جناب فاطمہ زہرا(س) وہ شخصیت ہیں جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں جو آپ نے خود بیان کیا ہے لیکن آپ کی شخصیت اور آپ کا ذہن اس قدر منظم تھا کہ مصائب نے انہیں حواس باختہ نہیں کیا انہیں معلوم تھا کہ کس وقت انہیں کیا کرنا اور کیا کہنا ہے۔ یہ خطبہ فدکیہ اس نظم ذہنی کی ایک مثال ہے۔
جناب زہرا(س) کے نزدیک عدل کا فلسفہ (دوسری مجلس)
خطبہ فدکیہ میں جناب فاطمہ زہرا(س) فرماتی ہیں:
فَجَعَلَ اَللَّهُ اَلْإِيمَانَ تَطْهِيراً لَكُمْ مِنَ اَلشِّرْكِ وَ اَلصَّلاَةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ اَلْكِبْرِ وَ اَلزَّكَاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نَمَاءً فِي اَلرِّزْقِ وَ اَلصِّيَامَ تَثْبِيتاً لِلْإِخْلاَصِ وَ اَلْحَجَّ تَشْيِيداً لِلدِّينِ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلْفُرْقَةِ وَ اَلْجِهَادَ عِزّاً لِلْإِسْلاَمِ وَ اَلصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اِسْتِيجَابِ اَلْأَجْرِ وَ اَلْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَامَّةِ وَ بِرَّ اَلْوَالِدَيْنِ وِقَايَةً مِنَ اَلسُّخْطِ وَ صِلَةَ اَلْأَرْحَامِ مَنْسَأَةً فِي اَلْعُمُرِ ] مَنْمَاةً لِلْعَدل [ وَ اَلْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ وَ اَلْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِيضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِيَةَ اَلْمَكَايِيلِ وَ اَلْمَوَازِينِ تَغْيِيراً لِلْبَخْسِ وَ اَلنَّهْيَ عَنْ شُرْبِ اَلْخَمْرِ تَنْزِيهاً عَنِ اَلرِّجْسِ وَ اِجْتِنَابَ اَلْقَذْفِ حِجَاباً عَنِ اَللَّعْنَةِ وَ تَرْكَ اَلسَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ وَ حَرَّمَ اَللَّهُ اَلشِّرْكَ إِخْلاَصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ فَاِتَّقُوا اَللّٰهَ حَقَّ تُقٰاتِهِ وَ لاٰ تَمُوتُنَّ إِلاّٰ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ – وَ أَطِيعُوا اَللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهَاكُمْ عَنْهُ فَإِنَّهُ إِنَّمٰا يَخْشَى اَللّٰهَ مِنْ عِبٰادِهِ اَلْعُلَمٰاءُ.
ترجمہ:
’’ پس اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ بنایا اور خدا نے نماز فرض کی تاکہ تکبر سے بچ سکو، زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق کی زیادتی کا ذریعہ بنایا اور روزوں کو اخلاص کی مضبوطی کا ذریعہ بنایا۔
اور حج کو دین کی مضبوطی کا وسیلہ بنایا اور عدل و انصاف کو واجب کر کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑا اور ہماری اطاعت کو ملت اسلام کا نظام بنایا اور ہماری امامت کو تفرقہ سے بچنے کیلئے امان قرار دیا اور جہاد کو اسلام کی عزت بنایا اور مصیبت میں صبر کو تحصیل اجر میں مددگار بنایا اور امر بالمعروف میں عوام الناس کی مصلحت کو قرار دیا۔ والدین کے ساتھ نیکی کو اس لیے واجب کیا کہ غضب خدا سے محفوظ رہا جائے اور صلہ رحم اس لیے مقرر کیا تاکہ عمر میں اضافہ ہو اور تعداد بڑھے اور قصاص اس لیے واجب کیا کہ خون ریزی رک جائے اور نذر و وفا کی راہ اس لیے نکالی کہ بندوں کی مغفرت مقصود تھی اور پیمانہ اور وزن پورا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ نقصان سے بچاؤ ممکن ہو اور شراب سے اس لیے ممانعت فرمائی کہ بندے برے اخلاق سے پاک رہیں اور زنا کا بے جا الزام لگانا اس لیے حرام کیا کہ لعنت کے سامنے ایک حجاب اور رکاوٹ پیدا ہو اور چوری کو اس لیے ممنوع قرار دیا کہ دوسروں کے مال میں بے اجازت تصرف کرنے سے لوگ باز رہیں اور خدا نے شرک کو اس لیے حرام کیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار خالص رہے۔
لہٰذا تقوای الہی اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور جب مرو تو مسلمان ہی مرو۔ اور اوامر میں خدا کی اطاعت کرو اور جن امور سے منع کیا ہے۔ ان سے باز رہو۔ بے شک خدا کے بندوں میں سے اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘
عدل سماج کا بنیادی ستون
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نورانی خطبہ کا حصہ فلسفہ دین ہماری گفتگو کا محور ہے جس میں ہماری گفتگو فلسفہ عدل پر ہو رہی ہے۔ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ یعنی عدل کو اللہ نے دلوں کے نظم و نسق کے لیے قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عدل کا حکم بھی دیا ہے اور عدل کے قیام کے لیے انبیاء اور آسمانی کتابوں کا نزول بھی فرمایا ہے۔ بی بی زہرا(س) نے اس عدل کا مقصد لوگوں کے دلوں کو ہم آہنگ، ہم سو اور یک جہت کرنا قرار دیا ہے۔
قرآن نے عدل کو سماج کا بنیادی ستون قرار دیا جس ستون کے سہارے انسانی معاشرہ تشکیل پائے گا۔ اور تمام سیاسی، سماجی، اور اقتصادی نظام اسی بنیاد پر وجود پائے گا۔ عدل کو نہ صرف اللہ کی ایک صفت یا نام کے طور پر ہمیں یاد کرنا چاہیے بلکہ عدل کی بنیاد پر ہماری زندگی گزرنا چاہیے۔ خدا عادل ہے اور ہمیں عادل بننا ہے۔ اور عدل کے پیمانے پر سارا نظام حیات قائم کرنا اور چلانا ہے۔
عدل کا قیام مقصد حیات کے حصول کا ذریعہ
جیسا کہ گزشتہ روز عرض کیا کہ عدل کے معانی کے سلسلے میں علماء نے کافی اختلاف کیا ہے اور جو عدل کی معروف تعریف بیان ہوتی ہے اور سب کو یاد بھی ہے کہ کسی چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا عدل ہے یہ درحقیقت عدل کی تعریف نہیں ہے بلکہ عدل کے معنی کا لازمہ ہے۔ اللہ نے قرآن میں عدل کو اس معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس معنی میں استعمال کیا ہے جو معنی عرب کے لوگ نزول قرآن کے زمانے میں سمجھتے تھے وہ معنی وہی لغوی معنیٰ ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا کہ ہر انسان کو اس کی قابلیت، محنت، اور کوشش کے مطابق اس کا حق اور صلہ مل جائے یہ عدل ہے۔ یہ حق اور صلہ ممکن ہے معنوی ہو ممکن ہے مادی ہو، ممکن ہے کوئی مقام و پوسٹ ہو ممکن ہے مال و دولت ہو۔ جیسی قابلیت ہے ویسا صلہ مل جانا عدل ہے۔ اس سے زیادہ بھی ناانصافی ہے اور اس سے کم بھی بے عدالتی ہے۔
