے جو اس کی آنکھ کو ریت اور گرد و غبار سے محفوظ رکھتی ہے۔ صحراؤوں میں پانی کی قلت ہوتی ہے تو اونٹ کے اندر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس طرح کی بہت ساری خصوصیات اونٹ کے اندر موجود ہیں اسی لیے اللہ نے عربوں سے کہا کہ: افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت؟ تم اونٹ کی خلقت پر غور و فکر نہیں کرتے کہ اسے اللہ نے کن کن خصوصیات کا مالک بنایا ہے؟ اللہ کی فراوان نشانیاں اس کے اندر موجود ہیں۔
اونٹ کا سب سے زیادہ استعمال وزن اٹھانے کے لیے کیا جاتا ہے اور اونٹ گھوڑے خچر کی نسبت بہت زیادہ وزن اٹھا سکتا ہے لیکن گھوڑے خچر کی پیٹھ پر وزن لادا جاتا ہے مگر اونٹ کی پیٹھ پر وزن نہیں لادا جا سکتا چونکہ اس کی پیٹھ کوھان کے مانند ہوتی ہے۔ لہذا اس کی پیٹھ کے اطراف میں بوجھ لٹکایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بوجھ دونوں طرف برابر مقدار میں ہونا چاہیے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عربوں نے لفظ عدل کو کہاں استعمال کیا اور اللہ نے کس معنیٰ میں پھر اسی لفظ کو قرآن میں استعمال کیا ہے۔
کبھی کبھی جو سامان اونٹ پر لادا جاتا تھا وہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے اور اونٹ کے دونوں طرف برابر لادا جائے چونکہ اگر ایک طرف وزن ہو گا اور دوسری طرف نہیں ہو گا وہ اونٹ کی پشت سے گر جائے گا اور اونٹ اسے اٹھا نہیں سکے گا۔ لہذا سامان کے دوسری طرف جو چیز اس سامان کے ہم وزن رکھی جاتی تھی اس کو عرب عِدل کہتے تھے۔ عِدل کا کام اس کے برابر رکھی ہوئی چیز کا توازن قائم رکھنا تھا۔ لفظ عَدل بھی عِدل سے نکلا ہے اور دونوں کے ایک ہی معنی ہیں فرق یہ ہے کہ عِدل خود اس چیز کو کہا جاتا ہے جو دوسری چیز کے ساتھ وزن برابر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے لیکن عَدل میں عمومیت پائی جاتی ہے کسی بھی چیز یا کام کے مقابلے میں اس کے ساتھ تناسب رکھنے والی چیز کو کہا جاتا ہے۔ جیسے معاوضہ ہے۔ مثلا کسی انسان نے جتنی محنت مزدوری کی ہے اسی محنت مزدوری کے تناسب سے دی جانے والی اجرت عَدل کہلاتی ہے۔ یہاں سے عدل کے معنی برابری اور مساوات نکالے گئے حالانکہ برابری عدل کا لازمہ ہے۔ اصل میں عدل اس متبادل کو کہتے ہیں جس سے توازن اور تعادل قائم کیا جائے۔
عدل پر انسانی معاشرے کا قیام
یہاں سے یہ لفظ پیدا ہوا اور اس کے بعد انسانوں کے روز مرہ معاملات میں اس کا استعمال کثرت سے ہونے لگا۔ ہم اپنی زندگی میں ہر روز دو طرح کے کام کرتے ہیں ایک کام وہ ہے جو اپنی مرضی اور اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں اور ایک کام وہ ہے جو کسی دوسرے کے کہنے پر کرتے ہیں۔ جو کام اپنے لیے کرتے ہیں ان کا کوئی معاوضہ اور صلہ نہیں ہوتا لیکن جو کام دوسروں کے کہنے پر کرتے ہیں ان کا ہمیں بدلہ اور معاوضہ لینے کا حق ہے۔ اس کام کے بدلے میں جو وہ صلہ اور معاوضہ دے گا جس سے میری محنت کی پاداش و جزا مجھے مل جائے اس برابر پاداش اور اجرت دینے کو عدالت کہتے ہیں۔ تاکہ جتنی جس نے محنت کی ہے اتنا اس کا حق اسے مل جائے۔ جتنا جس کا مقام ہے اس مقام کے متوازن اسے اجر مل جائے۔ یہ عدالت ہے۔ عدالت پر ہی انسانی معاشرہ قائم ہے۔ اگر عدالت کو انسانی معاشرے سے ہٹا دیا جائے تو معاشرے کا توازن ختم ہو جائے گا جیسا کہ آج کا معاشرہ اسی مصیبت کا شکار ہے۔
آج کا معاشرہ نامتعادل اور غیر متوازن معاشرہ ہے ایک شخص کے پاس سوچ سے زیادہ دولت جمع ہے اور اس کے پڑوس میں رہنے والے کے پاس ابتدائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ یہ عدالت نہیں ہے۔ ہر انسان جتنا اس کا حق تھا اور اسے ملنے چاہیے تھا کسی کو اس سے زیادہ مل گیا ہے اور کسی کے پاس اس حد سے بہت کم ہے۔ عدالت اجتماعی اور سماجی توزن کا نام ہے۔
عدالت کو پرکھنے کا معیار
پروردگار عالم نے تمام انسانوں کے اندر کچھ توانائیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں جس کے پاس جتنی صلاحتیں ہیں ان کے تناسب سے اس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ ایک انسان اپنی توانائی کے مطابق کوشش کرتا ہے اس کا صلہ اس کی کوشش کے تناسب سے ہے جو جتنی کوشش کرتا ہے اتنا اس کا صلہ ہے۔ نامتعادل معاشرہ میں کم کوشش کرنے والے کو زیادہ صلہ ملتا ہے اور زیادہ تلاش و کوشش کرنے والے کو کم۔
سماج میں عدالت کو پرکھنے کا معیار یہ ہے کہ ہم انسان کی مہارتوں، صلاحیتوں اور اس توانائیوں کے ساتھ اس کی محنت و کوشش کو دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ اس سے کریں جو اس مہارت و محنت کے بدلے میں اسے دیا جا رہا ہے اگر محنت اور صلے میں توازن پایا جاتا ہے تو عدالت برقرار ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو بے عدالتی اور بے انصافی پائی جاتی ہے۔
قرآن میں عدل کا استعمال
قرآن نے عدل کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے جو ہر ایک بلکہ ایک جاہل عرب بدو کی سمجھ میں بھی آ رہا ہے جس کا پیشہ اونٹ چرانا تھا۔ اگر آپ اس بدو سے پوچھیں کہ عدل کیا ہے وہ یہی کہے گا جتنا اونٹ کے ایک طرف سامان ہے اتنا ہی دوسری طرف ہونا چاہیے یہ عدل ہے۔ انسانی معاشرے کے لیے بھی اللہ کا یہی حکم ہے کہ تم اپنی زندگیوں میں بھی ایسا ہی کرو۔ جتنی جس کی محنت ہے اتنا اس کا صلہ ہونا چاہیے۔ انسانی بستی میں اگر یہ کام ہو جائے تو کوئی انسان پسماندہ اور فقیر نہیں رہے گا۔
سماج میں بےعدالتی کی وجہ
اگر ایسا نہیں ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیچ کوئی ایسا گروہ موجود ہے جو اس تعادل کو بگاڑ رہا ہے جو ہر انسان کو اس کی کوشش کے متبادل اس کا حق نہیں دینے دیتا۔ ایک چھوٹی سی مثال سے یہ چیز اچھے سے سمجھ میں آئے گی۔ مثال کے طور پر ابھی بازار میں آلو ۲۰۰ روپے کلو بکتا ہے جس کسان نے آلو کی کاشت کی ہو گی اس سے یہ آلو ۱۰ روپے کلو کے حساب سے خریدا گیا ہو گا۔ اس درمیان ۱۹۰ روپے کہاں چلے گئے؟ وہ کسان جس نے اتنی محنت کی اپنی زمین میں آلو کاشت کیا اسے پانی دیا، تیار کیا اور زمین سے نکال کر بوریوں میں پیک کیا اسے صرف ۱۰ روپے مل رہے ہیں جبکہ ۱۹۰ روپے تو اسی کا حق تھا باقی دس روپے بیچ میں کھیت سے بازار تک لانے والوں کو ملنا چاہیے مگر اس کے الٹا ہو رہا ہے۔ یہ بے عدالتی ہے۔
اسی طرح سماج کے دیگر پہلوؤں پر نگاہ دوڑائیں۔ ایک اسٹوڈینٹ ہے اس نے کالج اور یونیورسٹیوں میں محنت کر کے ڈگری حاصل کی ہے، اپنے اندر کچھ کرنے کی قابلیت پیدا کی ہے لیکن جب ملازمت کا وقت آتا ہے اس کو ملازمت نہیں ملتی جس کی سفارش ہوتی ہے اسے نوکری مل جاتی ہے جبکہ وہ اس قابل بھی نہیں ہوتا۔ اس سے سماج میں بحران پیدا ہوتا ہے۔
اللہ نے نظام کائنات کو عدل پر قائم کیا ہے لیکن انسانی معاشرے کو خود انسانوں کے حوالے کیا کہ وہ خود اپنے درمیان عدل قائم کریں۔
عدل بطور صفت خداوند اور علماء کا اختلاف