اگر عدل کے یہ معنی انسانی معاشرے میں راسخ ہو جائیں تو معاشرے کے اندر پائے جانے والے وسائل و امکانات کسی ایک آدمی کے پاس جمع نہیں ہوں گے۔ لیکن چونکہ آج ہمارے معاشرے میں عدل کے مفہوم کو بگاڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وسائل ضرورت اور استحقاق کی بنا پر نہیں بلکہ طاقت کی بنا پر جمع کیے جاتے ہیں۔ جس کے پاس طاقت زیادہ ہے وہ زیادہ وسائل پر قبضہ کر سکتا ہے اور جس کے پاس طاقت نہیں ہے وہ ان سے محروم رہ جاتا ہے گرچہ ان کا حق رکھتا ہے۔ کسی کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوتی اور کسی کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ ہے یہ بے عدالتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو ختم کرنے کے لیے عدل کے قیام کا حکم دیا ہے۔ دین کا سب سے بڑا مقصد سماج کے اندر تعادل اور توازن قائم کرنا ہے۔ تاکہ ہر انسان کو اپنی خلقت کا مقصد حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔
عدل انسانی توانائیوں کو نکھارنے پلیٹ فارم
اس دنیا میں انسان وسائل اکٹھا کرنے نہیں آیا ہے۔ انسان جب دنیا میں قدم رکھتا ہے تو وہ ایک انسانی بیج کی صورت میں ہوتا ہے جس کے اندر مختلف قابلیتیں اور توانائیاں موجود ہوتی ہیں جو دھیرے دھیرے انسان کے رشد و نمو کے ساتھ بالفعل بنتی ہیں۔ انسان کے اس بیج کے اندر خود انسان بننے کی قابلیت بھی موجود ہوتی ہے اور انسان کے علاوہ مثلا جانور، درندہ، شیطان یا حتی فرشتہ بننے کی بھی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان تمام قابلیتوں کو بالفعل بنانے میں انسان کے اطراف میں پایا جانے والا ماحول بھی انتہائی اثرانداز ہوتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی سب اس ماحول کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ سب لوگ بچے کے اندر رشد و نمو پانے والی توانائیوں میں اثر ڈالتے ہیں۔
یہ ماحول انسان کو اس کی خلقت کے مقصد سے دور کر دیتا ہے چونکہ جس ماحول میں وہ پیدا ہوا ہے اس میں دور دور تک مقصد خلقت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہاں دوسری سب چیزیں موجود ہیں، ہر طرح کا دنیوی ہنر، ہر طرح کا لہو و لعب، دنیوی لذتیں، فتنہ فساد سب کچھ اس ماحول میں انسان کی خوراک کا حصہ بن جاتا ہے لیکن وہ چیز جو اس انسانی بیچ کو مقصد خلقت یعنی انسانیت کے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے وہ نہیں ملتی۔ جیسے رسول خدا کے دور سے پہلے جو لوگ پیدا ہوتے تھے وہ جاہلیت کے ماحول میں جاتے تھے، یعنی یہ انسانی بیچ دنیا میں قدم رکھتے ہی جاہلیت کی آغوش میں چلا جاتا تھا۔ آج بھی یہی ہے آج بھی بچہ پیدا ہونے کے بعد مختلف طرح کے ماحول کی آغوش میں جاتا ہے اور وہ ماحول اس کی شخصیت بناتا ہے۔ جو اصل مقصد تھا یعنی اس انسانی بیج کو انسان بنانا وہ کبھی پورا نہیں ہوتا چونکہ انسانیت سکھانے والا ماحول یا ادارہ آج کی دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ باقی ہر چیز سکھانے والے ادارے موجود ہیں جو انسان کو سرکس بنانے کا کام کرتے ہیں لیکن انسانیت سکھانے والا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔
انسانیت کی تربیت کے لیے انسان کو انسان ساز ماحول کی ضرورت ہے جس میں یہ دیگر تمام بیماریاں اور آفتیں موجود نہ ہوں۔ یہ انسان ساز ماحول عدل کے ذریعے سے قائم ہوتا ہے۔ انسان پروری کا ماحول عدل فراہم کرتا ہے۔ آپ عدل کے معانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مثال پر غور کریں کہ اگر عدل نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟ اونٹ کے ایک طرف اگر پچاس کلو کا بوجھ رکھا جائے اور دوسری طرف کچھ نہ رکھا جائے یا اگر رکھا جائے تو دس یا بیس کلو رکھا جائے تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس اونٹ کا کیا ہو گا وہ پہلے تو اس غیر متعادل وزن کا اٹھا نہیں پائے گا اور اٹھانے کی کوشش کرے گا تو وہ سامان نیچے گر جائے گا۔
سامان کیوں نیچے گر گیا چونکہ دوسری طرف اس کے برابر وزن کا سامان نہیں ہے عدل یہ ہے کہ دونوں طرف متعادل سامان رکھا جائے۔ اگر عدل ہو گا تو یہ اونٹ کھڑا ہو گا اور اپنے مقصد تک پہنچ جائے گا۔
سماج میں عدل کا مطلب
سماج میں عدل کا کیا مطلب ہے؟ سماج میں عدل کا مطلب یہ ہے کہ جتنی انسان کی ضرورت ہے، ضرورت ایک طرف کا وزن ہے جس نوعیت کی ضرورت ہے اور جتنی مقدار کی ضرورت ہے اسی نوعیت اور اتنی مقدار میں ضرورت پورا کرنے والی چیز دوسری طرف مہیا ہونا چاہیے۔ یہ عدل ہے۔ مثال کے طور پر ایک انسان کو بھوک ہے بھوک ایک طرح کی ضرورت ہے بھوک مٹانے کے لیے اس کو دو روٹی چاہیے نہ کم نہ زیادہ۔ اب اس بھوک کے مد مقابل اس کو دو روٹی مل جائے یہ عدل ہے۔ جتنی بھوک اتنی روٹی۔ جتنی پیاس اتنا پانی۔ اور جس وقت بھوک ہے اسی وقت روٹی ملے۔ یعنی جتنی ضرورت ہے جہاں ضرورت ہے اور جس وقت ضرورت ہے اس کے مدمقابل اس ضرورت کو پورا کرنے والے چیز اتنی مقدار میں وہیں پر اسی وقت موجود ہو۔ اس کو عدل کہا جاتا ہے۔
اس کو آپ مثال بنا کر ایک انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں کو ایک ایک کر کے لکھنا شروع کر دیں۔ مادی اور معنوی ضرورتیں اور پھر ان کے علاوہ مقصد خلقت تک پہنچانے والی ضرورتیں اور وسائل۔ مادی ضرورتوں کے پورا ہونے سے مقصد حیات حاصل نہیں ہو جاتا۔ معنوی ضرورتیں مادی ضرورتوں سے بھی زیادہ ہیں دونوں اگر پوری ہو بھی جائیں تو ضروری نہیں ہے کہ انسان ان کی وجہ سے تکامل بھی کر رہا ہو۔ ممکن ہے کہ یہ ضرورتیں پوری کر کے انہیں کے نشے میں مبتلا ہو جائے۔ اور وسائل کے عشق میں گرفتار ہو جائے لیکن مقصد حیات کو حاصل نہ کر سکے۔
عدالت تکامل کا وسیلہ
عدل انسان کے رشد و نمو، تعلیم و تربیت اور ترقی و تکامل کا میدان فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے وسائل انسان کے لیے فراہم کئے ہیں ان سب کو اس طریقے سے تقسیم ہونا چاہیے کہ حقدار کو اس کا حق مل جائے۔ یہ سماجی عدل ہے۔
عدالت کا قیام مقصد نہیں ہے کہ سماج میں عدالت قائم ہو گئی تو مقصد پورا ہو گیا بلکہ عدالت مقصد حیات تک پہنچنے کا وسیلہ ہے جس معاشرے میں عدل کا قیام ہوتا ہے اس معاشرے کو اپنی خلقت کے مقصد تک پہنچنے اور تکامل حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جب انسان کی معنوی اور مادی ضرورتیں پوری ہوتی ہے تب انسان کو تربیت اور تکامل کے راستے پر چلنے کا موقع ملتا ہے لیکن اگر ضرورتیں ہی پوری نہیں ہو رہی ہیں تو انسان زندگی بھر انہیں مادی یا معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اور اپنے اصلی مقصد کو فراموش کر جاتا ہے یا اس تک پہنچنے کا اسے موقع ہی نہیں مل پاتا ہے۔