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک عدل ہے۔ خدا کے عادل ہونے پر قدیم ایام سے گفتگو چلی آ رہی ہے علمائے اسلام کے درمیان اس حوالے سے دو بڑے گروہ وجود میں آئے۔ ایک طرف امامیہ اور معتزلہ تھے اور دوسری طرف اشاعرہ تھے۔ خدا کے عادل ہونے کا مطلب اشاعرہ کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ جو بھی کرتا ہے وہی عدل ہے لیکن امامیہ اور معتزلہ کا یہ ماننا ہے کہ جو عدل ہے وہی اللہ کرتا ہے۔ جو عدل کے زمرہ میں نہیں آتا اللہ اس کو انجام نہیں دیتا۔ اس کی مثال جو دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اشاعرہ کے بقول اگر اللہ کسی نبی کو جہنم میں ڈال دے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے چونکہ اللہ صاحب اختیار ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن امامیہ اور معتزلہ کے بقول اللہ ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ کسی نبی کو جہنم میں نہیں ڈال سکتا اور کسی برے شخص مثلا فرعون یا یزید جیسے کو جنت میں نہیں بھیج سکتا۔
اس نزاع اور جھگڑے کی وجہ سے امامیہ نے عدل کو اصول دین کا حصہ قرار دیا ہے کہ اللہ کی ذات عادل ہے یعنی اللہ کا ہر کام عین عدل ہو گا جیسا استحقاق ہے ویسا حق ملے گا۔ بہشت میں وہی جائے گا جو اس کا حقدار ہو گا۔ جہنم میں وہی جائے گا اس کا حقدار ہے۔ جہنمی کو جنت میں اور جنتی کو جہنم میں خدا نہیں بھیج سکتا۔ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ آپ اللہ کی ذات کو محدود کر کے اس کو پابند بنا رہے ہو جبکہ اللہ قادر مطلق ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن امامیہ کا کہنا ہے کہ مسئلہ اللہ کی قدرت اور اس کے اختیار کا نہیں مسئلہ اللہ کی ذات میں عدل کے اثبات کا ہے کہ وہ اللہ جس نے کائنات کو عدل پر قائم کیا اور جو زمین پر انسانی معاشرے میں عدل کے قیام کے لیے انبیاء اور کتابیں بھیجتا ہے کیا وہ خود عدل کا پابند نہیں ہے؟ کیا اس کی ذات عادل نہیں ہے؟
عدل کی تعریف اور سماج کا جائزہ
عام طور پر حوزوی کتابوں میں عدل و ظلم کی جب گفتگو ہوتی ہے تو عدل کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھنا عدل ہے ’’وضع الشئی فی محلہ‘‘ اور کسی چیز کو اس کی جگہ پر نہ رکھنا ظلم ہے ’’وضع الشئی فی غیر محلہ‘‘۔ ہمارے سماج میں اس کی فراوان مثالیں موجود ہیں۔ آپ پارلیمنٹ میں دیکھ لیں جو لوگ قانون بنانے کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان پڑھ اور جاہل لوگ ہیں اور جن پر قانون بنا کر وہ لاگو کرتے ہیں وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ یعنی پارلیمنٹ پڑھے لکھے لوگوں کی جگہ ہے لیکن جاہل لوگوں کو وہاں پر بٹھایا گیا ہے اور پڑھے لکھے، قابل اور باصلاحیت لوگ ٹیکسی چلاتے یا دکانداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ عدل ہے یا ظلم؟
عدل کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی قابلیت کی بنا پر مقام دیا جائے۔ لیکن آج انسانی معاشرہ عدل کے بالکل برخلاف عمل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض لوگ عدالت کو مساوات کے معنی میں لیتے ہیں مساوات کا مطلب یہ ہے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے عالم اور جاہل، محنتی اور بےکار سب کو برابر رکھا جائے یہ عدل نہیں بلکہ ظلم ہے۔ مساوات عدالت نہیں ہے۔
عدل اور جسٹس میں فرق
وہ عدل جس کے بارے میں بی بی زہرا(س) فرما رہی ہیں کہ عدل تنسیق قلوب کا ذریعہ ہے وہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ وہ ہے کیا؟ چونکہ علماء نے عدل کی جو تعریفیں کی ہیں اس سے عدل کو سمجھ سے باہر کر دیا ہے۔ عدل کو جسٹس کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جسٹس عدل نہیں ہے جسٹس قضاوت کو کہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ قضاوت میں عدل ہونا چاہیے یعنی مجرم کو سزا ملنا چاہیے اور بےگناہ کی بےگناہی ثابت ہونا چاہیے۔ عدل ایک عام صفت ہے جو انسان کے ہر کام میں ہونا چاہیے نہ صرف اسے محکمہ عدلیہ سے مخصوص کر دیا جائے۔
عدل بمقابلہ ظلم درست نہیں
عدل کے معنی میں ایک اور ابہام پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اکثر عدل کے مقابلے میں ظلم ذکر کیا جاتا ہے۔ عدل کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ وضع الشئی فی محلہ اور ظلم کی تعریف: وضع الشئی فی غیر محلہ کی جاتی ہے۔ لیکن واضح کر دوں کہ ہر چیز کا اس کی جگہ پر ہونا یہ نظم ہے عدل نہیں ہے۔ یہ عدل کا لازمہ ہو سکتا ہے لیکن عدل نہیں۔ چونکہ بےنظمی بے عدالتی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ لہذا بےنظمی کو بےعدالتی سمجھا جاتا ہے۔ ظلم عدل کے مقابلے میں نہیں ہے ظلم نور کے مقابلے میں ہے۔ قرآن نے ظلمات کو نور کے مقابلے میں رکھا ہے۔ نور یعنی ظہور و اظہار؛ جو خود بھی ظاہر ہو اور کسی حقیقت کو بھی ظاہر کرے۔ اور اگر ظہور و اظہار نہ ہو تو اسے ظلمت کہتے ہیں۔ ظلم ظہور و اظہار کی قلت کو کہتے ہیں۔
لیکن آج اکثر جو ظلم کا استعمال ہوتا ہے وہ تجاوز اور ستم کے معنی میں ہوتا ہے۔ یعنی لوگوں کا حق چھیننا، قتل و غارت کرنا، دوسرے کے حقوق پر تجاوز کرنا۔ قرآن اس کام کو تعدی کہتا ہے لیکن ظلم کا قرآن میں استعمال اکثر جگہوں پر ستم اور قتل و غارت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ نورانیت کے کم ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
حدیث میں علم کو نور کہا گیا ہے جس کے پاس علم نہیں ہے اس کے پاس نور کی کمی ہے اور جہاں نور نہ ہو وہاں ظلم ہو گا۔ معاشرہ میں ظالم ترین وہ شخص ہے جس کے پاس بالکل علم نہیں ہے۔
لہذا عدل کے مقابلے میں ظلم نہیں ہے عدل کے مقابلے میں بےتعادلی اور عدم توازن ہے۔ ظلم کو عدل کے لازمہ کے طور پر اس کے مقابلے میں لایا جاتا ہے۔ عدل یعنی توازن اور بےعدالتی یعنی عدم توازن۔
فقہ میں عدل کا مفہوم
ہماری فقہ نے تو عدل کے معنی کو اور بگاڑ دیا ہے فقہ میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ امام جماعت عادل ہو، گواہ عادل ہو، قاضی عادل ہو، مرجع تقلید عادل ہو، اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ کھلم کھلا گناہ نہ کرتا ہو۔ یعنی اگرچہ اس کی شخصیت غیر متعادل اور غیرمتوازن ہو، اگرچہ وہ چھپ کر گناہ کرتا ہو لیکن اگر لوگوں کے سامنے گناہ نہیں کرتا تو وہ عادل ہے۔ ایسا انسان فقہا کے نزدیک تو عادل ہو سکتا ہے لیکن اللہ کے نزدیک نہیں ہو سکتا، چونکہ اللہ نے عدل کو اس معنی میں استعمال نہیں کیا اللہ نے عدل کو توازن اور تعادل کے معنی میں استعمال کیا ہے اور یہ عدالت معاشرے کے ہر فرد کے لیے لازمی قرار دی ہے کہ سماج کا ہر فرد متعادل اور متوازن ہو۔ فقہا نے شوہر کے لیے عادل ہونا لازمی قرار نہیں دیا بیوی کے لیے عادل ہونا لازمی قرار نہیں دیا جبکہ اگر کوئی شوہر غیر متعادل ہے یا بیوی کے اندر تعادل نہیں ہے تو انسان اس کے ساتھ کیسے زندگی گزار سکتا ہے؟