تربیت کے لیے سب سے ضروری چیز آسودگی اور آرامش ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو بھوک لگی ہے بھوک کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا معدہ خالی ہے اور آپ کا پورا بدن غذا مانگ رہا ہے آپ کے بدن کے ہر حصے حتیٰ بالوں اور ناخن کو مسلسل غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر معدہ میں کوئی چیز نہ ڈالی جائے تو یہ بھوک مسلسل بڑھتی جاتی ہے اور بدن کمزور ہوتا جاتا ہے اور انسان کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ لہذا بھوک کا واحد علاج بدن کو غذا پہنچانا ہے۔ سماج کی بھی بعینہ یہی مثال ہے۔ سماج کو جن چیزوں کی ضرورت ہو اگر اس کے پاس وہ چیزیں نہ ہوں تو سماج بھوک کی حالت میں ہے۔
عدل کا نظام اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی
ایک شخص ہے جس کی بنیادی ضرورتیں ہی پوری نہیں ہوئیں اس سے آپ کہیں کہ تمہیں خلیفۃ اللہ بننا ہے۔ ایک باکمال انسان بننا ہے۔ باکمال انسان بننے کے لیے ہر طرح کی آسودگی فراہم ہونا چاہیے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی بھوکے انسان کو لا کر کلاس میں بٹھا دو وہ درس سننے کے بجائے مسلسل کھانے کی فکر میں لگا رہے گا۔ جس چیز کی انسان کو طلب ہو وہ اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتی ہے۔ آپ نے خود بھی تجربہ کیا ہو گا اگر کبھی بھوک کی حالت میں سو گئے ہو پوری رات صرف کھانے کی خوابیں دیکھتے رہو گے۔
لہذا ہر انسان کی بنیادی ضرورتیں پورا ہونا چاہیے اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے عدل کا نظام بنایا ہے۔ تاکہ ہر سماج کی ضرورت اس کے تناسب کے ساتھ پوری ہو اور وہ سماج آسودہ خاطر ہو کر تکامل کی طرف بڑھے جو اس کی زندگی کا مقصد ہے۔
اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ گھر میں بیٹھے رہیں اور انبیاء یا ائمہ بوریاں اٹھا کر لائیں یا حکمران آپ کو گھر پر آکر کھانا دیں۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو محنت کرنا ہو گی لیکن محنت کے مواقع آپ کو دئیے جائیں۔ عدل یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کی قابلیت یا تخصص کے اعتبار سے محنت کرنے کا موقع دیا جائے۔
ترقی و تکامل کے لیے اطمینان قلب کا ہونا شرط
جناب فاطمہ زہرا(ع) نے اسی لیے اس موضوع کو اہم سمجھ کر اپنے خطبہ کا حصہ بنایا اور فرمایا: جعل اللہ العدل تنسیقا للقلوب۔ اللہ نے دلوں کو آپس میں جوڑنے اور ہماہنگ کرنے کے لیے عدل قرار دیا۔ بی بی یہ کہنا چاہتی ہیں کہ جس معاشرے میں عدل قائم ہو گا اس معاشرے میں آسودگی پیدا ہو گی، اس معاشرے میں نظم و نسق پیدا ہو گا۔ ذہنی اطمینان حاصل ہو گا اور وہ معاشرہ انسانی تکامل کے راستے پر گامزن ہو گا۔
اگر انسان کا دل مضطرب اور پریشان حال ہو تو کبھی درست ہدایت نہیں پا سکتا ہے۔ ہمارے استاد مرحوم حسن زادہ آملی جو ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ جو ہم پڑھتے ہیں اس کے ایک فیصد پر اگر عمل کر لیں تو ہم سب اولیاء اللہ بن جائیں گے۔ اور وہ خود یقینا اولیاء اللہ میں سے تھے۔ ان کے درس کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ کبھی درس کے دوران کسی کو اعتراض یا سوال نہیں کرنے دیتے تھے اور اگر کوئی کرتا تھا تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے تھے۔ ایک دن ایک نیا شاگرد آیا اور اس نے درس شروع ہوتے ہی ایک سوال کر دیا اور اس کا سوال بھی بہت بےجا اور فضول قسم کا تھا۔ اس دن معمول کے خلاف استاد درس کہتے ہوئے رک گئے اور کہنے لگے عزیزم مجھے لگتا ہے کہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں تم مالی مشکلات میں گرفتار ہو اس لیے تمہیں درست فکر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب انسان کسی مشکل میں پھنسا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں ایسے ہی بےجا خیالات آتے ہیں اور وہ صحیح فکر کی توانائی کھو دیتا ہے۔ ذہن اگر آسودہ نہ ہو تو وہ نہ ہی درست فکر کر پاتا ہے نہ درس پڑھ پاتا ہے نہ عبادت کر پاتا ہے نہ کوئی فکری کام کر پاتا ہے۔
جس انسان کا دل و دماغ دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو وہ کیسے ترقی اور تکامل کے ذریعے مقصد انسانی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فراوان مادی نعمتیں پیدا کی ہیں تاکہ انسان اپنی مادی ضرورتیں پوری کر کے آسودہ خاطر ہو جائے اور پھر اپنا دل و دماغ اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس لیے بی بی فرما رہی ہیں کہ اللہ نے نظام عدل قائم کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مادی وسائل کسی ایک گروہ کے پاس اکٹھا نہ ہو جائیں اور باقی سب محروم ہو جائیں۔ چونکہ جو طبقہ محروم ہو گا اس کے دل تناؤ اور اضطراب کا شکار رہیں گے اس کے دل و دماغ میں کبھی نظم و نسق پیدا نہیں ہو گا اور وہ تربیت نہیں پا سکیں گے۔
نظم و نسق ذہنی اور بی بی زہرا کی شخصیت
جس طرح طلاب کے کمروں کا حال ہوتا ہے کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں ملتی، بے نظمی دور سے دکھائی دیتی ہے لیکن بعض لوگوں کے گھر، ان کی زندگیاں اور ان کے ذہن بہت منظم ہوتے ہیں۔ جس طرح منظم گھر اور منظم حجرہ ہوتا ہے اسی طرح ایک منظم شخصیت اور منظم ذہن بھی ہوتا ہے۔ منظم ذہن اسے کہتے جس ذہن میں تمام تصوارت اور افکار مرتب و منظم ہوتے ہیں وہ اپنے ذہن میں اپنے افکار کی فائل اور لائبریری بنائے ہوئے ہوتا ہے اور ضروری کاموں اور ترجیحات کو ایک فائل میں رکھتا ہے، غیر ضروری کاموں کو دوسری فائل میں، روزانہ کے کاموں کو الگ فائل میں، ہفتگی کاموں کو الگ فائل میں، اور اسی کے مطابق وہ زندگی بسر کرتا ہے صبح جب اٹھتا ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کس کام کو انجام دینا ہے اور رات سوتے وقت تک کون کون سے کام انجام دے کر سونا ہے۔ یہ منظم ذہن کا مالک انسان ہوتا ہے۔ ذہن کا نظم و نسق انسان کی شخصیت میں اترتا ہے۔ اور شخصیت کا نظم و نسق اس کے گھر اور سماج میں اترتا ہے۔ اور یہ انتہائی گہرے معانی ہیں جو بی بی زہرا(س) نے بیان کیے ہیں۔
جناب فاطمہ زہرا(س) وہ شخصیت ہیں جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں جو آپ نے خود بیان کیا ہے لیکن آپ کی شخصیت اور آپ کا ذہن اس قدر منظم تھا کہ مصائب نے انہیں حواس باختہ نہیں کیا انہیں معلوم تھا کہ کس وقت انہیں کیا کرنا اور کیا کہنا ہے۔ یہ خطبہ فدکیہ اس نظم ذہنی کی ایک مثال ہے۔