فقہا نے امام جماعت اور قاضی کے لیے عدالت شرط قرار دی ہے لیکن سماج کے باقی افراد کے لیے عادل ہونا شرط نہیں۔ اگر پورا معاشرہ بےعدالتی پر مبنی ہے اور اس معاشرے میں ایک امام جماعت عادل ہے اور دوسرا شخص قاضی عادل ہے تو اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے۔ وہ بھی اس معنی میں عادل ہوں کہ کھلم کھلا گناہ نہ کریں چھپ کر جو دل چاہے وہ کریں۔
ایک مولوی کے عادل ہونے سے معاشرہ نہیں سدھرتا۔ بقول فارسی زبان والوں کے، کہ ایک پھول سے بہار نہیں آتی۔ بلکہ معاشرے کا فرد فرد عادل ہونا چاہیے۔ انسان کی شخصیت بچپنے سے بننا شروع ہوتی ہے اور بچے کی تربیت اس کے گھر سے ہوتی ہے گھر میں بچوں کے اندر تعادل اور توازن پیدا کریں، گھر میں ماں باپ اپنے اندر تعادل و توازن برقرار کریں تاکہ معاشرہ ایک متعادل معاشرہ اور عدالت پر مبنی معاشرہ تشکیل پائے۔
تعادل انسانی معاشرے کی بنیاد ہے اسی لیے جناب زہرا(س) نے اپنے خطبے کے اس حصے میں عدل کو دلوں کی تنسیق کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
جناب زہرا(س) کی شخصیت اور عدل
یہ جو جناب سیدہ نے عدل کا فلسفہ بیان کیا ہے کہ اللہ نے عدل کو کیوں قرار دیا تو آئیں ہم دیکھیں کہ خود جناب سیدہ کی شخصیت میں عدل یعنی تعادل و توازن پایا جاتا ہے یا نہیں؟
ہماری ایک سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نسبتوں سے یا نسب سے عظمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی حضرت فاطمہ زہرا(س) کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ دختر رسول خدا(ص) ہیں۔ دختر رسول ہونا یہ اپنی جگہ بہت بڑا کمال ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا جو مقام ہے وہ صرف نسب کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ سیدہ کونین خود ایک گوہر ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسول کو عطا کیا اور انہیں کوثر کہا۔ بی بی دوعالم کے تئیں رسول خدا(ص) کا احترام صرف بیٹی ہونے کے ناطے نہیں تھا بلکہ ان کمالات کی بنا پر تھا جن کی بی بی حامل تھیں۔ اور وہ کمالات بچپن سے ہی آپ کی ذات میں نمایاں تھے۔ اور رسول خدا نے انہیں لوگوں کو متعارف کروایا۔ چونکہ وہ قیامت تک آنے والی نسل کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ ان کی ذات عدل و تعادل کا پیکر ہیں۔
اگر آپ جناب زہرا(س) کی شخصیت کے اندر عدل کو تلاش کرنا چاہیں تو اسی خطبے کے ذریعے تلاش کر سکتے ہیں۔ آج ہم نے حضرت زہرا(س) کی شخصیت کو غیر متوازن بنا کر پیش کیا ہے۔ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ جناب زہرا فدک یعنی پراپرٹی کے لیے روتی رہیں۔ ان کی سب سے بڑی مصیبت جائیداد کا چھن جانا تھی۔ بی بی دوعالم کے بارے میں یہ سوچنا بہت ناانصافی ہے۔ وہ شخصیت جس کا اللہ نے اتنا احترام کیا، جس کا رسول اللہ نے اتنا احترام کیا اور ائمہ طاہرین نے جس شخصیت کو اپنا رول ماڈل پیش کیا، کیا وہ صرف اپنی جائیداد کے لیے روتی رہیں!۔
وہ بہت کچھ بیان کرنے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کو بتانے کے لیے ایک بہانہ بن گیا۔ یہ خطبہ وہی خطبہ فدکیہ ہے جسے عام طور پر فدک کے مطالبہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس میں آپ دیکھیں کہ بی بی کیا بیان کر رہی ہیں؟ یہ تعادل اور توازن کی اعلیٰ مثال ہے۔
